مندرجات کا رخ کریں

پیغمبر خدا کا زینب بنت جحش سے نکاح

ویکی شیعہ سے

پیغمبرِ خداؐ کا نکاح زینب بنت جَحْش، کے ساتھ اللہ کے حکم سے اور ایک جاہلی رسم کو ختم کرنے کے مقصد سے انجام پایا۔ زمان جاہلیت میں گود لیے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کو حرام سمجھا جاتا تھا۔ زینب، رسولِ خداؐ کی چچازاد بہن اور زید بن حارثہ (جو نبی مکرم اسلامؐ کا لے پالک تھا) کی سابقہ زوجہ تھیں۔ زید نے انہیں طلاق دی اور زینب کی عدت طلاق ختم ہونے کے بعد، اللہ کے حکم سے نبی خداؐ نے ان سے نکاح کیا۔ اس موقع پر سورہ احزاب کی چند آیات نازل ہوئیں۔ پیغمبر خداؐ کا یہ اقدام اُس جاہلی رسم کی صریح نفی تھا، جس کے مطابق لوگ لے پالک بیٹے کو حقیقی بیٹے کا درجہ دیتے تھے۔ اس عمل کے نتیجے میں مشرکین اور منافقین نے پیغمبر خداؐ پر اعتراضات بھی اٹھائے۔

بعض مستشرقین نے مسلمان محققین کی جانب سے من گھڑت قرار دی جانے والی ایک روایت سے استناد کرتے ہوئے اس نکاح کے لیے غیر الہی محرکات تجویز پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مسلمان دانشوروں کے مطابق مستشرقین کا یہ کام رسول خداؐ کی شخصیت کو مجروح کرنے کے مقصد سے پیش کیا گیا تھا۔ مسلمان محققین کی نظر میں ان کا یہ عمل رد کیا جاتا ہے کیونکہ یہ قرآن، سنت اور نبی اسلامؐ کی عصمت سے مطابقت نہیں رکھتا۔

پس منظر اور اہمیت

قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ پیغمبر خداؐ کا زینب بنت جَحْش کے ساتھ نکاح کا ذکر آیا ہے۔[1] مفسرین کے مطابق، یہ نکاح اللہ کے حکم سے ہوا۔ کیونکہ جاہلی رسم کے مطابق لے پالک کی سابقہ زوجہ سے نکاح کرنا حرام سجھا جاتا تھا، رسول خداؐ کے اس اقدام کے ذریعے اس نوعیت کی جاہلی رسم کا خاتمہ کیا گیا۔[2] زینب، زید بن حارثہ کی سابقہ زوجہ تھیں، لیکن ان سے طلاق کے بعد اللہ نے حکم دیا کہ رسول خداؐ ان سے نکاح کریں۔[3] شیعہ مفسر قرآن محمد حسین فضل‌ اللہ کے مطابق، سورہ احزاب کی آیات 37 تا 40 اسی واقعے کے بارے میں نازل ہوئیں۔[4] تفسیر نمونہ میں اس نکاح کو "ایک پرماجرا داستان" قرار دیا گیا ہے۔[5]

کچھ مستشرقین نے بعض ایسی روایات کی بنیاد پر؛ جنہیں مسلمان علما غیر مستند اور جعلی قرار دیتے ہیں؛[6] یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نکاح کے غیر الہی محرکات تھے۔[7] اسلامی محققین کے مطابق، مستشرقین کا یہ اقدام دراصل پیغمبرِ اسلامؐ کی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش ہے لہذا انہوں نے نے اسے رد کیا ہے۔[8]

زینب بنتِ جحش

زینب بنت جحش رسولِ خداؐ کی چچازاد بہن اور عبد المطلب کی پوتی تھیں۔[9] پانچویں ہجری سال میں 35 سال کی عمر میں پیغمبرِ خداؐ نے ان کے ساتھ نکاح کیا۔[10] وہ مہاجر خواتین میں سے تھیں اور اپنی سخاوت و فیاضی کے لیے مشہور تھیں۔[11] 20 ہجری قمری کو زینب کی وفات ہوئی[12] اور انہیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔[13]

