آیت حکومت مستضعفین

ویکی شیعہ سے
آیت حکومت مستضعفین
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت حکومت مستضعفین
سورہقصص
آیت نمبر5
پارہ20
محل نزولمکہ
موضوععقیدتی
مضمونمستکبرین کی حکومت پر مستضعفین کی حکومت کا غلبہ


آیت حکومت مستضعفین (سورہ قصص آیت نمبر 5) سے مراد زمین پر کمزور اور مظلوموں کی عملی قیادت و حکمرانی اور مستکبروں کی حکومت کے بجائے ان کی جانشینی ہے۔ آیت کا ظہور بتاتا ہے کہ یہ آیت حضرت موسیٰؑ اور بنی اسرائیل کا فرعون کے ساتھ تصادم سے متعلق ہے؛ لیکن باطنِ آیت کے مطابق یہ اہل بیتِؑ پیغمبر اکرم (ص) اور ان کے دشمنوں کے بارے میں ہے۔ آیت کی تاویل سے متعلق بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں جن کی بنیاد پر آیت میں جن مستضعفین کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ ائمہ معصومینؑ ہیں، ان میں سے آخری امام، امام مہدی(عج) ہیں۔

مذکورہ آیت کے مطابق مستضعفین کی حکمرانی پوری تاریخ میں ایک عمومی اور متواتر قانون کے تحت برقرار رہی ہے اور بنی اسرائیل اور فرعون کی داستان نیز پیغمبر خدا (ص) کی حکومت اور کفار پر ان کے غلبہ اور تسلط کو اس تاریخی اور عمومی قانون کے مصادیق میں سے قرار دیا گیا ہے۔ شیعہ علماء اور مفسرین نے ائمہ معصومینؑ کی روایات سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے آخر الزمان میں حضرت مہدی (عج) کی حکومت کو اس آیت کا آخری مصداق قرار دیا ہے۔

آیت حکومت مستضعفین کا تعارف، متن اور ترجمہ

سورہ قصص کی پانچویں آیت کو آیت حکومت مستضعفین کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنی مشیت اور اردے کی برتری نیز اس سلسلے میں مستضعفین اور مظلوموں پر احسان کیے جانے کی بات کی ہے اور انہیں زمین پر لوگوں کے پیشوا اور وارث؛ اسی طرح مستکبرین کے بجائے انہیں حکومت کے حقیقی جانشین کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ نیز اللہ کی زمین پر آخری حکومت کو مستضعفین کی حکومت قرار دی گئی ہے۔[1] بعض علما کا عقیدہ ہے کہ حکومت کا یہ سلسلہ ضرور واقع ہوگا[2] اور اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی جاسکے گی۔[3]

وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ ‎﴿٥﴾‏


اور ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوں پر احسان کریں جنہیں زمین میں کمزور کر دیا گیا تھا اور انہیں پیشوا بنائیں اور انہیں (زمین کا) وارث قرار دیں۔ (سورہ قصص، آیت نمبر5)



تفسیر

حرم امام رضاؑ کے داخلی دروازے کے بالائی حصے پر آیت حکومت مستضعفین کا نقش و نگار

سورہ قصص کی پانچویں آیت میں بنی اسرائیل اور فرعون کا قصہ بیان ہوا ہے[4] اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ فرعون نے اپنی حکومت قائم کر کے بنی اسرائیل کو تباہ کرنے کا ارادہ کر رکھا تھا اور وہ سمجھتا تھا کہ مستکبرین و ظالمین کی حکومت دائمی ہوگی جبکہ اللہ نے اپنی مشیت کا اعلان کرتے ہوئے حکومت، مظلوموں اور مستضعفین کے حوالہ کرنے کی خبردی ہے۔[5]

آیت میں مستضعف سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں ظالموں نے کمزور کر دیا ہے؛ ان کےکمزور کیے جانے میں خود ان کا کوئی کردار نہیں ہے[6] اور وہ ظالموں سے نجات پانے کی مسلسل کوشش کرتے رہے ہیں۔[7] بنی اسرائیل کی کامیابی اور ان کے فرعونی حکومت کے وارثوں میں تبدیل ہونے کی وجہ حضرت موسیٰؑ کی قیادت میں ان کا متحرک اور تیار ہونا قرار دیا گیا ہے۔[8]

