حکم شرعی، دین اسلام کے ان قوانین کو کہا جاتا ہے جن میں انسان کے وظائف بیان کئے جاتے ہیں۔ احکام شرعی کو بنیادی طور پر دو قسموں، حکم تکلیفی اور حکم وضعی میں تقسیم کئیے جاتے ہیں: حکم تکلیفی بلاواسطہ انسان کے وظائف کو بیان کرتا ہے جیسے نماز پڑھنے کا حکم یا شراب کی حرمت کا حکم۔ جبکہ احکام وضعی بالواسطہ انسان کے وظائف کو تعیین کرتا ہے جیسے نجس لباس میں نماز کے باطل ہونے کا حکم۔

حکم شرعی ادلہ اربعہ سے استنباط کیا جاتا ہے جن میں قرآن، سنت، عقل اور اجماع شامل ہیں۔ حکم شرعی کے استنباط میں شیعوں کے نزدیک متعارف طریقہ اجتہاد ہے اور جس شخص میں اجتہاد کی صلاحیت پائی جاتی ہے، مجتہد یا فقیہ کہا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں احکام شرعی کو توضیح‌ المسائل نامی کتاب میں پیش کئے جاتے ہیں جو متعلقہ مجتہد کے فقہی فتوؤں پر مشتمل ہوتی ہے۔

مراجع تقلید کے فتوے کے مطابق روزمرہ پیش آنے والے احکام کو سیکھنا واجب ہے۔

تعریف

حکم شرعی ان دینی قوانین کو کہا جاتا ہے جن میں انسانوں کے وظائف بیان کئے جاتے ہیں۔[1] جیسے نماز اور روزہ وغیرہ کا وجوب، شراب پینے کی ممانعت، نکاح صحیح ہونے کی شرائط اور خرید و فروخت کے احکام وغیرہ۔[2]

حکم شرعی کی اقسام

فقہاء احکام شرعی کو مختلف اقسام میں تقسیم کرتے ہیں من جملہ وہ اقسام درج ذیل ہیں:

حکم تکلیفی اور حکم وضعی

حکم تکلیفی کسی خاص موضوع کے بارے میں براہ راست انسان کے وظیفے کو بیان کرتا ہے؛ مثلاً کہتا ہے نماز پڑھو اور شراب مت پیو وغیرہ۔[4] حکم تکلیفی کی پانچ قسمیں ہیں: وجوب، استحباب، حرمت، کراہت اور اباحہ.[5] ان کو احکام خمسہ بھی کہا جاتا ہے۔[6]

حکم وضعی براہ راست کوئی وظیفہ بیان نہیں کرتا ؛ بلکہ کسی عمل کے صحیح ہونے کے شرائط‌ وغیرہ بیان کرتا ہے؛[7] اسی طرح کسی عمل کے باطل ہونے کی علت بیان کرتا ہے جسے نماز کا نجس لباس میں باطل ہونا۔[8] احکام وضعی میں بالواسطہ انسان کا وظیفہ بیان ہوتا ہے مثال کے طور پر حکم وضعی نکاح کے صحیح ہونے کی شرائط بیان کرتا ہے؛ اس کے بعد جب نکاح وجود میں آئی تو میاں بیوں کے آپس میں کچھ وظائف عائد ہوتے ہیں انہیں احکام تکلیفی بیان کرتا ہے۔[9]

ارشادی اور مولوی حکم

الف. حکم ارشادی: ایسے حکم کو کہا جاتا ہے کہ جس کے بنائے جانے کا مقصد فعل میں پائی جانے والی مصلحت یا اس میں پائے جانے والے مفسدہ کی جانب مکلف کی راہنمائی اور ہدایت کرنا ہوتا ہے۔[10] اس طرح سے احکام کی موافقت و مخالفت میں کوئی نہیں ہے۔

ب. حکم مولوی: حکم مولوی ایسے حکم کو کہا جاتا ہے کہ جس میں مکلف کو کسی کام کے انجام دینے یا اسے ترک کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے جیسے نماز پڑھنے کا حکم دینا، زنا سے منع کرنا۔ ایسے احکام پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے اور ان کی بجاآوری یا ترک کرنے پر جزا اور سزا دی جاتی ہے۔

