آیت میثاق

ویکی شیعہ سے
آیہ میثاق
آیت کی خصوصیات
آیت کا ناممیثاق، ذَرّ
سورہسورہ اعراف
آیت نمبر172-174
پارہ9
محل نزولمکہ
موضوعبعض اصول دین
مضمونخدا اور انسان کے درمیان عہد و پیمان


آیت میثاق یا آیت ذر(سورہ اعراف: ۱۷۲) میں اللہ اور انسان کے درمیان ایک عہد کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے جو اللہ تعالی کی ربوبیت و توحید کے سلسلہ میں ہے۔ اس عہد کو عَہد اَلَست بھی کہا جاتا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ عہد عالم ذَر میں لیا گیا۔ اس عہد کا مقصد یہ ہے کہ بندگان خدا پر اتمام حجت کی جائے تاکہ قیامت کے روز وہ اپنی غفلت اور گذشتگان کی پیروی کو شرک کا بہانہ نہ بنا سکیں۔ آیہ میثاق کو آیات متشابہ میں شمار کیا گیا ہے۔

آیہ میثاق کی تفسیر کے بارے میں دو طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ کچھ مفسرین کے مطابق یہ ایک خارجی حقیقت ہے اور یہ عہد ایک دوسرے عالم میں انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے ہوا تھا اور اس میں تمام انسانوں سے اللہ کی ربوبیت کا اقرار لے لیا گیا تھا۔ اس کے مقابل میں کچھ دوسرے مفسرین کا نظریہ ہے کہ یہ ایک تمثیل اور ایک مجازی بیان ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کی عقل، اللہ کی ربوبیت کی گواہی دیتی ہے ان کا عقیدہ ہے کہ نفسانی خواہشات سے پاک انسانی فطرت، اللہ کی وحدانیت و ربوبیت کی تصدیق کرتی ہے۔

تفسیر روائی میں تقریبا چالیس احادیث آیہ میثاق کے مفہوم کے بارے میں نقل ہوئی ہیں۔ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد الست میں انسان کے تمام اعمال متعین ہوئے ہیں۔

آیت اور ترجمہ

وَ إِذْ أَخَذَ رَبُّک مِن بَنی ءَادَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّیتهَُمْ وَ أَشهَْدَهُمْ عَلی أَنفُسِهِمْ أَ لَسْتُ بِرَبِّکمْ قَالُواْ بَلی شَهِدْنَا أَن تَقُولُواْ یوْمَ الْقِیامَةِ إِنَّا کنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِین * اوْ تَقُولُوا إِنَّما أَشْرَک آباؤُنا مِنْ قَبْلُ وَ کنَّا ذُرِّیةً مِنْ بَعْدِهِمْ أَ فَتُهْلِکنا بِما فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ * وَ کذلِک نُفَصِّلُ الْآیاتِ وَ لَعَلَّهُمْ یرْجِعُونَ


اور جب تمہارے پروردگار نے فرزندان آدمؑ کی پشتوں سے انکی ذرّیت کو لے کر انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناکر سوال کیا کہ کیا میں تمہارا خدا نہیں ہوں تو سب نے کہا بیشک ہم اس کے گواہ ہیں -یہ عہد اس لئے لیا کہ روز قیامت یہ نہ کہہ سکو کہ ہم اس عہد سے غافل تھے* یا یہ کہہ دو کہ ہم سے پہلے ہمارے بزرگوں نے شرک کیا تھا اور ہم صرف ان کی اولاد میں تھے تو کیا اہل باطل کے اعمال کی بنا پر ہم کو ہلاک کردے گا* اور اسی طرح ہم آیتوں کو مفّصل بیان کرتے ہیں اور شاید یہ لوگ پلٹ کرآجائیں۔



(سورہ اعراف،172-174)


تعارف

سورہ اعراف کی 172-174 ویں آیت کو آیہ میثاق، آیہ اخذ میثاق[1] اور آیہ ذر[2] کہا گیا ہے۔ کیونکہ یہ آیت انسانوں سے لئے گئے عہد و میثاق کی طرف اشارہ کرتی ہے،[3] جو کہ ربوبیت[4] یا خدا کی وحدانیت،[5] کے بارے میں ہے۔ اس آیت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ سے تقاضا کیا گیا ہے کہ انسانوں کو خدا اور بندوں کے درمیان ہونے والے عہد و میثاق کو یاد دلائیں کہ وہ صرف اللہ کو ہی اپنا پروردگار مانیں گے اور قیامت میں ان کا کوئی عذر قبول نہ ہوگا۔ شاید یہ عہد و پیمان ان کی بازگشت کی زمین ہموار کردے۔[6] اس عہد کو عہد الست اور جس عالم میں یہ پیمان باندھا گیا اسے عالم ذر کہتے ہیں۔[7]

