آیت انفال

ویکی شیعہ سے
آیت انفال
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامانفال
سورہسورہ انفال
آیت نمبر1
پارہ9
شان نزولجنگ بدر کے غنائم کے بارے میں مسلمانوں درمیان جھگڑا
محل نزولمدینہ
موضوعفقہی اور اخلاقی
مضمونکیفیت تقسیم غنائم اور اصلاح ذات البین


‌آیت انفال سورہ انفال کی آیت نمبر 1 کو کہا جاتا ہے جس میں وہ تمام اموال جن کا کوئی خاص مالک نہ ہو من جملہ جنگی غنائم کو خدا اور پیغمبر اکرمؐ کی طرف نسبت دی جاتی ہے۔ شیعہ مفسرین علامہ طباطبایی اور آیت اللہ مکارم شیرازی جنگی غنائم کو من جملہ انفال کے مصادیق میں قرار دیتے ہیں لیکن ملافتح اللہ کاشانی انفال کو صرف جنگی غنائم میں منحصر قرار دیتے ہیں۔

شیعہ مشہور مفسرین کے مطابق آیت انفال کی شأن نزول یہ ہے کہ مہاجرین اور انصار میں سے ایک گروہ نے جنگ بدر میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد جنگی غنائم کے حصول میں آپس میس حھگڑنے لگے اور اس اختلاف کے حل کے لئے پیغمبر اکرمؐ کے پاس چلے گئے اس وقت مذکورہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی۔ صرف بعض مسلمان مفسرین من جملہ مجاہد بن جبر اس بات کے معتقد ہیں کہ آیت انفال آیت خمس کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے، جبکہ بہت سارے شیعہ اور اہل سینت مفسرین اس مدعا کو قبول نہیں کرتے؛ کیونکہ اس نسخ کا کوئی دلیل نہیں ہے اور مذکورہ دونوں آیتوں میں بھی کوئی تضاد یا تنافی بھی نہیں ہے۔

آیت کا متن اور ترجمہ

يَسأَلونَكَ عَنِ الأَنفالِ ۖ قُلِ الأَنفالُ لِلّهِ وَالرَّسولِ ۖ فَاتَّقُوا اللّهَ وَأَصلِحوا ذاتَ بَينِكُم ۖ وَأَطيعُوا اللّهَ وَرَسولَهُ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ

(اے رسول) لوگ آپ سے انفال کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجیے کہ انفال اللہ اور اللہ کے رسول کے لئے ہیں۔ پس اگر تم مؤمن ہو تو اللہ سے ڈرو۔ اور اپنے باہمی تعلقات و معاملات کی اصلاح کرو۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔




سورہ انفال: آیت 1


انفال کے معنی

شیعہ مفسرین علامہ طباطبایی اور آیت اللہ مکارم شیرازی اس بات کے معتقد ہیں کہ انفال میں وہ تمام اموال شامل ہیں جن کا کوئی خاص مالک نہیں۔ انفال کا اختیار خدا،‌ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کے پاس ہوتا ہے۔[1] اس بنا پر جنگی غنائم انفال کے مصادیق میں سے ایک مصداق شمار ہوتا ہے۔[2]

دسویں صدی ہجری سلسلہ صفویہ کے شیعہ مفسر ملا فتح‌اللہ کاشانی اپنی کتاب تفسیر منہج الصادقین میں انفال اور نفل سے مراد جنگی غنائم لیتے ہیں اور انہیں خدا کی طرف سے مجاہدین کے لئے ہدیہ قرار دیتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ ہدیہ چونکہ فرائض اور واجبات کے علاوہ ہے اس لئے اسے نفل یا انفال کہا جاتا ہے۔[3]

انفال نفل کا جمع ہے جس کے معنی ہر اضافی چیز کے ہیں؛ اس بنا پر ہر وہ چیز جو اس کے اصل سے زیادہ ہو نفل یا نافلہ کہا جاتا ہے، مثلاً وہ مستحب نماز‌یں جو واجب نمازوں سے پہلے یا بعد میں پڑھی جاتی ہیں واجبات کے علاوہ ہونے کی وجہ سے نافلہ کہا جاتا ہے۔[4]

شأن نزول

شیعہ تفاسیر میں آیہ انفال کی شأن نزول کے بارے میں دو نظریے پائے جاتے ہیں؛ اکثر تفاسیر میں جنگی غنائم میں زیادہ حصہ لینے میں مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلاف کو اس آیت کی شأن نزول قرار دیتے ہیں جبکہ بعض تفاسیر کے مطابق مہاجرین کی طرف سے ان غنائم پر خمس ادا نہ کرنا اس کی شأن نزول ہے:

آیہ خمس کے ذریعے نسخ نہ ہونا

تفسیر تبیان میں شیخ طوسی کے مطابق بعض اہل سنت مفسرین من جملہ مجاہد بن جبر (۲۱-۱۰۴ھ) جو تفسیر میں ابن عباس کے شاگرد ہیں اور معتزلی متکلم ابوعلی جبایی (۲۳۵-۳۰۳ھ) اس بات کے معتقد ہیں کہ سورہ انفال کی پہلی آیت، آیہ خمس کے ذریعے نَسخ ہوئی ہے۔[7] لیکن دوسرے شیعہ و سنی مفسرین اس نسخ کو قبول نہیں کرتے ہیں۔[8]

شیخ طوسی بھی آیہ انفال کے نسخ کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ آپ کے مطابق نسخ کو قبول کرنا دلیل کا محتاج ہے جو یہاں مفقود ہے اس کے علاوہ مذکورہ دو آیتوں میں کوئی تنافی اور تضاد نہیں ہے جس کی وجہ سے ایک کے ذریعے دوسرے کو نسخ کرنا ضروری ہو۔[9] اسی طرح فضل بن حسن طبرسی، آیت اللہ مکارم شیرازی اور علامہ طباطبایی جیسے مفسرین بھی ان دو آیتوں کے درمیان کسی قسم کی تنافی۔[10]

علامہ طباطبایی اس بات کے معتقد ہیں کہ سورہ انفال کی آیت نمبر 41 جو آیہ خمس کے نام سے مشہور ہے، حقیقت میں اس کی پہلی آیت کی تبیین و تفسیر ہے؛ کیونکہ پہلی آیت میں میں انفال کی ملکیت میں موجود ابہام حل ہو گیا ہے: وہ اس طرح کہ انفال کسی کس ملکیت نہیں ہے اور جنگی غنائم بھی انفال کے مصادیق میں سے ہے جو خدا اور اس کے رسول کی ملکیت ہے، لیکن آیت نمبر 41 میں غنائم کے پانچ میں سے چوتھے حصے میں مسلمانوں کو تصرف کی اجازت دیتے ہیں اور ایک حصے کو خدا اور اس کے رسول سے مختص قرار دیتی ہے۔[11] علامہ طباطبایی کے مطابق اس تفسیر کے ساتھ ان دو آیتوں میں کوئی تضاد یا تنافی نہیں پائی جاتی جب ایسا ہے تو ان کے نسخ کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی۔[12]

حوالہ جات

  1. علامہ طباطبایی، المیزان،‌ ۱۴۱۷ق، ج۹، ص۶؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۷، ص۸۱۔
  2. علامہ طباطبایی، المیزان،‌ ۱۴۱۷ق، ج۹، ص۶؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۷، ص۸۱۔
  3. قمی کاشانی، منہج الصادقین،‌ ۱۳۳۰ش، ج۴، ص۱۶۷۔
  4. شیخ طوسی، التبیان،‌ بیروت،‌ ج۵، ص۷۳؛ علامہ طباطبایی، المیزان،‌ ۱۴۱۷ق، ج۹، ص۵؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۷، ص۸۱۔
  5. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۷۹۶؛ شیخ طوسی، التبیان،‌ بیروت،‌ ج۵، ص۷۲؛ قمی کاشانی، منہج الصادقین،‌ ۱۳۳۰ش، ج۴، ص۱۶۷؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۷، ص۸۰۔
  6. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۷۹۷؛ طوسی، التبیان،‌ بیروت،‌ ج۵، ص۷۲۔
  7. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۵، ص۷۳-۷۴۔
  8. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۵، ص۷۴۔
  9. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۵، ص۷۴۔
  10. طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۷۹۸؛ طوسی، التبیان،‌ بیروت،‌ ج۵، ص۷۳-۷۴؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۷، ص۸۱-۸۲، طباطبایی، المیزان،‌ ۱۴۱۷ق، ج۹، ص۹-۱۰۔
  11. علامہ طباطبایی، المیزان،‌ ۱۴۱۷ق، ج۹، ص۹-۱۰۔
  12. علامہ طباطبایی، المیزان،‌ ۱۴۱۷ق، ج۹، ص۹-۱۰۔

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمه مکارم شیرازی.
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تصحیح احمد حبیب عاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تهران، ناصرخسرو، ۱۳۷۲ش.
  • علامه طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، ۱۴۱۷ق.
  • قمی کاشانی، ملا فتح‌الله، منهج الصادقین فی الزام المخالفین، تهران، چاپخانه محمدحسن علمی، ۱۳۳۰ش.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دارالکتب الاسلامیة، ۱۳۷۴ش.