اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

وَرَعْ یا پرہیزگاری اور تقوی انسان کے اندر ایک ایسی حالت ہے جو نفس کی مکمل حفاظت اور لغزش کے خوف پر جاکر ختم ہوتی ہے۔ ورع، تقوی سے بالاتر ایک مقام ہے کیونکہ انسان اس حالت میں شبہات اور حتی ایسے حلال کاموں سے بھی سب سے دوری اختیار کرتا ہے جو ممکن ہے گناہ پر جاکر ختم ہوں۔

علمائے شیعہ نے ورع کے لئے کچھ مراتب بیان کئے ہیں منجملہ: توبہ کرنے والوں کی ورع، ورع صالحین، ورع متقین اور ورع سالکین۔

روایات میں ورع کے لئے کچھ علامتیں ذکر ہوئی ہیں جیسے ایمان کا مضبوط ہونا، حرام سے انسان کی حفاظت، اہل بیت علیہم السلام کی مدد اور یقین کے برترین مقام پر فائز ہونا۔

ورع کا مفہوم‌

لفظ ورع کو اپنے آپ کو محرمات سے بچانا، گناہ سے دوری،[1] پرہیزگاری و پارسائی،[2] اور محرمات کے ارتکاب کے ڈر سے شبہات سے پرہیز [3] کے معنی میں بیان کیا گیا ہے۔ روایات میں لفظ ورع کو محرمات سے پرہیز اور شبہوں سے دوری کرنا بتایا گیا ہے۔[4] امام خمینیؒ نے ورع کی تعریف میں فرمایا ہے: ورع، نفس کی مکمل حفاظت اور لغزشوں سے ڈرنا یا حق کے احترام میں نفس پر سختی کرنا۔[5]

تقوی اور ورع کا فرق

لغت کی کتابوں میں ورع اور تقوی کے ایک ہی معنی ہیں۔[6] لیکن روایات میں ورع کے لئے مراتب اور درجات بیان ہوئے ہیں۔[7] روایات کی رو سے تقوی یعنی واجبات کی ادائیگی اور حرام کاموں سے دوری اور یہ ورع کا پہلا درجہ ہے۔ اس طرح سے ورع کا درجہ تقوی کے درجے سے بڑا درجہ بتایا گیا ہے کہ اس مقام تک پہنچنے کے لئے نہ صرف یہ کہ گناہوں سے پرہیز کیا جائے بلکہ ان مشکوک اور حلال کاموں سے دوری کی جائے جو ممکن ہے گناہ کی زمین فراہم کرنے میں مدد کریں۔[8]

ورع کے مراتب

علامہ مجلسی نے ورع کے لئے چار درجے ذکر کئے ہیں:

  • توبہ کرنے والوں کا ورع: وہ چیز جو انسان کو گناہ اور فسق سے خارج کرتی ہے اور گواہی کے قبول ہونے کا سبب بنتی ہے۔
  • ورع صالحین: اس درجہ میں انسان شبہات سے دوری کرتا ہے تاکہ اس کے لیے گناہ کا موقع فراہم نہ ہو۔
  • ورع متقین: انسان کے اندر ایک حالت ہے کہ وہ حلال اور مباح کام کہ جو ممکن ہے حرام پر جاکر ختم ہوں ان سے دوری کرتا ہے۔
  • ورع سالکان و صدیقین: اس ڈر سے غیر خدا سے روگردانی کہ زندگی کا ایک لمحہ کسی ایسے کام میں صرف نہ ہوجائے جو تقرب خدا کا باعث نہ ہو اگر چہ یقین ہے کہ حرام پر جاکر ختم نہیں ہوگا۔[9]

امام خمینیؒ بھی کبائر سے دوری کو ورع عامہ، محرمات میں پڑنے کے ڈر سے شبہات سے دوری کو ورع خاصہ، گناہ سے دوری کی کے لئے مباحات سے پرہیز کو ورع اہل زہد، مقامات کے حصول کے لئے دنیا کو ترک کردینے کو ورع اہل سلوک، باب ‌اللہ و شہود جمال ‌اللہ کے حصول کے لئے مقامات کے ترک کرنے کو ورع مجذوبین اور مقصد پر توجہ سے اجتناب کرنے کو ورع اولیاء سمجھتے ہیں۔[10]

ورع کے آثار

روایات میں ورع کے متعدد آثار بیان کئے گئے ہیں- دین کی حفاظت،[11] ایمان کا مضبوط ہونا [12] اہل بیت علیہم السلام کی ہمراہی اور ان کی مدد،[13] محرمات اور گناہوں سے انسان کی حفاظت،[14] عبادت کی اعلی ترین قسم کا حاصل ہونا، [15] یقین کے برترین درجہ کا حصول [16] منجملہ آثار ورع کے لیے بیان ہوئے ہیں-

حوالہ جات

  1. ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ھ، ذیل واژہ ورع۔
  2. دہخدا، لغت ‌نامہ، ۱۳۷۷ہجری شمسی، ذیل واژہ ورع۔
  3. انوری، فرہنگ بزرگ سخن، ۱۳۸۱ہجری شمسی، ذیل واژہ ورع۔
  4. برای نمونہ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۵، ص۱۰۸؛ تمیمی آمدی، غرر الحکم، ۱۴۱۰ھ، ص۱۲۵۔
  5. امام خمینی، چہل حدیث، ۱۳۷۸ہجری شمسی، ص۲۰۶۔
  6. طریحی، مجمع البحرین، ۱۴۱۶ھ، ذیل واژہ وقا؛ راغب اصفہانی، المفردات، ۱۴۱۲ھ، ذیل واژہ وقایہ۔
  7. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۶۷، ص۱۰۰۔
  8. ملا حویش آل غازی، بیان المعانی، ۱۳۸۲ھ، ج۳، ص۵۵۔
  9. مجلسی، مراۃ العقول، ۱۴۰۴ھ، ج۸، ص۵۲-۵۳؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۶۷، ص۱۰۰
  10. امام خمینی، چہل حدیث، ۱۳۷۸ہجری شمسی، ص۴۷۴۔
  11. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۷۶۔
  12. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۳۲۰۔
  13. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۷۸۔
  14. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۴، ص۲۸۵۔
  15. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۷۷۔
  16. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۶۲۔

مآخذ

  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت،‌ دار الفکر للطباعۃ و النشر و التوزیع-‌دار صادر‌، ۱۴۱۴ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، چہل حدیث، تہران، مرکز تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۷۸ش۔
  • انوری، حسن، فرہنگ بزرگ سخن، تہران، انتشارات سخن، ۱۳۸۱ش۔
  • تمیمی آمدی، عبدالواحد، غرر الحکم و درر الکلم، تصحیح سید مہدی رجائی، قم،‌ دار الکتاب اسلامی، ۱۴۱۰ھ۔
  • دہخدا، علی ‌اکبر، لغت‌ نامہ، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، ۱۳۷۷ش۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات ألفاظ القرآن‌، تصحیح صفوان عدنان داودی‌، لبنان - سوریہ،‌ دار العلم- الدار الشامیۃ‌، ۱۴۱۲ھ۔
  • طریحی، فخرالدین، مجمع ‌البحرین، تہران، کتاب فروشی مرتضوی‌، ۱۴۱۶ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۴۰۴ھ۔
  • ملاحویش آل غازی، عبدالقادر، بیان المعانی، دمشق، مطبعۃ الترقی، ۱۳۸۲ھ۔