مندرجات کا رخ کریں

"اسلامی تقویم" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
'''اسلامی تقویم'''، "ہجری تقویم" یا ہجری کیلنڈر کے نام سے جانی جاتی ہے جس کا معیار اور ملاک زمین کے گرد چاند کی حرکت کو قرار دیا ہے اور اسی وجہ اسے [[قمری مہینے|قمری سال]] بھی کہا جاتا ہے ہجری تقویم کا آغاز [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کی ہجرت سے ہوتا ہے۔ یہ کیلنڈر مسلمانوں کے لئے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ دینی اعمال جیسے [[روزہ]]، [[حج]] اور دیگر مذہبی مناسبتیں جیسے اعیاد اور وفیات اسی کیلنڈر کے مطابق منائی جاتی ہیں۔
'''اسلامی تقویم''' یا '''ہجری تقویم''' سال، مہینے اور ایام کا حساب چاند کی گردش کے مطابق ہوتی ہے اور مسلمانان اپنے دینی اَعمال اور مذہبی مناسبات اسی تقویم کے تحت مناتے ہیں۔
'''اسلامی تقویم''' یا '''ہجری تقویم''' سال، مہینے اور ایام کا حساب چاند کی گردش کے مطابق ہوتی ہے اور مسلمانان اپنے دینی اَعمال اور مذہبی مناسبات اسی تقویم کے تحت مناتے ہیں۔



نسخہ بمطابق 17:45، 7 ستمبر 2020ء

اسلامی تقویم یا ہجری تقویم سال، مہینے اور ایام کا حساب چاند کی گردش کے مطابق ہوتی ہے اور مسلمانان اپنے دینی اَعمال اور مذہبی مناسبات اسی تقویم کے تحت مناتے ہیں۔

اس کی ابتداء پیغمبر اسلامؐ کی مکہ سے مدینہ ہجرت سے ہوتا ہے جو سنہ 622ء میں پیش آئی۔ مشہور قول کے مطابق امام علیؑ کی تجویز سے عمر بن خطاب کے دور خلافت میں اسلامی تقویم کے طور پر معین کیا گیا۔

ایک قمری سال میں 354 یا 355 دن ہوتے ہیں اور شمسی یا عیسوی سال سے 10 یا 11 دن کم ہوتے ہیں۔ اسلامی تقویم کا آغاز ماہ محرم سے جبکہ ماہ ذی‌الحجہ پر اس کا اختتام ہوتا ہے۔ بعض احادیث کے مطابق ماہ رمضان اسلامی تقویم کا پہلا مہینہ ہے اسی بنا پر بعض دعاوں کی کتابوں میں اس سال کے اعمال، اعمال ماہ رمضان سے شروع اور اعمال ماہ رجب کے ساتھ اختتام کو پہنچتا ہے۔ ساتویں صدی ہجری کے شیعہ محدث سید بن طاووس یہ احتمال دیتے ہیں کہ ماہ رمضان عبادی سال کی ابتداء اور ماہ محرم مناسبتی سال کی ابتداء ہے۔

اسلامی مہینوں کے نام بالترتیب یہ ہیں: محرم، صفر، ربیع الاول، ربیع الثانی، جمادی الاولی، جمادی الثانی، شعبان، رجب، رمضان، شوال، ذی‌القعدہ و ذی‌الحجہ۔

ہجری تقویم کا تعین

مشہور قول کے مطابق ہجری کیلنڈر کے آغاز کو حضرت علیؑ کی تجویز سے عمر بن خطاب نے پیغمبر اکرمؐ کی ہجرت قرار دیا ہے۔ اس قول کے مطابق ابوموسی اشعری نے عمر کو ایک خط لکھااور ایک معین تاریخ نہ ہونے کی شکایت کی کیونکہ خلیفہ کی طرف سے آنے والے خطوط میں کوئی تاریخ ذکر نہیں ہوتی تھی اسی لئے کونسا خط پہلے اور کونسا بعد میں لکھا گیا ہے اس کا پتہ نہیں چلتا تھا۔[1] دوسرے خلیفہ نے ایک شورا تشکیل دیا تاکہ تاریخ اسلام کا آغاز معین کیا جائے۔[2] اس شورا میں مختلف نظریات پیش ہوئے لیکن کسی ایک پر بھی اتفاق نہیں ہوا۔ آخرکار حضرت علیؑ نے پیغمبر اکرمؐ کی مکہ سے مدینہ ہجرت کو تاریخ اسلام کا آغاز قرار دینے کو کہا اور عمر کو بھی وہی بات پسند آئی اور تمام شہروں میں اسی کو اعلان کیا گیا۔[3] اس نظرئے کے مقابلے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے دور میں آپؐ کے حکم سے ہی ہجرت کو تاریخ کا آغا قرار دیا گیا ہے۔[4]آپؐ نے مدینہ پہنچتے ہی اس کا حکم دیا تھا[5] دوسری طرف پیغمبر اکرمؐ کے دور کے مکاتبات میں بھی ہجری سال کی تاریخ درج ہوئی ہے۔ جیسے؛

