ابو رافع

ویکی شیعہ سے
ابو رافع
کوائف
مکمل ناماسلم
مہاجر/انصارمہاجر
اقاربعلی اور عبید اللہ
دینی معلومات
اسلام لانا تحویل قبلہ سے پہلے
جنگوں میں شرکتبجز جنگ بدر
ہجرتحبشہ اور مدینہ
تالیفاتکتاب‌ ’’السنن والاحکام والقضایا‘‘ کی تالیف


ابو رافع (متوفی بعد از 40 ھ) معروف صحابی، خاندان آل ابی رافع کے بزرگ اور پیغمبرؐ کے آزاد کردہ تھے۔ امام علیؑ کی حکومت کے دوران کوفہ میں بیت المال کے خزانہ دار مقرر ہوئے۔

نام

ابو رافع قبطیوں میں سے تھے۔[1] آپ کے نام میں اختلاف ہے، اکثر نے ان کا نام اسلم قرار دیا ہے۔[2] مصادر میں اسلم، ابراہیم، ثابت، ھرمز[3] سنان، قرمان، صالح، یزید، یسار اور عبد الرحمن جیسے نام ذکر کیے گئے ہیں۔[4] آپ کا ایک رافع نامی بیٹا تھا اور اسی وجہ سے آپ کو ابورافع کہا جاتا تھا۔[5]

صحابی

ابو رافع پہلے عباس بن عبد المطلب کے غلام تھے۔ عباس نے انہیں پیغمبرؐ کو عطا کر دیا۔ جب ابو رافع نے پیغمبرؐ کو عباس بن عبد المطلب کے مسلمان ہونے کی خبر دی تو آپؐ نے اس کے بدلے انہیں آزاد کر دیا۔[6] ابو رافع مکہ میں ہجرت سے پہلے مسلمان ہوئے۔[7] تاہم ان کے مسلمان ہونے کے بارے میں کوئی دقیق روایت موجود نہیں ہے۔ ایک قول کے مطابق وہ اس وقت اسلام لائے تھے کہ جب لوگ ابھی مسجد الاقصیٰ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ وہ ان لوگوں میں شامل تھے کہ جنہوں نے کفار قریش کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر جعفر بن ابی طالب کیساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔[8] مشہور ہے کہ ابو رافع نے پیغمبرؐ کیساتھ مدینہ کی طرف ہجرت نہیں کی تھی بلکہ جنگ بدر تک مکہ میں ہی قیام پذیر رہے اور اس کے بعد مدینہ میں پیغمبرؐ سے ملحق ہوئے۔[9] آپ کے مدینہ پہنچنے کے بعد پیغمبرؐ نے اپنی کنیز سلمیٰ کیساتھ ان کا نکاح کر دیا کہ جس سے عبید اللہ کی ولادت ہوئی۔[10] ابورافع نے ہجرت مدینہ کے بعد تمام جنگوں میں شرکت کی[11] اور آپ کا شمار پیغمبرؐ کے نزدیکی اصحاب میں سے ہوتا تھا چنانچہ پیغمبرؐ نے آپ کے بارے میں فرمایا: ہر پیغمبر کا ایک امین ہے اور میرا امین ابورافع ہے۔[12]

امام علیؑ کی ہمراہی

ابو رافع نے پیغمبر کی رحلت کے بعد امام علیؑ کے ہمراہ آپؑ کے دوران خلافت میں پیش آنے والی جنگوں میں حصہ لیا۔[13] جب شام میں معاویہ اور بصرہ میں طلحہ و زبیر نے مخالفت شروع کی تو ابو رافع نے کہا کہ پیغمبرؐ نے پہلے سے ہی اس واقعے کی اسے خبر دی تھی اور فرمایا تھا کہ علیؑ حق پر ہیں اور ان کے مخالفین باطل پر ہیں۔[14]

ہجرت کوفہ

ابو رافع نے 85 سال کے سن میں خیبر اور مدینہ میں واقع اپنا گھر اور زمین فروخت کر دی اور امام علیؑ کی معیت میں کوفہ کی طرف ہجرت کی[15] اور کہتے تھے: خدا کا شکر ہے، مجھے وہ شرف ملا ہے کہ جو کسی کے حصے میں نہیں آیا؛ کیونکہ میں نے دو بیعتیں کی ہیں: عقبہ اور رضوان اور دو قبلوں کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی ہے اور تین مرتبہ ہجرت کی ہے۔[16] آپ کو کوفہ میں امام علیؑ کی جانب سے بیت المال کی خزانہ داری پر متعین کیا گیا تھا۔ اسی طرح آپ کے دو بیٹے عبید اللہ اور علی بھی امام علیؑ کے کاتب تھے۔

امام علیؑ کی شہادت کے بعد

ایک روایت کی بنا پر ابو رافع حضرت علیؑ کی شہادت کے بعد امام حسنؑ کے ہمراہ مدینے واپس آ گئے تھے۔ امام حسنؑ نے امام علیؑ کے گھر کا آدھا حصہ اور مدینہ کے مضافات میں واقع زمین کا ایک ٹکڑا انہیں عطا کیا[17] کہ جسے ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے عبید اللہ نے 170000 (احتمالا درہم) میں فروخت کر دیا۔[18] ابو رافع کی تاریخ وفات میں اختلاف ہے: بعض نے ان کی تاریخ وفات خلافت علیؑ[19] کے دوران اور بعض نے اسی سال قرار دی ہے کہ جس میں امام علیؑ کی شہادت ہوئی تھی۔[20] نجاشی کی نقل کردہ روایت کی بنا پر وہ امام حسنؑ کے زمانہ خلافت تک زندہ رہے۔[21] واقدی نے بھی ان کی تاریخ وفات کو عثمان سے کچھ پہلے یا بعد میں قرار دیا ہے۔[22]