آیت کی تأویل

بعض مفسرین کے مطابق آیت کا ظہور حضرت موسیٰؑ اور فرعون کے درمیان تصادم کے بارے میں ہے؛ لیکن اس کے باطن کا تعلق اہل بیتِؑ پیغمبر اکرم (ص) اور ان کے دشمنوں سے ہے؛[9] دوسرے لفظوں میں آیت کے اصلی مخاطب پیغمبرخدا (ص) اور اہلبیت ہیں اور خدا نے اس آیت میں الہی وعدے کو پورا کرنے کے سلسلے میں موسیٰ اور بنی اسرائیل کو بطور مثال پیش کیا ہے[10] اور فرعونیوں کو ان افراد کی طرح قرار دیا گیا ہے جنہوں نے اہل بیتؑ کے حق کو غصب کیا ہے۔[11]

بعض سنی مفسرین نے آیت کو صرف اس کے ظاہری معنی تک محدود سمجھتے ہوئے خیال ظاہر کیا ہے کہ آیت کا نزول صرف حضرت موسیٰ (ع)، فرعون اور بنی اسرائیل کی حکومت کے بارے میں ہے، جبکہ بعض شیعہ مفسرین نے اس رائے کو مختلف دلائل کی بنیاد پر رد کیا ہے اور اس رائے کو آیت کے نص اور ظاہر کے خلاف قرار دیا ہے۔ کیونکہ آیت میں ساری زمین پر حکمرانی کی بات ہورہی ہے اور واضح ہے کہ بنی اسرائیل نے کسی بھی وقت پوری زمین پر حکومت نہیں کی۔[12]

روایات میں مستضعفین کی مثالیں

آیت حکومت مستضعفین کی تفسیر سے متعلق ائمہ معصومینؑ سے بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں۔[13] بعض احادیث میں آیت میں مستضعفین سے مراد بنی ہاشم، [14] ائمہ معصومینؑ[15] یا پیغمبر اکرم (ص) کے اہل بیتؑ[16] اور ان کے پیروکاران[17] ہیں اور ان میں سے آخری حضرت مہدی (عج)[18] ہیں؛ جیسا کہ دیگر روایات میں بعض ائمہ کے نام ذکر ہوئے ہیں۔ ان میں امام علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ[19] اور یہاں تک کہ امام جعفر صادقؑ[20] کو مستضعفین کے مصادیق میں قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف، فرعون اور ان کے پیروکاروں کو ائمہؑ کے دشمنوں جیسے قرار دیا گیا ہے۔[21]پیغمبر خدا(ص) سے مروی ایک روایت میں آپ(ص) نے اپنے اہل بیتؑ یعنی امام علیؑ، حضرت فاطمہ (س)، امام حسنؑ، امام حسینؑ اور آپؑ کی نسل سے آنے والے آپؑ کے نو اولاد کی مظلومیت بیان کر کے اس آیت کی اپنے اہل بیتؑ سے متعلق تاویل کی ہے.[22]

نہج البلاغہ میں مذکور ایک تمثیل کے مطابق امام علیؑ نے دنیا کا یوں تعارف کرایا کہ یہ دنیا سرکشی اور منہ زوری دکھلانے کے بعد ایک دن ہماری (اہل بیتؑ) طرف جھکے گی جس طرح اونٹنی اپنے مالک کو دودھ دینے سے گریز کرتی ہے تاکہ دودھ کو اپنے بچے کے لیے بچا کررکھے۔ اس کے بعد اس آیت کی تلاوت کی۔[23] ایک روایت میں مذکور ہے کہ حضرت مہدی (عج) بھی اپنی ولادت کے ساتویں دن جب اپنے والد کے حکم سے بات کرنا شروع کی اور توحید کی گواہی دی اور نبی مکرم اسلام (ص) اور ان کے آباء و اجداد پر درود وسلام بھیجا تو آپ(عج) نے اس آیت کی تلاوت کی۔[24]

