النَّاسُ نِیَامٌ فَإِذَا مَاتُوا انْتَبَهُوا (لوگ سوئے ہوئے ہیں جب مر جائیں گے تو بیدار ہونگے) ایک مشہور حدیث ہے[1] جو پیغمبر اکرمؐ[2] اور امام علیؑ[3] سے نقل ہوئی ہے۔ اس حدیث کی تشریح میں کہا گیا ہے کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اس دنیا میں مال و متاع کے مالک ہیں لیکن جب ان کو موت آتی ہے تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔[4]

نہج البلاغہ میں امام علیؑ کا کلام «اہل دنیا اس کاروان کی مانند ہیں جنہیں لے جایا جا رہا ہے حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں»[5] کو حدیث «النَّاسُ نِیَامٌ ...» کے ساتھ ہم‌ معنی اور مترادف جانا گیا ہے۔[6] لفظ «اِنْتِباہ» اصل میں کسی کو آگاہ کرنے کے معنی میں آتا ہے لیکن اس حدیث میں بیدار ہونے کے معنی میں آیا ہے۔[7] اسلامی عرفان کی منظوم کتاب گلشن راز[8] میں مِصرَع «تو در خوابی و این دیدن خیال است» یعنی تم سوئے ہوئے ہو اور یہ جو تمہیں نظر آرہا ہے یہ صرف خواب و خیال کے سوا کچھ نہیں ہے، کو اس حدیث کا اقتباس شمار کیا جاتا ہے۔[9]

جامی (وفات 817ھ)

قال خَیْرُ الْوَرَی عَلَیْہِ سَلَام‏ // إِنَّمَا النَّاس ہِجْعٌ و نِیام
فإذا جائہم و إن کَرِہُوا // سَکْرَۃُ الْمَوْت بعدہا انْتَبَہُوا
[یادداشت 1]
آدمی‌زادہ در مَبادی حال// پی نفس و ہوا رود ہمہ سال[یادداشت 2][10]

بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ حدیث «النَّاسُ نِیَامٌ ...» جس طرح مادی بدن کی موت کی طرف اشارہ ہے اسی طرح روحانی و عرفانی موت کی طرف بھی اشارہ ہے جو انسان کو اس مادی زندگی کے دوران حاصل ہوتی ہے۔[11] اسی بنا پر بعض لوگ اس بات کے معتقد ہیں کہ اس حدیث میں یہ وصیت کی گئی ہے کہ ہوشیار رہیں یہ بیداری کہیں تمہیں حقیقی موت کے بعد نصیب نہ ہو۔[12] شیعہ عالم دین اور فلسفی ملا صدرا موت کو عدم اور نیستی سے تعبیر کرنے کے ادعا کو اس حدیث کے ذریعے رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ موت ایک قسم کی بیداری ہے نہ عدم اور نیستی۔‏[13]

مسلمان متکلم اور عارف غزالی (450 ـ 505ھ) ایک مثال کے ضمن میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہیں: ایک بچہ ماں کے پیٹ سے ایک نئے عالم اور نئی جگہ پر آتا ہے۔ جب یہ بچہ ماں کے پیٹ سے خارج ہوتا ہے اور دنیا کی وسعت کا مشاہدہ کرتا ہے تو کیا یہ شائستہ ہے کہ یہ بچہ دوبارہ ماں کے پیٹ میں واپس جانے کی تمنا کرے؟ غزالی اس بات کے معتقد ہیں کہ دنیا اور آخرت کی مثال بھی اسی طرح ہے۔ جو شخص اس دنیا سے آخرت کی طرف چلا جاتا ہے اور جب آخر کی وسعت کا مشاہدہ کرتا ہے تو پھر اس دنیا میں واپس آنے کی تمنا کرنا سزاوار نہیں ہے۔[14]

جرمنی قبرستان بُن میں جرمن خاتون مستشرق این میری شمل کی قبر پر حدیث «النَّاسُ نِیَامٌ ...»

