"اسلامی تقویم" کے نسخوں کے درمیان فرق
imported>Noorkhan کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>Noorkhan کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 66: | سطر 66: | ||
<p><font color=blue>ہجری شمسی تقویم|تقویم الفروج</font></p> | |||
<p>یہ تقویم اسلامی ملک افغانستان کی رسمی|سرکاری تقویم ہے۔ یہ بھی ہجری شمسی تقویم ہے صرف اس میں مہینوں کے نام بروج ہی کے نام ہیں اور اس کا مبدأ بھی قمری تقویم کی مانند رسول اللہ(ص) کی ہجرتِ مدینہ سے ہوا ہے۔(جدول 3).</p> | <p>یہ تقویم اسلامی ملک افغانستان کی رسمی|سرکاری تقویم ہے۔ یہ بھی ہجری شمسی تقویم ہے صرف اس میں مہینوں کے نام بروج ہی کے نام ہیں اور اس کا مبدأ بھی قمری تقویم کی مانند رسول اللہ(ص) کی ہجرتِ مدینہ سے ہوا ہے۔(جدول 3).</p> | ||
<table width=55% border=1 align=center> | <table width=55% border=1 align=center> |
نسخہ بمطابق 14:46، 14 جون 2014ء
ہجری تقویم کو اسلامی تقویم بھی کہا جاتا ہے۔ ہجری تقویم سے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی ہجرت مدینہ کو اسلامی تاریخ کا مبدأ و آغاز قرار دیا گیا ہے۔ گوکہ اسلامی مہینوں کے نام طلوع اسلام سے پہلے بھی استعمال ہوتے تھے۔ اسلامی و ہجری (قمری) تاریخ کے مہینوں کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے۔ ہجری سال کا کل دورانیہ 354.367056 دن اور ایک ماہ کا کل دورانیہ 29.530588 دن ہے۔ ہجری مہینوں میں دنوں کی تعداد 29 یا 30 ہوتی ہے اور مہینے کے آغاز کا فیصلہ چاند دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ ہجری سال کے دنوں کی تعداد 355 یا پھر 354 ہوتی ہے اور اسی بنیاد پر ہجری سال عیسوی سال کی نسبت 10 یا 11 دن پہلے آتا ہے اور ہر 33 یا 34 سال ایک بار پورا ہجری سال عیسوی (اور ہجری شمسی) سال کے اندر رہتا ہے جیسا کہ سنہ 2008 میں ہوا۔
ہجری تقویم کا تعین
رسول خدا(ص) ماہ ربیع الاول کے کس دن مکہ سے باہر نکلے ہیں اور کس دن مدینہ پہنچے ہیں؟، اس سلسلے میں سیرت نگاروں کے درمیان اختلاف ہے۔ ابن ہشام ـ جس نے آپ کے اس سفر کے واقعات کو نقل کیا ہے ـ نے لکھا ہے کہ سوموار 12 ربیع الاول کے ظہر کے وقت آپ قبا پہنچے ہیں اور ابن کلبی لکھتا ہے کہ آپ سوموار یکم ربیع الاول کو مکہ سے روانہ ہوئے تھے اور 12 ربیع الاول کو قبا پہنچے ہیں جبکہ بعض دیگر نے لکھا ہے کہ آپ آٹھ ربیع الاول کو قبا پہنچے تھے۔ متأخر اسلامی اور یورپی مؤرخین کہتے ہیں کہ آپ 9 دن تک سفر میں تھے اور بعثت کے چودہویں سال، 12 ربیع الاول (بمطابق 24 ستمبر سنہ 622 عیسوی) کو مدینہ کے قریب واقع قبا پہنچے ہیں۔ بعد میں رسول اللہ(ص) کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت مسلمانوں کی تاریخ کا مبدأ قرار پائی لیکن مسلمانوں نے ماہ محرم کو قمری سال کا ابتدائی مہینہ قرار دیا۔ رسول اللہ(ص) نے قبا کے مقام پر اپنے قیام کے دوران ایک مسجد کی بنیاد رکھی جو آج بھی مسجد قُبا کے نام سے مشہور ہے۔[1]
