آیت سقایۃ الحاج

ویکی شیعہ سے
آیت سقایۃ الحاج
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیہ سقایۃ الحاج
سورہتوبہ
آیت نمبر19
پارہ10۰
محل نزولمدینہ
موضوععقائد
مضمونخدا کی راہ میں جہاد کی فضیلت


آیت سقایۃ الحاج، سورہ توبہ کی 19ویں آیت ہے جس میں خدا اور روز قیامت پر ایمان لانے اور خدا کی راہ میں جہاد کرنے کو حاجیوں کو سیراب کرنے اور مسجد الحرام کی کلید داری پر فضلیت دی گئی ہے۔

اس آیت کے شان نزول میں کہا گیا ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب عباس بن عبد المطلب نے زائرین خانہ کعبہ کی ضیافت کے منصب اور شیبہ بن عثمان نے خانۂ کعبہ کے کلید دار ہونے پر فخر کیا تو امام علیؑ نے خدا اور روز قیامت پر ایمان اور راہ خدا میں جہاد کو اپنے شرف میں قرار دیا جس پر مذکورہ آیت حضرت علیؑ کی بات کی تائید کے طور پر نازل ہوئی۔

بعض اہل تحقیق نے اس آیت کو دوسرے صحابہ پر حضرت علیؑ کی فضیلت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے اور اس سے پیغمبرؐ کے بعد ولایت و خلافت کے سلسلے میں امام علیؑ کی برتری کو ثابت کیا ہے۔ امام علیؑ نے بھی خلیفہ دوم کی طرف سے خلیفہ منتخب کرنے کے لئے بنائی گئی چھ رکنی شوری میں اپنی برتری کے لئے اس آیت کو بطور سند پیش کیا تھا۔

معاویہ کے ساتھ صلح کے موقع پر امام حسنؑ نے بھی اس آیت کو امام علیؑ کی فضیلت کے طور پر پیش کیا ہے۔

متن اور ترجمہ

أَجَعَلْتُمْ سِقایةَ الْحاجِّ وَ عِمارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ کمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَ الْیوْمِ الْآخِرِ وَ جاهَدَ فی سَبیلِ اللَّهِ لا یسْتَوُونَ عِنْدَ اللَّهِ وَ اللَّهُ لا یهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمین﴿۱۹﴾


کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آبادکاری کو اس شخص کے برابر قرار دیا ہے جس نے اللہ اور روز آخرت پر ایمان لایا اور راہ خدا میں جہاد کیا؟ اللہ کے نزدیک یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے اور اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا۔



سورہ توبہ: 19


تعارف

سورہ توبہ کی انیسویں آیت کو آیہ سقایۃ الحاج کہا جاتا ہے۔[1] [یادداشت 1] اس آیت میں حاجیوں کو پانی پلانا، خانۂ کعبہ کی کلید داری اور اس کی حفاظت کو خدا و قیامت پر ایمان لانے اور خدا کی راہ میں جہاد کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے۔[2] اور ان افراد کو جھٹلایا گیا ہے جو حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کی کلید داری کو خدا و قیامت پر ایمان لانے اور راہ خدا میں جہاد سے برتر سمجھتے ہیں۔[3]

ظہور اسلام سے پہلے خانۂ کعبہ کی کلید داری کی طرح سقایۃ الحاج کو بھی ایک اہم منصب سمجھا جاتا تھا۔[4] اور یہ منصب مکہ کے بزرگوں کا اہم کام ہوا کرتا تھا،[5]جس کی ذمہ داری بنی ہاشم کے پاس ہوتی تھی [6] جس کے متولی عباس ابن عبد المطلب ہوا کرتے تھے۔[7] اسلام نے بھی ان دونوں مناصب کی تائید کرتے ہوئے انہیں اسی طرح جاری رکھا۔[8]

