قمری مہینے
1قمری مہینے چاند کا زمین کے گرد ایک چکر مکمل ہونے کے درمیانی فاصلے کو کہا جاتا ہے۔ یہ فاصلہ ہمیشہ یکساں نہیں ہوتا بلکہ کبھی 29 اور کبھی 30 دنوں میں یہ چکر مکمل ہوتا ہے یوں قمری مہینوں میں سے بعض 29 دن جبکہ بعض 30 دن کا ہوتا ہے۔ چاند کی گردش کو کب سے ایک منظم طریقے سے دنوں، مہینوں اور سالوں کے محاسبہ کا معیار قرار پایا اس کی ابتداء معلوم نہیں لیکن جو چیز یقینی ہے وہ یہ ہے کہ یہ مہینے اسلام سے پہلے بھی رائج تھے اسی لئے جب پیغمبر اکرم(ص) کی مدینہ کی طرف ہجرت کو اسلامی تاریخ کا مبداء قرار دیا گیا تو قمری کیلنڈر کو ہی اسلامی سال کا معیار قرار دیا گیا اور بہت ساری اسلامی عبادات چاہے واجب ہوں یا مستحب انہی مہینوں کے مطابق انجام دینا ضروری ہے.
قمری مہینے کی پہلی تاریخ کی تعیین اور چاند نظر آنے یا نظر نہ آنے کے حوالے سے جہاں شیعہ فقہاء کے ہاں مختلف مبانی ہیں وہاں علم نجوم کے متعدد شرائط بھی دخالت رکھتی ہیں۔ اسی لئے کبھی مہینے کی پہلی تاریخ کی تعیین میں مختلف اسلامی ممالک اور چہ بسا ایک ہی ملک کے مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلا بعض شیعہ فقہاء اس بات کے معتقد ہیں کہ مہینے کی پہلی تاریخ حاکم شرع کے حکم سے بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ جبکہ بعض دیگر کا خیال ہے کہ اس سلسلے میں حاکم شرع کا حکم کوئی اثر نہیں رکھتا یعنی حاکم شرع کے حکم سے مہینے کی پہلی تاریخ ثابت نہیں ہوگی۔ اسی طرح مختلف ممالک میں مہینے کی پہلی تاریخ کی تعیین کے حوالے سے مختلف مبانی اور معیارات ہیں اور علم نجو کے قواعد کی رو سے 4 مہینے مسلسل 30 دن اور 3 مہینے تک مسلسل 29 دن کے بھی ہو سکتے ہیں۔
قمری مہینے تاریخ کے آئینے میں
سنہ ہجری قمری سے پہلے جزیرۃ العرب اور شام وغیرہ میں جس تقویم کی بنیاد پر سال اور مہینوں کا تعیین ہوتا تھا وہ یہ ہیں: قبطی، سریانی، رومی اور یہودی۔ لیکن قریش اسلام سے پہلے بھی ایک ایسے تقویم کو استعمال کرتے تھے جس کے مہینوں کے نام اسی قمری ہجری تقویم کے مہینوں کے نام ہی تھے۔ اسلامی تاریخ کا مبداء پیغمبر اکرم(ع) کی مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کو قرار دیا گیا۔[1]
قمری مہینوں کے نام
قمری مہینوں کے نام بالترتیب یہ ہیں:
- محرم (حرام مہینے)
- صفر
- ربیع الاول
- ربیع الثانی
- جمادی الاول
- جمادی الثانی
- رجب (حرام مہینے)
- شعبان
- رمضان
- شوال
- ذی القعدہ (حرام مہینے)
- ذی الحجہ (حرام مہینے)
ان بارہ مہینوں میں سے چار ماہ رجب، ذی القعدہ، ذوالحجہ اور محرم حرام مہینے یعنی حرمت والے مہینے کہلاتے ہیں جن کے مختلف احکام جیسے جنگ کی ممنوعیت اور دیہ کا اضافہ ہونا وغیرہ ہیں۔ قمری سال 354 دن کا ہوتا ہے جو تقریبا شمسی سال سے 10 یا 11 دن کم ہوتا ہے۔
پہلی تاریخ ثابت ہونے کے طریقے
شیعہ فقہ کے مطابق مہینے کی پہلی تاریخ درج ذیل طریقوں سے ثابت ہوگی:
- خود شخص پہلی تاریخ کا چاند دیکھے۔
- دوسروں کے کہنے پر اطمینان حاصل ہو جائے۔
