آیت نفر

ویکی شیعہ سے
آیت نفر
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت نفر
سورہتوبہ
آیت نمبر122
پارہ11
صفحہ نمبر206
شان نزولجنگ تبوک میں شرکت نہ کرنے والوں کے بارے میں
محل نزولمدینہ
موضوعاعتقادی اور اخلاقی
مضمونحصول علم اور تبلیغ دین
مرتبط موضوعاتاجتہاد


آیت نَفْر، سورہ توبہ کی 122ویں آیت کو کہا جاتا ہے جس میں مؤمنین میں سے ایک گروہ کو خدا کی راہ میں جہاد سے منع کرتے ہوئے حصول علم‌ اور تبلیغ دین کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ بعض مفسرین اور مجتہدین خبر واحد اور مجتہد کے فتوے کی حجیت کو ثابت کرنے کے لئے اس آیت سے استدلال کرتے ہیں۔ اسی طرح اجتہاد کے لئے حصول علم کے وجوب اور تقلید کے جواز پر بھی اس آیت کو بطور دلیل پیش کی جاتی ہے۔

متن اور ترجمہ

وَمَا کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِینفِرُوا کافَّۃً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن کلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَائِفَۃٌ لِّیتَفَقَّہُوا فِی الدِّینِ وَلِینذِرُوا قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَیہِمْ لَعَلَّہُمْ یحْذَرُونَ ﴿توبہ/122﴾


اور یہ تو نہیں ہو سکتا کہ تمام اہلِ ایمان نکل کھڑے ہوں تو ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ ہر جماعت میں سے کچھ لوگ نکل آئیں تاکہ وہ دین میں تفقہ (دین کی سمجھ بوجھ) حاصل کریں اور جب (تعلیم و تربیت کے بعد) اپنی قوم کے پاس لوٹ کر آئیں تو اسے (جہالت، بے ایمانی اور بد عملی کے نتائج سے) ڈرائیں تاکہ وہ ڈریں۔


شأن نزول

اس آیت کے شأن نزول کے بارے میں آیا ہے کہ جب پیغمبر اکرمؐ جہاد کے لئے روانہ ہوتے تو منافقین اور معذور افراد کے علاوہ باقی تمام مسلمان آپ کے ساتھ میدان جنگ کی طرف حرکت کرتے تھے۔ اور جب منافقین اور غزوہ تبوک میں شرکت نہ کرنے والوں کی مزمت اور سرزنش میں آیات نازل ہوئیں تو مؤمنین پہلے سے زیادہ شوق اور رغبت کے ساتھ میدان جہاد کے لئے حاضر ہونے لگے، یہاں تک کہ جن جنگوں میں خود پبغمبر اکرمؐ شریک نہیں ہوتے پھر بھی تمام مؤمنین پیغمبر اکرمؐ کو تنہا چھوڑ کر میدان جنگ کی طرف حرکت کرتے تھے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ جہاں ضرورت نہیں وہاں تمام افراد کا جہاد کے لئے میدان جنگ کی طرف حرکت کرنا لازمی نہیں ہے بلکہ ایک گروہ کو مدینہ میں رہ کر پیغمبر اکرمؑ سے اسلامی معارف اور احکام کی تعلیم حاصل کرنا چاہئے تاکہ یہ لوگ جہاد سے واپسی پر اپنے مجاہد دوستوں اور بھائیوں کو ان معارف اور احکام کی تعلیم دے سکیں۔[1]

اہم نکات

علامہ طباطبائی اس بات کے معتقد ہیں کہ آیہ نفر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دین میں تفقہ سے مراد تمام اسلامی معارف (اصول دين اور فروع دین) کو سمجھنا ہے نہ فقط عملی احکام(فقہ) کو۔ آپ دلیل لاتے ہوئے کہتے ہیں کہ آیت میں «ولینذروا قومہم: اور اپنی قوم کو ڈراؤ» کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم کو ڈرانا صرف فقہ کے ذریعے انجام نہیں پاتا بلکہ اس کے لئے اصول عقاید اور دیگر اسلامی معارف کو بھی بیان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔[2]