پہلی فقہی کتاب کی تالیف

ابو رافع نے کتاب السنن والاحکام والقضاء مرتب کی۔[23] بعض نے احتمال دیا ہے کہ ابورافع اسلام میں فقہی کتاب تالیف کرنے والی پہلی شخصیت ہیں۔[24] آپ کی کتاب نماز ، روزہ ، حج، زکات اور قضا پر مشتمل ہے اور اس میں امام علیؑ سے روایات منقول ہیں۔[25] ابو رافع سے اپنے بیٹوں کے واسطے سے روایات منقول ہیں۔[26] شیعہ و سنی علمائے رجال نے انہیں ’’ثقہ‘‘ راویوں میں سے شمار کیا ہے۔ [حوالہ درکار]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ابن عبد البر، الاستیعاب، 1412ھ، ج4، ص1656۔
  2. ابن عبد البر، الاستیعاب، 1412ھ، ج4، ص1656۔
  3. بحر العلوم، الفوائد الرجالیۃ، 1363 شمسی، ج1، ص203۔
  4. بحر العلوم، الفوائد الرجالیۃ، 1363شمسی، ج1، ص203۔
  5. موحد ابطحی، تہذیب المقال، 1417ھ، ج1، ص167(پانویس)۔
  6. ابن عبد البر، الاستیعاب، 1412ھ، ج4، ص1656؛ سید علی خان مدنی، الدرجات الرفیعۃ، 1397ھ، ص373۔
  7. علامہ حلی، ایضاح الاشتباہ، 1411ھ، ص80۔
  8. نجاشی، رجال النجاشی، 1418ھ، ص5۔
  9. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج4، ص55۔
  10. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج4، ص55۔
  11. موحد ابطحی، تہذیب المقال، 1417ھ، ج1، ص167۔
  12. قمی، الکنی و الالقاب، 1368شمسی، ج1، ص77
  13. موحد ابطحی، تہذیب المقال، 1417ھ، ج1، ص167۔
  14. نجاشی، رجال النجاشی، 1418ھ، ص5۔
  15. نجاشی، رجال النجاشی، 1418ھ، ص5۔
  16. نجاشی، رجال النجاشی، 1418ھ، ص5۔
  17. نجاشی، رجال النجاشی، 1418ھ، ص5۔
  18. نجاشی، رجال النجاشی، 1418ھ، ص4۔
  19. ابن‌ حجر، الأصابہ‌، 1328ھ، ج4، ص67
  20. ابن عبد البر، الاستیعاب، 1412ھ، ج1، ص85۔
  21. حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص241۔
  22. بحر العلوم، الفوائد الرجالیۃ، 1363شمسی، ج1، ص203۔
  23. نجاشی، رجال النجاشی، 1418ھ، ص4۔
  24. موسوی بجنوردی، «آل ابی رافع»، ص549۔
  25. حسنی، تاریخ الفقہ الجعفری، 1973ء، ج2، ص283۔
  26. موحد ابطحی، تہذیب المقال، 1417ھ، ج1، ص168۔

مآخذ

  • ابن‌ حجر عسقلانی، احمد بن‌ علی‌، الاصابہ‌ فی‌ تمییز الصحابہ، بیروت،‌ دار احیاء التّراث‌ العربی، 1328ھ۔
  • ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الكبرى، تحقيق: محمد عبد القادر عطا، بيروت، دار الكتب العلميۃ، 1410ھ/1990ء۔
  • ابن عبد البر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق: علی محمد البجاوی، بیروت،‌ دار الجیل، 1412ھ/1992ء۔
  • الحسنی، ہاشم معروف، تاریخ الفقہ الجعفری، بیروت، 1973ء۔
  • بحر العلوم، محمد مہدی، الفوائد الرجالیۃ، حققہ و علق علیہ: محمد صادق بحر العلوم و حسین بحر العلوم، طہران، منشورات مکتبۃ الصادق، 1363شمسی۔
  • حسکانی، عبیداللہ بن عبداللہ، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق و تصحیح: محمد باقر المحمودی، طہران، التابعۃ لوزارۃ الثقافۃ و الإرشاد الإسلامی، مجمع إحیاء الثقافۃ الإسلامیۃ، 1411ھ۔
  • عدۃ من العلماءالاصول الستۃ عشر، تحقیق و تصحیح: ضیاء الدین المحمودی - نعمت اللہ الجلیلی -، نعمت اللہ و مہدی غلام علی، قم، مؤسسۃ‌ دار الحدیث الثقافیۃ، 1423ھ/1381شمسی۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، ایضاح الاشتباہ، تحقیق: شیخ محمد حسون، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، 1411ھ۔
  • قمی، شیخ عباس، الکنی و الالقاب، تہران، مکتبہ صدر، 1368شمسی۔
  • مدنی، علیخان، الدرجات الرفیعۃ فی طبقات الشیعۃ، تحقیق: السید محمد صادق بحر العلوم، قم، منشورات مکتبۃ بصیرتی، 1397ھ۔
  • موحد ابطحی، محمد علی، تہذیب المقال، قم، الناشر: ابن المؤلف، 1417ھ۔
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1418ھ۔