شأن نزول

عباس ابن عبد المطلب اور شیبہ ابن عثمان کے ساتھ امام علیؑ کی گفتگو کو آیہ سقایۃ الحاج کے شان نزول کا پیش خیمہ قرار دیا جاتا ہے۔ عباس ابن عبد المطلب سقایۃ الحاج جبکہ شیبہ ابن عثمان یا طلحہ ابن شیبہ خانۂ کعبہ کی کلید داری کے منصب پر فائر تھے اور دونوں اپنے اپنے منصب پر فخر و مباہات کرتے تھے۔ آخر کار انہوں نے حضرت علیؑ کو اپنا حکم بنایا اور ان دو مناصب میں سے افضل منصب کو تعیین کرنے کی درخواست کی۔ امام علیؑ نے ان دونوں مناصب کی فضیلت اور برتری پر خط بطلان کھینچتے ہوئے خدا و قیامت پر ایمان لانے اور راہ خدا میں جہاد کرنے کو برتری کا معیار قرار دیا جو ان دونوں اور اس طرح کے دوسرے افراد کے ایمان لانے کا سبب بنا۔ کچھ مدت کے بعد پیغمبر اکرمؐ اس واقعہ سے مطلع ہوئے اور مذکورہ آیت نازل ہوئی جس میں حضرت علیؑ کی بات کی تائید کی گئی تھی۔[9]

یہ شان نزول کچھ اختلافات کے ساتھ متعدد روایتوں میں بیان کیا گیا ہے۔[10] کچھ افراد نے اسے مشہور قرار دیتے ہوئے[11] یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ آیت امام علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔[12] اور یہ حضرت علیؑ کے خاص فضائل میں سے ہے۔[13] امام حسنؑ، امام صادقؑ،[14] عبد اللہ ابن عباس اور دوسرے افراد[15] سے جو روایتیں نقل ہوئی ہیں، ان میں بھی اس آیت کے شان نزول کو امام علیؑ کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔

بعض افراد کا ماننا ہے کہ آیۂ سقایۃ الحاج میں ایک عمومی اور کلی قاعدہ بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ صرف ایک واقعہ کو بیان کرتی ہے جو عصر رسالت میں پیش آیا ہے اور اس کا خاص شان نزول ہے؛[16] لیکن بعض افراد کا یہ کہنا ہے کہ اگر چہ آیت حضرت علیؑ کی فضیلت میں آئی ہے لیکن اس کا خطاب عام ہے اور اس کے دوسرے مصادیق بھی ہوسکتے ہیں۔[17] شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں [18]اس آیت کے شان نزول کے متعلق کچھ دوسرے احتمالات بھی ذکر کئے گئے ہیں۔[19]

علما کا نظریہ

حضرت علیؑ کے بارے میں اس آیت کے شان نزول کو بہت سے علما اور بزرگوں نے نقل کیا ہے۔[20] شیعہ مفسرین میں فرات ابن ابراہیم کوفی (متوفی 353 ھ)،[21] فضل ابن حسن طبرسی(متوفی 548 ھ)،[22] اور اہل سنت مفسرین میں فخر رازی(متوفی 606 ھ)،[23] حاکم حسکانی(متوفی 490 ھ)،[24] محمد بن جریر بن یزید طبری (متوفی 310 ھ)،[25] احمد بن محمد قُرطُبی(متوفی 761 ھ)،[26] عبدالرحمان سیوطی (متوفی 911 ھ)[27] اور ابن ابی‌ حاتم (متوفی 327 ھ)[28] نے مذکورہ آیت کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ یہ آیت حضرت علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ احقاق الحق میں ۱۵ سے زیادہ اہل سنت مفسرین کی تفاسیر سے اس شان نزول کو بیان کیا گیا ہے اور ان کی روایات کو نقل کیا گیا ہے۔[29] نیز کتاب الغدیر میں علامہ امینی نے ایسے متعدد علمائے اہل سنت کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اس شان نزول کو بیان کیا ہے۔[30]

کتب احادیث میں بھی اسی شان نزول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[31] جیسے صحیح مسلم میں کسی کا نام ذکر کئے بغیر ذکر لفظ’’رجُل‘‘ پر ہی اکتفا کرتے ہوئے اسی شأن نزول کو بیان کیا ہے۔[32] لیکن بہت سے علمائے اہل سنت نے اس روایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان روایات کا ذکر کیا ہے جس میں افراد کے نام بھی آئے ہیں۔[33] اس کے باوجود اہل سنت کے ایک عالم ابن کثیر نے اس آیت کے حضرت علیؑ کی فضیلت میں نازل ہونے سے انکار کیا ہے۔[34] اسی طرح ابن تیمیہ کا ماننا ہے کہ یہ روایت معتبر کتب احادیث میں نہیں آئی ہے۔[35]

