آیت دعوت

ویکی شیعہ سے
آیہ دعوت
آیت کی خصوصیات
سورہنحل
آیت نمبر125
پارہ14
صفحہ نمبر281 خط عثمان طہ
محل نزولمکہ
موضوعاخلاقی
مضمونمخالف سے مقابلہ کرنے کے طریقے
مربوط آیاتسورہ عنکبوت آیت نمبر 46


آیہ دعوت (سورہ نحل: آیت نمبر 125) پیغمبر اکرمؐ کو لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دینے کے طریقے سکھاتی ہے۔ اس بنا پر، اللہ تعالی اپنے رسولؐ کو حکم دیتا ہے کہ وہ حکمت کے تین طریقوں، اچھی تبلیغ اور بہتر بحث (جِدال احسن) کے ذریعے دین اسلام کی تبلیغ کریں۔

مفسرین نے اس آیت میں حکمت سے مراد دلیل اور علم لیا ہے جو انسان کے دل سے شک و تردید کو دور کرتا ہے اور سوئے ہوئے ذہنوں کو بیدار کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موعظہ حسنہ جس پر تبلیغ میں دوسرے طریقے کے طور تاکید کی گئی ہے؛ اس کا تعلق انسانی احساسات اور جذبات سے ہے اور لوگوں کو برے کام چھوڑنے اور اچھے کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ مفسرین جِدال احسن (مناظرہ) ان لوگوں سے مختص سمجھتے ہیں جن کے ذہنوں میں غلط مطالب نے جگہ بنا لی ہے اور مناظرے کے ذریعے ان کے ذہنوں کو خالی کیا جائے تاکہ وہ لوگ حق بات ماننے کے لئے تیار ہوں۔ اس طریقہ کار میں، اس شخص کے قبول کردہ اصولوں کو استعمال کرتے ہوئے وہ اسے قائل کرتے ہیں۔

مفسرین کا کہنا ہے کہ اس آیت میں پیغمبر اکرمؐ کی ذمہ داری دعوت میں منحصر کی گئی ہے اور وہ بھی انہی تین طریقوں سے؛ اور کون لوگ اس دعوت کو قبول کر کے ہدایت پاتے ہیں اور کون اس کا انکار کرتا ہے یہ اللہ کے علم پر چھوڑا ہے۔

کلی نکات

آیہ دعوت سورہ نحل کی بعض آخری آیات کے ساتھ کچھ اخلاقی احکام بیان کرتی ہے کہ اپنے مخالفین کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جائے۔[1] مفسر قرآن مکارم شیرازی ان احکامات کو اسلام کے مخالفین سے مقابلے کی حکمت عملی کے اصول اور طریقہ سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ان کو ہر وقت اور ہر جگہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق ہدایت کے اس مجموعہ میں دین کی طرف دعوت کا طریقہ، سزا، معافی اور سازشوں کے خلاف کھڑے ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔[2]

سورہ نحل کی آیت نمبر 125 میں اللہ تعالی اپنے رسولؐ کو منطقی اور تعمیری گفتگو کے طریقے سکھاتا ہے[3] اور ان سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ حکمت، اچھی تبلیغ اور بہتر بحث کے ذریعے لوگوں کو اللہ کے راستے کی طرف دعوت دے۔[4] علامہ طباطبایی ان تین طریقوں کو بات کرنے سے مخصوص کیا ہے اور حضرت محمدؐ کو اللہ کا پیغام انہی تین طریقوں سے لوگوں تک پہنچانے کا حکم ہوا ہے۔[5] مفسر قرآن صادقی تہرانی کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ تین طریقے لوگوں سے گفتگو کرنے کے ارکان ہیں جو متکبر اور ضدی لوگوں کے ساتھ بات چیت کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور پاک فطرت لوگوں کے لیے صرف حکمت اور تبلیغ کی ضرورت ہوتی ہے۔[6]