- دو عادل مردوں کی گواہی جن کی گواہی ماہرین علم نجوم کے قواعد کے بر خلاف نہ ہو۔
- پہلے مہینے کے 30 دن گذر جائے۔
- حُکم حاکم شرع (بعض مراجع کے مطابق)
بعض غیر مشہور طریقے بھی ہیں جیسے: ضخامت ہلال، ظہر سے پہلے چاند نظر آنا یا یہ کہ تیرہویں رات چاند مکمل نظر آئے [2]
شیعہ فقہاء کے فتؤوں کے اختلاف کا سبب
اکثر اوقات جن چیزوں کی وجہ سے فتووں میں اختلاف پیدا ہوتا ہے وہ درج ذیل ہیں:
- رؤیت کا طریقہ: آیا دوربین اور ٹلسکوپ کے ذریعے دیکھنا بھی معتبر ہے یا نہیں؟
- پہلی تاریخ کی تعیین میں افق کا کردار:
- ہمافق ہونا (اتحاد افق)
- رات کو افق کا ایک ہونا (اتحاد آفاق)
- ایک دوسرے سے نزدیک افق [3]
قرآن کی آیات اور معصومین کی احادیث سے استنباط اور علم نجوم کے قواعد سے شیعہ فقہاء کی آگاہی میں اختلاف کی وجہ سے فقہاء کے ہاں مختلف مبانی وجود میں آتے ہیں جو اختلاف فتوا کا باعث بنتا ہے۔ مذیر معلومات کیلئے رؤیت ہلال از نگاہی دیگر)
قمری مہینے علم نجوم کی روشنی میں
علم نجوم کی رو سے ہر قمری مہینہ چاند کی ایک خاص حالت کے ساتھ شروع ہوتا هے جسے نئی چاند (چاند اور سورج کا موازنہ) کہا جاتا ہے۔ اس حالت میں چاند زمین اور سورج کے درمیان اس طرح واقع ہوتا ہے کہ زمین پر اس کا نورانی حصہ بالکل اس طرف ہے جو ہمیں دکھائی نہیں دیتا۔ ایک یا دو دن بعد چاند سورج سے تھوڑا دور ہوتا ہے اور چاند رات کی شکل میں دکھائی دینا شروع ہوتا ہے۔ دو متوالی چاند کے فاصلے کو کریسنٹ سائیکل کہا جاتا ہے۔ قمری مہینے کے تمام ایام 29 دن، 12 گھنٹے، 44 منٹ اور 3 سیکنڈ ہوتے ہیں۔ اسی طرح تمام قمری سالوں کے ایام بھی برابر یعنی 354.3670834 دن کے ہوتے ہیں۔ کیلینڈر میں اعداد کو اعشاری حالت میں لکھنے میں دشواری کے پیش نظر مجبوری کی حالت میں مہینوں کو 29 یا 30 دن کا حساب کرتے ہیں اور یہی دو قمری مہینوں کے درمیان اختلاف کا باعث ہے۔[4] شرعی حکم کے مطابق اگر مہینے کی 29 ویں تاریخ کے شام کو چاند نظر آئے مہینہ ختم ہوتا ہے اور اگلے دن دوسرے مہینے کی پہلی تاریخ ہوگی لیکن اگر 29 تاریخ کو چاند نظر نہ آیا تو مہینہ 30 دن کا ہو گا۔[5]
فقہی اعتبار سے محسباتی چاند معتبر نہیں بلکہ فقہا چاند دیکھنے کو معتبر سمجھتے ہیں۔[6]
چونکہ ہر جگہ ایک مقررہ وقت میں چاند دیکھنا امکان پذیر نہیں ہوتا اس بنا پر زمین کے مختلف مقامات پر چاند دیکھنے کا وقت مختلف ہوگا (زیادہ سے زیادہ ایک دن)۔ نجومی اعتبار سے زیادہ سے زیادہ 4 مہینے پے در پے 30 دن اور 3 مہینے 29 دن کے ہونا امکان پذیر ہے۔[7]
مختلف ممالک کے قمری کیلنڈر میں اختلاف
مختلف ممالک کے قمری کیلنڈر میں مہینے کے شروع ہونے میں جو اختلاف ہے اس کی درج ذیل وجوہات ہو سکتی ہیں:[8]
- جغرافیائی اور ماحولیاتی حالات
- ہلال دیکھنے میں مؤثر فلکیاتی عوامل (وقفے کا دورانیہ، غروب آفتاب کا وقت، زمین سے چاند کا فاصلہ وغیرہ)
- بعض معاہدوں کی وجہ سے رؤیت ہلال پر توجہ نہ دینا
- رؤیت ہلال کے بارے میں اختلاف فتوا (اتحاد افق، چشم مسلح اور غیر مسلح کا مسئلہ وغیرہ...)