ارشادی اور مولوی کے معیار کے متعلق اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ ہر وہ مقام جہاں مستقل طور کسی چیز کا حکم لگائے وہ حکم ارشادی ہے جیسے ظلم کا قبیح یا عدل کا اچھا ہونا۔ بعض نے کہا ہے کہ جہاں حکم دینے سے دور یا تسلسل لازم آئے وہاں حکم ارشادی ہے۔ دیگر اقوال بھی یہاں موجود ہیں۔[11]

تأسیسی اور امضائی حکم

کسی حکم کے لوگوں کے درمیان پہلے سے رائج ہونے یا نہ ہونے کے لحاظ سے اس کی دو قسمیں ہیں:

الف. حکم تأسیسی ایسا حکم ہے کہ شارع مقدس اسے ابتدائی طور پر پہلی مرتبہ وضع کرتا ہے اور لوگوں کے درمیان اس سے پہلے ایسا کوئی حکم موجود نہیں ہوتا ہے۔ جیسے احکام پنجگانہ (وجوب حرمت استحباب ...) یا جیسے میراث، روزے اورنماز وغیرہ کے بہت سے احکام اور چور کے ہاتھ کی انگلیاں کاٹنے کا حکم ہے۔[12] موجودہ شکل کی عبادات کو شارع نے پہلی مرتبہ وضع کیا ہے لہذا یہ عبادات تاسیسی ہیں۔

ب حکم امضائی یہ ایسا حکم ہے کہ جو شارع کے بیان کرنے سے پہلے عرف اور عقلا کے درمیان موجود تھا شارع اسی چیز کی اپنے بیان کے ذریعے تائید کرتا ہے۔ پس یہ کوئی نیا حکم نہیں ہوتا ہے۔ جیسے ختنے کا وجوب، نکاح کا صحیح ہونا وغیرہ احکام امضائی میں سے ہے۔ پس ظہور اسلام سے پہلے کے وہ قوانین جو لوگوں میں رائج تھے اور شارع ان کی تائید کرے یا ان سے منع نہ کرے تو یہ تمام احکام امضائی شمار کئے جاتے ہیں۔ تعداد کے لحاظ سے اکثر احکام وضعی احکام امضائی ہیں اور اکثر احکام تکلیفی تاسیسی ہیں۔[13]

لوگوں کے درمیان اکثر معاملات اور اسی طرح معاشرے سے متعلق رائج حقوقی احکام جیسے زوجیت، ملکیت وغیرہ احکام امضائی ہیں جو پہلے سے لوگوں کے درمیان رائج تھے۔ شارع نے ان میں سے ایک حصے کی تائید کی ہے اور باقیوں کے متعلق کسی قسم کی منع یا رکاوٹ مذکور نہیں ہوئی لہذا انہیں بھی احکام امضائی کا ہی حصہ سمجھا جائے گا ۔

قرآن اور احادیث سے حکم تاسیسی کو حاصل کیا جاتا ہے۔ جبکہ حکم امضائی میں شارع کے زمانے میں لوگوں کے عرف اور عقلا کی سیرت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے جس میں ہم دیکھتے ہیں کہ شارع کے زمانے میں ان احکام پر عمل کیا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود شارع کی جانب سے کسی قسم کی ناراضگی وغیر کا اظہار نہیں ہوا لہذا اس سے شارع کے مقصود یعنی اس کی رضایت کو حاصل کیا جاتا ہے۔[14]

واقعی اور ظاہری حکم

حکم واقعی

علم اصول فقہ میں حکم واقعی دو طرح سے استعمال ہوتا ہے :

  1. پہلا استعمال: ایسا حکم جو کسی عنوان کیلئے شارع کی جانب سے صادر ہوا ہو اور اس پر دلیل قطعی موجود ہو۔ اس کے مقابلے میں حکم ظاہری ہے جس پر دلائل ظنیہ دلالت کرتے ہیں۔
  2. دوسرا استعمال : ایسا حکم ہے جو شارع کی جانب سے ہی ہوتا ہے اور آیات و روایات سے اخذ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں آنے والا حکم وہ ہوتا ہے جسے دلائل فقاہتی سے سمجھا جاتا ہے۔[15]

