آیت اسراء

ویکی شیعہ سے
آیت اسراء
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت اسراء
سورہسورہ اسراء
آیت نمبر1
پارہ15
شان نزولمعراج
محل نزولمکہ
موضوعاعتقادی
مضمونمعراج پیغمبر اکرمؐ
مرتبط موضوعاتسورہ نجم آیت نمبر 8 اور 18



آیت إسراء سورہ اسراء کی پہلی آیت ہے جو پیغمبر اکرمؐ کے معراج کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس آیت کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد الاَقصی تک لے جایا گیا۔ معراج کا مقصد پیغمبر اکرمؐ کو خدا کی عظمتوں کا مشاہدہ کرانا تھا۔ اس آیت سے معراج کے جسمانی ہونے اور معراج کا پیغمبر اکرمؐ کے لئے معجزہ ہونا استنباط کیا جاتا ہے۔

تعارف

سورہ اسراء کی پہلی آیت جس میں پیغمبر اکرمؐ کے مسجد الحرام سے مسجد الاقصی تک کے سفر معراج کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، آیت اسراء کہا جاتا ہے۔[1]

سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ البَصِیرُ﴿1﴾


پاک ہے وہ (خدا) جو اپنے بندہ (خاص) کو رات کے ایک حصہ میں مسجد الحرام سے اس مسجدِ اقصیٰ تک لے گیا جس کے گرد و پیش ہم نے برکت دی ہے تاکہ ہم انہیں اپنی (قدرت کی) کچھ نشانیاں دکھائیں بے شک وہ بڑا سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے۔



سورہ اسراء: آیت 1


شأن نزول

یہ آیت پیغمبر اکرمؐ کے مکہ میں مسجد الحرام سے بیت‌ المُقَدَّس میں مسجد الاَقصی تک کے سفر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[2] چھٹی صدی ہجری کے شیعہ مفسر شیخ طَبْرِسی کے مطابق مسجد الحرام میں نماز مغرب و عشا پڑھنے کے بعد پیغمبر اکرمؐ کی معراج کا آغاز ہوا اور اسی رات واپس آکر دوبارہ مسجد الحرام میں نماز صبح ادا کی۔ اس موضوع پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور بعض صحابہ جیسے ابن‌عباس، ابن‌مسعود، جابر بن عبد اللَّہ انصاری اور حُذَیفہ یمانی وغیرہ نے اس واقعے کو نقل کئیے ہیں۔[3]

مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں پیغمبر اکرمؐ کے اس سفر کی تفصیلات جیسے زمان، مکان اور سفر کی نوعیت وغیره سے بحث کی ہیں۔[4]

معراج کے معجزہ ہونے پر آیت کی دلالت

بعض مفسرین آیت اسراء کو پیغمبر اکرمؐ کے معجزات میں شمار کرتے ہیں۔[5] آیت اللہ جعفر سبحانی اپنی کتاب تفسیر منشور جاوید میں ذکر کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کا راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد الاقصی تک کا سفر آنحضرتؐ کی معجزات میں سے ایک ہے کیونکہ یہ سفر آج کل کے جدید وسائل کے بغیر انسانی توانائی اور سے بالاتر معجزہ کے سوا امکان پذیر نہیں ہے۔[6] شیعہ مفکر شہید مطہری (متوفی: 1358ہجری شمسی) کہتے ہیں کہ اس آیت میں پیغمبر اکرمؐ کے ایک غیر معمولی اور جسمانی سفر کا تذکرہ ہوا ہے؛ کیونکہ یہ سفر ایک ایسے دور میں ایک رات کے اندر پایہ تکمل تک پہنچا ہے جس میں سفر کا ذریعہ اونٹ تھا، جو معجزہ کے بغیر نا ممکن ہے۔[7] البتہ آیت‌ اللہ مکارم شیرازی اس بات کے معتقد ہیں کہ صرف اس آیت سے اس سفر کے معجزہ ہونے کو صراحتا ثابت نہیں کر سکتے بلکہ اس سلسلے میں وارد ہونے والی روایات اور شأن نزول کے ضمیمے کے بعد اسے پیغمبر اکرمؐ کے معجزات میں شمار کیا جا سکتا ہے۔[8]