تفسیر حدیث

شیعہ مجتہد آیت اللہ جوادی آملی حدیث «النَّاسُ نِیَامٌ ...» کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بہت سارے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اس دنیا میں مال و متاع کے مالک ہیں؛ لیکن یہ لوگ موت کے وقت سمجھ جاتے ہیں کہ وہ تو کسی چیز کے مالک نہیں تھے۔ جس طرح سویا ہوا انسان خواب میں بہت کچھ دیکھتا ہے اور جب بیدار ہوتا ہے تو ان میں سے کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتا۔[15]

ساتویں صدی ہجری کے مسلمان عارف نَسَفی اپنی کتاب انسان کامل میں اس حدیث سے استناد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جس طرح خواب میں دیکھنے والی چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں اسی طرح اس دنیا میں موجود چیزوں میں بھی کوئی پائیداری اور ثبات نہیں نہیں ہے۔[16] بعض محققین اس نکتے کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ انسان اس دنیا میں انجام دئے گئے اعمال کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں اور موت کے بعد جب «اشیاء کی اصل حقیقت» آشکار ہو جاتی ہے تو لوگ اس وقت اپنے اعمال کی حقیقت سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔[17]

ملاصدرا معتقد ہیں کہ جو کچھ انسان خواب میں دیکھتا ہے وہ اس دنیا میں موجود اشیاء کی مثالیں ہیں۔ اسی طرح جو کچھ انسان اس دنیا میں دیکھتا ہے وہ آخرت میں موجود حقائق کی مثالیں ہیں۔ آخرت کے حقائق انسان پر آشکار اور نمایاں نہیں ہوتے سوائے مثالوں کے ضمن میں جن کی تعبیر اور تشریح کی ضرورت ہوتی ہے۔[18] کتاب تفسیر مخزن العرفان کے مصنف کا بھی عقیدہ ہے کہ جو کچھ اس دنیا میں دیکھتے ہیں وہ ان حقائق کے چھلکے یا خول ہیں اور انسان موت کے بعد ان حقائق کی حقیقت سے واقف ہوتے ہیں۔[19]

حوالہ جات

  1. سمعانی، روح الأرواح فی شرح أسماء الملک الفتاح، 1384ہجری شمسی، ص701۔
  2. ورام بن أبی فراس، مجموعۃ ورام، 1410ھ، ج1، ص150؛ سمعانی، روح الأرواح فی شرح أسماء الملک الفتاح، 1384ہجری شمسی، ص701۔
  3. سید الرضی، خصائص الأئمۃ علیہم السلام، 1406ھ، ص112۔
  4. جوادی آملی، «بہ سوی معبود»، آپارات۔
  5. سید رضی، نہج البلاغۃ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، حکمت 64، ص 479۔
  6. «در محضر استاد - جلسہ 108»، مؤسسہ قرآن و عترت علی بن موسی الرضاؑ۔
  7. محقق، «درسہایی از نہج‌البلاغہ»، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی۔
  8. شبستری، گلشن راز، 1382ہجری شمسی، ص26۔
  9. سبزواری خراسانی، شرح گلشن راز، 1386ہجری شمسی، ص188۔
  10. جامی، «بخش 149: در معنی قولہ علیہ السلام الناس نیام فاذا ماتوا انتبہوا»، ہفت اورنگ، سلسلۃالذہب، دفتر اول، سایت گنجور۔
  11. رحمتی، «شہسواران غیب»، مرکز دائرہ المعارف بزرگ اسلامی۔
  12. جام، کنوز الحکمۃ، 1387ہجری شمسی، ص230۔
  13. ملاصدرا، شرح أصول الکافی، 1383ہجری شمسی، ج2، ص59۔
  14. غزالی، مجموعۃ رسائل الإمام الغزالی، 1996م، ص506
  15. جوادی آملی، «بہ سوی معبود»، آپارات۔
  16. نسفی، الإنسان الکامل، 1386ہجری شمسی، ص400۔
  17. حسینی ہمدانی، درخشان پرتوی از اصول کافی، 1363ہجری شمسی، ج4، ص114۔
  18. ملاصدرا، شرح أصول الکافی، 1383ہجری شمسی، ج1، ص325۔
  19. بانو امین، مخزن العرفان در تفسیر قرآن، 1361ہجری شمسی، ج3، ص41۔

