حدیث شد رحال
حدیث شدِّ رِحال | |
---|---|
حدیث کے کوائف | |
موضوع | فضیلت مسجدالنبی، مسجدالحرام و مسجدالاقصی |
صادر از | پیغمبر اکرمؐ |
مشہور احادیث | |
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل |
حدیث شَدُّ رِحال وہ حدیث ہے جس میں پیغمبر اکرمؐ نے مسجد الحرام، مسجد النبی اور مسجد الاقصی کی زیارت کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ اس حدیث میں وارد ہوا ہے کہ: سفر زیارت کا قصد نہ کرو مگر تین مساجد کے لئے۔
گروہ وہابی اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انبیاء، ائمہ اور اولیاء کے قبور کی زیارت کے لئے سفر کرنا حرام اور شرک ہے۔ جب کہ اکثر شیعہ و سنی علما نے وہابیوں کے اس نظریہ کی تردید کرتے ہوئے اس روایت کو ان تینوں مسجدوں کی فضیلت میں شمار کیا ہے۔
حدیث کا متن اور نامگذاری
پیغمبر اکرمؐ کی یہ روایت اہل سنت کے منابع میں اس طرح سے وارد ہوئی ہے: «لاتُشَدُّ الرِّحَالُ إِلاَّ إِلَی ثَلاثَۃ مَسَاجِد: المَسْجِدِ الحَرَام وَمَسْجِدِی ہذَا وَالمَسْجِدِ الأَقْصَی»؛ زیارت کے قصد سے تین مسجدوں کا سفر کرنا چاہئے: مسجد الحرام، میری مسجد (مسجد النبی) اور مسجد اقصی۔[1] رحال، رحل کی جمع ہے جس کے معنی ہیں ایسی چیز جو زین اور پالان کی طرح ہوتی ہے اور اونٹ کی پشت پر باندھی جاتی ہے۔ سفر کا لازمہ یہ ہے کہ رحل شتر کو محکم و مضبوط کر دیا جائے۔ اور شد رحال کو کنایہ کے طور تمام سفروں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، چاہے سفر گھوڑے سے ہو یا اونٹ سے۔[2]
وہابیوں کا نظریہ
گروہ وہابی اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ انبیاء، ائمہ اور اولیاء کے قبور کی زیارت کے لئے سفر کرنا حرام اور شرک ہے۔[3]
ساتویں صدی ہجری میں ابن تیمیہ حرانی وہ پہلا شخص تھا کہ جس نے اس حدیث کی بنا پر قبر پیغمبر اکرمؐ کے لئے سفر زیارت کو حکم حرمت کا فتوی دیا تھا۔ اس کے دعوے کے مطابق جو شخص بھی اپنے سفر کو زیارت قبر پیغمبر اکرمؐ کے قصد سے انجام دے تو گویا اس نے اجماع مسلمین کی مخالفت کی اور پیغمبر اکرمؐ کی شریعت سے خارج ہو گیا۔ اور وہ اس کام کو شرک بھی سمجھتا تھا۔[4] وہ یہ بھی کہتا تھا کہ قبر پیغمبر کی زیارت کے لئے سفر کرنا سفر گناہ و معصیت ہے اور ایسے سفر میں نماز بھی قصر ہوگی۔[5]
سعودی عرب میں سپریم فتویٰ بورڈ [یادداشت 1] حدیث شد رحال سے استناد کرتے ہوئے اعلان کرتا ہے کہ قبر پیغمبر کی زیارت کے لئے مدینہ کا سفر کرنا جائز نہیں ہے اور اگر کوئی مدینہ کا سفر تجارت، طلب علم یا اسی جیسی دوسری چیز کے لئے کر رہا ہے تو وہ خاص شرائط کے ساتھ قبر پیغمبر کی زیارت کر سکتا ہے۔[6]
مسلمانوں کا نظریہ
بعض علمائے مذاہب اسلامی نے حدیث شد رحال کے سلسلے میں ابن تیمیہ کے جواب اور اس کے دعوے کو ردّ کرنے کے لئے کتابیں لکھی ہیں۔[7] عالم اہل سنت خلیل احمد کے مطابق یہ حدیث، مسجد نبوی کی زیارت کے ممنوع ہونے پر دلالت نہیں کر رہی بلکہ نصّ روایت شدّ رحال کے جواز پر دلالت کر رہی ہے اس لئے کہ جس سبب کی بنیاد پر تینوں مسجدیں دیگر تمام مساجد یا اماکن مشرفہ سے جدا ہوئی ہیں وہ خاص فضیلت ہے جو ان تینوں مساجد سے مخصوص ہے۔[8] جصاص جو اہل سنت کے مفسر ہیں ان کے مطابق یہ حدیث فقط ان تین مساجد کی فضیلت پر دلالت کر رہی ہے۔[9]
چاروں مذاہب کے بعض علمائے اہل سنت نے شرح صحیح بخاری، صحیح مسلم اور بعض دوسری کتابوں میں اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ: یہ حدیث صرف تینوں مساجد کی فضیلت پر دلالت کر رہی ہے۔[10] علمائے شافعی میں سے ابن حجر عسقلانی،[11] ملا علی قاری حنفی،[12] فقیہ حنفی ابن عابدین،[13] فقیہ مالکی زرقانی[14] اور ابن قدامہ حنبلی[15] کا بھی یہی نظریہ ہے۔
شیعوں کا نظریہ
بعض فقہائے شیعہ نے اس حدیث کو اہل سنت سے نقل کرتے ہوئے اس کے بارے میں کہا ہے کہ: ان تینوں مساجد کے علاوہ نماز پڑھنے کے لئے سفر کرنا کوئی فضیلت نہیں رکھتا اس لئے کہ فضیلت کے لحاظ سے دیگر تمام مساجد برابر ہیں۔ لہذا اپنے شہر کی مسجد کی بہ نسبت دوسرے شہر کی مسجد میں نماز پڑھنے کی غرض سے سفر کرنا کوئی قابل امتیاز عمل نہیں ہے۔[16]