حکم واقعی کی اقسام

  1. حکم اولیہ: ایسا حکم جو موضوع کیلئے کسی شرط و قید کا لحاظ کئے بغیر وضع ہو۔ جیسے صبح کی نماز کا وجوب
  2. حکم ثانویہ: ایسا حکم ہوتا ہے جس میں موضوع کی کسی مخصوص حالت کے لحاظ سے حکم وضع ہوتا ہے جیسے مجبوری کے عالم میں مردار کا گوشت کھانا۔ مردار کا گوشت کھانا حکم اولی کے اعتبار سے حرام ہے لیکن مخصوص حالت کی وجہ سے حکم اولی کی جگہ حکم ثانوی نے لے لی ہے۔[16]

حکم ظاہری

ایسا حکم جس میں حکم واقعی تک رسائی نہ ہونے کی صورت میں انسان کی ذمہ داری کو مشخص کرتا ہے۔ اسے حکم ثانوی بھی کہتے ہیں۔ علم اصول فقہ میں اسکے دو معنا بیان ہوئے ہیں:[17]

  1. ایسا حکم جسے ادلہ فقاہتی کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے اور اسے اصول عملیہ بھی کہتے ہیں۔
  2. ایسا حکم جو غیر قطعی دلائل سے حاصل ہوتا ہے وہ اماره اور اصل عملی کو بھی شامل ہے۔[18]

حکومتی حکم

حکم ولائی کو حکم حکومتی یا حکم سلطانی بھی کہا جاتا ہے ۔یہ وہ امر و نہی کے احکام ہوتے ہیں جو امام معصوم یا نائب امام کی جانب سے ولی امر مسلمی کے عنوان سے جاری ہوتے ہیں.

فتوے اور حکم کا باہمی فرق

  • فتوا فقیہ کی شریعت کی اس خبر کو کہتے ہیں جسے وہ دلائل اجتہادی کے ذریعے حاصل کرتا ہے ۔
  • حکم قضایی اس فیصلے کو کہتے ہیں جسے قاضی نزاع اور جھگڑا ختم کرنے کیلئے جاری کرتا ہے ۔
  • حکم حکومتی وہ حکم ہوتا جسے ولی امر مسلمین مسلمانوں کی عمومی مصلحتوں کی وجہ سے جاری کرتا ہے .

احکام ولائی کا صدور

احکام بنانے اور وضع کرنے کا اختیار صرف خدا کو حاصل ہے اور روایات کی بنیاد پر یہ اختیار چند مخصوص مقامات پر رسول خدا اور آئمہ طاہرین کو بھی یہ دیا گیاہے۔فقیہ کو احکام وضع کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے لیکن ولایت فقیہ کے مبنا کی بنیاد پر غیبت میں کہا جاتا ہے کہ فقیہ کو چاہئے کہ وہ نظام کو مرتب کرنے کی خاطر ایک معاشرے کی حد تک احکام شرعی کو جاری کرے اور ایسے مقامات پر جہاں احکام کا جاری کرنا دوسرے احکام کیلئے مزاحمت ایجاد کرنے کا سبب نہ بنے وہاں خُبرہ ، متخصصین کے مشورے اور مسلمانوں کی مصلحتوں کی رعایت کرتے ہوئے احکام جاری کر سکتا ہے کہ جن میں بیشتر مصلحت اور کمتر مفسدے کا پہلو پایا جاتا ہے اور ایک دوسرے حکم کو وقتی طور پر عمل سے روک دیتا ہے۔[19]