اسی طرح بقول علامہ طباطبائی کے مطابق آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی طالب علموں سے جہاد کے لئے میدان جنگ میں جانے کی ذمہ داری اٹھا لی گئی ہے۔[3] اس آیت کے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام مسلمانوں پر جہاد کے لئے میدان جنگ میں جانا ضروری نہیں بلکہ ایک گروہ کو دینی معارف کے حصول کے لئے پیغمبر اکرمؐ کے پاس باقی رہنا بھی ضروری ہے۔ [4]

بعض لوگ اس آیت سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ دین اسلام حصول کے لئے بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے؛ کیونکہ یہ آیت حصول علم کو جہاد پر مقدم کرتے ہوئے ایک گروہ کو جہاد کے لئے میدان جنگ میں جانے کی بجائے حصول علم کی ترغیب دے رہی ہے۔[5]

آیت اللہ جوادی آملی کے مطابق دینی مدارس کے طالب علموں کا حوزہ علمیہ کی طرف ہجرت کرنے کا اصل مقصد صرف دینی تعلیم کا حصول اور دین کو سمجھنا نہیں بلکہ اس کا اصل مقصد دین کو سمجھنے کے بعد اپنی قوم کی طرف واپس جا کر انہیں دینی تعلیمات سے آگاہ کرنا اور انہیں ان کی مخالف سے ڈرانا ہے۔[یادداشت 1][حوالہ درکار]


تقلید کے جواز پر استدلال

بعض مفسرین اور مجتہدین تقلید کے جواز پر اس آیت سے استدلال کرتے ہیں۔ ان کے مطابق آیت نفر تقلید کے جواز پر قرآنی دلائل میں سے ایک ہے کیونکہ اس میں دینی تعلیمات کے حصول کے لئے ہجرت اور سفر کرنے کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ دین اسلام کی تعلیمات کا حصول اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کا لازمہ یہ ہے کہ دوسرے لوگ فروع دین میں ان علماء کی پیروی کریں اور یہ وہی تقلید ہے۔[6]

خبر واحد کی حجیت پر استدلال

بعض فقہاء خبر واحد کی حجیت کو ثابت کرنے کے لئے آیت نفر سے استناد کرتے ہیں۔[7] اسی طرح بعض لوگ دینی مسائل اور احکام بیان کرنے والے علماء کی باتوں کو قبول کرنے پر بھی اسی آیت کے ذریعے استدلال کرتے ہیں۔[8]

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1380ہجری شمسی، ج8، ص189۔
  2. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج9، ص404۔
  3. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج9، ص404۔
  4. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج9، ص404۔
  5. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1380ہجری شمسی، ج8، ص194۔
  6. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1380ہجری شمسی، ج8، ص193؛ غروی تبریزی، التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی، 1418ھ، ج 1، ص64۔
  7. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1380ہجری شمسی، ج8، ص194؛ ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، 1371ہجری شمسی، ج7، ص275۔
  8. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1380ہجری شمسی، ج8، ص194۔

نوٹ

  1. یہاں پر ڈرانے سے مراد دینی معارف کی نشر و اشاعت اور دینی احکام یعنی اصول دین اور فروع دین کی مخالفت کے نتائج سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے تاکہ لوگ اس سے آگاہ ہو سکیں۔ تفسیر المیزان،ج9، ص404

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ ناصر مکارم شیرازی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تقسیر القرآن، بیروت، انتشارات الاعلمی للمطبوعات، 1390ھ۔
  • غروی تبریزی، علی، التنقیح فی‌شرح العروۃالوثقی، تقریرات درس آیۃاللّہ خویی، قم، 1418ق/ 1998م۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، 1380ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، ترجمہ قرآن‌، قم‌، دارالقرآن الکریم (دفتر مطالعات تاریخ و معارف اسلامی)، 1378ہجری شمسی۔
  • ہاشمی رفسنجانی، اکبر، تفسیر راہنما، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، 1371ہجری شمسی۔