حدیث شد رحال کے جیسی دوسری روایت حضرت علیؑ سے وارد ہوئی ہے کہ آپؑ فرماتے ہیں: مسجد کی قصد سے سفر نہیں کرنا چاہئے مگر تین مسجد کے لئے: مسجد الحرام، مسجد النبی، مسجد کوفہ۔ بعض علمائے شیعہ اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ حدیث ان تین مساجد میں نماز پڑھنے کی اہمیت و فضیلت کو بیان کر رہی ہے۔[17]
نوٹ
- ↑ سعودی عرب میں اعلی ترین مذہبی اتھارٹی جو ابن تیمیہ اور محمد ابن عبد الوہاب کے خیالات کی پیروی کرتا ہے۔
حوالہ جات
- ↑ بخاری، صحیح البخاری، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۳۹۸؛ مسلم، صحیح مسلم، بیروت، ج۲، ص۱۰۱۴۔
- ↑ عینی، عمدۃ القاری، بیروت، ج۷، ص۲۵۲۔
- ↑ ابن تیمیہ، کتب و رسائل و فتاوى ابن تیمیہ، ج۲۷، ص۱۹۶؛ سلیمان بن عبداللہ، شرح کتاب التوحید، الریاض، ص۳۱۲۔
- ↑ عباسی، رد نظر وہابیت از سوی اہل سنت در حرمت زیارت قبور، ۱۳۹۱ش، ص۱۰۰ و ۱۰۱۔
- ↑ عباسی، رد نظر وہابیت از سوی اہل سنت در حرمت زیارت قبور، ۱۳۹۱ش، ص۱۰۱۔
- ↑ عباسی، رد نظر وہابیت از سوی اہل سنت در حرمت زیارت قبور، ۱۳۹۱ش، ص۱۰۱۔
- ↑ عباسیمقدم، بررسی متنی و سندی روایت شد رحال، ۱۳۹۱، ص۱۹۳۔
- ↑ خلیل احمد، مباحث فی عقائد أہل السنۃ ، ۱۴۲۵ھ، ص۴۷۔
- ↑ جصاص، احکام القرآن، ۱۴۰۵ھ،ج۱، ص۳۰۲۔
- ↑ نووی، صحیح مسلم مع شرح الامام النووی، ج۴، ص۳۲۶۔
- ↑ ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، دارالمعرفہ، ج۳، ص۶۵۔
- ↑ محمد قاری، مرقات المفاتیح، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۷۱۔
- ↑ ابن عابدین، حاشیہ رد المختار على الدر المختار، ۱۴۲۱ھ، ج۲، ص۶۲۷۔
- ↑ زرقانی، شرح الزرقانی،۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۳۲۰۔
- ↑ ابن قدامہ، المغنی، ۱۴۰۵ھ، ج۲، ص۵۲۔
- ↑ شہید اول، ذكرى الشیعۃ، ۱۴۱۹ھ، ج۳، ص۱۱۰۔
- ↑ علامہ حلی، منتہی المطلب، ۱۴۱۲ق ج۶، ص۳۱۳۔
مآخذ
- ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، کتب و رسائل و فتاوى ابن تیمیۃ، تحقیق عبدالرحمن بن محمد بن قاسم العاصمی النجدی، [بیجا]، مکتبۃ ابن تیمیہ، [بےتا]۔
- ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، بیروت، دارالمعرفۃ، [بےتا]۔
- ابن عابدین، محمدامین بن عمر، حاشیہ رد المختار على الدر المختار شرح تنویر الأبصار، بیروت، دار الفکر للطباعۃ والنشر، ۱۴۲۱ھ۔
- ابن قدامہ، عبداللہ بن احمد، المغنی فی فقہ الإمام أحمد بن حنبل الشیبانی، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۵ھ۔
- جصاص، احمد بن علی، احکام القرآن للجصاص، تحقیق محمد الصادق قمحاوی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۰۵ھ۔
- بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، تحقیق مصطفى دیب البغا، بیروت، دار ابن کثیر، الیمامہ، ۱۴۰۷ھ۔
- زرقانی، محمد بن عبدالباقی، شرح الزرقانی على موطأ الإمام مالک، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ اول، ۱۴۱۱ھ۔
- سلیمان بن عبداللہ، شرح کتاب التوحید، الریاض، مکتبہ الریاض الحدیثہ، [بےتا]۔
- شہید اول، محمد بن جمالالدین، ذکرى الشیعۃ فی أحکام الشریعۃ، قم، مؤسسہ آل البیت (ع) لإحیاء التراث، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔
- عباسی، حبیب، «رد نظر وہابیت از سوی اہل سنت در حرمت زیارت قبور»، در مجلہ سراج منیر، پاییز و زمستان ۱۳۹۱ش، شمارہ ۷ و ۸۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، منتہی المطلب، مشہد، مؤسسہ الطبع والنشر فی الآستانہ الرضویہ المقدسہ، ۱۴۱۲ھ۔
- علی بن سلطان محمد قاری، مرقات المفاتیح شرح مشکاہ المصابیح، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۲۲ھ۔
- عینی، بدرالدین محمود بن أحمد، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، [بےتا]۔
- مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح مسلم، تحقیق محمد فؤاد عبد الباقی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، [بےتا]۔