خصائص النبی

ویکی شیعہ سے

خصائص النبی سے مراد پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ مخصوص وہ احکام اور خصوصیات ہیں جو آپؐ کو دوسرے مسلمانوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ فقہ میں خصائص النبی سے مراد وہ احکام ہیں جو آپؐ کے ساتھ مختص ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق نکاح کے مسائل سے ہے۔ البتہ یہ اصطلاح عام استعمال میں ان تمام خصوصیات کو شامل کرتی ہے جو حضور پاکؐ کے ساتھ مختص ہیں۔

پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ مختص احکام کو چار عناوین مباحات، مُحَرَّمات، واجبات اور کرامات کے ذیل میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔ خصائص‌النبی میں سے بعض یہ ہیں: چار سے زیادہ عورتوں سے عقد دائم کا جائز ہونا، نماز شب کا واجب ہونا، صدقہ کا حرام ہونا، اپنی آواز کو پیغمبر اکرمؐ کی آواز سے اونچی کرنے کی حرمت، ازواج پیغمبر سے نکاح کرنے کی حرمت اور خاتمیت۔

مسلمان علماء نے اس سلسلے میں بہت ساری کتابیں لکھی ہیں جو خصائص‌ النبی کے نام سے پہچانی جاتی ہیں۔ اہل‌ سنت عالم دین جلال‌الدین سیوطی (متوفی 911ھ) کی کتاب الخصائص الکبری اور شیعہ عالم دین احمد بن محمد بن دؤل قمی (متوفی 350ھ) کی کتاب "خصائص النبی" من جملہ ان کتابوں میں سے ہیں۔

مفہوم‌شناسی

خصائص النبی فقہ میں ان احکام کو کہا جاتا ہے جو صرف پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ مختص ہیں[1] اور یہ احکام آپ کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔[2] البتہ یہ اصطلاح عام استعمال میں ان تمام خصوصیات کی طرف اشارہ ہے جو حضرت محمدؐ کو دوسرے مسلمانوں اور انبیاء سے ممتاز کرتی ہیں اور ان خصوصیات میں آپ کی امت اور شریعت بھی شامل ہیں۔[3] خصائص، خصیصہ کا جمع ہے جس کے معنی ایسی خصوصیات اور صفات کے ہیں جو کسی کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔[4]

خصائص کی کثرت

اسلامی متون میں پیغمبر اکرمؐ کی بہت ساری خصائص ذکر ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر کتاب جلال الدین سیوطی کی کتاب "الخصائص الکبری" میں تقریبا 570 باب اس موضوع سے متخص ہیں۔[5] البتہ محقق کرکی کے مطابق فقہاء کی روش یہ تھی کہ وہ پیغمبر اکرمؐ کے خصائص کو اپنی فقہی کتابوں میں نکاح کے باب میں مطرح کرتے تھے؛ کیونکہ آپؐ کے اکثر متخصات باب نکاح سے مربوط ہیں۔[6] لیکن پیغمبر اکرمؐ کے خصائص کی کثرت کی وجہ سے اہل سنت علماء میں سے بعض نے اس سلسلے میں مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ جلال‌الدین سیوطی (متوفی 911ھ) کی کتاب "الخصائص الکبری" اور شیعہ عالم احمد بن محمد بن دؤل قمی (متوفی 350ھ)کی کتاب "خصائص النبی" [7] من جملہ ان آثار میں سے ہیں۔

تقسیم

فقہ میں مختصات پیغمبر کو چار عناوین مباحات، واجبات، مُحَرّمات اور کرامات کے ذیل میں بحث کرتے ہیں۔[8] بعض منابع میں محرمات اور واجبات کو "تغلیظات" اور مباحات کو "تخفیفات" کا نام دیا گیا ہے۔[9]

مباحات

پیغمبر اکرمؐ سے مختص بعض مُباحات درج ذیل ہیں:

  • چار عورتوں سے زیادہ کے ساتھ عقد دائم،[10]
  • کسی عورت کا اپنے آپ کو پیغمبر اکرمؐ کے لئے بخش دینے سے وہ آپؐ پر حلال ہونا،[11]
  • احرام کی حالت میں نکاح،[12]
  • ازواج کے درمیان حَقِّ قَسْم کی عدم رعایت۔[13] حق قسم ایک شرعی حکم ہے جس کے مطابق جس شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں اس پر واجب ہے کہ راتوں کو ان کے درمیان تقسیم کرے اور ہر رات ان میں سے کسی ایک کے پاس گزارے۔[14]
  • مکہ میں بغیر احرام کے داخل ہونا،[15]
  • وصال کا روزہ،[16](ایک دن کے روزے کو بغیر افطاری دوسرے دن کے روزے سے متصل کرنا یا روزے کو اگلے دن سحری کے وقت تک جاری رکھنا)،[17]
  • حرم مکی میں جنگ کرنا (فتح مکہ کے دوران)،[18]
  • زوجہ کے ولی کی اجازت اور گواہ کے بغیر نکاح،[19]
  • احرام کی حالت میں عطر کا استعمال،[20]
  • مسلمانوں کے اموال میں تصرف۔[21]