شان نزول کا اعتبار

شیعہ علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آیہ سقایۃ الحاج حضرت علیؑ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[36] معاصر محقق سید علی میلانی کے بقول اس آیت کے شان نزول کی سند معتبر اور اس کے مآخذ علم حدیث و تفسیر میں معتبرترین مآخذ شمار کئے جاتے ہیں اور اسے متعدد طرق سے نقل کیا گیا ہے۔[37] بعض مصنفین کا ماننا ہے کہ کتب تفسیر میں مذکورہ شان نزول کو دیکھتے ہوئے اس کے صحیح ہونے میں شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔[38] احقاق الحق کے مصنف نے اس شان نزول کو صحیح گردانتے ہوئے لکھا ہےکہ اس میں کوئی بھی اختلاف نہیں پایا جاتا۔[39]

مومنوں اور کافروں کا تقابل

بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ آیہ سقایۃ الحاج کا تعلق اس وقت سے ہے جب مسلمان مدینہ میں تھے اور عباس ابن عبد المطلب اسلام لا چکے تھے؛اس لئے یہ تقابل مومنین کے دو گروہوں کے درمیان ہوا ہے؛[40] لیکن بعض کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق عباس کے ایمان لانے سے پہلے سے ہے،[41]اس لئے یہ تقابل مومنوں اور کافروں کے درمیان ہے؛[42] جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ عباس ابن عبدالمطلب نے مدینہ ہجرت کی جانب حضرت علیؑ کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے سقایت کے عمل کو اس سے افضل بتایا تھا۔[43] یا جب جنگ بدر میں عباس کو اسیر کر لیا گیا تو انہوں نے مسلمانوں سے کہا: اگر آپ لوگ اسلام لانے میں ہم سے آگے ہیں تو ہماری برتری یہ ہے کہ ہمیں حاجیوں کو پانی پلانے اور خانہ کعبہ کی حفاظت و امارت کا شرف حاصل ہے۔[44] بعض روایات کے مطابق یہ مقابلہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان بھی بتایا گیا ہے،جن کا یہ ماننا تھا کہ سقایت اور کعبہ کی کلید داری خدا پر ایمان اور جہاد سے افضل پہے۔[45]

شیخ طوسی کے بقول اس آیت میں ان کفار کو مخاطب قرار دیا گیا ہے جو حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کی حفاظت و خدمت کو ایمان اور جہاد کے برابر یا اس سے افضل و برتر سمجھتے تھے اور انہیں سمجھایا گیا ہے کہ ان کے یہ اعمال خدا پر ایمان اور راہ خدا میں جہاد کے برابر نہیں ہو سکتے۔[46] اس بنا پر آیہ سقایۃ الحاج ہمیں سمجھاتی ہے کہ ایمان کے بغیر کسی عمل کی کوئی حیثیت نہیں ہے، چاہے وہ عمل اپنے آپ میں نیک ہی کیوں نہ ہو۔[47]

احتجاجات

خلیفہ دوم کے انتقال کے بعد، اگلے خلیفہ کے انتخاب کے لئے چھ افراد پر مشتمل جو شورا بنائی گئی تھی، اس میں حضرت علیؑ نے خلافت کے لئے اپنی لیاقت اور برتری کو ثابت کرنے کے لئے اس آیت کے شان نزول کو دلیل کے طور پر پیش کیا تھا۔[48] نیز ایک موقعہ پر جب آپ سے اپنی برتری کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے اسی آیت کی طرف اشارہ کیا۔[49]

امام حسنؑ نے بھی معاویہ کے ساتھ صلح کے موقع پر ایک تقریر میں اپنے والد کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے اس آیت سے استدلال فرمایا۔[50] اسی طرح مامون عباسی بنی ہاشم کے نام ایک خط میں حضرت علیؑ کی مدح و ثنا کرتے ہوئے، عباس ابن مطلب پر ان کی برتری کی دلیل کے طور پر اس آیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔[51]ایک دوسرے پر فخر و مباہات اور اس آیت کے نازل ہونے کے واقعے کو سید حمیری، الناشی، البشنوی اور دوسرے بہت سے شعرا نے اپنت اشعار اور نظموں میں بیان کیا ہے۔[52]

مکارم شیرازی مفسر شیعه معتقد است با توجه به فضیلت سبقت در ایمان و جهاد امام علی(ع) بر دیگران، اگر خدا بخواهد جانشینی برای پیامبر(ص) انتخاب کند، «افضل» را بر «مفضول» و «فاضل» مقدم می‌کند؛ زیرا خداوند حکیم است و تقدیم «مفضول» و «فاضل» بر «افضل» بر خلاف حکمت است و اگر مسئله خلافت انتخابی هم باشد، عقلا نیز با وجود «افضل» به سراغ «فاضل» یا «مفضول» نمی‌روند۔[53]