علامہ طباطبائی نے کتاب المیزان فی تفسیر القرآن (کتاب) میں آیہ میثاق کے خاص نظم و اسلوب اور اس کے اعلی ترین معانی کے سبب اسے قرآن کی دقیق ترین آیت سمجھا ہے؛[8] اگرچہ کچھ ابہامات جیسے خدا اور انسان کے درمیان عہد کی کیفیت اور اس عہد کے محل و مقام کے ابہامات کی وجہ سے مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔[9] بعض نے آیہ میثاق کو متشابہات قرآن میں شمار کیا ہے۔[10] عالم ذر کی سب سے بڑی بنیاد خود آیہ میثاق ہے،[11] لیکن عالم ذر کے سلسلہ میں پائے جانے والے ابہامات نے اس آیت کو سمجھنا مزید سخت کردیا ہے یہاں تک کہ آیہ میثاق کے سلسلہ میں وارد ہونے والی احادیث کچھ مقامات پر متناقض بھی ہیں۔[12]

آیت میثاق میں واضح طور سے نبوت اور ولایت کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا ہے لیکن کچھ لوگوں کا گمان ہے کہ تفسیری روایات سے استفادہ کرتے ہوئے ان دو مسئلوں کے اقرار کو بھی اس عہد میں سمجھا جاسکتا ہے۔[13]

آیت کا مقصد

سب کے سب بندگان خدا پر حجت تمام کرنا آیت میثاق کا مقصد رہا ہے[14] اور اس آیت نے قیامت میں کسی عذر، بہانہ اور کسی احتجاج کی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔ اس حساب سے مذکورہ آیت کے ہوتے ہوئے غفلت یا گذشتگان کی پیروی جیسے کسی بہانے کو انسان پیش نہیں کرسکتا۔[15] خداوند عالم، قیامت کے دن اسی سب سے پہلے پیمان کی بنیاد پر سوال کرے گا۔[16]

مندرجات

آیت میثاق کی تفسیر خصوصا خدا اور بندوں کے درمیان ہونے والے عہد کے بارے میں مفسرین کے درمیان دو نظریہ پائے جاتے ہیں: کچھ مفسرین نے حدیثی اور قصص نویسی کا رخ اختیار کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ اس پیمان کو حقیقی رنگ دیں، اس وجہ سے ان کا عقیدہ ہے کہ دنیا میں آنے سے پہلے ایک اور عالم میں انسانوں سے اللہ کی ربوبیت کا اقرار لیا گیا ہے[17] اور انھوں نے پہلے انسان سے چھوٹے ذرات کی شکل میں باقی تمام انسانوں کے خارج ہونے اور اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرنے کی بات کہی ہے۔[18] جیساکہ کچھ دوسرے لوگوں نے اسی دنیا کے بعض مقامات جیسے عرفات کے نزدیک[19] یا ہندوستان کی سرزمین[20] کو اس عہد و پیمان کے باندھنے کی جگہ قرار دیا ہے؛ لیکن شیعہ مفسرین اور کچھ معتزلہ نے اس پیمان کے ذکر کو ایک مجازی بیان پر حمل کیا ہے۔[21]

معنوی میثاق کے طور پر اس آیت کی تفسیر کو مفسرین کے بیانات میں مختلف صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ کچھ نے میثاق خداوندی کو ربوبیت الہی پر عقلی کی گواہی کے طور پر مانا ہے، [22] اور کچھ، نفسانی خواہشات سے پاک فطرت کو خدا کی ربوبی وحدانیت کی تصدیق کرنے والی مانتے ہیں؛[23] اس طرح کہ انسان کے وجود میں اللہ کی عطا کردہ فطری صلاحیت اس بات پر قادر ہے کہ تہذیب نفس کے ذریعہ میثاق الہی کو اپنے سامنے حاضر دیکھ سکے۔[24] اسی بنیاد پر مفسرین نے دینی معارف کے فطری ہونے کو اسی آیت سے اخذ کیا ہے اور اسے دشمنوں اور مشرکوں کا جواب مانتے ہیں۔[25] دوسری طرف کچھ اور مفسرین کا ماننا ہے کہ دنیاوی پہلو کے ساتھ والا عالم ملکوت کا انسانی رخ ہی میثاق الہی کا مقام ہے۔[26]