محمد جواد مغنیہ کے مطابق، اس آیت میں دعوت حق کے یہ تین طریقے بتانے کی وجہ یہ ہے کہ دین کی تبلیغ اور خدا کی طرف بلانا کسی شک و شبہ سے دور ہونا چاہئے اور مبلغ کو بھی چائیے کہ لوگوں کو خدا کی طرف بلانے کو ان کے درمیان اپنا مقام و مرتبہ حاصل کرنے کا ذریعہ نہ بنائے۔[7]

مفسرین نے اس آیت کے آخری جملے سے یہ اخذ کیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کی ذمہ داری صرف پیغام پہنچانا تھا؛ لیکن کون ہدایت پاتا ہے اور کون انکار اور ناشکری کرتا ہے یہ صرف اللہ کو پتہ ہے۔[8]

متن اور ترجمہ

ادْعُ إِلِى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ


(اے پیغمبر(ص)) آپ اپنے پروردگار کے راستے کی طرف (لوگوں کو) بلائیں حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے بہترین انداز میں بحث و مباحثہ کریں۔ آپ کا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے راستہ سے بھٹکا ہوا کون ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ ہدایت یافتہ کون ہے؟» (سورہ نحل، آیت125)


اللہ کی طرف بلانے کے تین طریقے

سورہ نحل آیت نمبر 125 میں اللہ کی طرف بلانے کے تین طریقے؛ حکمت، موعظہ حسنہ اور جدال احسن بیان ہوئے ہیں۔[9] شیعہ عالم دین مرتضی مطہری کا کہنا ہے کہ دعوت کو انہی تین طریقوں میں منحصر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بعض انسان اہلِ حکمت اور تعقل ہیں جن کو استدلال ہی قانع کرسکتا ہے لہذا ٹھوس دلائل کے ذریعے ان سے بات کرنی چاہئے۔ بعض لوگ غافل اور علم سے عاری ہوتے ہیں ان کو وعظ و نصحیت سے قانع کیا جائے اور بعض لوگ سرکش اور ضد پر اتر آتے ہیں ان کے ساتھ جدالِ احسن سے گفتگو کرنا چاہئے۔[10] علامہ طباطبایی ان تین طریقوں کو علم منطق میں مذکو برہان، خطابہ اور جدل کی اصطلاحات سمجھتے ہیں۔[11]

حکمت

شیخ طبرسی آیت میں حکمت سے مراد قرآن لیتے ہیں۔[12] علامہ طباطبایی کا کہنا ہے کہ حکمت وہی منطقی دلیل اور برہان ہے جس کے نتیجے میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی ہے۔[13] بعض مفسرین نے حکمت سے مراد علم لیا ہے جو انحراف سے روکتا ہے، سوئے ہوئے ذہنوں کو بیدار کرتا ہے اور حق و باطل کی پہچان کرواتا ہے۔[14]

وعظ و نصیحت

آیہ دعوت میں اللہ کی طرف بلانے کا دوسرا طریقہ وعظ و نصیحت بیان ہوا ہے جو لوگوں کے احساسات سے مربوط ہے[15] اور انسانی جان اور روح کو نرمی اور مہربانی بخشتا ہے۔[16] وعظ و نصیحت لوگوں کو برے کاموں کو ترک کرنے اور اچھے کام کرنے کی ترغیب دینے والا سمجھا جاتا ہے؛ اس طرح کہ برائیاں ان کی نظر میں قابل نفرت اور اچھائیاں ان کے لیے لذت کا باعث بنتی ہیں۔ طبرسی کے مطابق، ایک اچھا بولنے والا مبلغ لوگوں کے دلوں کو نرم کرتا ہے اور ان کے دلوں میں عاجزی کا بیج بوتا ہے۔[17] جواد مغنیہ بھی وعظ و نصیحت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس طریقے میں سزا اور ملامت سے اجتناب کرنا چاہیے اور خطاکار سے اشارہ کنائے میں بات کی جائے تاکہ لاشعوری طور پر وہ گناہ کا احساس کرے۔[18] مفسر قرآن ناصر مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ موعظہ اس صورت میں موثر ہے جب وہ کسی قسم کے تشدد، برتری کی خواہش، دوسرے فریق کی تذلیل و تحقیر اور اس کی ضد اور انانیت ابھارنے سے عاری ہو، اور اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں تو اس کے الٹا اثر ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے۔[19]