- چاند دیکھنے میں انسانی غلطی
آج کل مختلف فلکیاتی سافٹ ویئرز کے ذریعے چاند کی موقعیت اور مشخصات کا تعین بہت آسان ہو گیا ہے لیکن چاند دیکھنا ایک انسانی فعل ہے اس بنا پر افراد اور شرائط کے اعتبار سے مختلف اور متغیر ہو سکتا ہے۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ چاند دیکھنے والوں میں سے 15 فیصد توہم کا شکار ہوتے ہیں اور یہی چیز قمری مہینے کی ابتداء کو تعیین کرنے میں مشکلات وجود میں لاتے ہیں۔[9]
مختلف ممالک میں مہینے کی پہلی تاریخ کا معیار
مختلف ممالک میں قمری مہینے کی پہلی تاریخ معین کرنے کا طریقہ مختلف ہے، اور یہی چیز قمری مہینے کی پہلی تاریخ کے مختلف ہونے کا سبب بنتا ہے خاص کر رمضان اور شوال کے مہینے کی پہلی تاریخ میں۔ اس بات کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ چاند دیکھنے اور مہینے کی پہلی تاریخ ثابت ہونے کا امکان جغرافیائی اعتبار سے مشرق میں واقع ممالک کی نسبت مغرب میں واقع ممالک میں زیادہ ہوتا ہے۔ مختلف ممالک میں قمری مہینے کی پہلی تاریخ معین کرنے کے رائج معیار درج ذیل ہیں:[10]
1- پہلی تاریخ کا چاند نظر آنا
- پہلی تاریخ کا چاند غیر مسلح آنکھوں کے ذریعے پچھلے مہنے کی 29 تاریخ کی شام کو نظر آنا (ہندوستان، پاکستان، بنگلادیش، مراکش اور اکثر شیعہ علماء کے مطابق)
- پہلی تاریخ کا چاند نظر آنا اگرچہ ٹلسکوپ وغیرہ کی مدد سے ہی کیوں نہ ہو(ایران اور بعض شیعہ علماء کی نظر میں)
- بعض حساس مہینوں کی پہلی تاریخ کے غروب کے وقت چاند نظر آنا(سعودی عرب میں رمضان، شوال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ)
۲- علم نجوم کے حساب سے
- سعودی عرب کا معیار
- 16 اپریل سنہ 1999ء سے پہلے: پہلی تاریخ کو شہر مکہ میں غروب کے وقت چاند کی عمر 12 گھنٹے سے زیادہ ہو۔
- 16 اپریل سنہ 1999ء کے بعد: مکہ میں مقارنہ کے بعد چاند سورج کے بعد غروب کرے (ام القراء)۔ کہا جاتا ہے کہ اس معیار کے تحت 85 فیصد مواقع پر مہینے کی پہلی تاریخ چاند نظر آنے سے پہلے ہوگی اور ایران اور سعودی عرب میں قمری مہینوں کی تاریخ میں اختلاف کی سب سے اہم وجہ یہی ہے۔
- مصر کا معیار: مصر کے مغربی مناطق میں سورج مقارنہ کے بعد غروب کرے اور چاند کا وقفہ کم از کم 5 منٹ ہو۔
- مابینز کا معیار : چاند کی عمر 8 گھنٹے، چاند کا ارتفاع 2 درجہ اور چاند کا سورج سے زوایہ کم از کم 3 درجہ ہو۔(ملائشیا، سنگاپور، انڈونیشیا اور برونائی)
- عمل نجوم کا مکمل معیار: چاند کے مختلف حالتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سورج غروب ہوتے وقت چاند نظر آنے کا امکان ہو۔(الجزائر و تونس).
