آیت ہادی

ویکی شیعہ سے
آیہ ہادی
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامہادی
سورہرعد
آیت نمبر7
پارہ13
شان نزولمشرکوں کی طرف سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معجزہ کا مطالبہ
محل نزولمکہ
موضوعاعتقادی
مضمونرسول اسلام کا ہادی اور منذر ہونا


آیہ ہادی، سورہ رعد کی ساتویں آیت ہے جو نبوت پر مشرکین کے اعتراضات کی طرف اشارہ کرتی ہے اور مشرکین کے مطالبہ معجزہ کے مقابلہ میں پیغمبر اسلامؐ کا صرف منذر (ڈرانے والا) ہونے کے عنوان سے تعارف کراتی ہے۔ بعض شیعہ مفسرین، روایات سے استناد کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ قرآن کی آیت میں "ہر قوم کے لئے ہادی ہے" سے مراد ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں۔ علی بن ابراہیم قمی کی نگاہ میں یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ زمین کبھی بھی، کسی بھی زمانہ میں حجت الہی سے خالی نہیں ہوسکتی۔

متن و ترجمہ

وَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْ لَا أُنزِلَ عَلَيْهِ ءَايَةٌ مِّن رَّبِّهِ إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ وَ لِكلُ‏ِّ قَوْمٍ هَاد


اور یہ کافر کہتے ہیں کہ ان کے اوپر کوئی نشانی (ہماری مطلوبہ)کیوں نہیں نازل ہوتی تو آپ کہہ دیجئے کہ میں صرف ڈرانے والا ہوں اور ہر قوم کے لئے ایک ہادی اور رہبر ہے



سورہ رعد: آیت 7


مندرجات

آیہ ہادی مشرکو‌‌‌‌‌ں کے مسئلہ نبوت کے بارے میں اعتراضات کی طرف اشارہ کرتی ہے سورہ رعد کی پچھلی آیات میں مسئلہ توحید اور مسئلہ معاد کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[1]

مشرکوں کی بہانہ جوئی

مفسرین، معجزات کو سند حقانیت اور پیغمبروں کی وحی الہی کے ساتھ ارتباط کی دلیل جانتے ہیں ؛[2] اسی لئے وہ ان لوگوں کی طرف سے جو حقیقت کے خواہاں ہیں معجزہ کی درخواست کو ان کا حق تصوّر کرتے ہیں۔[3] صاحب تفسیر نمونہ اس آیت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کرنے والوں کو ان مشرکین میں سے جانتے ہیں جن کا مطالبہ معجزہ، حقیقت کے ادراک اور عرفان کے وصول کے لئے نہیں تھا ؛ بلکہ وہ بغض و عناد اور صرف پیغمبر کی مخالفت کے لئے معجزہ کا مطالبہ کر رہے تھے۔[4]

معجزہ اقتراحی

مشرکین کی طرف سے کسی خاص اور معین معجزہ کی پیشکش کو «معجزہ اقتراحی» کہا جاتا ہے۔[5] عبداللہ بن عمر بیضاوی (آٹھویں صدی) کا یہ ماننا ہے کہ مشرکین پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے یہ مطالبہ کرتے تھے کہ وہ حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح کوئی معجزہ ان کو دکھائیں۔[6] مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ گویا مشرکوں کو اس بات کا گمان تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات کے مدعی ہیں کہ وہ ہر خارق‌العادہ‌ کام کے انجام پر قدرت رکھتے ہیں اس لئے ان سے کوئی بھی مطالبہ کیا جائے تو وہ اس کو انجام دینے کے ذمہ دار ہیں؛ جبکہ معجزات صرف پیغمبروں کی حقانیت کے اثبات کے لئے ہیں اور پیغمبر کبھی بھی معین شدہ معجزات کا پابند نہیں ہوتا۔[7]

خداوند عالم کا جواب

اس آیت میں مشرکین کے جواب میں یہ آیا ہے کہ: «آئے پیغمبر آپ صرف ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم کے لئے ایک ہادی ہے۔» در واقع قرآن کریم فرماتا ہے کہ کافروں اور مشرکوں نے یہ بھلا دیا ہے کہ پیغمبروں کا اصل فریضہ انذار اور ہدایت ہے اور وہ یہ گمان کر بیٹھیں ہیں کہ انکی اصل ذمہ داری معجزہ دکھانا ہے۔[8] انوار التنزیل کے مصنف اس بات کے معتقد ہیں کہ پیغمبر کا معجزہ صرف اس حد تک کہ اسکی نبوت کو ثابت کردے کافی ہوا کرتا ہے اور اس آیت نے وضاحت کر دی کہ کسی خاص معجزہ کی پیشکش پہ معجزہ دکھانا پیغمبر کی ذمہ داری نہیں ہے۔[9] شیخ طوسی بھی اسی بات کے معترف ہیں کہ خداوندعالم نے اس آیہ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کسی معجزہ کی انجام دہی کی نفی کر دی ہے اور معجزات خداوند کریم کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنے بندوں کی مصلحتوں کے پیش نظر ان معجزات کو جب چاہتا ہے پیغمبروں کے ذریعہ ظاہر کرتا ہے۔[10]