معراج کے جسمانی ہونے پر آیت کی دلالت

مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں معراج کے جسمانی یا معنوی ہونے کے بارے میں بحث کی ہیں۔ علامہ طباطبایی (متوفی: 1360ہجری شمسی) کے مطابق اکثر مفسرین معراج کے جسمانی ہونے کے معتقد ہیں؛[9] البتہ خود علامہ طباطبائی اس بات کے معتقد ہیں کہ مذکورہ آیت اور سورہ نجم کی بعض آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کا مسجد الحرام سے مسجد الاقصی تک کا سفر جسمانی تھا لیکن مسجد الاقصی سے آسمان کی طرف کا سفر روحانی اور معنوی تھا۔[10] آیت‌ اللہ مکارم شیرازی کے مطابق "بِعَبْدہ" کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے معراج کا سفر جسمانی تھا کیونکہ یہ لفظ اس بات کے اوپر دلالت کرتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کا جسم اس سفر میں ساتھ تھا۔[11] اسی طرح آیت اللہ جعفر سبحانی کہتے ہیں کہ اگر یہ سفر معنوی اور روحانی ہوتا تو ضروری تھا کہ لفظ "بِعَبْدہ" کی بجائے "بِروحہ" سے تعبیر کیا جاتا۔[12]

معراج کا مقصد

مفسرین کے مطابق "لنریہ من آیاتنا" معراج کے مقصد کی طرف اشارہ ہے۔[13] یعنی معراج کا ہدف اور مقصد پیغمبر اکرمؐ کے لئے خدا کی عضمتوں کا مشاہدہ کرنا تھا تاکہ آپ کی روح بھی عظمت کی بلندیوں تک پہنچ سکے اور انسانوں کی ہدایت کے لئے زیادہ سے زیادہ تیار ہو۔[14] طَبْرِسی کتاب مجمع البیان میں پیغمبر اکرمؐ کا مکہ سے بیت‌ المقدس اور وہاں سے آسمانوں کی طرف عروج نیز انبیاء الہی کا دیدار اس سفر کے اہداف و مقاصد میں شمار کرتے ہیں۔[15] اسی طرح اس آیت میں لفظ "مِنْ" سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس سفر میں پیغمبر اکرمؐ کو خدا کی عظمتوں میں سے بعض کا مشاہدہ کرایا گیا تھا نہ تمام عضمتوں کا۔[16]

حوالہ جات

  1. مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1385ہجری شمسی، ج1، ص179.
  2. طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص215.
  3. طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص215.
  4. برای نمونہ نگاہ کنید بہ طباطبایی، المیزان، اسماعیلیان، ج13، ص7-35.
  5. سبحانی، منشور جاوید، 1390ہجری شمسی، ج7، ص217-216.
  6. سبحانی، منشور جاوید، 1390ہجری شمسی، ج7، ص216.
  7. مطہری، مجموعہ آثار استاد شہید مطہری، 1384ہجری شمسی، ج26، ص200.
  8. مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج8، ص343- 344.
  9. طباطبایی، المیزان، اسماعیلیان. ج13، ص32.
  10. طباطبایی، المیزان، اسماعیلیان. ج13، ص32.
  11. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج12، ص9.
  12. سبحانی، فروغ ابدیت، 1385ہجری شمسی، ص370.
  13. طباطبایی، المیزان، اسماعیلیان، ج13، ص7.
  14. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج12، ص9-11.
  15. طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص218.
  16. طباطبایی، المیزان، اسماعیلیان، ج13، ص7؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج12، ص9-11.

مآخذ

  • سبحانی، جعفر، فروغ ابدیت، قم، بوستان کتاب، 1385ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1390ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، الميزان في تفسير القرآن، اسماعیلیان، بی‌تا.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی، 1415ھ۔
  • مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، قم، مؤسّسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، چاپ دوم، 1385ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار استاد شہید مطہری، تہران انتشارات صدرا، چاپ ہفتم، 1384ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ نہم، 1386ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، ترجمہ قرآن کریم، قم، انتشارات دارالقرآن الکریم، چاپ دوم، 1373ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونہ‌، دارالکتب الاسلامیہ، تہران، چاپ: سی‌ودوم، 1374ہجری شمسی۔