مندرجات کا رخ کریں

"اسلامی تقویم" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
سطر 4: سطر 4:
اس نظرئے کے مقابلے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ [[پیغمبر اکرمؐ]] کے دور میں آپؐ کے حکم سے ہی ہجرت کو تاریخ کا آغا قرار دیا گیا ہے۔<ref>عاملی، تحقیقی درباره تاریخ ہجری، تہران، ص۲۳.</ref>آپؐ نے مدینہ پہنچتے ہی اس کا حکم دیا تھا<ref>طبری، تاریخ، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۳۸۸.</ref> دوسری طرف پیغمبر اکرمؐ کے دور کے مکاتبات میں بھی ہجری سال کی تاریخ درج ہوئی ہے۔ جیسے؛
اس نظرئے کے مقابلے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ [[پیغمبر اکرمؐ]] کے دور میں آپؐ کے حکم سے ہی ہجرت کو تاریخ کا آغا قرار دیا گیا ہے۔<ref>عاملی، تحقیقی درباره تاریخ ہجری، تہران، ص۲۳.</ref>آپؐ نے مدینہ پہنچتے ہی اس کا حکم دیا تھا<ref>طبری، تاریخ، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۳۸۸.</ref> دوسری طرف پیغمبر اکرمؐ کے دور کے مکاتبات میں بھی ہجری سال کی تاریخ درج ہوئی ہے۔ جیسے؛
* پیغمبر اکرمؐ اور نجران کے نصاری کے درمیان طے پانے والے صلح نامہ میں پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے [[سنہ 5 ہجری|سنہ پانچ ہجری]] قمری درج ہے۔<ref>سبحانی، سید المرسلین،  جامعہ مدرسین، ج۱، ص۶۱۰.</ref>
* پیغمبر اکرمؐ اور نجران کے نصاری کے درمیان طے پانے والے صلح نامہ میں پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے [[سنہ 5 ہجری|سنہ پانچ ہجری]] قمری درج ہے۔<ref>سبحانی، سید المرسلین،  جامعہ مدرسین، ج۱، ص۶۱۰.</ref>
* پیغمبر اکرمؐ کی [[سلمان فارسی]] کو کی جانے والی وصیت جسے حضرت علیؑ نے تحریر کیا، جس میں پیغمبر اکرمؐ نے حکم دیا کہ خط کے آخر میں درج کیا جائے: یہ خط علی کے ہاتھوں پیغمبر کے حکم سے رجب، [[سنہ 9 ہجری]] کو لکھا گیا ہے۔<ref>سبحانی، سید المرسلین،  جامعہ مدرسین، ج۱، ص۶۰۹.{{عربی|«کتَبَ عَلی بْنُ اَبیطالِبٍ بِاَمْرِ رَسُولِ اللّهْ فِی شَهْرِ رَجَبِ سِنَةَ تِسْعٍ مِنَ الْهِجْرَةْ»}}.</ref>
* پیغمبر اکرمؐ کی [[سلمان فارسی]] کو کی جانے والی وصیت جسے حضرت علیؑ نے تحریر کیا، جس میں پیغمبر اکرمؐ نے حکم دیا کہ خط کے آخر میں درج کیا جائے: یہ خط علی کے ہاتھوں پیغمبر کے حکم سے [[رجب]]، [[سنہ 9 ہجری]] کو لکھا گیا ہے۔<ref>سبحانی، سید المرسلین،  جامعہ مدرسین، ج۱، ص۶۰۹.{{عربی|«کتَبَ عَلی بْنُ اَبیطالِبٍ بِاَمْرِ رَسُولِ اللّهْ فِی شَهْرِ رَجَبِ سِنَةَ تِسْعٍ مِنَ الْهِجْرَةْ»}}.</ref>


==قمری مہینے==
==قمری مہینے==

نسخہ بمطابق 13:19، 28 جولائی 2019ء

اسلامی تقویم، "ہجری تقویم" یا ہجری کیلنڈر کے نام سے جانی جاتی ہے جس کا معیار اور ملاک زمین کے گرد چاند کی حرکت کو قرار دیا ہے اور اسی وجہ اسے قمری سال بھی کہا جاتا ہے ہجری تقویم کا آغاز پیغمبر اکرمؐ کی ہجرت سے ہوتا ہے۔ یہ کیلنڈر مسلمانوں کے لئے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ دینی اعمال جیسے روزہ، حج اور دیگر مذہبی مناسبتیں جیسے اعیاد اور وفیات اسی کیلنڈر کے مطابق منائی جاتی ہیں۔