- لیبیا کا معیار: لیبیا کے مشرقی مناطق میں مقارنہ کا وقت سورج طلوع ہونے سے پہلے ہو۔
3- علم نجوم کے معیارات سے تعارض کے بغیر چاند نظر آنا چاند نظر آنا درحالیکہ علم نجوم کے معیارات چاند نظر آنے کو امکان پذیر قرار دے۔ یہاں پر انسانی دید میں خطا اور غلطی سے محفوظ رہنے کے لئے علم نجوم کا سہارا لیا جاتا ہے۔ (آیت اللہ خامنہ ای کے دفتر اور ایران کے رؤیت ہلال کمیٹی، گیانا، ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو کے فلکیاتی تنظیمیں)
4- دوسرے ممالک کی متابعت
- سعودی عرب کی متابعت: قطر، کویت، امارات، عمان، یمن، بحرین، شام، لبنان، ترکی، افغانستان و..
- چھوٹے ممالک کا بڑے ممالک کی متابعت (نیوزیلینڈ آسٹریلیا کی اورسورینام گیانا کی)
- متبوع مسلمان ممالک کی متابعت(اکثر یورپی اور طاس اور آئس لینڈ کے سواحلی علاقے)
بعض ممالک میں کوئی معیار نہیں ہوتا اور ہر سال پہلی تاریخ معین کرنے کا معیار تبدیل ہوتا رہتا ہے جیسے نائجیریا۔[11]
ایران میں قمری مہینے کا آغاز
ایران میں ہجری قمری کیلنڈر ہجری شمسی کیلنڈر کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور مذہبی مناسک اور مراسم اسی کیلنڈر کے مطابق منائے جاتے ہیں۔ اس وقت ایران میں کیلنڈر مرتب کرنے والا باقاعدہ ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف جیو فزکس، تہران یونیورسٹی ہے۔ یہ ادارہ قمری کیلنڈر مرتب کرنے کے لئے فقہی اعتبار سے آیت اللہ خامنہای کے فتووں سے مدد لیتا ہے جس کےمطابق آنکھ سے چاند نظر آنا شرط ہے لیکن ٹلسکوپ وغیره سے مدد لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ آخری سالوں میں دن کو سورج غروب ہونے سے پہلے چاند نظر آنے کو بھی معتبر جانا گیا ہے۔[12]
معاہدہ ہجری کیلنڈر
مورخین قمری ہجری تاریخوں کے حساب و کتاب میں آسانی اور اسلامی ممالک کے ہجری کیلنڈر میں ایک دن کے اختلاف سے پیش آنے والے اشکالات کو برطرف کرنے کے لئے «معاہدہ ہجری کیلنڈر» استعمال کرتے ہیں۔
اس کیلینڈر میں مہینوں کی ابتداء اور ان کے نام ہجری قمری ہلالی کیلنڈر کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کیلنڈر کے مہینوں کے دن اور رات کی تعداد یکے بعد دیگر 30 اور 29 معین کی گئی ہے: ماہ محرم 30 دن، ماہ صفر 29 دن، ماہ ربیع الاول 30 دن، تا آخر۔ ماہ ذیحجہ عام سالوںمیں 29 دن کا جبکہ کبیسہ سالوں میں 30 دن کا ہوتا ہوگا۔ 153 ہجری سال (1257 سے 1409 ہجری) کے عرصے میں کیے گئے شماریاتی مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قمری ہلالی مہینے اور معاہدہ ہجری کیلنڈر کے مہینے کی پہلی تاریخ 43.64 فیصد موارد میں ایک دوسرے سے ملتا ہے جبکہ 35.35 فیصد موارد میں ایک دن اور رات کا جبکہ 22 0.0% موارد میں دو دن اور رات کا فرق ہوتا ہے۔[13] با این اختلاف روشن است این نوع گاہشماری نمیتواند معیار زمانشناسی احکام قرار گیرد.