پیغمبرؐ کا زید بن حارثہ کے لیے زینب کا رشتہ مانگنے کی داستان

رسول اکرمؐ نے زینب بنتِ جحش کا رشتہ اپنے لے پالک بیٹا زید بن حارثہ کے لیے طلب کیا۔ ابتدائی طور پر زینب نے یہ سمجھا کہ نبی خداؐ خود ان کے لیے رشتہ بھیج رہے ہیں۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ رشتہ زید کے لیے ہے تو انہوں نے ابتدائی طور پر انکار کر دیا۔[14] بعض تاریخی مآخذ کے مطابق زینب نے خود نبی خداؐ سے نکاح کی خواہش ظاہر کی تھی۔[15]

کئی شیعہ[16] اور سنی مفسرین[17] بلکہ اکثر مفسرین اور مورخین[18] کے مطابق، اسی موقع پر سورہ احزاب کی آیت 36 نازل ہوئی؛ جس میں کہا گیا ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی فیصلہ کر دیں تو مومنین اس معاملے میں کوئی دوسرا راستہ اختیار نہیں کرسکتے۔ اس آیت کے نزول کے بعد، زینب نے معاملہ پیغمبرخداؐ کے سپرد کر دیا اور رسول اللہؐ نے ان کا نکاح زید بن حارثہ سے کر دیا۔[19] تیسری صدی ہجری کے شیعہ مفسر علی بن ابراہیم قمی نے یہ واقعہ امام محمد باقرؑ سے منقول روایت کی بنیاد پر بیان کیا ہے۔[20]

زید سے طلاق اور رسولِ اکرمؐ سے نکاح

زید بن حارثہ اور زینب کی ازدواجی زندگی میں اختلافات پیدا ہوگئے۔ زید فکرمند تھا کہ اگر وہ زینب کو طلاق دے دیں تو پیغمبرخداؐ ناراض ہوں گے۔[21] انہوں نے کئی بار نبی خداؐ سے مشورہ کیا، لیکن آنحضرتؐ ہر بار انہیں صبر و برداشت کی تلقین کرتے رہے۔[22] آخرکار زید نے زینب کو طلاق دے دی۔ زینب کی عدت پوری ہونے کے بعد، اللہ کے حکم سے نبی اکرمؐ نے ان سے نکاح کیا۔[23]

پیغمبر کا یہ نکاح دستور الہی سے انجام پایا[24] اور قرآن کی تعبیرزَوَّجْنَاكَهَا (ہم (اللہ) نے اس خاتون کی شادی آپؐ سے کر دی)[25] اس بات کی علامت ہے کہ یہ نکاح براہِ راست الہی حکم سے انجام پایا۔[26] زینب کو اس بات پر فخر تھا کہ ان کا نکاح خود اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کرایا۔ وہ دیگر ازواج پیغمبرؐ سے کہا کرتی تھیں: "تمہیں تمہارے خاندان والوں نے نبی خداؐ کے نکاح میں دیا، جبکہ میرا نکاح اللہ کےء حکم سے ہوا۔"[27] زینب نے اس نعمت کے شکرانے میں پر دو مہینے تک روزے رکھے۔[28] اس نکاح کو ان چند آسمانی نکاحوں میں شمار کیا جاتا ہے، جو خود خداوند متعال کے حکم سے انجام پائے؛ جیسے حضرت آدم کا نکاح حوا کے ساتھ اور حضرت علیؑ کا نکاح حضرت فاطمہ(س) کے ساتھ۔[29]

بعض محققین نے اس نکاح کی تحلیل و تجزیہ کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ زینب چونکہ مہاجر خواتین میں سے تھیں اور قریش کے معروف خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پیغمبر خدا کے لے پالک بیٹے زید سے شادی کرنے کو قبول کر لیا، حالانکہ زید جاہلی رسم و ادب کے مطابق نیچلے طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے زینب کی فرمان برداری کے صلے میں ان کو اعزاز و تکریم کے طور پر پیغمبر خداؐ کی زوجیت عطا کی۔[30] کچھ شیعہ[31] اور سنی کتب روایات[32] میں نقل ہوا ہے کہ زید زینب کو طلاق دینے کے بعد خود ان کے پاس گیا اور پیغمبر خداؐ کے لیے زینب کا رشتہ مانگا۔