حضرت علیؑ کی جانشینی کی دلیل

بعض محقیقن کا ماننا ہے کہ آیہ سقایۃ الحاج حضرت علیؑ کی افضلیت کو بیان کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے۔[54]اور امامؑ کی دوسرے صحابہ پر برتری کو واضح کرتی ہے۔[55] ساتھ ہی یہ آیت پیغمبر اکرمؐ کے بعد امام علیؑ کی ولایت و خلافت کو بھی ثابت کرتی ہے۔[56] یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت علیؑ کی ولایت پر اس آیت کی دلالت بالکل واضح ہے۔[57] کیونکہ سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امام علیؑ ایمان،ہجرت اور جہاد میں تمام اصحاب سے برتر تھے۔[58]

شیعہ مفسر ناصر مکارم شیرازی کا ماننا ہے کہ امام علیؑ کی ایمان اور جہاد میں دوسروں پر برتری کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اگر خدا اپنے پیغمبرؐ کے لئے کسی جانشین کا انتخاب کرے گا تو یقینا "افضل" کو "مفضول" اور "فاضل" پر ترجیح دے گا اور فاضل پر افضل پر ترجیح دینا خلاف حکمت ہے اور مسئلہ خلافت کو انتخابی مسئلہ بھی مان لیا جائے تو "افضل" کے ہوتے ہوئے صاحبان عقل و خرد "مفضول" یا "فاضل" کی طرف نہیں جائیں گے۔

نوٹ

  1. سقایت کا مطلب پانی پینے کی جگہ یا پانی پینے کا برتن ہے۔ (ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ھ، ج۱۴، ص۳۹۲۔) یا وہ پیمانہ اور چیز جس سے کسی کو پانی دیا جاتا ہے؛(مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۷، ص۳۲۳۔) نیز وہ ڈول جس سے پانی کھینچا جاتا ہے یا وہ جگہ جہاں پانی کا کنواں ہو، اسے بھی کہا جاتا ہے؛(طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش،ج۵، ص۲۴۔) لیکن یہاں سقایت اپنے مصدری معنی یا پانی پلانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے؛(طباطبائی، المیزان، ۱۳۹۰ھ، ج۹، ص۲۰۳-۲۰۵۔) اس بنا پر سقایت کا مطلب حاجیوں کو پانی پلانا ہے۔(ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ھ، ج۱۴، ص۳۹۲۔)