اقسام

  1. سسٹم کے افراد کو معزول اور منصوب کرنا:جیسے فوجی اور صوبائی عہدوں کی تعییناتی۔
  2. احکام اولیہ کے اجرا سے پیدا ہونے والے مخصوص احکام مثلاخمس و زکات وغیرہ کی جمع آوری کا دستور دینا اور جہاد کیلئے افرادی قوت بڑھانا اور جنگ اور صلح کے لئے وقت مقرر کرنا وغیرہ۔
  3. احکام ثانویہ کے اجرا سے پیدا ہونے ہونے والے مخصوص احکام مثلا شہروں میں شہروں کے درمیان سڑکوں پر رفت و آمد کے ضروری قوانین کی رعایت کا حکم دینا۔
  4. دوسروں کے حقوق سے تجاوز اور ظلم کو روکنے کیلئے جاری ہونے والے احکاممثلا ذخیرہ اندوزی کے خلاف احکام صادر کرنا،عوام کی ضرورت کے وقت اجناس کی خریدو فروخت کو یقینی بنانا اور بازار کی قیمتوں میں تعادل قائم کرنے کے احکام کا اجرا.[20]

حکم ولائی کی اطاعت

رسول اللہ اور امام معصوم کی طرف سے جاری ہونے والے حکم ولائی کی پیروی خدا کی جانب سے جاری ہونے والے حکم کی طرح لازم اور ضروری ہے ۔اسی طرح ولایت فقیہ کے نظریے کو قبول کرنے کی بنا پر ولی فقیہ کے حکم کی پیروی بھی لازم اور ضروری ہے جب ولی فقیہ کے متعلق اشتباہ کا یقین حاصل نہ ہو جائے ۔[21]

حکم ولائی کا حکم اولی اور ثانوی سے فرق

  1. احکام ولائی احکام کلی الہی کے اجرا کیلئے حکم جزئی کی مانند ہیں جبکہ احکام اوّلی و ثانوی احکامی کلّی ہیں.
  2. احکام ولائی کی بحث ایک موضوعی بحث ہے کیونکہ احکام ولائی احکام اولی اور احکام ثانویہ کی تطبیق کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔جبکہ احکام اولی اور ثانوی کو فقیہ ایک فقیہ ہونے کی حیثیت سے شرعی مآخذوں سے استنباط کرتا ہے ۔[22]

مراتب حکم

علمائے علم اصول فقہ کی نظر کے مطابق جاری ہونے والا حکم درج ذیل چند مرحلے طے کرتا ہے:

  • مرتبۂ اقتضا: اس مرحلے میں صدور حکم کیلئے شرائط کا مہیا اور رکاوٹیں برطرف ہوتی ہیں اس مرتبے کو حکم اقتضائی کہا جاتا ہے۔
  • مرتبۂ انشا: اس مرحلے میں شرائط کی موجودگی اور رکاوٹوں کے نہ ہونے کی بدولت حکم وضع ہوتا ہے۔
  • مرتبۂ فعلیت: اس مرحلے میں حکم بنانے والے کی طرف سے وضع شدہ حکم کا اجرا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس مرحلے کو مرحلۂ فعلیت کہتے ہیں۔
  • مرتبۂ تنجُّز: اس مرحلے میں مکلف حکم فعلی یا دلائل منقولہ اور امارہ کی بدولت صدور حکم کا علم حاصل کر لیتا ہے۔ اس مرحلے میں حکم کو حکم منجز کہتے ہیں۔[23]