بعض محققین نے مستضعفین کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے؛ پہلی قسم مستضعف فکری و عقیدتی اور دوسری قسم مستضعف عملی ہے۔ فکری اور عقیدتی مستضعف سے مراد وہ شخص ہے جو مختلف عوامل کی وجہ سے حق و باطل کو تشخیص دینے سے قاصر ہو اور اس سلسلے میں اس کا کوئی قصور نہ ہو۔ مستضعف عملی سے مراد وہ ہے جس کو حق و باطل کی تمیز تو ہو لیکن ظالم و جابر حکمرانوں کے دباؤ اور ان کی طرف سے سختی کی وجہ سے کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ وہ احادیث جو ائمہؑ کو مستضعفین میں شمار کرتی ہیں ان سے مراد دوسری قسم ہے۔[25]

تاریخ میں جاری سنت الہی

14ویں صدی ہجری کے شیعہ مفسرین محمد صادقی تہرانی اور ناصر مکارم شیرازی کے مطابق، یہ آیت پوری تاریخ انسانیت اور ہر دور اور تمام اقوام کے لیے ایک عمومی اور مستقل قانون ہے؛[26] اس لیے اس میں تمام آزادمنش لوگوں کے لیے باطل پر حق کی نیز کفر پر ایمان کی فتح کی خوشخبری ہے۔[27]

محمد جواد مغنیہ کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ یہ الہٰی قانون (یعنی عزت، آزادی، فتح و نصرت نصیب ہونا) صرف بنی اسرائیل کے لیے نہیں بلکہ تمام اقوام عالم کے لیے ہے بشرطیکہ خدا کی راہ میں صبر اور جہاد کیا جائے، جس طرح ایک مریض شفا بخش دوائی کھانے سے تندرست ہوجاتا ہے، خواہ وہ مومن ہو یا کافر، اسی طرح صبر و جہاد سے عزت، آزادی اور فتح نصیب ہوتی ہے کیونکہ خدا سب کے لیے ہے نہ کہ صرف بنی اسرائیل کے لیے۔[28]

آیت حکومت مستضعفین کی خطاطی: از غلام حسین امیرخانی

جیسا کہ بنی اسرائیل کی حکمرانی اور فرعونیوں کی حکمرانی کا زوال مستضعفین کی بالادستی اور قیادت پر مبنی مشیت الہی کے تحقق کی ایک مثال تھا۔[29] پیغمبر اسلام (ص) کی مدینہ میں اسلامی حکومت کا قیام اور اپنے مظلوم ومستضعف ساتھیوں کے ساتھ دنیا کی جابر طاقتوں پر غلبہ آنا خدا کے وعدے کی تکمیل کی ایک اور مثال ہے۔[30] بعض علما کا عقیدہ ہے کہ یہ الہی قانون مکمل طور پر واقع نہیں ہوا ہے اور صرف امام مہدی (عج) کے ظہور سے حاصل ہوگا۔[31]

حکومت حضرت مہدی(عج)

بعض کا کہنا ہے کہ یہ آیت حضرت مہدی (عج) سے متعلق ہے[32] بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ آخر الزمان میں امام عصر کے ظہور سے مختص آیات میں سے ہے۔[33] جیسا کہ شیخ طوسی نے بعض شیعہ علماء کی رائے پر تکیہ کرتے ہوئے اس آیت کو حضرت مہدی(عج) کی حکومت سے متعلق قرار دیا ہے۔ خدا امام زمان(عج) کو زمین پر حاکم اور جبار و ظالمین کی حکومت کا وارث بنائے گا۔[34]

بعض مفسرین اہل بیتؑ کی روایات کی روشنی میں پورے روئے زمین پر حضرت مہدی (عج) کی حکومت کے ظہور کو مشیت الہی کا ایک مکمل اور وسیع نمونہ قرار دیتے ہیں اور اس آیت کو ایسی حکومت کے ظہور کی واضح اور روشن آیات میں سے سمجھتے ہیں۔[35] بعض روایات میں حضرت مہدی(عج) کی حکومت کو مستضعفین کی آخری حکومت کے مصداق کے طور پر بیان کیا گیا ہے جس کے قیام کے لیے مختلف قسم کی تکالیف و رنج و الم اور دباؤ برداشت کرنا ہوگا تب جاکر ان کا اقتدار قائم ہوگا اور اپنے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کیا جائے گا۔[36]

