تعصب

ویکی شیعہ سے
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

تَعَصُّب اخلاقی برائیوں میں سے ایک ہے، جس کا مطلب کسی شخص، گروہ یا کسی چیز کی غیر معقول طرفداری کرنا ہے۔ تعصب کو دو قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے، مثبت تعصب اور منفی تعصب۔ عام طور پر اس لفظ کو اس کی افراطی اور قابل مذمت معنی میں استعمال کرتے ہیں اور اس کی قابل قبول شکل کے لئے غیرت جیسے دوسرے نام دیے جاتے ہیں۔

تعصب کچھ عوامل کی موجودگی کی وجہ سے جڑ پکڑتا ہے جیسے غرور، دولت، جہالت، نادانی، شخصیت پرستی اور انصاف کی رعایت نہ کرنا۔ کفر، گناہ، سنگدلی، حسد، حق سے انکار، تشدد اور جہنم میں جانے کو مذہبی کتابوں میں تعصب کے اثرات اور نتائج میں سے شمار کیا ہے۔

مفہوم شناسی

تعصب اخلاقی برائیوں میں سے ایک ہے، جس کا مطلب کسی شخص، گروہ یا کسی چیز کی نسبت حد سے زیادہ دشمنی کرنا یا اس کی طرفداری کرنا ہے۔[1] تعصب کو حمیت، تنگ نظری، سختی اور جانبداری جیسے الفاظ سے معنی بھی کیا ہے۔[2] اگرچہ تعصب ہر قسم کی وابستگی اور تعلق کو شامل ہے؛ لیکن یہ عام طور پر اپنے قابل مذمت اور انتہاپسند معنی میں استعمال ہوتا ہے اور ہر قسم کی وابستگی اور کسی شخص، عقیدہ یا کسی چیز کی غیر منطقی دفاع کو کہا جاتا ہے۔[3]

تعصب کو برے اخلاق میں شامل کیا گیا ہے جو بہت سی دوسری اخلاقی خرابیوں کا پیش خیمہ ہے۔ یہ جسمانی صفت، فطری طور پر بری ہے؛ اگرچہ تعصب کسی حق یا مذہبی معاملے کا دفاع کرنے کی صورت میں ہو لیکن اس قسم کے دفاع کا مطلب اپنے آپ کو یا اپنے رشتہ داروں اور اپنے مذہب والوں کو ترجیح دینا ہے۔[4]

تعصب کو قرآن میں واضح طور پر ایک بار لفظ "حمیت" کی شکل میں استعمال کیا گیا ہے اور اس سے مراد مسلمانوں کے خلاف مشرکین کا جاہلانہ تعصب ہے۔[5] اور کئی بار لفظ "عُصْبَہ" کی صورت میں[6] آیا ہے جس کے معنی ایک دوسرے کے خلاف تعصب کرنا ہے۔.[7] بغیر صراحت کے بھی تعصب قرآن میں ذکر ہوا ہے جس میں اپنے آبا و اجداد کے عقائد کو انبیاء پر فوقیت دینے کو کافروں اور سابقہ امتوں کے مختلف قصوں اور نقل قول میں ذکر کیا ہے۔[8]

متعصب کا لفظ متعدد روایات میں بھی استعمال ہوا ہے اور احادیث کی بعض کتابوں میں باب العصبیۃ کے نام سے ایک باب تدوین ہوا ہے جس میں تعصب کی تاریخ، جڑیں اور اثرات پر احادیث درج ہیں۔ بھی شامل کی گئی ہیں۔[9] حدیث جنود عقل و جہل میں تعصب کو جہل کے لشکر میں شمار کیا ہے اور انصاف کا متضاد قرار دیا ہ۔[10]

اقسام

تعصب کو دو اچھے اور برے تعصب میں تقسیم کیا گیا ہے؛ عام طور پر اس لفظ کو اس کی افراطی اور قابل مذمت معنی میں استعمال کرتے ہیں اور اس کی قابل قبول شکل کے لئے غیرت جیسے دوسرے نام دیے جاتے ہیں۔[11]