منذر اور ہادی کا مطلب

مفسرین نے اس آیت میں «منذر» کے معنی ڈرانے والے کے لئے ہیں جو معصیت الہی اور اس کے عقاب سے ڈراتا ہو۔ اور «ہادی» کے معنی حق کی طرف ہدایت کرنے والے کے ہیں۔[11] «منذر» اور «ہادی» کی وضاحت میں ان کے فرق یوں بیان ہوا ہے کہ انذار اس لئے ہے کہ گمراہ راہ حق پہ آجائیں اور صراط مستقیم پر چلنے لگیں ؛ لیکن ہدایت اس لئے ہے کہ صراط مستقیم پہ آنے کے بعد ، لوگ اسی راہ پہ مستقل طور پر آگے بڑھتے رہیں اور انحراف سے بچتے رہیں۔[12] تفسیر نمونہ کے مصنّف انذار اور ہدایت کے معنی میں اختلاف کو رسول اور امام کے معنی میں اختلاف کی طرح جانتے ہیں۔ اس طرح کہ رسول موئسس شریعت ہوتا ہے اور امام شریعت کا محافظ اور نگہبان ہوا کرتا ہے۔[13]

  • پانچ اقوال

آیت کریمہ میں لفظ «ہادی» کس کی طرف اشارہ ہے اس میں اختلاف ہے اور اس سلسلہ میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں۔ شیخ طوسی (متوفی ۴۶۰ ق) نے اس سلسلہ میں پانچ الگ الگ نظریات پیش کئے ہیں: «۱ـ ہر وہ شخص جو حق کی طرف دعوت دے۔ ۲ـ کسی بھی امّت کا پیغمبر۔ ۳ـ خود خداوند متعال۔ ۴ـ حضرت محمد(ص)۔ ۵ـ امام وقت اس جھت سے کہ وہ معصوم ہےہر طرح کے گناہ کبیرہ و صغیرہ اور ہر طرح کی خطا سے مبرا ہے۔ پانچواں قول امام باقر(ع)اور امام صادق(ع) سے روایت ہوا ہے۔[14]

آئمّہ کا ہادی ہونا

شیعہ مفسرین اس بات کے قائل ہیں کہ اس آیت میں «ہادی» سے مراد ائمّہ علیہم السلام ہیں اور متعدد روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں۔[15] امام باقر(ع) سے ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ آپ نے برید عجلی سے فرمایا: منذر، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور ہر زمانہ میں لوگوں کے لئے ہم میں سے کوئی نہ کوئی امام ہوتا ہے جو انکو اس چیز کی طرف ہدایت کرتا ہے جو کچھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا ہے۔[16] امام صادق(ع) نے بھی ایک روایت میں فرمایا منذر، پیامبر اکرم (ص) ہیں اور علی(ع) تمام انسانوں کے لئے ہادی ہیں۔ اور خدا کی قسم (یہ مقام) ہم سے خارج نہیں ہوا اور نہ ہی تا روز قیامت ہم سے خارج ہوگا۔[17]

ہر زمانے کو ہادی کی ضرورت

تیسری صدی کے مفسر علی بن ابراہیم قمی اس بات کے قائل تھے کہ یہ آیت اس بات پر کھلی دلالت کرتی ہے کہ زمین کبھی بھی کسی زمانہ میں بھی حجت الہی سے خالی نہیں ہوسکتی اور جو لوگ اس مسئلہ کے منکر ہیں انکی باتوں کو رد کرتی ہے۔[18] فیض کاشانی (متوفی سنہ ۱۰۵۸ش)بھی اپنی کتاب الاصفی فی تفسیر القرآن میں اسی نظریہ کو قبول کرتے ہیں ۔[19] اس کے علاوہ بہت سی دوسری روایات بھی ہیں جو اسی امر پر دلالت کرتی ہیں کہ زمین خدا کبھی بھی حجت الہی سے خالی نہیں ہوسکتی۔[20] وہ حجت وہ ہے جسکے کاندھوں پہ لوگوں کی اصلاح کی ذمہ داری ہے اور جس کے وجود پہ میں زمین کی بقا کا دارو مدار ہے۔[21]

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص۱۲۸۔
  2. بیضاوی، انوار التنزیل، ۱۴۱۸ھ، ج۳، ص۱۸۲۔
  3. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص۱۲۸۔
  4. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص۱۲۸۔
  5. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص۱۲۹۔
  6. بیضاوی، انوار التنزیل، ۱۴۱۸ھ، ج۳، ص۱۸۲۔
  7. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص۱۲۸-۱۲۹۔
  8. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص۱۲۹-۱۳۰۔
  9. بیضاوی، انوار التنزیل، ۱۴۱۸ھ، ج۳، ص۱۸۲۔
  10. طوسی، التبیان، دار احیاء التراث، ج۶، ص۲۲۲۔
  11. طوسی، التبیان، دار احیاء التراث، ج۶، ص۲۲۲۔
  12. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص۱۳۰۔
  13. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص۱۳۰-۱۳۱۔
  14. طوسی، التبیان، دار احیاء التراث، ج۶، ص۲۲۳۔
  15. رک: بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ھ، ج۳، ص۲۲۶۔
  16. بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ھ، ج۳، ص۲۲۸۔
  17. بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ھ، ج۳، ص۲۲۹۔
  18. قمی، تفسیر قمی، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۳۵۹۔
  19. فیض کاشانی، الاصفی، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۵۹۶۔
  20. رک: برقی، المحاسن، ۱۳۷۱ھ، ج۱، ص۲۳۴۔
  21. برقی، المحاسن، ۱۳۷۱ھ، ج۱، ص۲۳۵۔

ماخذ

  • بحرانی، سید ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، تہران، بنیاد بعثت، ۱۴۱۶ھ،
  • برقی، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، قم، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۱ھ،
  • بیضاوی، عبداللہ بن عمر، انوار التنزیل و اسرار التأویل، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۱۸ھ،
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بے‌تا۔
  • فیض کاشانی، ملامحسن، الاصفی فی تفسیر القرآن، قم، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۴۱۸ھ،
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر قمی، قم، دارالکتاب، ۱۴۰۴ھ،
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ہجری شمسی۔