نزول آیت کی وجہ

بعض شیعہ مفسرین کا عقیدہ ہے کہ آیت حکومت مستضعفین کے نزول کی وجہ پیغمبر اکرم (ص) کو ان مظالم کے بارے میں تسلی دینا ہے جو آپ(ص) کے بعد آپ(ص) کے اہل بیتؑ پر روا رکھے گئے اور خدا اہل بیتؑ کو تمام مصائب برداشت کرنے کے بعد زمین پرحاکم اور اپنا جانشین بنا دے گا[37] یہاں تک کہ بعض لوگ اہل زمین کی قیادت کو ائمہؑ کے ساتھ مختص سمجھتے ہوئے اس بات کے قائل ہیں کہ وہ ائمہ معصموینؑ اپنے دشمنوں کے ساتھ مل کر دنیا میں رجعت کریں گے اور یہ مسئلہ اہل بیتؑ پر روا رکھے گئے مظالم کا انتقام کے لیے زمینہ فراہم کرتا ہے۔[38]

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج16، ص16-21۔
  2. فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج24، ص579۔
  3. قرائتی، تفسیر نور، 1388شمسی، ج7، ص17۔
  4. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج8، ص129۔
  5. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج16، ص9-10؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج16، ص16۔
  6. قرائتی، تفسیر نور، 1388شمسی، ج7، ص18۔
  7. صادقی تہرانی، الفرقان، 1365شمسی، ج22، ص296-297۔
  8. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱شمسی، ج۱۶، ص۱۹۔
  9. حسینی استرآبادی، تأویل الآیات الظاہرۃ، 1409ھ، ص407؛ بروجردی، تفسیر جامع، تہران، ج5، ص151۔
  10. قمی مشہدی، کنز الدقائق، 1368شمسی، ج10، ص30۔
  11. قمی، تفسیر القمی، 1363شمسی، ج2، ص134۔
  12. بروجردی، تفسیر جامع، تہران، ج5، ص151-152۔
  13. ملاحظہ کیجیے: بحرانی، البرہان، 1416ھ، ج4، ص250؛ فرات کوفی، تفسیر فرات الکوفی، 1410ھ، ص314-316۔
  14. حسکانی، شواهد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص559۔
  15. شیخ صدوق، الامالی، 1376شمسی، ص479؛ ابن حیون، شرح الأخبار، 1409ھ، ج2، ص344؛ حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص557؛ بحرانی، البرہان، 1416ھ، ج4، ص250۔
  16. صادقی، تہرانی، الفرقان، 1365شمسی، ج22، ص294۔
  17. شیخ طوسی، الغیبۃ، 1411ھ، ص184؛ شیخ حر عاملی، إثبات الہداۃ، 1425ھ، ج5، ص122۔
  18. صادقی، تہرانی، الفرقان، 1365شمسی، ج22، ص295۔
  19. شیخ صدوق، معانی الأخبار، 1403ھ، ص79؛ بحرانی، البرہان، 1416ھ، ج4، ص250؛ حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص560۔
  20. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص306؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج7، ص375؛ بحرانی، البرہان، 1416ھ، ج4، ص250۔
  21. خصیبی، الہدایۃ الکبری، 1419ھ، ص421؛ طبرسی، مشکاۃ الأنوار، 1385ھ، ص95؛ حسینی استرآبادی، تأویل الآیات الظاہرۃ، 1409ھ، ص407۔
  22. خصیبی، الہدایہ الکبری، 1419ھ، ص376؛ جوہری بصری، مقتضب الأثر، قم، ص8۔
  23. شریف الرضی، نہج البلاغۃ، 1414ھ، ص506؛ حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص556۔
  24. خصیبی، الہدایۃ الکبری، 1419ھ، ص356؛ مسعودی، اثبات الوصیۃ، 1384شمسی، ص259؛ شیخ صدوق، کمال الدین، 1395ھ، ج2، ص425۔
  25. طباطبایی، المیزان، منشورات اسماعيليان، ج5، ص51و 60۔
  26. صادقی، تہرانی، الفرقان، 1365شمسی، ج22، ص294؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج16، ص21۔
  27. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج16، ص17۔
  28. مغنیہ، التفسیر المبین، قم، ص506۔
  29. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج16، ص17۔
  30. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج16، ص17۔
  31. صادقی، تہرانی، البلاغ، 1419ھ، ص385۔
  32. حسینی شیرازی، تبیین القرآن، 1423ھ، ص397۔
  33. شیبانی، نہج البیان، 1413ھ، ج4، ص144۔
  34. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج8، ص129۔
  35. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج16، ص17؛ قرائتی، تفسیر نور، 1388شمسی، ج7، ص17۔
  36. شیخ طوسی، الغیبۃ، 1411ھ، ص184؛ شیخ حر عاملی، إثبات الہداۃ، 1425ھ، ج5، ص122۔
  37. قمی، تفسیر القمی، 1363شمسی، ج2، ص134۔
  38. قمی، تفسیر القمی، 1363شمسی، ج2، ص134۔