محرمات

شیعہ اور سنی منابع کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ مختص بعض مُحَرَّمات درج ذیل ہیں:

  • کنیزوں اور اہل کتاب عورتوں سے صیغہ عقد کے ساتھ نکاح،[22]
  • سورہ احزاب کی آیت نمبر 52 کے نازل ہونے کے بعد ازواج میں اضافہ اور تبدیلی،[23]
  • زکات اور صدقہ لینا،[24]
  • لکھنا،[25]
  • شعر کہنا[26] اور اس کی تعلیم،[27]
  • لوگوں کے اموال کی طرف پھٹی آنکھوں سے دیکھنا،[28]
  • دشمن سے ملاقات کرنے سے پہلے جنگی لباس اتارنا یا انہیں کنارے پر رکھنا،[29]
  • مُباح امور کو آنکھوں کے اشاروں کے ذریعے انجام دینا مثلا آنکھوں کے اشارے سے حکم صادر کرنا۔[30]

واجبات

شیعہ اور اہل سنت منابع کے مطابق پیغمبر اکرمؐ سے مختص بعض واجبات درج ذیل ہیں:

کرامات

کرامات سے مراد وہ خصوصیات اور احکام ہیں جو آپؐ کی نسبت مسلمانوں پر واجب ہیں ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  1. آپؐ کی زوجات کا اُم‌ُّالمؤمنین کے لقب سے ملقب ہونا۔[37]
  2. آپؐ کی زوجات کے ساتھ آپ کے بعد بھی نکاح کا حرام ہونا،[38]
  3. آپؐ کی آواز سے اپنی آواز کو اونچی نہ کرنا،[39]
  4. آپؐ کے ساتھ جس مجلس میں بیٹھے ہوں اس سے آپ کی اجازت کے بغیر خارج ہونا حرام ہے،[40]
  5. نماز کے دوران بھی پیغمبر اکرمؐ کو سلام کرنا جائز ہے،[41]
  6. مسلمانوں کے امور میں پیغمبر اکرمؐ کو تصرف میں اولویت حاصل ہونا،[42]
  7. شفاعت اور کوثر آپ کے اختیار میں ہونا،[43]
  8. آپ کے دشمنوں کے دلوں میں آپ کی نسبت خوف قرار دینا،[44]
  9. آپ کی نبوت اور رسالت کا جہانی ہونا، [45]
  10. خاتمیت،[46]
  11. قرآن کا جاویداں ہونا۔[47]

خصائص کی حکمت

بعض مسلمان علماء نے مختصات پیغمبر اکرمؐ کے لئے حکمتوں کا ذکر کیا ہے ؛ من جملہ یہ کہ واجبات آپ کے معنوی درجات میں اضافہ کے لئے ہے[48] اور مُحَرَّمات آپ کو ان سے پاک و منزہ رکھنے کے لئے ہے۔[49] اسی طرح مباحات کی حکمت آپ کے اختیارات میں اضافہ اور کرامات کی حکمت آپ کے مقام و منصب کی رعایت کرنا قرار دیتے ہیں۔[50]

مزید مطالعہ

«بررسی تطبیقی خصائص النبی صلی‌اللہ علیہ و آلہ از نگاہ فریقین»، تحریر سید محمد نقیب۔ اس کتاب کے پہلے حصے میں خصائص النبی کا معنا اور مفہوم بیان کیا ہے، دوسرے حصے میں قرآن میں خصائص النبی سے بحث کی گئی ہے اور تیسرے حصے میں خصائص النبی کے آثار و نتائج نیز آپ کا دیگر معصومین کے ساتھ اشتراکات سے بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کو حج و زیارت میں ولی فقیہ کے نمایندے کے دفتر والوں نے تہران سے منتشر کیا ہے۔[51]

