آل‌ِ یاسین، یا اِل‌یاسین، حضرت الیاس کے نام کا ایک تلفظ یا آپ کے خاندان کی طرف اشارہ ہے جنہیں قرآن کریم میں سلام پیش کیا گیا ہے۔ بعض احادیث میں یاسین سے حضرت محمدؐ اور آل یاسین سے آپ کے اہل بیتؑ مراد لی گئی ہیں۔

زیارت آل یاسین نیز امام زمانہؑ کی زیارتوں میں سے ایک ہے جو "سلامٌ عَلی آلِ یاسین" کے جملے کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔

تلفظ

سورہ صافات کی آیت سَلَامٌ عَلَىٰ إِلْ يَاسِينَ[؟؟][1] میں "ال یاسین" کی تعبیر استعمال ہوئی ہے۔ قراء اور مفسّرین اس لفظ کو مختلف طریقوں سے تلفظ کرتے ہیں۔ مکّہ، بصرہ اور کوفہ کے اکثر قرّاء اسے اِل‌ یاسین جبکہ مدینہ کے اکثر قرّاء اسے آل یاسین پڑھا کرتے ہیں۔[2]

قرآن میں آل یاسین سے مراد

إل یاسین کے بارے میں کئی اقوال موجود ہیں:

  1. إل یاسین لفظ الیاس کا ایک تلفظ ہے، جس طرح میکال و میکائیل اور سیناء و سینین ایک لفظ کے دو الگ الگ تلفظ ہیں۔[3] ابن جنّی کے مطابق اس طرح کے تلفظ عربوں میں رائج ہے۔[4]
  2. زجّاج کے مطابق إل یاسین لفظ الیاس کا جمع ہے اور اس میں سے یاءِ نسبت کو حذف کیا گیا ہے اور اس سے حضرت الیاس اور ان کے ماننے والے مراد ہیں۔[5]
  3. یاسین حضرت الیاس کے والد کا نام ہے[6] اور آل یاسین سے مراد خاندان حضرت الیاس ہیں۔[7]
  4. یاسین قرآن یا اس کی کسی ایک سورت کا نام ہے اور آل‌ یاسین اہل قرآن اور مؤمنین کو کہا جاتا ہے۔[8]
  5. یاسین حضرت محمدؐ کا نام ہے اور آل یاسین آپؐ کی اہل بیتؑ ہیں۔[9] ابن عباس سے منقول ہے کہ ہم آل محمّد آل یاسین ہیں۔[10] البتہ آل محمّد ابن‌ عباس کے اس قول میں آل محمد کا عمومی معنا لیا گیا ہے؛ حضرت علیؑ سے بھی منقول ہے کہ مذکورہ بالا آیت: سلام علی ال یاسین[؟؟]،[11] میں یاسین سے مراد حضرت محمّدؐ اور آل یاسین سے مراد ہم اہل بییتؑ ہیں۔[12]

زیارت آل‌ یاسین

زیارت آل یاسین امام زمانہؑ کی ایک مشہور زیارت ہے جس کی ابتداء سلامٌ عَلی آل یاسین کی تعبیر سے ہوتی ہے۔ اس زیارت کے راوی محمد بن عبداللہ حمیری ہیں جو غیبت صغری کے اواخر میں زندگی گزارتے تھے اور ان کے ذریعے امام زمانہؑ کے بہت سے مکاتبات نقل ہوئی ہیں من جملہ ان میں سے ایک وہی توقیع ہے جو زیارت آل یاسین پر مشتمل ہے۔[حوالہ درکار]


حوالہ جات

  1. سورہ صافات، آیہ۱۳۰۔
  2. طبری، جامع البیان، ج۲۳، ص۶۱۔
  3. طبری، جامع البیان، ج۲۳، ص۶۱۔
  4. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج۵، ص۱۲۰۔
  5. طبری، جامع البیان، ج۵، ص۸۱؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۱۳، ص۳۹۲۔
  6. زمخشری، الکشاف، ج۳، ص۳۵۲۔
  7. بیضاوی، انوارالتنزیل، ج۲، ص۲۹۹۔
  8. طبرسی، مجمع البیان، ج۵، ص۸۲؛ فخررازی، تفسیر کبیر، ج۲۶، ص۱۲۶۔
  9. طبرسی، مجمع البیان، ج۵، ص۸۲۔
  10. سیوطی، الدّر المنثور، ج۵، ص۲۸۶۔
  11. سورہ صافات، آیہ130۔
  12. حسکانی، شواہد تنزیل، ج۲، صص۱۰۹-۱۱۲؛ طباطبایی، المیزان، ج۱۷، ص۱۵۹۔

مآخذ

  • بیضاوی، عبداللہ‌بن عمر، انوارالتنزیل، مصر، ۱۳۸۸ھ۔
  • حسکانی، عبیداللہ، شواہد تنزیل، بہ کوشش محمدباقر محمودی، بیروت، ۱۳۹۳ھ۔
  • زمخشری، جاراللہ، الکشاف، بیروت، دارالمعرفہ۔
  • سیوطی، جلال‌الدین، الدّرّالمنثور، قم، ۱۴۰۴ھ۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان، بیروت، ۱۹۷۳م۔
  • طبرسی، فضل‌بن حسن، مجمع البیان، بیروت، مکتبہ الحیاۃ۔
  • طبری، محمدبن جریر، تفسیر، بیروت، داراحیاء التراث العربی۔
  • قرطبی، محمدبن احمد، الجامع لاحکام القرآن، بہ کوشش محمد محمد حسنین، بیروت، دارالحیاء التراث العربی۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، ۱۴۰۳ھ۔