نوٹ

  1. سرور کائنات فرماتے ہیں: لوگ سوئے ہوئے ہیں اور جب وہ نہ چاہتے ہوئے بھی موت کی سختی میں مبتلا ہوتے ہیں، تو وہ بیدار اور آگاہ ہونگے۔
  2. انسان جب سے پیدا ہوا ہے تمام عمر نفسانی خوہشات کے پیچھے بھاگتا ہے۔

مآخذ

  • نہج البلاغۃ، تحقیق: صبحی صالح، قم، ہجرت، چاپ اول، 1414ھ۔
  • بانو امین، سیدہ نصرت، مخزن العرفان در تفسیر قرآن، تہران، نہضت زنان مسلمان، 1361ہجری شمسی۔
  • جام، احمد، کنوز الحکمۃ، تصحیح: حسن نصیری جامی، تہران، پژوہشگاہ علوم انسانی و مطالعات فرہنگی‏، 1387ہجری شمسی۔
  • جامی، عبدالرحمن، «بخش 149: در معنی قولہ علیہ السلام الناس نیام فاذا ماتوا انتبہوا»، ہفت اورنگ، سلسلۃالذہب، دفتر اول، سایت گنجور،‌ تاریخ مشاہدہ: 8 شہریور 1403ہجری شمسی۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، «بہ سوی معبود»، وبگاہ آپارات، تاریخ مشاہدہ: 8 شہریور 1403ہجری شمسی۔
  • حسینی ہمدانی، محمد، درخشان پرتوی از اصول کافی، قم، چاپخانہ علمیہ قم، چاپ اول، 1363ہجری شمسی۔
  • «در محضر استاد - جلسہ 108»، وبگاہ مؤسسہ قرآن و عترت علی بن موسی الرضاؑ، تاریخ درج مطلب: 24 بہمن 1398ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 8 شہریور 1403ہجری شمسی۔
  • رحمتی، انشااللہ، «شہسواران غیب»، وبگاہ مرکز دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، تاریخ درج مطلب: 11 تیر 1403ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 8 شہریور 1403ہجری شمسی۔
  • سبزواری خراسانی، ابراہیم، شرح گلشن راز، تہران، نشر علم، 1386ہجری شمسی۔
  • سمعانی، احمد بن منصور، روح الأرواح فی شرح أسماء الملک الفتاح، تصحیح: نجیب مایل ہروی، تہران، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، 1384ہجری شمسی۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، خصائص الأئمۃ علیہم السلام (خصائص أمیر المؤمنین علیہ السلام)، تحقیق و تصحیح: محمد ہادی‏ امینی، مشہد، آستان قدس رضوی، چاپ اول، 1406ھ۔
  • شبستری، محمود بن عبدالکریم، گلشن راز، تصحیح: محمد حماصیان، کرمان، خدمات فرہنگی کرمان، 1382ہجری شمسی۔
  • غزالی، محمد، مجموعۃ رسائل الإمام الغزالی، بیروت، دار الفکر، 1996م۔
  • محقق، مہدی، «درسہایی از نہج‌البلاغہ»، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، تاریخ درج مطلب: 30 آبان 1396ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 8 شہریور 1403ہجری شمسی۔
  • ملاصدرا، محمد بن ابراہیم، شرح أصول الکافی، تحقیق و تصحیح: محمد خواجوی، تہران، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، چاپ اول، 1383ہجری شمسی۔
  • نسفی، عزیزالدین بن محمد، الانسان الکامل، مقدمہ: ہانری کربن، مصحح ماریژان مولہ، مترجم، سید ضیاءالدین دہشیری، تہران، طہوری، 1386ہجری شمسی۔
  • ورام بن أبی‌فراس، مسعود بن عیسی، مجموعۃ ورام (تنبیہ الخواطر و نزہۃ النواظر)، قم، مکتبۃ الفقیہ، چاپ اول، 1410ھ۔