حوالہ جات

  1. الصادق، خصائص المصطفی، ۲۰۰۰م، ص۲۴۔
  2. سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۳۹۶۔
  3. الصادق‌، خصائص المصطفی، ۲۰۰۰م، ص۲۴۔
  4. المعجم الوسیط، ۱۹۸۹م، ج۱، ص۲۳۸، ذیل خص۔
  5. حسینی سمنانی، «خصائص النبی»، ج۱۵، ص۵۴۴۔
  6. محقق کرکی، جامع‌المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۵۳۔
  7. نجاشی، رجال‌النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۹۰۔
  8. سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۳۹۶؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۵۳۔
  9. رجوع کریں: محقق کرکی، جامع‌المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۵۳۔
  10. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۵۸؛ سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۴۲۶۔
  11. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۵۸؛ سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۴۲۹۔
  12. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۵۸؛ سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۴۳۰۔
  13. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۵۸۔
  14. مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۵ش، ج۱۶، ص۵۷۳۔
  15. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۵۸۔
  16. سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۴۱۸۔
  17. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۶۰۔
  18. سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۴۲۱۔
  19. سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۴۲۷؛ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۴، ص۱۵۶۔
  20. سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۴۲۳۔
  21. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۶۱؛ سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۴۲۵۔
  22. محقق کرکی، جامع المقاصد،۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۵۷؛ سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۴۱۲،۴۱۴۔
  23. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۵۷۔
  24. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۵۶؛ سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۴۰۴۔
  25. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۵۷؛ سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۴۰۸۔
  26. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۵۷؛ سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۴۰۸۔
  27. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۴، ص۱۵۳
  28. سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۴۱۱۔
  29. سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۴۱۰؛ شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۴، ص۱۵۳۔
  30. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۵۶؛ سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۴۱۴۔
  31. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۵۲؛ سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۳۹۶۔
  32. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۵۲؛ سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۳۹۶۔
  33. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۵۲؛ سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۳۹۶۔
  34. نووی، روضہ‌الطالبین، ۱۴۱۲ق، ج۷، ص۳۔
  35. نووی، روضہ‌الطالبین، ۱۴۱۲ق، ج۷، ص۳؛ سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۳۹۸۔
  36. سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۴۰۰
  37. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۶۴؛ سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۴۳۷۔
  38. سیوطی، الخصائص الکبری، ج۲، ص۴۳۷۔
  39. سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۴۴۴۔
  40. سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۴۴۳۔
  41. سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۴۴۳۔
  42. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۶۴-۶۵۔
  43. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۶۵۔
  44. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۶۵۔
  45. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۶۵۔
  46. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۶۵۔
  47. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۶۵۔
  48. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۴، ص۱۵۲؛ سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۳۹۶۔
  49. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۴، ص۱۵۲؛ سیوطی، الخصائص الکبری، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۴۰۴۔
  50. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۴، ص۱۵۲۔
  51. «بررسی تطبیقی خصائص النبی صلی‌اللہ علیہ و آلہ از نگاہ فریقین»۔

مآخذ

  • «بررسی تطبیقی خصائص النبی صلی‌اللہ علیہ و آلہ از نگاہ فریقین»، کتابخانہ تخصصی حج، تاریخ مشاہدہ ۸ آبان ۱۳۹۸ش۔
  • حسینی سمنانی، بتول، «خصائص النبی» در دانشنامہ جہان اسلام۔
  • الصادق بن محمد، خصائص‌المصطفی صلی‌اللّہ‌علیہ وسلم بین الغلو و الجفاء، ریاض، ۲۰۰۰ء۔
  • سیوطی عبدالرحمان بن ابی‌بکر، الخصائص الکبری، بیروت، دار الکتب العلمیہ، بی‌تا۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، مسالک الافہام الی تنقیح شرائع‌الاسلام، قم، ۱۴۱۳-۱۴۱۹ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیہ، تصحیح سید محمدتقی کشفی، تہران، المکتبۃ المرتضویہ لاحیاء الآثار الجعفریہ، ۱۳۸۷ھ۔
  • مجمع اللغۃ العربیہ بالقاہرہ، المعجم الوسیط، استانبول، دار الدعوہ، ۱۹۸۹ء۔
  • محقق کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد فی شرح القواعد، قم، مؤسسۃ آل البیت، ۱۴۱۴ھ۔
  • مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل‌بیت، قم، مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، چاپ اول، ۱۳۹۵ش۔
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، تحقیق موسی شبیری زنجانی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی جماعۃ المدرسین فی الحوزۃ العلمیۃ بقم، ۱۳۶۵ش۔
  • نووی، یحیی بن شرف، روضۃ الطالبیین و عمدۃ المفتین، تحقیق زہیر الشاویش، بیروت، دمشق-عمان، المکتب الاسلامی، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۱ء۔