ہجری تقویم کا تعین

مشہور قول کے مطابق ہجری کیلنڈر کے آغاز کو حضرت علیؑ کی تجویز سے عمر بن خطاب نے پیغمبر اکرمؐ کی ہجرت قرار دیا ہے۔ اس قول کے مطابق ابوموسی اشعری نے عمر کو ایک خط لکھااور ایک معین تاریخ نہ ہونے کی شکایت کی کیونکہ خلیفہ کی طرف سے آنے والے خطوط میں کوئی تاریخ ذکر نہیں ہوتی تھی اسی لئے کونسا خط پہلے اور کونسا بعد میں لکھا گیا ہے اس کا پتہ نہیں چلتا تھا۔[1] دوسرے خلیفہ نے ایک شورا تشکیل دیا تاکہ تاریخ اسلام کا آغاز معین کیا جائے۔[2] اس شورا میں مختلف نظریات پیش ہوئے لیکن کسی ایک پر بھی اتفاق نہیں ہوا۔ آخرکار حضرت علیؑ نے پیغمبر اکرمؐ کی مکہ سے مدینہ ہجرت کو تاریخ اسلام کا آغاز قرار دینے کو کہا اور عمر کو بھی وہی بات پسند آئی اور تمام شہروں میں اسی کو اعلان کیا گیا۔[3] اس نظرئے کے مقابلے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے دور میں آپؐ کے حکم سے ہی ہجرت کو تاریخ کا آغا قرار دیا گیا ہے۔[4]آپؐ نے مدینہ پہنچتے ہی اس کا حکم دیا تھا[5] دوسری طرف پیغمبر اکرمؐ کے دور کے مکاتبات میں بھی ہجری سال کی تاریخ درج ہوئی ہے۔ جیسے؛

  • پیغمبر اکرمؐ اور نجران کے نصاری کے درمیان طے پانے والے صلح نامہ میں پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے سنہ پانچ ہجری قمری درج ہے۔[6]
  • پیغمبر اکرمؐ کی سلمان فارسی کو کی جانے والی وصیت جسے حضرت علیؑ نے تحریر کیا، جس میں پیغمبر اکرمؐ نے حکم دیا کہ خط کے آخر میں درج کیا جائے: یہ خط علی کے ہاتھوں پیغمبر کے حکم سے رجب، سنہ 9 ہجری کو لکھا گیا ہے۔[7]

قمری مہینے

قمری مہینوں کے نام دَور جاہلیت میں بھی رائج تھے اور اسلام نے انہی ناموں کو باقی رکھا ہے۔ ان مہینوں کی بہت پرانی تاریخ ہے جو حضرت ابراہیم کے دور سے مربوط ہیں اور دین حنیف سے منسوب ہیں اور ان میں سے ہر ایک مہینے کا خاص معنی بھی ہے۔[8] قمری سال کے مہینے مندرجہ ذیل ہیں:

رديفناممعنی
1محرمحرام شدہ
2 صفر خالی
3ربیع الاولبہار اول
4ربیع الثانیبہار ثانی
5جمادی الاولانجماد1
6جمادی الثانیانجماد2
7رجبجنت میں ایک نہر
8شعبانپھیلاؤ|فروانی
9رمضانخداکانام/سوزان
10شوالسفر/سامان سفراٹھانا
11ذوالقعدہامن وسکون کا موسم
12ذوالحجہطواف وزیارت کا موسم
قمری مہینے اور انکا معنی

حوالہ جات

  1. مسکویہ، تجارب الأمم، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۴۱۳.
  2. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ،‌ ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۲۰۷.
  3. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۱۴۵؛ مسعودی، مروج الذهب،‌ ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۳۰۰.
  4. عاملی، تحقیقی درباره تاریخ ہجری، تہران، ص۲۳.
  5. طبری، تاریخ، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۳۸۸.
  6. سبحانی، سید المرسلین، جامعہ مدرسین، ج۱، ص۶۱۰.
  7. سبحانی، سید المرسلین، جامعہ مدرسین، ج۱، ص۶۰۹.«کتَبَ عَلی بْنُ اَبیطالِبٍ بِاَمْرِ رَسُولِ اللّهْ فِی شَهْرِ رَجَبِ سِنَةَ تِسْعٍ مِنَ الْهِجْرَةْ».
  8. نبئی، تقویم و تقویم‌نگاری در تاریخ، ۱۳۶۶ش، ص۱۳۵،۱۳۶.

مآخذ

  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایة و النهایة،‌ بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۷ق.
  • سبحانی، جعفر، سید المرسلین، قم، جامعه مدرسین، بی‌تا.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراهیم، بیروت،‌ دار التراث، چاپ دوم، ۱۳۶۷ش.
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، تحقیقی درباره تاریخ هجری، تهران، واحد تحقیقات اسلامی بنیاد بعثت، بی‌تا.
  • مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذهب،‌ قم، دار الهجره، ۱۴۰۹ق.
  • مسکویه، احمد بن محمد، تجارب الأمم، تهران، انتشارات سروش، ۱۳۷۹ش.
  • نبئی، ابوالفضل، تقویم و تقویم‌نگاری در تاریخ، مشهد، آستان قدس، ۱۳۶۶ش.
  • یعقوبی، احمد، تاریخ یعقوبی،‌ بیروت، دار صادر، بی‌تا.