مفسرین کے تیسرے گروہ نے اس میثاق کو تمثیل و حقیقت کا ایک مرکب مانا ہے۔[27] اور شاید عالم ازل میں اس طرح کے پیمان کے سلسلہ میں عرفاء کا نظریہ[28] اسی باب سے ہو۔

تفسیر احادیث

روائی تفسیروں البرہان فی تفسیر القرآن اور تفسیر نور الثقلین میں تقریبا چالیس روایتوں کے اندر آیت میثاق کے موضوع یعنی عالم ذر کا تذکرہ ہے۔[29] کچھ احادیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ عہد الست میں انسان کے تمام اعمال کو معین کردیا گیا ہے؛[30] لیکن اس کے باوجود کچھ مفسرین کا عقیدہ ہے کہ مذکورہ آیت جبر کے مساوی نہیں۔[31]

حوالہ جات

  1. جمعی از محققان، فرہنگ‌نامہ علوم قرآنی، ۱۳۹۴ش، ص۱۸۳.
  2. طیب حسینی، دانشنامہ علوم قرآنی، ۱۳۹۶ش، ص۸۳.
  3. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۷۶۵.
  4. طیب حسینی، دانشنامہ علوم قرآنی، ۱۳۹۶ش، ص۸۳.
  5. جوادی آملی، «بررسی آیہ میثاق»، شمارہ ۵۹، آذر و دی ۱۳۶۵.
  6. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۷۶۵.
  7. قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۲۱۶.
  8. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ھ، ج۸، ص۳۲۰.
  9. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۷۶۵.
  10. آب‌یاری، بررسی تطبیقی آیہ میثاق از نظر استاد شہید مطہری و آیت‌اللہ جوادی آملی، ۱۳۹۴ش، ص۲۴.
  11. مغنیہ، التفسیر الکاشف، ۱۴۲۴ھ، ج۳، ص۴۱۸؛ جعفری، تفسیر کوثر، ۱۳۷۶ش، ج۴، ص۲۶۵.
  12. آب‌یاری، بررسی تطبیقی آیہ میثاق از نظر استاد شہید مطہری و آیت‌اللہ جوادی آملی، ۱۳۹۴ش، ص۲۴.
  13. طیب، اطیب البیان، ۱۳۶۹ش، ج‏۶، ص۲۶؛ بروجردی، تفسير جامع، ۱۳۶۶ش، ج‏۲، ص۴۸۳.
  14. رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، ۱۳۸۷ش، ج۷، ص۲۹۱؛ جوادی آملی، بررسی آیہ میثاق، ۱۳۶۵ش، شمارہ۵۹.
  15. جوادی آملی، بررسی آیہ میثاق، ۱۳۶۵ش، شمارہ ۶۰.
  16. رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، ۱۳۸۷ش، ج۷، ص۲۹۱.
  17. خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ص۱۰۶-۱۰۷.
  18. ابن سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، ۱۴۲۳ھ، ج۲، ص۷۲-۷۳؛ صنعانی، تفسیر عبدالرزاق، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۲۲۶؛ طبرانی، التفسیر الکبیر، ۱۰۰۸ء، ج۳، ص۲۱۳.
  19. طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ھ، ج۹، ص۷۵؛ ابن جوزی، زاد المسیر، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۱۶۷.
  20. طبرانی، التفسیر الکبیر، ۱۰۰۸ء، ج۳، ص۲۱۳، بہ نقل از دیگران.
  21. خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ص۱۰۶-۱۰۷.
  22. زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۱۷۶؛ طبرسی، جوامع الجامع، ۱۴۱۲ھ، ج۱، ص۴۸۲.
  23. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۷، ص۴.
  24. آب‌یاری، «بررسی تطبیقی آیہ میثاق از نظر استاد شہید مطہری و آیت‌اللہ جوادی آملی»، ص۲۴.
  25. آب‌یاری، «بررسی تطبیقی آیہ میثاق از نظر استاد شہید مطہری و آیت‌اللہ جوادی آملی»، ص۵.
  26. سلطان علیشاہ، بیان السعادۃ، ۱۴۰۸ھ، ج۲، ص۲۱۶؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ھ، ج۸، ص۳۲۰؛ حسینی ہمدانی، انوار درخشان در تفسیر قرآن، ۱۴۰۴ھ، ج۷، ص۱۱۳.
  27. مفید، المسائل السرویہ، قم، ص۳۷.
  28. میبدی، کشف الاسرار، ۱۳۷۱ش، ج۳، ص۷۹۳.
  29. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۷، ص۹.
  30. نمونہ کے طور پر دیکھئے: سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ھ، ج۳، ص۱۴۱.
  31. آب‌یاری، «بررسی تطبیقی آیہ میثاق از نظر استاد شہید مطہری و آیت‌اللہ جوادی آملی»، ص۲۵.