  • پیغمبر اکرمؐ اور نجران کے نصاری کے درمیان طے پانے والے صلح نامہ میں پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے سنہ پانچ ہجری قمری درج ہے۔[6]
  • پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے سلمان فارسی کو کی جانے والی وصیت جسے حضرت علیؑ نے تحریر کیا، جس میں پیغمبر اکرمؐ نے حکم دیا کہ خط کے آخر میں درج کیا جائے: یہ خط علی کے ہاتھوں پیغمبر کے حکم سے رجب، سنہ 9 ہجری کو لکھا گیا ہے۔[7]

قمری مہینے

قمری مہینوں کے نام دَور جاہلیت میں بھی رائج تھے اور اسلام نے انہی ناموں کو باقی رکھا ہے۔ ان مہینوں کی بہت پرانی تاریخ ہے جو حضرت ابراہیم کے دور سے مربوط ہیں اور دین حنیف سے منسوب ہیں اور ان میں سے ہر ایک مہینے کا خاص معنی بھی ہے۔[8] قمری سال کے مہینے مندرجہ ذیل ہیں:

رديفناممعنی
1محرمحرام شدہ
2 صفر خالی
3ربیع الاولبہار اول
4ربیع الثانیبہار ثانی
5جمادی الاولانجماد1
6جمادی الثانیانجماد2
7رجبجنت میں ایک نہر
8شعبانپھیلاؤ|فروانی
9رمضانخداکانام/سوزان
10شوالسفر/سامان سفراٹھانا
11ذوالقعدہامن وسکون کا موسم
12ذوالحجہطواف وزیارت کا موسم
قمری مہینے اور انکا معنی

حوالہ جات

  1. مسکویہ، تجارب الأمم، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۴۱۳۔
  2. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ،‌ ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۲۰۷۔
  3. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۱۴۵؛ مسعودی، مروج الذہب،‌ ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۳۰۰۔
  4. عاملی، تحقیقی دربارہ تاریخ ہجری، تہران، ص۲۳۔
  5. طبری، تاریخ، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۳۸۸۔
  6. سبحانی، سید المرسلین، جامعہ مدرسین، ج۱، ص۶۱۰۔
  7. سبحانی، سید المرسلین، جامعہ مدرسین، ج۱، ص۶۰۹۔«کتَبَ عَلی بْنُ اَبیطالِبٍ بِاَمْرِ رَسُولِ اللّہْ فِی شَہْرِ رَجَبِ سِنَۃَ تِسْعٍ مِنَ الْہِجْرَۃْ»۔
  8. نبئی، تقویم و تقویم‌نگاری در تاریخ، ۱۳۶۶ش، ص۱۳۵،۱۳۶۔

مآخذ

  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ،‌ بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۷ق۔
  • سبحانی، جعفر، سید المرسلین، قم، جامعہ مدرسین، بی‌تا۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت،‌ دار التراث، چاپ دوم، ۱۳۶۷ش۔
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، تحقیقی دربارہ تاریخ ہجری، تہران، واحد تحقیقات اسلامی بنیاد بعثت، بی‌تا۔
  • مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذہب،‌ قم، دار الہجرہ، ۱۴۰۹ق۔
  • مسکویہ، احمد بن محمد، تجارب الأمم، تہران، انتشارات سروش، ۱۳۷۹ش۔
  • نبئی، ابوالفضل، تقویم و تقویم‌نگاری در تاریخ، مشہد، آستان قدس، ۱۳۶۶ش۔
  • یعقوبی، احمد، تاریخ یعقوبی،‌ بیروت، دار صادر، بی‌تا۔