کچھ شیعہ[33] اور اہل سنت[34] مفسرین کے مطابق، نبی خداؐ نے زینب سے نکاح کے موقع پر ولیمہ دیا۔ ولیمہ کے بعد کچھ صحابہ کافی دیر تک مجلس ولیمہ میں بیٹھے رہے، جس پر سورہ احزاب کی آیت 53 نازل ہوئی، جس میں رسول خداؐ کے گھر میں داخل ہونے اور یہاں سے رخصت ہونے کے آداب بیان کیے گئے ہیں۔[35]

دشمنوں کی شماتت

رسول اکرمؐ کے حضرت زینب بنتِ جحش سے نکاح کے بعد، مشرکین[36]، یہودیوں اور منافقین[37] نے اس واقعے کو تنقید اور طعن و تشنیع کا ذریعہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ نبی اکرمؐ نے اس جاہلی رسم کو توڑا ہے، جس کے مطابق لے پالک کی مطلقہ سے نکاح ممنوع سمجھا جاتا تھا۔[38] اس وقت کے عرب معاشرے میں، لے پالک کی بیوی کو حقیقی بیٹے کی زوجہ کے درجے میں تصور کیا جاتا تھا اور اس سے نکاح کو حرام جانا جاتا تھا۔[39]

اللہ تعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیت 4 نازل کرکے واضح کیا کہ منہ بولا بیٹا نسَبی لحاظ سے اپنی اصل نسبت پر ہی قائم رہتا ہے اور وہ تمام شرعی احکام میں حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہوتا۔[40] بعض مفسرین نے سورہ احزاب کی آیت 40 کو بھی اسی واقعے کے تناظر میں ذکر کیا ہے جس میں ارشاد خداوندی ہے: «محمد (صلی اللہ علیہ و آلہٰ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں»۔[41]

مخالفین نے ایک اور اعتراض یہ اٹھایا کہ اسلام میں چار سے زیادہ شادیوں کی اجازت نہیں، جبکہ زینب کے نکاح کے وقت نبی اکرمؐ کی چار ازواج پہلے سے موجود تھیں، اور وہ پانچویں زوجہ تھیں۔[42] ان اعتراض کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ یہ حکم عام مسلمانوں کے لیے ہے، جبکہ نبی اکرمؐ کے لیے بعض احکام مخصوص (خصائص النبی) ہیں۔ ان مخصوص احکام میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پیغمبر خداؐ کو یہ اجازت آپؐ کے اختیارات میں وسعت پیدا کرنے اور الٰہی مشن کی تکمیل کے لیے دی گئی تھی۔[43]

پیغمبر اکرمؐ پر ناروا الزام

کچھ روایات میں جزئی اختلافات کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے کہ جب پیغمبرخداؐ کسی ملاقات کے موقع پر زینب کی خوبصورتی سے متاثر ہوئے جبکہ جب وہ زید کی زوجیت میں تھیں، یہ خبر زید تک پہنچی، اور انہوں نے زینب کو طلاق دینے کا ارادہ کیا، لیکن نبی اکرمؐ نے اس کی مخالفت کی۔ بعد میں زید نے بہر حال زینب کو طلاق دے دی اور زینب کی عدت ختم ہونے کے بعد آنحضرتؐ نے ان سے نکاح کیا۔[44] بعض مستشرقین اور عیسائی مبلغین نے اسی روایت کو بنیاد بنا کرنبی مکرم اسلامؐ کی شخصیت کو شہوت‌پرست اور ضعیف‌ النفس ظاہر کرنے کی کوشش کی۔[45]

شیعہ محققین نے اس روایت کو جعلی قرار دے کر رد کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ روایت قرآن و سنت کے صریح خلاف ہے[46]، نیز عصمت رسول اکرمؐ کے عقیدے سے بھی متصادم ہے،[47] ان محققین کے مطابق اگر ایسا واقعہ ہوتا تو صحابہ اور امت میں نبی اکرمؐ کی عظمت متاثر ہوتی، جو تاریخ میں ہمیں کہیں نظر نہیں آتا۔[48] شیعہ محقق محمود مہدوی دامغانی کا کہنا ہے کہ یہ داستان غالباً روایاتِ محرفہ (تحریف شدہ) کے زیرِ اثر حضرت داؤدؑ اور اوریا کے بارے میں گھڑی گئی ہے۔[49]