مآخذ

  • ابن سلیمان، مقاتل، تفسیر مقاتل بن سلیمان، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۲۳ھ.
  • ابن‌جوزی، عبدالرحمن بن علی، زاد المسیر فی علم التفسیر، بیروت، دارالکتاب العربی، ۱۴۲۲ھ.
  • آب‌یاری، مرضیہ، علی‌اکبر نصیری، «بررسی تطبیقی آیہ میثاق از نظر استاد شہید مطہری و آیت‌اللہ جوادی آملی»، فصلنامہ مطالعات قرآن و حدیث، سال ہشتم، شمارہ دوم، بہار۱۳۹۴ہجری شمسی.
  • بروجردى، محمدابراہيم، تفسير جامع، تہران، كتابخانہ صدر، چاپ ششم، ۱۳۶۶ہجری شمسی.
  • جعفری، یعقوب، تفسیر کوثر، قم، موسسہ انتشارات ہجرت، ۱۳۷۶ہجری شمسی.
  • جمعی از نویسندگان، فرہنگ نامہ علوم قرآن، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، ‫۱۳۹۴ھ.
  • جوادی آملی، عبداللہ، بررسی آیہ میثاق، مجلہ پاسدار اسلام، دورہ ۱۳۶۵، شمارہ ۵۹، مہر و آبان ۱۳۶۵ہجری شمسی.
  • جوادی آملی، عبداللہ، بررسی آیہ میثاق، مجلہ پاسدار اسلام، دورہ ۱۳۶۵، شمارہ ۶۰، مہر و آبان ۱۳۶۵ہجری شمسی.
  • حسینی ہمدانی، محمد، انوار درخشان در تفسیر قرآن، تہران، لطفی، ۱۴۰۴ھ.
  • خرمشاہی، بہاءالدین، دانشنامہ قرآن و قرآن‌پژوہی، تہران، نشر دوستان، ۱۳۷۷ہجری شمسی.
  • رضایی اصفہانی، محمدعلی، تفسیر قرآن مہر، قم، پژوہش‌ہای تفسیر و علوم قرآن، ۱۳۸۷ہجری شمسی.
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل و عیون الأقاویل فی وجوہ التأویل، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ سوم، ۱۴۰۷ھ.
  • سلطان علیشاہ، محمد بن حیدر، بیان السعادۃ فی مقامات العبادۃ، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۸ھ.
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، قم، کتابخانہ عمومی آیت‌اللہ العظمی مرعشی نجفی(رہ)، ۱۴۰۴ھ.
  • صنعانی، عبدالرزاق بن ہمام، تفسیر القرآن العزیز المسمّی تفسیر عبدالرزاق، بیروت، دارالمعرفۃ، ۱۴۱۱ھ.
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، ۱۳۹۰ھ.
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، التفسیر الکبیر: تفسیر القرآن العظیم، اربد اردن، دارالکتاب الثقافی، ۲۰۰۸ء۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر جوامع الجامع، قم، حوزہ علمیہ قم، مرکز مدیریت، ۱۴۱۲ھ.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ہجری شمسی.
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفۃ، ۱۴۱۲ھ.
  • طیب، عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات اسلام، چاپ دوم، ۱۳۶۹ہجری شمسی.
  • طیب حسینی، سیدمحمود و دیگران، دانشنامہ علوم قرآنی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۳۹۶ہجری شمسی.
  • قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درس‌ہایی از قرآن، ۱۳۸۸ہجری شمسی.
  • مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، قم، دارالکتاب الإسلامی، ۱۴۲۴ھ.
  • مفید، محمد بن محمد، المسائل السرویہ، تحقیق صائب عبدالحمید، قم، المؤتمر العالمی لالفیہ الشیخ المفید، بے تا.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ دہم، ۱۳۷۱ہجری شمسی.
  • میبدی، احمد بن محمد، کشف الاسرار و عدۃ الابرار، تہران، امیرکبیر، چاپ پنجم، ۱۳۷۱ہجری شمسی.