مآخذ

  • ابن حیون، نعمان بن محمد، شرح الأخبار فی فضائل الأئمۃ الأطہار(ع)، قم، جامعہ مدرسین، 1409ھ۔
  • بحرانی، ہاشم بن سلیمان، البرہان فی تفسیر القرآن، تحقیق قسم الدراسات الاسلامیۃ موسسۃ البعثۃ، تہران، بنیاد بعثت، 1416ھ۔
  • بروجردی، سید محمد ابراہیم، تفسیر جامع، تہران، انتشارات صدر، چاپ ششم، بی‌تا۔
  • جمعی از محققان، فرہنگ‌نامہ علوم قرآن، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، ‫1394ھ۔
  • جوہری بصری، احمد بن عبد العزیز، مقتضب الأثر فی النصّ علی الأئمۃ الإثنی عشر، قم، انتشارات طباطبایی، بی‌تا۔
  • حسکانی، عبیداللہ بن عبداللہ، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق محمدباقر محمودی، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1411ھ۔
  • حسینی استرآبادی سید شرف الدین علی، تأویل الآیات الظاہرۃ فی فضائل العترۃ الطاہرۃ، تحقیق حسین استاد ولی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1409ھ۔
  • حسینی شیرازی، سید محمد، تبیین القرآن، بیروت، دارالعلوم، چاپ دوم، 1423ھ۔
  • خصیبی، حسین بن حمدان، الہدایۃ الکبری، بیروت، البلاغ، 1419ھ۔
  • شریف الرضی، محمد بن حسین، نہج البلاغۃ، صبحی صالح، قم، ہجرت، 1414ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الأمالی، تہران، کتابچی، چاپ ششم، 1376ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، تہران، اسلامیہ، چاپ دوم، 1395ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، معانی الأخبار، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین، 1403ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت،‌دار إحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • شیخ طوسی، محمد بن الحسن، کتاب الغیبۃ للحجۃ، قم، دارالمعارف الإسلامیۃ، 1411ھ۔
  • شیبانی، محمد بن حسن، نہج البیان عن کشف معانی القرآن، قم، بنیاد دایرۃ المعارف اسلامی، 1413ھ۔
  • شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، إثبات الہداۃ بالنصوص و المعجزات، بیروت، اعلمی، 1425ھ۔
  • صادقی تہرانی، محمد، البلاغ فی تفسیر القرآن بالقرآن، قم، 1419ھ۔
  • صادقی تہرانی، محمد، الفرقان فی تفسیر القرآن بالقرآن، قم، انتشارات فرہنگ اسلامی، چاپ دوم، 1365ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • طبرسی، علی بن حسن، مشکاۃ الأنوار فی غرر الأخبار، نجف، المکتبۃ الحیدریۃ، چاپ دوم، 1385ھ۔
  • فخررازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • فرات کوفی، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات الکوفی، تحقیق محمد کاظم محمودی، تہران، سازمان چاپ و انتشارات وزارت ارشاد اسلامی، 1410ھ۔
  • قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درس‌ہایی از قرآن، 1388ہجری شمسی۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دارالکتاب، چاپ سوم، 1363ہجری شمسی۔
  • قمی مشہدی، محمد بن محمدرضا، تفسیر کنز الدقائق و بحر الغرائب، تحقیق حسین درگاہی، تہران، سازمان چاپ وانتشارات وزارت ارشاد اسلامی، 1368ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مسعودی، علی بن حسین، إثبات الوصیۃ للإمام علی بن أبی طالب، قم، انصاریان، چاپ سوم، 1384ہجری شمسی۔
  • مغنیہ، محمد جواد، التفسیر المبین، قم، بنیاد بعثت، چاپ سوم، بی‌تا۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