حلف الاحلاف

ویکی شیعہ سے

حِلْفُ الأحلاف یا لَعَقَةُ الدّم، ایک پیمان اور معاہدے کے نام ہے جو قبل از اسلام، بنو عبد الدار اور قریش کے چند دیگر قبائل کے درمیان بنو عبد مناف اور اس کے حلیفوں ـ جو بنو عبد الدار کے خلاف منعقدہ حلف المطیبین نامی معاہدے کے تحت متحد ہوئے تھے ـ کے خلاف منعقد ہوا تھا۔

قصی بن کلاب (جو پیغمبر اسلام(ص) کے پانچویں جد امجد ہیں[1]) مکہ اور خانۂ کعبہ کے اہم مناصب کے عہدہ دار تھے۔ انھوں نے اپنی وفات کے وقت یہ مناصب اپنے فرزندوں کے درمیان تقسیم کردیئے۔ مسعودی کی روایت کے مطابق انھوں نے حجابت (کلید داری) اور دارالندوہ (قریش کے صلاح مشوروں اور بیٹھکوں کا مرکز)، اور لواء (لشکر کا علم) کو عبدالدار کے حوالے کیا جبکہ سقایت (حاجیوں کو پانی پلانے) اور رفادت (حجاج کی ضیافت و میزبانی) کا منصب عبد مناف کو سونپ دیا۔[2]عبد مناف اور عبد الدار کے انتقال کے بعد ان کے فرزندوں کے درمیان کعبہ کے مناصب پر شدید تنازعہ کھڑا ہوگیا۔

بعض روایات کے مطابق قُصَی نے تمام مناصب اپنے بڑے بیٹے عبدالدار کے سپرد کئے تھے[3] اور اس تنازعے کا سبب یہ تھا کہ بنو عبد مناف ان عہدوں اور مناصب پر اپنے چچیروں کے تسلط پر معترض تھے۔

اس تنازعے میں بنی اسد، بنی زہرہ، بنی تیم اور بنی حارث بنی عبد مناف کے ساتھ متحد ہوئے اور آپس میں عہد کیا کہ کسی قیمت پر بھی کعبہ کو بنو عبدالدار کے سپرد نہ کریں اور بنو عبدمناف کی مدد کریں۔ اس معاہدے کو "حِلفُ المُطَیِّبین" (یعنی عطر اور خوشبو استعمال کرنے والے افراد کے معاہدے) کے نام سے مشہور ہوا۔[4]۔[5]

اس کے مقابلے میں بنی مخزوم، بنی جُمَح، بنی سَہم اور بنی عَدِی بنو عبدالدار کے ساتھ متحد ہوئے۔ ان لوگوں کو "‌لَعَقہ" (خون چاٹنے والے) بھی کہا جاتا تھا کیونکہ انھوں نے حلف المطیبین سے آگہی حاصل کرنے کے بعد ایک بیل ذبح کیا اور اور اپنے ہاتھ اس کے خون سے رنگ دیئے اور اس خون کو چاٹ لیا۔[6]۔[7]

دونوں جماعتیں جنگ کے لئے تیار تھیں؛ لیکن بعض لوگوں نے ثالثی کی اور صلح و مصالحت کی تجویز دی۔ فریقین نے تجویز قبول کرلی اور عہدوں کو تقسیم کیا جس کے نتیجے میں قبائل جنگ و نزاع سے دستبردار ہوئے؛ اور صورت حال اسی ڈگر پر تھی کہ اسلام کا سورج طلوع ہوا۔[8]


حوالہ جات

  1. محمد بن عبداللہ بن عبدالمُطّلب بن ہاشم بن عبدمَناف بن قُصَی بن کلاب۔
  2. مسعودی، التنبیه والإشراف، ص191۔
  3. طبری، تاریخ طبری، ج3، ص812-811۔
  4. یعقوبی، تاریخ، ج1، ص321۔
  5. ابن هشام، السیرة النبویه، ج1، ص88-87۔
  6. یعقوبی، تاریخ، ج1، ص322۔
  7. مسعودی، التنبیه و الاشراف، ص191۔
  8. ابن هشام، السیرة النبویه، ج1، ص88-87۔

مآخذ

  • ابن هشام، زندگانی محمد(ص) پیامبر اسلام (السیرة النبویة)، ترجمه سیدهاشم رسولی، تهران، انتشارات کتابچی، چاپ پنجم، 1375 ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ترجمه ابوالقاسم پاینده، تهران، اساطیر، چاپ پنجم، 1375 ہجری شمسی۔
  • مسعودی، ابوالحسن علی بن حسین، التنبیه و الإشراف، ترجمه ابوالقاسم پاینده، تهران، شرکت انتشارات علمی و فرهنگی، چاپ دوم، 1365 ہجری شمسی۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ترجمه محمدابراهیم آیتی، تهران، انتشارات علمی و فرهنگی، چاپ ششم، 1371ہجری شمسی۔