  • مثبت تعصب: اس قسم کی تعصب وہ ہے جہاں کوئی شخص کسی چیز کی صحیح اور منصفانہ حمایت کرتا ہے اور اسے غیرت بھی کہا جاتا ہے۔[12] امام علیؑ خطبہ قاصعہ میں کہتے ہیں، اس قسم کی تعصب جو کہ اچھی خصوصیات کا باعث بنتا ہے جن میں پڑوسیوں کے حقوق کی حفاظت کرنا، وعدوں کی پاسداری کرنا، نیکی میں اطاعت کرنا، تکبر سے بچنا، سخاوت کرنا اور ظلم سے اجتناب کرنا شامل ہیں۔[13] علامہ طباطبایی نے بھی اس اصل کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ خاندان، وطن وغیرہ کے دفاع جیسے معاملات میں تعصب انسانی فطرت میں پیوست ہے، اور یہ کہ اسلام دین فطرت ہے، کہا ہے کہ اسلام نے تعصب کے اصل کو برقرار رکھا ہے لیکن اس کی تفصیلات میں کمی بیشی کرتے ہوئے اسے درست سمت دی ہے۔[14]
  • منفی تعصب: خاندان، قبیلہ، نسل اور عقائد کی ناحق حمایت جو غیر منصفانہ ہو اور شرعی حرام کے ارتکاب کا باعث بنتی ہو، اسے نامعقول تعصب کہا جاتا ہے۔[15] امام سجادؑ کے مطابق اس تعصب کا احساس اس وقت ہوتا جب وہ اپنے قبیلے کے بدکرداروں کو دوسرے قبیلوں کے نیک لوگوں سے بہتر سمجھتے ہیں اور اسی تعصب کی وجہ سے انہیں اچھوں پر ترجیح دیتے ہیں۔[16]

تعصب کی جڑیں

تعصب انسانی وجود میں بعض اسباب و عوامل کی وجہ سے جڑ پکڑتا ہے جن کا ذکر آیات و روایات میں کیا گیا ہے۔ تکبر، دولت، جہالت، نادانی، شخصیت پرستی اور دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک کے فقدان کو تعصب کے عوامل میں شمار کیا گیا ہے۔

تکبر اور خود پسندی: سورہ صافات کی 35 اور 36ویں آیت کے مطابق مشرکین، رسول اللہؐ کی توحید کی دعوت کے خلاف تکبر کرتے تھے اور اس بات پر اصرار کرتے تھے جو ان کے آبا و اجداد سے ان کو ملی تھی۔ امام علیؑ نے بھی شیطان کا حضرت آدم کو سجدہ نہ کرنے اور اللہ کی بارگاہ سے دور ہونے کی دلیل تعصب اور شیطان کا خود کو حضرت آدم سے برتر جاننے کو قرار دیا ہے۔[17][یادداشت 1]

  • توانگری: دولت اور جائیداد بعض اوقات انسانوں کے وجود میں تعصب اور طرفداری وجود میں آنے کی بنیادوں میں سے ایک ہوگی۔ [18] روایات میں ماضی کی خوشحال قوموں کی دولت کو انبیاء کے خلاف تعصب اور ہٹ دھرمی کا سبب قرار دیا گیا ہے۔[19]
  • جہالت اور نادانی: مفسرین نے سورہ بقرہ کی آیت 113 کا حوالہ دیتے ہوئے جہالت کو تعصب کی جڑ قرار دیا ہے؛ کیونکہ جاہل لوگ ہمیشہ اپنے ماحول میں قید رہتے ہیں اور کسی اور چیز کو قبول نہیں کرتے، اور وہ اس رسم و رواج اور آئین کو مضبوطی سے پکڑے رہتے ہیں جس سے وہ بچپن سے واقف ہیں، خواہ وہ توہم پرستی اور بے بنیاد ہی کیوں نہ ہو، اور وہ کسی اور چیز کا انکار کرتے ہیں۔[20] سورہ فتح آیت نمبر 26 میں تعصب کو جاہلیت میں شامل کیا گیا ہے جو کہ تعصب اور جہالت کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ (إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِہِمُ الْحَمِيَّۃَ حَمِيَّۃَ الْجَاہِلِيَّۃِ)

قومی تعصبات کی روک تھام میں نبی اکرمؐ کا طریقہ:
پیغمبر اکرمؐ نے اس مسئلے کے بارے میں حساسیت کا مظاہرہ کیا اور لوگوں میں نسلی تعصب کا ذرہ برابر بھی اظہار نہیں ہونے دیا۔ سنن ابی داؤد میں لکھتے ہیں کہ جنگ احد میں ایک ایرانی غلام مسلمانوں میں شامل تھا۔ اپنے ایک حملے میں اس نے مخالف کو نشانہ بنایا اور پھر افتخار کے طور پر کہا «أنا الغلامُ الفارسى» کہ میں ایک ایرانی نوجوان ہوں۔ جب یہ بات کہی تو رسول اللہؐ آگے آئے اور فرمایا: دوبارہ ایسا مت کہو، بلکہ یوں کہو:"انا الغلام الانصاری"؛ میں انصار اسلام میں سے ایک جوان ہوں، کیوں؟ کیونکہ نبی اکرمؐ کو معلوم تھا کہ جب وہ انا الغلام الفارسی کہیں گے تو دوسرا انا الغلام العربی کہے گا۔

*منبع: مطہری، اسلام و مسئلہ ملیت، ص42.

  • شخصیت پرستی: بعض اوقات انسان کے آباء و اجداد، مذہبی رہنما، اساتذہ اور قوم کے بزرگان ایسا تقدس ایجاد کرتے ہیں کہ بغیر سوچے سمجھے ان کی بات مان لی جاتی ہے۔ قرآن کی متعدد آیات میں اس مشکل کو تعصب کی بنیادوں میں سے ایک کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔[21] امام علی علیہ السلام نے بھی اپنے خطبہ قاصعہ میں مذہبی رہنماؤں کی بلاوجہ اور اندھی تقلید سے گریز کرنے کا کہا ہے اور انہیں تعصب کی بنیاد قرار دیا ہے۔[22]
  • دوستی اور دشمنی میں افراط و تفریط: قرآن مجید کی جو آیات اہل ایمان کو رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ عدل و انصاف کی تلقین کرتی ہیںد[23] ان سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ دوستی اور دشمنی میں افراط و تفریط تعصب کی جڑوں میں سے ایک جڑ بن سکتی ہے؛ جیسا کہ ایک روایت میں [[رسول اللہؐ نے فرمایا: «حُبُّكَ للشَّيْء يُعْمي و يُصِمُّ» کسی چیز سے تمہاری محبت تمہیں اندھا اور بہرا بناتی ہے۔[24]

تعصب کے آثار اور نتائج

تعصب کے لئے دینی متون میں کچھ آثار اور نتائج ذکر ہوئے ہیں جن میں بغاوت اور کفر،[25] گناہ،[26] تفرقہ،[27] سنگدلی،[28] حسد، [29] عدالت اور انصاف سے روگردانی،[30] حق کی مخالفت اور ایمان لانے سے انکار،[31] عصر جاہلیت کی طرف واپسی،[32] مخالفین پر تشدد،[33] اجارہ داری،[34] بغض و کینہ،[35] جہنم میں داخل ہونا،[36] مذہبی جنگیں،[37] علم کی بےحرمتی[38] اور تاریخی حقائق کا انکار[39] شامل ہیں۔

حوالہ جات

  1. انوری، فرہنگ بزرگ سخن، 1381ش، ذیل واژہ تعصب.
  2. معین، فرہنگ فارسی، 1371ش، ذیل واژہ تعصب؛ دہخدا، لغت نامہ، 1377ش، ذیل واژہ تعصب.
  3. ابن منظور، لسان العرب، 1414ق، ذیل واژہ عصب.
  4. امام خمینی، شرح چہل حدیث، 1380ش، ص145-146.
  5. سورہ فتح، آیہ 26.
  6. سورہ یوسف، آیات 7، 14؛ سورہ نور، آیہ 11.
  7. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج5، ص324.
  8. سورہ بقرہ، آیہ170؛ سورہ مائدہ، آیہ 104؛ سورہ اعراف، آیات 27، 70؛ سورہ یونس، آیہ78؛ سورہ شعراء، آیہ74؛ سورہ لقمان، آیہ21.
  9. کلینی، الکافی، 1407، ج2، ص370؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج70، ص281.
  10. کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص21.
  11. نراقی، جامع السعادات، بیروت، ج1، ص402؛ امام خمینی، شرح چہل حدیث، 1380ش، ص145-146.
  12. نراقی، جامع السعادات، بیروت، ج1، ص402؛ طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج4، ص420.
  13. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 192، ص295.
  14. طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج4، ص420.
  15. نراقی، جامع السعادات، بیروت، ج1، ص402؛ ابن منظور، لسان العرب، 1414ق، ذیل واژہ عصب.
  16. کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص308.
  17. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 192، ص295.
  18. سورہ زخرف، آیہ 23.
  19. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 192، ص295.
  20. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج1، ص359؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج1، ص407.
  21. سورہ بقرہ، آیہ170؛ سورہ مائدہ، آیہ 104؛ سورہ انبیاء، آیہ 53؛ امام خمینی، شرح چہل حدیث، 1380ش، ص152.
  22. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 192، ص289.
  23. سورہ نساء، آیہ 135، سورہ مائدہ، آیہ 8.
  24. ابن ابی جمہور، عوالي اللئالي، 1403ق، ج1، ص124.
  25. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج6، ص753.
  26. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج2، ص535.
  27. طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج1، ص314.
  28. سورہ بقرہ، آیہ 7؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج8، ص772.
  29. طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج11، ص89.
  30. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، ص190.
  31. سورہ ابراہیم، آیہ10؛ کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص307.
  32. کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص308.
  33. سورہ عنکبوت، آیہ 68؛ سورہ صافات، آیہ97.
  34. سورہ بقرہ، آیہ111.
  35. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 192، ص289.
  36. کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص308.
  37. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج2، ص641.
  38. امام خمینی، شرح چہل حدیث، 1380ش، ص152.
  39. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج1، ص476.

نوٹ

  1. فافتَخَرَ عَلى آدَمَ بِخَلقِہِ ، و تَعَصَّبَ عَلَيہِ لأِصلِہِ ، فعَدُوُّ اللّہ ِ إمامُ المُتَعَصِّبينَ ، و سَلَفُ المُستَكبِرينَ ، الّذي وَضَعَ أساسَ العَصَبِيَّۃِ ، و نازَعَ اللّہ َ رِداءَ الجَـبريَّـۃِ ، و ادَّرَعَ لِباسَ التَّعَزُّزِ ، و خَلَعَ قِناعَ التَّذَلُّلِ. ترجمہ: پس اس نے اپنی تخلیق [آگ سے خلق ہونا] کو سبب قرار دے کر حضرت آدم پر فخر کیا اور اپنی اصلیت پر تعصب کیا۔ اور یہ خدا کا دشمن متعصب لوگوں کا سردار اور متکبر اور خود پسند لوگوں کے خاندان کا سردار ہے اور اس نے تعصب کی بنیاد ڈالی اور وہ طاقت اور غرور کی چادر اوڑھ کر خدا سے لڑنے کے لئے کھڑا ہوا اور اس نے عزت اور بزرگی [جو خدا سے مخصوص ہے] کا لباس پہنا اور عاجزی کا نقاب اتار دیا۔

مآخذ

  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت، دار الفکر، 1414ھ۔
  • انوری، حسن، فرہنگ بزرگ سخن، تہران، انتشارات سخن، 1381ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، روح اللہ، شرح چہل حدیث، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1380ہجری شمسی۔
  • دہخدا، علی اکبر، لغت نامہ، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، 1377ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات‏، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، 1372ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • نراقی، مہدی، جامع السعادات، مصحح محمد کلانتر، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، بی تا.
  • نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، ہجرت، 1414ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار إحياء التراث العربی، 1403ھ۔
  • معین، محمد، فرہنگ فارسی، تہران، امیرکبیر، ‍1371ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1371ہجری شمسی۔