چند معدودے مفسرین جنہوں نے اس روایت کی جزوی تائید کی ہے، وہ بھی اس سے غیر اخلاقی مفہوم نہیں لیتے، بلکہ صرف "پہلی نظر" کے جواز پر استدلال کرتے ہیں۔(یعنی پہلی نظر جو غیر ارادی طور پر پڑ جائے، وہ شرعاً معیوب نہیں۔)[50]

حوالہ جات

  1. طیب، اطیب البیان، 1369شمسی، ج10، ص507۔
  2. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج8، ص345۔
  3. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج8، ص345؛ فضل‌اللہ، من وحی القرآن، 1419ھ، ج18، ص315۔
  4. فضل‌اللہ، من وحی القرآن، 1419ھ، ج18، ص315۔
  5. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج‏17، ص378۔
  6. فضل‌اللہ، من وحی القرآن، 1419ھ، ج18، ص317۔
  7. دیاری بیدگلی، علی‌اف «بررسی دیدگاہ مستشرقان دربارہ ازدواج پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم با زینب»، ص90۔
  8. ملاحظہ کیجیے: اکرمی، محمدی، «بررسی اتہام ازدواج پیامبر(ص) با محصنہ بر اساس آیات سورہ احزاب»۔
  9. ابن‌حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، 1326ھ، ج12، ص420۔
  10. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج3، ص212۔
  11. ابونعیم اصفہانی، معرفۃ الصحابہ، 1422ھ، ج5، ص160۔
  12. ابونعیم اصفہانی، معرفۃ الصحابہ، 1422ھ، ج5، ص160۔
  13. مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج6، ص62۔
  14. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج8، ص563۔
  15. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم‏، 1426ھ، ج14، ص51۔
  16. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج8، ص563۔
  17. طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج22، ص9۔
  18. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج‏17، ص316۔
  19. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج8، ص343۔
  20. قمی، تفسیر القمی، 1363شمسی، ج2، ص194۔
  21. ملاحویش آل غازی، بیان المعانی، 1382ھ، ج5، ص477۔
  22. ملاحویش آل غازی، بیان المعانی، 1382ھ، ج5، ص477۔
  23. مکارم شیرازی‏، تفسیر نمونہ‏، 1371، ج17، ص320۔
  24. طیب، اطیب البیان، 1369شمسی، ج10، ص507۔
  25. سورہ احزاب، آیہ 37۔
  26. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج‏17، ص322۔
  27. سیوطی، الدر المنثور، 1404ھ، ج5، ص201۔
  28. باقری، زنان اسوہ زینب بنت جحش، 1394شمسی، ص18
  29. شیخ صدوق، الأمالی، 1376شمسی، ص93۔
  30. باقری، زنان اسوہ زینب بنت جحش، 1394شمسی، ص14۔
  31. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم‏، 1426ھ، ج14، ص52۔
  32. طبرانی، التفسیر الکبیر 2008ء، ج5، ص199۔
  33. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج8، ص574۔
  34. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1364شمسی، ج14، ص224۔
  35. واحدی نیشابوری، اسباب نزول القرآن، 1998ء، ص372۔
  36. ابن‌ابی‌ثعلبہ، تفسیر ابن‌أبی‌زمنین، 2003ء، ج3، ص401۔
  37. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج8، ص527۔
  38. مقاتل بن سلیمان بلخی، تفسیر مقاتل بن سلیمان، 1423ھ، ج3، ص472۔
  39. المبارکفوری، الرحیق المختوم، 1427ھ، ص265۔
  40. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج8، ص527۔
  41. مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج22، ص181۔
  42. المبارکفوری، الرحیق المختوم، 1427ھ، ص265۔
  43. ملاحظہ کیجیے: طوسی، المبسوط، ج4، ص152-154۔
  44. مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج10، ص209ِ؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج8، ص80؛ قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج2، ص172-173۔
  45. دیاری بیدگلی، علی‌اف «بررسی دیدگاہ مستشرقان دربارہ ازدواج پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم با زینب»، ص90۔
  46. اکرمی، محمدی، «بررسی اتہام ازدواج پیامبر(ص) با محصنہ بر اساس آیات سورہ احزاب»، ص 78۔
  47. طباطبائی، المیزان، 1417ھ، ج16، ص323۔
  48. فضل‌اللہ، من وحی القرآن، 1419ھ، ج18، ص317۔
  49. مہدوی دامغانی، «زینب بنت جحش»، ص145۔
  50. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج2، پاورقی ص173۔