رسول اللہ نے مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کی تو نئی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا اور پھر ہجرت ایک بڑی پیشرفت تھی اور مسلمان اب چھپ چھپ کر عبادت کرنے کے بجائے اپنے قلمرو کے مالک تھے۔ ہر لحاظ سے تاریخ کا تعین کرنا ضروری تھا چنانچہ رسول اللہ(ص) کی ہجرت مدینہ کو تاریخ کا آغاز قرار دیا گیا گوکہ اس کے تعین کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ سنہ سترہ ہجری کو بعض ضروریات کی بنا پر خلیفہ ثانی عمر بن الخطاب نے اسلامی تاریخ کا مبدأ متعین کرنے کا فیصلہ کیا؛ بعض نے بعثت کو مبدأ قرار دینے کی تجویز دی اور بعض دوسروں نے وفات نبی(ص) کو بنیاد بنانے کی تجویز دی۔ امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام نے ہجرت نبوی کو مبدأ قرار دینے کی تجویز پیش کی اور اسی رائے پر اتفاق ہوا۔[2] تاہم "ابن شہاب زہری" سمیت متعدد مؤرخین نے کہا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے مدینہ پہنچتے ہی تاریخ کے تعین کا حکم دیا اور خود اس تاریخ کا تعین کیا ہے [اور بعض روایات کے مطابق آپ اپنے زمانے میں خطوط و مکاتیب لکھتے ہوئے ہجری تاریخ سے استفادہ کیا ہے]۔ بطور مثال:
- عبد اللہ بن عباس سے منقول ہے جس سال رسول اللہ(ص) مدینہ میں داخل ہوئے اسی سال آپ نے تاریخ ہجری کا تعین فرمایا اور عبد اللہ بن زبیر اسی سال پیدا ہوا۔[3]
- بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ تاریخ کا مبدأ ہجرت قرار دینے کا حکم رسول اللہ(ص) نے متعین کیا۔[4]
- سخاوی کا کہنا ہے: یہ کہ کس نے پہلی تاریخ کا تعین کیا ہے، اس میں اختلاف ہوا ہے؛ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں انس سے روایت کی ہے کہ تاریخ رسول اللہ(ص) کے مدینہ آنے کے دنوں سے ہی موجود تھی اور اصحعی (اصمعی) نے بھی کہا ہے کہ [اسلامی] تاریخ سنہ 7 ہجری سے قرار دی گئی ہے۔[5]
- حیات رسالت مآب(ص) سے ہی ایسے مکتوبات اور نصوص ہم تک پہنچی ہیں جن میں تاریخ ہجری درج کی گئی ہے اور یہ خود اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ تاریخ رسول اللہ(ص) کی حیات میں ہی آپ ہی کے حکم پر قرار دی گئی ہے چنانچہ عمر بن خطاب ہجری تاریخ کے بانی نہيں ہیں۔ رسول اللہ(ص) کے مکتوبات و نصوص کو علامہ سیدجعفر مرتضی عاملی نے اپنی(35 مجلدات پر مشتمل) عمدہ کاوش الصحیح من سیره النبی الاعظم (ص) کی جلد نمبر 4 میں درج کیا ہے اور شائقین اس کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔
محقق ارجمند علامہ جعفر مرتضی العاملی نے مذکورہ بالا دلائل کے علاوہ دوسری کئی دلیلیں پیش کی ہیں اور ثابت کیا ہے کہ خلیفہ ثانی کے زمانے میں تاریخ کے حوالے سے اجلاس ضرور ہوا تھا لیکن اس کا مقصد تاریخ اسلام کی بنیاد رکھنا نہ تھا بلکہ اس بات کا فیصلہ کرنا تھا کہ ربیع الاول کو ہی ہجری سال کا پہلے مہینے کے طور پر بحال رکھا جائے یا محرم کو سال کا پہلا مہینہ قرار دیا جائے۔ چنانچہ خلیفہ ثانی کے دور میں تاریخ کے سلسلے میں کوئی اختلاف نہ تھا جس پر کسی قسم کی بحث کی ضرورت پڑی ہو کیونکہ یہ مہم رسول اللہ(ص) نے اپنے زمانے میں ہی سر کرلی تھی۔ کہا گیا ہے کہ چونکہ محرم حج کے مہینے کے بعد واقع ہوا تھا چنانچہ اس کو سال کے پہلے مہینے کے طور پر تسلیم کیا گیا اور خلیفہ نے اس کو سال کا پہلا مہینہ قرار دیا۔
ہجری یا اسلامی تقویم کے مہینے
ہجری مہینے
ہجری قمری تقویم
ہجری قمری تقویم
ہجری قمری سال کے مہینوں کی تعداد بھی دوسری تقویمات کی طرح 12 ہے جن کی ترتیب ذیل میں دی گئی ہے۔ ان بارہ مہینوں میں رجب المرجب، ذیقعدة الحرام اور ذوالحجة الحرام، حرام مہینے ہیں اور ان میں جنگ اور خونریزی حرام ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے قانون کے مطابق اگر ان مہینوں میں کوئی غیر ارادی قتل کا ارتکاب کرے یا کسی کو زخمی کرے تو اس کو عام مہینوں کی نسبت دو گنا دیّت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ہجری سال ـ خواہ وہ قمری ہو یا شمسی ـ کا مبدأ اور نقطۂ آغاز حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی مکہ سے مدینہ ہجرت ہے تاہم قمری سال کے دنوں کی تعداد 354 ہے جبکہ شمسی سال کے دن 365 ہیں۔ قمری سال کا صرف ایک مہینہ 30 دن کا ہوتا ہے باقی مہینے 29 دنوں کے ہوتے ہیں۔(جدول 1).
رديف | نام | معني |
1 | محرم | حرام شدہ |
2 | صفر | خالی |
3 | ربیع الاول | بہار اول |
4 | ربیع الثانی | بہار ثانی |
5 | جمادی الاول | انجماد1 |
6 | جمادی الثانی | انجماد2 |
7 | رجب | جنت میں ایک نہر |
8 | شعبان المعظم | پھیلاؤ|فروانی |
9 | رمضان المبارک | خداکانام/سوزان |
10 | شوال المکرم | سفر/سامان سفراٹھانا |
11 | ذوالقعدة | امن وسکون کا موسم |
12 | ذوالحجةالحرام | طواف وزیارت کا موسم |
ہجری شمسی تقویم
ہجری شمسی تقویم
یہ تقویم اسلامی جمہوریہ ایران کی رسمی|سرکاری تقویم ہے۔ ہجری شمسی میں مہینوں کے ناموں کی جڑ اَوِستائی ہے؛ ناموں کا فرق مد نظر نہ رکھا جائے تو یہ تقویم بھی تقویم البروج ہی ہے۔ اس کا آغاز بھی تقویم البروج اور قمری تقویم کی مانند رسول اللہ(ص) کی ہجرت مدینہ سے ہوا ہے۔(جدول 2).
رديف | نام | معني |
1 | فروردين | آگےبڑھانےوالی قوت |
2 | ارديبہشت | صداقت اور پاکیزگی |
3 | خرداد | كمال اور وضوح |
4 | تير | بارش |
5 | مرداد | حیات جاوید اور ابدیت |
6 | شہريور | برگزیدہ ملک |
7 | مہر | عہد و پيمان |
8 | آبان | آب کی جمع(سمندر) |
9 | آذر | آگ |
10 | دي | خالق، عطا کنندہ |
11 | بہمن | نیک سوچ |
12 | اسفند | انکسار اور بردباری(حلم) |
ہجری شمسی تقویم|تقویم البروج
ہجری شمسی تقویم|تقویم الفروج
یہ تقویم اسلامی ملک افغانستان کی رسمی|سرکاری تقویم ہے۔ یہ بھی ہجری شمسی تقویم ہے صرف اس میں مہینوں کے نام بروج ہی کے نام ہیں اور اس کا مبدأ بھی قمری تقویم کی مانند رسول اللہ(ص) کی ہجرتِ مدینہ سے ہوا ہے۔(جدول 3).