جدال احسن

آیہ دعوت کے مطابق خدا کی طرف بلانے کا تیسرا طریقہ بہترین دلیل یا بحث (جِدال احسن) ہے۔ یہ طریقہ ان لوگوں کے ساتھ خاص سمجھا گیا ہے جن کے ذہن غلط مسائل سے بھرے ہوئے ہوں اور ان کے ذہنوں کو بحث کے ذریعے صاف کیا جائے تاکہ وہ حق کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اس طریقہ کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے توہین، تذلیل اور کسی کے خلاف بات کئے بغیر ہونا چاہیے تاکہ سامعین پر اپنا اثر چھوڑ سکے۔[20] علامہ طباطبایی نے امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ جدال احسن کے معنی قرآن کی سنت کے مطابق بحث اور مناظرہ کرنا ہے جس میں اللہ کے ادب کو نمونہ اور سر لوحہ کے طور پر رکھا جاتا ہے۔[21] ان کے مطابق جدال ایک ایسی دلیل اور حجت ہے جو دوسرے فریق کو ان بنیادوں پر قائل کرتی ہے جسے وہ خود قبول کرتا ہے۔[22]

حوالہ جات

  1. مدرسی، من ہدی القرآن، 1419ھ، ج6، ص154؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج11، ص455؛ فضل اللہ، من وحی القرآن، 1419ھ، ج13، ص321.
  2. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج11، ص455.
  3. رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387شمسی، ج11، ص356.
  4. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج6، ص605.
  5. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج12، ص371.
  6. صادقی تہرانی، الفرقان، 1406ھ، ج16، ص533.
  7. مغنیہ، الکاشف، 1424ھ، ج4، ص564.
  8. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج11، ص455؛ مغنیہ، الکاشف، 1424ھ، ج4، ص564.
  9. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج12، ص371-374.
  10. مطہری، آشنایی با قرآن، 1389شمسی، ج5، ص72.
  11. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج12، ص371-374.
  12. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج6، ص605.
  13. طباطبائی، المیزان، 1390ھ، ج12، ص371.
  14. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج11، ص455؛ مغنیہ، الکاشف، 1424ھ، ج4،ص564-564.
  15. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج11، ص455.
  16. طباطبائی، المیزان، 1390ھ، ج12، ص371-372.
  17. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج6، ص605.
  18. مغنیہ، الکاشف، 1424ھ، ج4،ص564-564.
  19. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج11، ص456.
  20. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج11، ص456-457.
  21. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج12، ص373و377.
  22. طباطبایی، المیزان، 1391ھ، ج12، ص372

مآخذ

  • رضایی اصفہانی، محمدعلی، تفسر قرآن مہر، قم، پژوہش ہای تفسیر و علوم قرآن، 1387ہجری شمسی۔
  • صادقی تہرانی، محمد، الفرقان فی تفسیر القرآن، قم، فرہنگ اسلامی، 1406ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1390ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، 1372ہجری شمسی۔
  • فضل اللہ، محمدحسین، من وحی القرآن، بیروت، دارالملاک، 1419ھ۔
  • قرآن کریم، ترجمہ محمد مہدی فولادوند، تہران ، دفتر مطالعات تاریخ و معارف اسلامی ، 1379ہجری شمسی۔
  • مدرسی، محمدتقی، من ہدی القرآن، تہران، دار محبی الحسین، 1419ھ۔
  • مطہری، مرتضی، آشنایی با قرآن، تہران، صدرا، 1389ہجری شمسی۔
  • مغنیہ، محمدجواد، الکاشف فی تفسیر القرآن، تہران، دارالکتاب الاسلامی، 1424ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، چاپ سی و دوم، تہران: دار الكتب الاسلاميہ ، 1371ہجری شمسی۔