نفس مطمئنہ

ویکی شیعہ سے
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

نفْس مُطمَئِنّہ، نفس کی اس حالت کو کہتے ہیں جس میں انسان کو سکون اور اطمینان حاصل ہوجاتا ہے اور گناہ کی خواہش ختم ہو جاتی ہے۔ یہ لفظ سورہ فجر کی 17 ویں آیت میں استعمال ہوا ہے۔ نفس امارہ اور نفس لوامہ کے مقابل میں نفس مطمئنہ کو نفس کا بالا ترین مرتبہ شمار کیا گیا ہے۔ نفس امارہ میں انسان کو گناہ کی طرف دھکیلا جاتا ہے۔ نفس لوامہ اس حالت کو کہتے ہیں جس میں انسان اپنی غلطیوں کی وجہ سے اپنی ملامت کرتا ہے۔

کچھ احادیث میں آیت نفس مُطمَئِنّہ کے ذکر کے ساتھ اس کے بعض مصادیق کو بھی ذکر کیا گیا ہے۔ منجملہ امام علی ؑ، امام حسین ؑ اور جو لوگ پیغمبر اسلام اور آپ کے اہل بیت ؑ پر ایمان رکھتے ہیں۔

نفس مطمئنہ کا مفہوم

نفْس مُطمَئِنّہ، نفس کی ایک حالت ہے جس میں گناہ نہ کرنے کے بارے میں مسلسل عقل کی پیروی کرنے کی وجہ سے اس کام پر ملکہ حاصل ہو جاتا ہے اور انسان کی عادت بن جاتی ہے اور پھر ایک سکون اور اطمینان پیدا ہو جاتا ہے۔[1] یہ اصطلاح ایک قرآنی لفظ ہے جو سورہ فجر کی 27ویں آیت میں استعمال ہوا ہے۔

نفس مطمئنہ کو نفس امارہ اور نفس لوامہ کے مقابل میں نفس کا اعلی ترین مرتبہ مانا گیا گیا ہے۔ نفس کے چند مرتبے ہیں: سب سے نچلے مرتبہ کو نفس امارہ کہتے ہیں۔ اس میں انسان، عقل کی پیروی نہیں کرتا ہے اور گناہ کی طرف رغبت رکھتا ہے۔ اس سے بالاتر رتبہ نفس لوامہ کا ہے، اس میں نفس ہوشیار رہتا ہے اور اگر کوئی برا کام کرے تو اپنی ملامت کرتا ہے۔ ان میں سب سے بالاتر نفس مطمئنہ ہے۔[2]

حقیقت انسان کے ایک ہونے اور نفس کے متعدد ہونے میں منافات نہ ہونا

مسلمان علماء کہتے ہیں کہ انسان کے اندر صرف ایک نفس ہے یا یہ کہ اس کے اندر صرف ایک خودی ہے۔ اور نفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ کا ہونا، نفس کے ایک ہونے سے منافات نہیں رکھتا ہے۔ ان کے کہنے کے مطابق یہ اصطلاحات در حقیقت نفس کی مختلف حالتوں اور اس کے مختلف مراتب کی طرف اشارہ کرتے ہیں؛[3] یعنی جب نفس برے کاموں کا حکم دیتا ہے تو ہم اسی کو نفس امارہ کہتے ہیں اور جب کسی برے کام کرنے کی وجہ سے اپنی ملامت کرتا ہے تو اسی کو نفس لوامہ کہتے ہیں۔[4]

احادیث میں نفس مطمئنہ کے مصادیق

احادیث میں سورہ فجر کی 27 ویں آیت میں استعمال ہونے والے لفظ نفس مطمئنہ کے کچھ مصادیق ذکر ہوئے ہوئے ہیں۔ کتاب شواہد التنزیل لقواعد التفضیل کے مطابق امام علی ؑ [5] اور کتاب تفسیر علی بن ابراہیم قمی کے مطابق امام حسین علیہ السلام اس کے مصداق ہیں۔[6] محمد بن یعقوب کلینی نے بھی اصول کافی میں ایک حدیث نقل کی ہے جس کے مطابق، نفس مطمئنہ وہ نفس ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اہل بیت علیہم السلام پر ایمان رکھتا ہو۔[7]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. مصباح یزدی، آیین پرواز، ۱۳۹۹ش، ص۲۷۔
  2. مصباح یزدی، آیین پرواز، ۱۳۹۹ش، ص۲۶-۲۷؛ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۵-۵۹۶۔
  3. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۶۷، ص۳۶-۳۷؛ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۵؛ مصباح یزدی، «اخلاق و عرفان اسلامی»، ص۸۔
  4. مصباح یزدی، «اخلاق و عرفان اسلامی»، ص۸۔
  5. حسکانی، شواہدالتنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۴۲۹۔
  6. قمی، تفسیرالقمی، ۱۴۰۴ھ، ج۲، ص۴۲۲۔
  7. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۳، ص۱۲۷-۱۲۸۔

مآخذ

  • حسکانی، عبید اللہ بن عبداللہ،‏ شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق و تصحیح: محمد باقر محمودى، تہران، مجمع احیای فرہنگ اسلامی وابستہ بہ وزارت افرہنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۱ھ۔‏
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ھ۔
  • قمى، على بن ابراہیم،‏ تفسیرالقمی،‏ تحقیق و تصحیح طیّب‏ موسوى جزایرى، قم، ‏دارالکتاب، ‏چاپ سوم، ۱۴۰۴ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفارى و محمد آخوندى، تہران، ‏دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعہ لدرر اخبار ائمۃ الاطہار،، بیروت، داراحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
  • مصباح یزدی، محمد تقی، «اخلاق و عرفان اسلامی»، ماہ‌نامہ معرفت، شمارہ ۱۲۷، تیر ۱۳۸۷ش۔
  • مصباح یزدی، محمد تقی، آیین پرواز، تلخیص جواد محدثی، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ نہم، ۱۳۹۹ش۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، انتشارات صدرا، ۱۳۸۹ش۔