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، آیات الولایة فی القرآن، ۱۳۸۳ش، ص۲۲۹۔
  2. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۹، ص۲۰۳-۲۰۵۔
  3. طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲، ج۱۰، ص۶۷؛ قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، ۱۳۸۴ق، ج۸، ص۹۲، مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۷، ص۳۲۳۔
  4. دیکھئے: مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۷، ص۳۲۳۔
  5. عسکری، معالم المدرستین، ۱۴۱۲ھ، ج۱، ص۲۰۱۔
  6. فضل‌ اللہ، تفسیر من وحی القرآن، ۱۴۱۹ھ، ج۱۱، ص۵۷۔
  7. زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹ھ، ج۳،ص۲۶۲؛ ابن عطیہ، المحرر الوجیز، ۱۴۲۲ھ، ج۳، ص۱۷؛ ثعالبی، جواہر الحسان، ۱۴۱۸ھ، ج۳، ص۱۷۰۔
  8. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج۲، ص۶۰؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۳، ص۶۱؛ بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ھ، ج۱، ص۳۶۴۔
  9. فرات کوفی، تفسیر فرات کوفی، ۱۴۱۰ھ، ص۱۶۵-۱۶۶؛ قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، ۱۳۸۴ش، ج۸، ص۹۱؛ حسینی استر آبادی، تأویل الآیات الظاہرة، ۱۴۰۹ھ، ص۲۰۶۔
  10. فضل‌ اللہ، تفسیر من وحی القرآن، ۱۴۱۹ھ، ج۱۱، ص۵۵۔
  11. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۷، ص۳۲۲۔
  12. فرات کوفی، تفسیر فرات کوفی، ۱۴۱۰ھ، ص۱۶۵، ۱۶۹۔
  13. مکارم شیرازی، آیات الولایة فی القرآن، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۹۔
  14. قمی، تفسیر قمی، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۲۸۴؛ حویزی، تفسیر نور الثقلین، ۱۴۱۵ھ، ج۲، ص۱۹۵۔
  15. سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ھ، ج۳، ص۲۲۰۔
  16. مکارم شیرازی، آیات الولایة فی القرآن، ۱۳۸۳ش، ص۲۲۹-۳۲۰۔
  17. فضل الله، تفسیر من وحی القرآن، ۱۴۱۹ھ، ج۱۱، ص۵۵۔
  18. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۷، ص۳۲۱۔
  19. بطور نمونہ دیکھیے: ابن عطیہ، المحرر الوجیز، ۱۴۲۲ھ، ج۳، ص۱۷؛ ثعالبی، جواہر الحسان، ۱۴۱۸ھ، ج۳، ص۱۷۰۔
  20. علامہ امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ھ، ج۲، ص۹۴-۹۶۔
  21. بطور نمونہ دیکھئے: فرات کوفی، تفسیر فرات کوفی، ۱۴۱۰ھ، ص۱۶۶۔
  22. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۵، ص۲۴۔
  23. فخر رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ھ، ج۱۶، ص۱۳۔
  24. حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۳۲۳۔
  25. طبری، جامع البیان، ج۱، ص۶۷-۶۸۔
  26. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۳۸۴ش، ج۸، ص۹۱-۹۲۔
  27. سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ھ، ج۳، ص۲۲۰۔
  28. ابن ابی‌ حاتم، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۹ھ، ج۴، ص۱۰۸۔
  29. شوشتری، احقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۱۴، ص۱۹۴-۱۹۹۔
  30. الغدیر، ج۲، ص: ۹۳-۹۶
  31. بطور مثال دیکھیے: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۸، ص۲۰۴؛ ابن حیون، دعائم الإسلام، ۱۳۸۵ھ، ج۱، ص۱۹؛ شرح الأخبار، ۱۴۰۹ھ، ج۱، ص۳۲۴؛ شیخ طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ھ، ص۵۴۵۔
  32. مسلم، صحیح مسلم، بیروت، ج۳، ص۱۴۹۹۔