رؤیت ہلال کمیٹی
آیت اللہ خامنہای کی رہبری کی ابتداء سے چاند دیکھنے کے عمل کو منظم کرنے کے لئے رؤیت ہلال کمیٹی تشکیل دی گئی۔ جمادی الثانی سنہ 1422ھ کو اگر ایرانی منجّمین چاند دیکھنے میں کامیاب ہو جاتے تو رؤیت ہلال کے سلسلے میں کئی بین الاقوامی ریکارڈ ایران کے نام درج ہوتا تھا، رؤیت ہلال کمیٹی کے تعاون سے اس کام کے لئے بڑے پیمانے پر اقدام کیا گیا اور اس مقصد میں کامیابی کے بعد ہر مہینے میں چاند دیکھنے کے لئے مختلف کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ خاص موارد جیسے ماہ رمضان کے اختتام پر پورے ایران میں جدید اور ترقیافتہ دوربینوں کے ساتھ چاند دیکھنے کے لئے 150 سے زیادہ کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں اور بعض علاقوں میں ہوائی جہاز وغیرہ سے بھی اس کام میں مدد لئے جاتے ہیں۔[14] یہ کمیٹی ہر مہینے میں اپنی مشاہدات کی رپورٹ(یہاں) اعلان کرتی ہے۔
حوالہ جات
- ↑ دانشنامہ جہان اسلام
- ↑ مقالہ استہلال و نظرات فقہی پیرامون آن، مجلہ رہ توشہ، شماره 10۲، شہریور 1390
- ↑ مقالہ استہلال و نظرات فقہی پیرامون آن، مجلہ رہ توشہ، شمارہ 10۲، شہریور 1390
- ↑ نگرشی بر تقویم قمری و رؤیت هلال ماه، تقی عدالتی، مجله فقه، شماره ۲، زمستان 1373، ص305
- ↑ بررسی وضعیت رؤیت پذیری هلال ماه، امیر حسن زاده
- ↑ اسلام کوئست
- ↑ نگرشی بر تقویم قمری و رؤیت هلال ماه، تقی عدالتی، مجله فقه، شماره ۲، زمستان 1373، ص309
- ↑ مقاله استهلال و نظرات فقهی پیرامون آن، مجله ره توشه، شماره 10۲، شهریور 1390
- ↑ سایت گروه غیر حرفهای رؤیت هلال
- ↑ مقاله استهلال و نظرات فقهی پیرامون آن، مجله ره توشه، شماره 10۲، شهریور 1390
- ↑ مقاله استهلال و نظرات فقهی پیرامون آن، مجله ره توشه، شماره 10۲، شهریور 1390
- ↑ مقالہ استہلال و نظرات فقہی پیرامون آن، مجلہ رہ توشہ، شمارہ 10۲، شہریور 1390
- ↑ سایت مبدل تاریخ
- ↑ سایت آیت اللہ خامنہ ای
مآخذ
- عدالتی، تقی، نگرشی بر تقویم قمری و رؤیت هلال ماه، مجله فقه، شماره ۲، زمستان 1373ہجری شمسی.
- مقاله استهلال و نظرات فقهی پیرامون آن، مجله ره توشه، شماره 10۲، شهریور 1390ہجری شمسی.
- سال قمری چند روز است؟ آیا تعداد روزهای یک سال قمری با سال های قمری دیگر تفاوت دارد؟ در صورت تفاوت چه باید کرد؟، اسلام کوئست.
- حسن زاده، امیر، مقاله بررسی وضعیت رؤیت پذیری هلال ماه.
- تاریخچه تقویم هجری قمری، سایت مبدل تاریخ.