حوالہ جات

  1. حکیم، الاصول العامہ للفقہ المقارن، ۱۴۱۸ھ، ص۵۱-۵۲.
  2. صدر، المعالم الجدیدہ للاصول، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۱۲۴.
  3. ولایی، فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، ۱۳۸۷ہجری شمسی، ص۱۷۵و۱۷۶.
  4. صدر، المعالم الجدیدہ للاصول، ۱۳۷۹ہجری شمسی، ج۱، ص۱۲۳-۱۲۴.
  5. صدر، دروس فی علم الاصول، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۶۳-۶۴؛ صدر، المعالم الجدیدہ للاصول، ۱۳۷۹ہجری شمسی، ج۱، ص۱۲۴-۱۲۵.
  6. سجادی، فرہنگ علوم، ۱۳۴۴ہجری شمسی، ص۲۹.
  7. صدر، المعالم الجدیده للاصول، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۱۲۴.
  8. حسینی شیرازی، الوصول الی کفایۃ الاصول، ۱۴۲۶ھ، ج۵، ص ۸۳.
  9. صدر، المعالم الجدیدہ للاصول، ۱۳۷۹ہجری شمسی، ج۱، ص۱۲۴-۱۲۵.
  10. فیروز آبادی، ج۴، ص۸۴- ۸۵
  11. مشکینی، ص۷۵-۷۶
  12. ابن بابویہ، ج۲، ص۴۷۵- ۴۷۶؛ سبحانی، ص۵۰۹- ۵۱۰؛ اراکی، ص۱۰۹؛ بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ج۵، ص۱۲
  13. خوئی، ج۴، ص۷۴- ۷۶؛ نائینی، ج۴، ص۳۸۸
  14. خویی، محمد تقی، ج۱، ص۹۸- ۹۹
  15. حکیم، الاصول العامہ، ص۷۴-۷۵
  16. مشکینی، ص۱۲۴
  17. آشتیانی، ج۲، ص۴
  18. حکیم، الاصول العامه، ص۷۴-۷۵
  19. فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، ج‌۳، ص۳۶۴‌
  20. مکارم، ص۵۰۰- ۵۰۱
  21. جوادی آملی، ص۴۶۹
  22. مکارم، ص۵۰۰-۵۰۱
  23. مشکینی، ص۱۲۲- ۱۲۴

مآخذ

  • ابن بابویہ، محمد بن علی، علل الشرائع، قم، کتابفروشی داوری، بی‌تا.
  • اراکی، محمد علی، الخیارات، قم، مؤسسہ در راه حق، ۱۴۱۴ق.
  • اصفہانی، محمد حسین، نہایۃ الدرایہ، بیروت، مؤسسہ آل البیت، ۱۴۲۹ق، چاپ دوم.
  • آشتیانی، محمدحسن، بحر الفوائد فی شرح الفوائد، قم، کتابفروشی آیت اللہ نجفی مرعشی، ۱۴۰۳ق.
  • بجنوردی، سید حسن، منتہی الاصول، تہران، مؤسسہ العروج، ۱۳۸۰ش.
  • بجنوردی، سید حسن، القواعد الفقہیہ، قم، نشر الہادی، ۱۴۱۹ق.
  • جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، قم، مؤسسہ دایره المعارف، ۱۴۲۶ق.
  • جوادی آملی، عبدالله، ولایت فقیہ، قم، نشر اسراء، ۱۳۸۹ش، چاپ نہم.
  • حسینی حائری، کاظم، مباحث الاصول، تقریر درس محمد باقر صدر، قم، مقرر، ۱۴۰۸ق.
  • حسینی فیروزآبادی، مرتضی، عنایۃ الاصول فی شرح الکفایہ، قم، کتابفروشی فیروز آبادی، ۱۴۰۰ق، چاپ چہارم.
  • حکیم، محمد تقی، الاصول العامہ فی الفقہ المقارن، قم، مجمع جہانی، ۱۴۱۸، چاپ دوم.
  • حکیم، عبد الصاحب، منتقی الاصول، تقریر درس سید محمد حسین روحانی، قم، دفتر آیت الله سید محمد روحانی، ۱۴۱۳ق.
  • خوئی، سید محمد تقی، الشروط او الالتزامات التبعیہ فی العقود، بیروت،‌ دار المورخ العربی، ۱۴۱۴ق.
  • خوئی، سید ابوالقاسم، اجود التقریرات، تقریر درس محمد حسین نائینی، قم، مطبعہ عرفان، ۱۳۵۲ق.
  • سبحانی، جعفر، الإنصاف فی مسائل دام فیہا الخلاف، قم، مؤسسہ امام صادق، ۱۴۲۳ق.
  • صدر، محمدباقر، دروس فی علم الاصول، قم، نشر اسلامی، ۱۴۱۸ق.
  • مشکینی، علی، اصطلاحات الاصول، قم، الہادی، ۱۳۷۴ش.
  • مکارم شیرازی، ناصر، بحوث فقہیہ ہامّۃ، قم، مدرسہ علی بن ابیطالب، ۱۴۲۲ق.
  • نائینی، محمد حسین، فوائد الاصول، تقریر درس محمد کاظم خراسانی، قم، جامعہ مدرسین، ۱۳۷۶ش.