مآخذ

  • ابن‌ابی‌ثعلبہ (ابن‌ابی‌زمنین)، یحیی بن سلام، تفسیر ابن‌أبی‌زمنین، محقق: م‍ح‍م‍دح‍س‍ن اس‍م‍اع‍ی‍ل ش‍اف‍ع‍ی، احمد فرید مزیدی، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 2003ء۔
  • ابن‌حجر عسقلانی، احمد، تہذیب التہذیب، ہند، مطبعۃ دائرۃ المعارف النظامیۃ، چاپ اول، 1326ھ۔
  • ابن‌سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق: محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1410ھ۔
  • ابن‌عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق، بیروت، دار الفکر، 1415ھ۔
  • ابونعیم اصفہانی، معرفۃ الصحابہ، بیروت، دراالکتب العلمیہ، 1422ھ۔
  • اکرمی، محمدحسین، محمدی، محمدحسین، «بررسی اتہام ازدواج پیامبر(ص) با محصنہ بر اساس آیات سورہ احزاب»، مجلہ قرآن‌پژوہی خاورشناسان، سال ہفدہم، شمارہ 33، پاییز و زمستان 1401ہجری شمسی۔
  • باقری، محمدرضا، زنان اسوہ زینب بنت جحش، تہران، مشعر، 1394ہجری شمسی۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق: سہیل زکار، ریاض زرکلی، بیروت، دار الفکر، چاپ اول، 1417ھ۔
  • دیاری بیدگلی، محمدتقی، علی‌اف، یالچین، «بررسی دیدگاہ مستشرقان دربارہ ازدواج پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم با زینب»، مجلہ قرآن‌پژوہی خاورشناسان، دورہ9، شمارہ 16، بہار و تابستان 1393ہجری شمسی۔
  • سیوطی، جلال‌الدین، الدر المنثور فی تفسیر المأثور، قم، کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن على، الامالی، تہران، کتابچی، چاپ ششم، 1376ہجری شمسی۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، با مقدمہ: شیخ آقابزرگ تہرانی، تحقیق: احمد قصیرعاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • طباطبائی، سید محمدحسین‏، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی‏، چاپ پنجم‏، 1417ھ۔
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، التفسیر الکبیر، اردن، دار الکتاب الثقافی، 2008ء۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: محمدجواد بلاغی‏، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفۃ، چاپ اول، 1412ھ۔
  • طیب، عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات اسلام، چاپ دوم، 1369ہجری شمسی۔
  • عاملی، جعفر مرتضی‏، الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم‏، قم، دار الحدیث‏، چاپ اول، 1426ھ۔
  • فضل‌اللہ، سید محمدحسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دار الملاک للطباعۃ و النشر، چاپ دوم، 1419ھ۔
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لأحکام القرآن، تہران، انتشارات ناصر خسرو، چاپ اول، 1364ہجری شمسی۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، محقق و مصحح: سید طیب موسوی جزائری، قم، دار الکتاب، چاپ سوم، 1404ھ۔
  • المبارکفوری، صفی الرحمن، الرحیق المختوم، دمشق، دار العصماء، 1427ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مغنیہ، محمدجواد، تفسیر الکاشف، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1424ھ۔
  • مقاتل بن سلیمان بلخی، تفسیر مقاتل بن سلیمان، تحقیق: عبداللہ محمود شحاتہ، بیروت، دار إحیاء التراث، چاپ اول، 1423ھ۔
  • مقریزی، احمد بن علی، إمتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدۃ و المتاع، اول، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1420ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1374ہجری شمسی۔
  • ملاحویش آل غازی، عبدالقادر، بیان المعانی، دمشق، مطبعۃ الترقی، چاپ اول، 1382ہجری شمسی۔
  • مہدوی دامغانی، محمود، «زینب بنت جحش»، دانشنامہ جہان اسلام، ج22، تہران، بنیاد دائرۃ المعارف اسلامی، 1399ہجری شمسی۔
  • واحدی نیشابوری، علی بن احمد، أسباب نزول القرآن، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، منشورات محمد علی بیضون، 1998ء۔