نمبرشمار | نام | معني |
1 | حَمَل | بَرَّہ|لیلا |
2 | ثور | بیل |
3 | جوزا | دوپيكر|جڑواں ستارے |
4 | سَرَطان | کیکڑا |
5 | اسد | شير |
6 | سنبلہ | خوشۂ گندم |
7 | ميزان | ترازو |
8 | عَقرب | بچھو |
9 | قوس | كمان |
10 | جَدي | میمنا|بُزغالَہ |
11 | دَلو | ڈول|چھلنی |
12 | حوت | دومچھلیاں |
ہجری سے عیسوی تاریخ میں منتقلی
ہجری سے عیسوی تاریخ میں منتقلی کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ ہجری سال کو 0.970224 سے ضرب دیں اور اس میں 621.5774 جمع کر دیں۔ جواب میں اعشاریہ سے پہلے کا حصہ سال کو ظاہر کرے گا۔ اگر اعشاریہ کے بعد والے حصے کو 365 سے ضرب دے دی جائے تو جواب ان دنوں کی تعداد آ جائے گی جن کے بعد اس اس عیسوی سال میں محرم کی پہلی تاریخ ہوگی۔ اس اعداد و شمار ایک یا دو دن کا فرق آسکتا کیونکہ ایک ہی وقت میں دنیا کےمختلف حصوں میں دو مختلف اسلامی تاریخیں ممکن ہوسکتی ہیں۔ 0.970224 اصل میں عیسوی سال کے حقیقی دورانیہ کو ہجری سال کے حقیقی دورانیہ پرتقسیم کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر 1428 کو 0.970224 سے ضرب دیں اور اس میں 621.5774 جمع کر دیں تو جواب میں 2007.057272 حاصل ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ 1428 ہجری سن 2007 عیسوی میں شروع ہوگا۔ اگر 2007.057272 کے اعشاریہ کے بعد والے حصے کو 365 سے ضرب دی جائے تو 20.9 حاصل ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ یکم محرم 1428 ہجری دنیا کے کچھ حصوں میں 20 جنوری 2007 عیسوی اور کچھ حصوں میں 21 جنوری 2007 عیسوی کو شروع ہوگا۔
یاد رہے کہ چونکہ عیسوی تقویم میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں اس لئے 1500 عیسوی سے پہلے کی تاریخوں سے یکم محرم کا حساب لگانے کے لئے 365 سے ضرب دینے کے بعد 3 تفریق کرنا ضروری ہے۔
ہجری قمری سے شمسی تاریخ میں منتقلی
قمری سال کو عدد "34" پر تقسیم کریں، خارج قسمت (یا حاصل قسمت(٭) کو "عدد مقسوم" (یعنی قمری تاریخ) سے تفریق کریں۔ جو عدد باقی بچے وہی شمسی تاریخ ہوگی۔ ٭۔ حاصل قسمتوہ عدد جو مقسوم کو مقسوم الیہ پر تقسیم کرنے سے حاصل ہو
ہجری مہینے
بیرونی روابط
- شمسی سے قمری اور عیسوی نیز عیسوی سے ہجری میں منتقلی کے لئے رجوع کریں
- عالمی شرعی اوقات (اوقات نماز و اذان) شیعہ فقہ کے مطابق
پاورقی حاشیے
- ↑ رجوع کریں: شهیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، صص 59-60۔
- ↑ رجوع کریں: "البدایۃ والنہایۃ" ج 7 ص 73 و 74 و "تاریخ عمر ابن خطاب"، ابن جوزی ص 75 و 76 ، "تهذیب التاریخ ابن عساکر" ج 1 ص 22 و 23 اور "الکامل" ابن اثیر ج 1 ص 10۔
- ↑ حاکم نیشابوری، مستدرک علی الصحیحین، ج 3 ص 13 و 14- ج 1 ص 196- طبری ج 2 ص 389 و 390۔
- ↑ رجوع کریں: فتح الباری ج7 ص208، "التنبیه والاشراف" ص251، تاریخ طبری (طبع دار المعارف) ج2 ص388 اور تاریخ الخمیس ج1 ص338۔
- ↑ رجوع کریں: الاعلان بالتوبیخ لمن یذم التاریخ ص 78۔
مآخذ
- سیرهی رسول خدا (ص) رسول جعفریان
- الصحیح من سیرهالنبی الاعظم ج 4 علامه جعفر مرتضی عاملی
- سیدالمرسلین ج 1 آیهالله جعفر سبحانی
- ڈاکٹر سید جعفر شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام
- وکی پیڈیا، آزاد انسائیکلو پیڈیا
- دانشنامہ رشد
- نور میگزینز کے مندرجات
- مؤسسہ ژئوفیزیک دانشگاہ تہران
- لغت نامہ علی اکبر دہ خدا
|}