  33. بطور مثال دیکھیے: طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ھ، ج۱۰، ص: ۶۸؛ ثعلبی، الکشف و البیان، ۱۴۲۲ھ، ج۵، ص۱۹-۲۱۔
  34. ابن کثیر، البدایة و النهایة، ۱۴۰۷ھ، ج۷، ص۳۵۸۔
  35. ابن تیمیہ، منہاج السنہ، ۱۴۰۶ھ، ج۵، ص۱۸۔
  36. استرآبادی، البراہین القاطعۃ، ۱۳۸۲ش، ج۳، ص۲۶۰؛ مقدس اردبیلی، حدیقۃ الشیعۃ، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۹۴۔
  37. میلانی، شرح منہاج الکرامۃ، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۷۶۔
  38. مظفر، دلائل الصدق، ۱۴۲۲ھ، ج۵، ص۲۶؛ مکارم شیرازی، آیات الولایة فی القرآن، ۱۳۸۳ش، ص۲۳۲۔
  39. شوشتری، إحقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۳، ص۱۲۲۔
  40. طباطبائی، المیزان، ۱۳۹۰ھ، ج۹، ص۲۰۳-۲۰۵۔
  41. مقدس اردبیلی، حدیقۃ الشیعۃ، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۹۵۔
  42. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، ۱۳۸۴ھ، ج۸، ص۹۲۔
  43. حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۳۲۳؛ ابن جوزی، زاد المسیر، ۱۴۲۳ھ، ج۲، ص۲۴۴۔
  44. طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ھ، ج۱۰، ص۶۷؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ھ، ج۳، ص۲۱۹؛ شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۵، ص۱۹۱؛ ابن ابی حاتم، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۹ھ، ج۴، ص۱۰۸۔
  45. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، ۱۳۸۴ھ، ج۸، ص۹۲؛ ابن عطیہ، المحرر الوجیز، ۱۴۲۲ھ، ج۳، ص۱۷۔
  46. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۵، ص۱۹۱۔
  47. جعفری، تفسیر کوثر، قم، ج۴، ص۴۴۷؛ قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۳۹۴۔
  48. شیخ طوسی، الأمالی، ۱۴۱۴ھ، ص۵۵۰؛ دیلمی، إرشاد القلوب، ۱۴۱۲ھ، ج۲، ص۲۶۱؛ طبری، المسترشد، ۱۴۱۵ھ، ص۳۵۲؛ طبرسی، الإحتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۱، ص۱۴۰۔
  49. ابن حیون، دعائم الإسلام، ۱۳۸۵ھ، ج۱، ص۱۶؛ عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ش، ج۲، ص۸۳۔
  50. ہلالی، کتاب سلیم بن قیس، ۱۴۰۵ھ، ج۲، ص۹۶۰؛ شیخ طوسی، الأمالی، ۱۴۱۴ھ، ص۵۶۱-۵۶۳؛ حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۳۳۶۔
  51. علامہ مجلسی، حیات امام رضاؑ، ۱۳۸۰ش، ص۲۰۲-۲۰۵۔
  52. علامہ امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ھ، ج۲، ص۹۶۔
  53. مکارم شیرازی، آیات الولایة فی القرآن، ۱۳۸۳ش، ص۲۳۴۔
  54. علامہ حلی، منہاج الکرامۃ، ۱۳۷۹ش، ص۸۵،؛ مصنفین کی جماعت، فی رحاب أہل البیت(ع)، ۱۴۲۶ش، ج۲۲، ص۱۸۔
  55. میلانی، شرح منہاج الکرامۃ، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۷۶۔
  56. شوشتری، إحقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۳، ص۱۲۸؛ مقدس اردبیلی، حدیقۃ الشیعۃ، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۹۵؛ میلانی، شرح منہاج الکرامۃ، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۷۶؛ مکارم شیرازی، آیات الولایة فی القرآن، ۱۳۸۳ش، ص۲۲۹۔
  57. سید بن طاووس، الطرائف، ۱۴۰۰ق، ج۱، ص۵۱؛ میلانی، شرح منہاج الکرامۃ، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۷۳۔
  58. مظفر، دلائل الصدق، ۱۴۲۲ھ، ج۵، ص۲۷؛ علامہ مجلسی، حق الیقین، تہران، ص۸۴۔

مآخذ

  • ابن ابی‌ حاتم، عبدالرحمن بن محمد، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق اسعد محمد الطیب، عربستان، مکتبۃ نزار مصطفی الباز، چاپ سوم، ۱۴۱۹ھ۔
  • ابن تیمیہ حرانی، احمد بن عبدالحلیم، منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ القدریۃ، تحقیق محمد رشاد سالم، جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ، ۱۴۰۶ھ۔
  • ابن حیون، نعمان بن محمد، دعائم الإسلام و ذکر الحلال و الحرام و القضایا و الأحکام، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع)، چاپ دوم، ۱۳۸۵ھ۔
  • ابن حیون، نعمان بن محمد، شرح الأخبار فی فضائل الأئمۃ الأطہار علیہم السلام، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۰۹ھ۔
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۷ھ۔
  • ابن‌ جوزی، عبدالرحمن بن علی، زاد المسیر فی علم التفسیر، بیروت، دارالکتاب العربی، ۱۴۲۲ھ۔
  • ابن‌ عطیہ، عبدالحق بن غالب، المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۲۲ھ۔
  • ابن‌ کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دارالکتب العلمیۃ،ہ ۱۴۱۹ھ۔
  • استرآبادی، محمد جعفر، البراہین القاطعۃ فی شرح تجرید العقائد الساطعۃ، قم، مکتب الأعلام الإسلامی، ۱۳۸۲ش۔
  • بحرانی، ہاشم بن سلیمان، البرہان فی تفسیر القرآن، تحقیق قسم الدراسات الاسلامی موسسۃ البعثۃ، تہران، بنیاد بعثت، ۱۴۱۶ھ۔
  • ثعالبی، عبدالرحمن بن محمد، تفسیر الثعالبی المسمی بالجواہر الحسان فی تفسیر القرآن، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۱۸ھ۔
  • ثعلبی، احمد بن محمد، الکشف و البیان المعروف تفسیر الثعلبی، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۲۲ھ۔
  • جعفری یعقوب، تفسیر کوثر، قم، ہجرت، بی‌تا۔
  • اہل قلم کی جماعت، فی رحاب أل البیت(ع)، قم، المجمع العالمی لاہل البیت(ع)، چاپ دوم، ۱۴۲۶ھ۔
  • حسکانی، عبیداللہ بن عبداللہ، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق محمدباقر محمودی، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۴۱۱ھ۔
  • حسینی استرآبادی سید شرف‎ الدین علی، تأویل الآیات الظاہرۃ، تحقیق حسین استاد ولی، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۰۹ھ۔
  • حویزی، عبد علی بن جمعہ، تفسیر نور الثقلین، قم، اسماعیلیان، چاپ چہارم، ۱۴۱۵ھ۔
  • دیلمی، حسن بن محمد، إرشاد القلوب إلی الصواب، قم، الشریف الرضی، ۱۴۱۲ھ۔
  • زرکلی، خیرالدین، الاعلام، بیروت،‌ دارالعلم للملایین، چاپ ہشتم، ۱۹۸۹ء۔
  • سید بن طاووس، الطرائف فی معرفۃ مذاہب الطوائف فی معرفۃ مذاہب الطوائف، قم، خیام، ۱۴۰۰ھ۔
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، قم، کتابخانہ عمومی آیت‌ اللہ العظمی مرعشی نجفی(رہ)، ۱۴۰۴ھ۔
  • شوشتری، قاضی نوراللہ، إحقاق الحق و إزہاق الباطل، قم، مکتبۃ آیۃ‌اللہ المرعشی النجفی، ۱۴۰۹ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الأمالی، قم، دارالثقافۃ، ۱۴۱۴ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، ‌دار إحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • طباطبائی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، ۱۳۹۰ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، الإحتجاج، مشہد، نشر المرتضی، ۱۴۰۳ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔
  • طبری، محمد بن جریر، المسترشد فی إمامۃ أمیرالمؤمنین(ع)، قم، مؤسسۃ الواصف، ۱۴۱۵ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، ۱۳۸۷ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفۃ، ۱۴۱۲ق۔
  • عسکری، سید مرتضی، معالم المدرستین، تہران، مؤسسۃ البعثۃ، چاپ چہارم، ۱۴۱۲ھ۔
  • علامہ امینی، عبدالحسین، الغدیر، قم، مرکز الغدیر، ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، منہاج الکرامۃ فی معرفۃ الإمامۃ، مشہد، مؤسسۃ عاشورا، ۱۳۷۹ش۔
  • علامہ مجلسی، محمد باقر، زندگانی حضرت علی بن موسی الرضا(ع)، ترجمہ موسی خسروی، تہران، انتشارات اسلامیہ، ۱۳۸۰ش۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، کتاب التفسیر، تحقیق ہاشم رسولی، تہران، مکتبہ العلمیہ الاسلامیہ، ۱۳۸۰ش۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)،‌ بیروت، ‌دار إحیاء التراث العربی، چاپ سوم، ۱۴۲۰ھ۔
  • فرات کوفی، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات الکوفی، تحقیق محمد کاظم محمودی، تہران، سازمان چاپ و انتشارات وزارت ارشاد اسلامی، ۱۴۱۰ھ۔
  • فضل‌ اللہ سید محمد حسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، ‌دار الملاک للطباعۃ و النشر، چاپ دوم، ۱۴۱۹ھ۔
  • قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درس‌ہایی از قرآن، ۱۳۸۸ش۔
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لأحکام القرآن، تحقیق أحمد البردونی و إبراہیم أطفیش، قاہرہ، دارالکتب المصریۃ، چاپ دوم، ۱۳۸۴ھ۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دارالکتاب، چاپ سوم، ۱۳۶۳ش۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، تحقیق محمد فؤاد عبد الباقی، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • مظفر، محمد حسین، دلائل الصدق، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع)، ۱۴۲۲ھ۔
  • مقدس اردبیلی، احمد بن محمد، حدیقۃ الشیعۃ، قم، انتشارات انصاریان، چاپ سوم، ۱۳۸۳ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، آیات الولایۃ فی القرآن، ۱۳۸۳ش، قم، مدرسۃ الإمام علی بن أبی طالب(ع)، ۱۳۸۳ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ دہم، ۱۳۷۱ش۔
  • میلانی، سید علی، شرح منہاج الکرامۃ، ۱۳۸۶ش، قم، مرکز الحقائق الإسلامیۃ، ۱۳۸۶ش۔
  • ہلالی، سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، قم، الہادی، ۱۴۰۵ھ۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌ یعقوب، تاریخ یعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌تا۔