مصحف امام علی

تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
(مصحف امام علیؑ سے رجوع مکرر)
شیعوں کے پہلے امام
امام علی علیہ السلام
حیات طیبہ
یوم‌ الدارشعب ابی‌ طالبلیلۃ المبیتواقعہ غدیرمختصر زندگی نامہ
علمی میراث
نہج‌البلاغہغرر الحکمخطبہ شقشقیہبغیر الف کا خطبہبغیر نقطہ کا خطبہحرم
فضائل
آیہ ولایتآیہ اہل‌الذکرآیہ شراءآیہ اولی‌الامرآیہ تطہیرآیہ مباہلہآیہ مودتآیہ صادقینحدیث مدینہ‌العلمحدیث رایتحدیث سفینہحدیث کساءخطبہ غدیرحدیث منزلتحدیث یوم‌الدارحدیث ولایتسدالابوابحدیث وصایتصالح المؤمنینحدیث تہنیتبت شکنی کا واقعہ
اصحاب
عمار بن یاسرمالک اشترسلمان فارسیابوذر غفاریمقدادعبید اللہ بن ابی رافعحجر بن عدیمزید


مصحف علی یا مصحف امام علی قرآن کا سب سے پہلا نسخہ تھا جو کتابی شکل میں تدوین ہوا تھا جسے پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد امام علیؑ نے تیار کیا تھا۔ یہ مصحف اس وقت موجود نہیں لیکن بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسخہ خود امام علیؑ‌ نے اپنے دست مبارک سے اسے مرتب کیا تھا اور اسے سورتوں کی ترتیب نزول کے مطابق جمع کیا تھا۔

بعض احادیث کے مطابق آیتوں کی شأن نزول نیز ناسخ و منسوخ آیات اس مصحف کے حاشیے میں موجود تھیں۔ شیعوں کے مطابق "مصحف امام علی" میراث کی شکل میں ائمہ معصومین کے پاس موجود تھے اور اس وقت بارہویں امام کے پاس موجود ہے۔

جمع‌آوری

رسول اللہ کی قطعی نص اور تصدیق کی بنا پر امام علی تمام لوگوں سے زیادہ قرآن مجید سے آشنا تھے۔ پیامبر (ص) کی رحلت کے بعد حضرت علی (ع) نے چھ ماہ کی قلیل مدت میں قرآن مجید کی ترتیبی نزول کے مطابق جمع آوری کا کام انجام دے دیا تھا۔ آپ نے اسے ایک اونٹ پر لاد کر لوگوں کے سامنے پیش کیا۔[1]

احادیث کے راویوں نے صراحت کے ساتھ اس کے متعلق بات کی ہے یا حضرت علی کے ہاتھوں قرآن کی جمع آوی کے موضوع کو بیان کیا ہے:[2]

  1. سلیم بن قیس ہلالی (متوفا 76 ھ) نے اپنی کتاب میں اس مصحف امام علی(ع) کی موجودگی بیان کی اور اس کی خصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس نے اس خبر کو چند اصحاب پیغمبر(ص) اور امام علی(ع) کے نزدیکی ساتھیوں جیسے ابوذر غفاری (متوفا 32 ھ)، سلمان فارسی (متوفا 34 ھ) اور ابن عباس (متوفا 68 ھ) سے نقل کیا ہے۔
  2. ابن عباس بھی ان راویوں میں سے ہے جس نے مستقل طور اس کے متعلق بیان کیا ہے۔

شہرستانی کا بیان

تفسیر شہرستانی (متوفا 548 ھ) میں مذکور ہے:

حضرت علی (ع) قرآن کی جمع آوری کے بعد اپنے غلام قنبر کی مدد سے بزرگ اصحاب کے پاس لائے۔ وہ اس مجموعے کو بہت مشکل سے لائے کہتے ہیں کہ وہ ایک اونٹ کے بار کے اندازے کے مطابق تھا۔ حضرت (ع) نے ان سے کہا: یہ کتاب الله ہے جس طرح سے رسول اللہ پر نازل ہوئی تھی۔ میں نے اسے دو جلدوں میں اکٹھا کیا ہے۔ لیکن اصحاب نے کہا تم اسے لے جاؤ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت (ع) نے جواب میں ارشاد فرمایا آئندہ تم اسے ہر گز نہیں دیکھ پاؤ گے۔ میری ذمہ داری تھی کہ جب اسے جمع کر لوں تو تمہیں اس سے آگاہ کروں پھر اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے گھر لوٹ آئے:[3]
یَا رَ‌بِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْ‌آنَ مَهْجُورً‌اترجمہ: پروردگارا! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔

جن لوگوں نے مصحف امام علی (ع) کو چھوڑ دیا تھا شہرستانی ان سے سوالیہ لہجے میں مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے:

کس طرح انہوں نے علی بن ابی طالب کے جمع کئے ہوئے قرآن کا مطالبہ نہیں کیا؟ کیا زید بن ثابت اس سے بہتر لکھ سکتا تھا؟ آیا سعید بن عاص اس سے بہتر ادیب اور عرب کے فنون و قواعد سے آشنا تر تھا؟ کیا وہ پیغمبر خدا سے زیادہ نزدیکتر تھے یا علی نزدیکتر تھے؟ ہاں! ان سب نے علی (ع) کے کام کو چھوڑ دیا اور اسکے مصحف کو ایک طرف رکھ دیا اور اسے فراموش کر دیا حالانکہ علی جب رسول کے دفن، کفن اور نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے قسم کھائی کہ میں جب تک قرآن کو اکٹھا نہ کر لوں نماز جمعہ کے علاوہ کسی کام کیلئے اپنی عبا کندھوں پر نہیں ڈالوں گا۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ جس طرح قرآن نازل ہوا اسی طرح کسی کم و کاست اور تحریف و تبدیلی کے بغیر جمع کریں۔ رسول اللہ ہمیشہ انہیں آیات اور سورتوں کے اصل مقامات سے آگاہ کرتے اور تقدم و تاخر انکے سامنے بیان کرتے تھے [4]

ابن ندیم کا بیان

ابن ندیم اپنی کتاب الفہرست مییں کہتا ہے:

پیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد امام علی (ع) تین دن تک اپنے گھر میں رہے اور قرآن کی جمع آوری میں مشغول رہے۔ یہ سب سے پہلا قرآن تھا جسے اکٹھا کیا گیا تھا۔ یہ جعفر کے خاندان کے پاس تھا؛ میں نے اسے اپنے زمانے میں ابو یعلی حمزه حسنی کے پاس دیکھا جو علی بن ابی طالب کے ہاتھ سے لکھا ہوا تھا اور اس کے کچھ صفحات ضائع ہو چکے تھے۔ طول تاریخ میں خاندانِ حسن اسے ارث کے طور پر ایک دوسرے سے لیتے رہے۔ اس مصحف کی آیات اور سورتوں کی ترتیب یہ ہے ...[5]

اس وقت ہمارے پاس ابن ندیم کی الفہرست کے نسخے میں سورتوں کی ترتیب مکمل طور پر موجود نہیں ہے۔ اس تبدیلی کا سبب واضح نہیں ہے۔[6]

مصحف کے اجزا

تاریخ یعقوبی[7] میں آیا ہے کہ امام علی کا جمع کردہ قرآن درج ذیل سات اجزا پر مشتمل تھا:

جزو اول: بقرہ، سورہ یوسف، عنکبوت، روم، لقمان، حم سجده، ذاریات، هل اتی علی الانسان، الم تنزیل سجده، نازعات، اذا الشمس کورت، اذا السماء انفطرت، اذا السماء انشقت، سبح اسم ربک الاعلی و لم یکن، یہ بقرہ کا جزء ہے کہ 886 آیت اور 15 سورہ ہے۔

جزو دوم: آل عمران، ہود، حج، حجر، احزاب، دخان، رحمان، حاقہ، سال سائل، عبس، و الشمس و ضحاہا، انا انزلناه، اذا زلزلت، ویل لکل ہمزة لمزة، ا لم تر و لایلاف۔ یہ جزء آل عمران ہے کہ 886 آیات اور 16 واں سورہ ہے۔

جزو سوم: نساء، نحل، مؤمنون، یس، حم عسق، واقعہ، تبارک الملک، یا ایہا المدثر، ا رایت، تبت، قل هو الله احد، عصر، قارعہ، و السماء ذات البروج، و التین و الزیتون و طس نمل، یہ نساء کا جزء ہے کہ 886 آیات اور 16 واں سورہ ہے۔

جزو چہارم: مائده، یونس، مریم، طسم شعراء، زخرف، حجرات، ق و القران المجید، اقتربت الساعہ، ممتحنہ، و السماء و الطارق، لا اقسم بہذا البلد، الم نشرح لک، عادیات، انا اعطیناک الکوثر و قل یا ایہا الکافرون، یہ مائده کا جزء ہے کہ 886 آیتیں اور 15 واں سورہ ہے۔

جزو پنجم: انعام، سبحان، اقترب، فرقان، موسی و فرعون[8]، حم مؤمن، مجادلہ، حشر، جمعہ، منافقون، ن و القلم، انا ارسلنا نوحا، قل اوحی الی و المرسلات و الضحی و الہاکم، یہ انعام کا جزء ہے کہ 886 آیتیں اور 16 سورہ ہے۔

جزو ششم: اعراف، ابراہیم، کہف، نور، ص، زمر، شریعت،[9] الذین کفروا، حدید، مزمل، لا اقسم بیوم القیامہ، عم یتساءلون، غاشیہ، فجر، و اللیل اذا یغشی و اذا جاء نصر اللہ، یہ اعراف کا جزء ہے کہ جس کی 886 آیتیں اور 16 واں سورہ ہے۔

جزو ہفتم: انفال، براءه، طہ، ملائکہ، صافات، احقاف، فتح، طور، نجم، صف، تغابن، طلاق، مطففین اور معوذتین یعنی فلق اور ناس، انفال کا جزو ہے 886 آیتیں اور 15 واں سورہ ہے۔[10]

تاریخ قرآن کا مصنف اپنی تحقیقات میں کہتا ہے: یعقوبی مصحف امام علی کی سورتوں کی ترتیب کے متعلق لکھتا ہے: مصحف علی کی سورتوں کی جو ترتیب (سات اجزا میں بیان کرنا) یعقوبی نے بیان کی ہے یہ عجیب اور منفرد ہے۔ تمام مؤرخین اور راویوں نے مصحف امام علی ترتیب کے بارے میں کہا ہے کہ اس کی ترتیب شان نزول کے مطابق تھی اور اس مصحف میں قرآن کے بہت سے ابہامات کی توضیح تھی۔ اگر یعقوبی کی بات کو قبول کر لیا جائے تو تمام مؤرخین اور راویوں کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ہے۔[11]

خصوصیات

اکثر روایات بیان کرتی ہیں کہ مصحف امام علی قرآن کے نازل ہونے کی ترتیب کے مطابق اکٹھا کیا گیا مثلاً پہلے سوره اقرأ پھر المدثر پھر اسکے بعد نون و القلم اور پھر مزمل ... آخر تک۔ اس میں کیا کچھ ذکر یا گیا صرف متن قرآن تھا یا شأن نزول اور ناسخ و منسوخ کو بھی شامل تھا، اس کے متعلق مختلف اقوال مذکور ہیں۔[12]

امام باقر(ع) نے فرمایا:

جو شخص بھی یہ کہے کہ میں نے قرآن کو اسی طرح جمع کیا ہے جسطرح وہ نازل ہوا ہے، اس نے جھوٹ کہا ہے۔ قرآن کو صرف حضرت علی ترتیب نزولی کے مطابق جمع کیا تھا۔[13]

شہرستانی نے اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ امام علی کا قرآن متن اور حاشیے پر مشتمل تھا[14] شیخ مفید اور دیگر محققین کے نزدیک اسکی دیگر خصوصیات میں سے یہ ہے کہ اس میں آیات کی تاویل مذکور تھیں۔[15] دیگر یہ کہ ناسخ و منسوخ میں سے منسوخ ناسخ پر مقدم تھیں۔[16] نیز کہا گیا ہے کہ اس کے حاشیے میں منافقان کے اسما جیسی مبہم چیزوں کو ذکر کیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے قبول نہیں کیا گیا اور امام علی نے مصحف عثمان کی تائید کرتے ہوئے اسے ہمیشہ کیلئے مخفی کر دیا۔[17]

احادیث منابع سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مصحف مسلسل ارث کے طور پر آئمہ طاہرین کے پاس موجود رہا اور اب حضرت ولی عصر (عج) کے پاس موجود ہے۔[18]

مجموعی طور پر اس مصحف کی درج ذیل خصوصیات تھیں:

  1. متن قرآن کے علاوہ تفسیر و تاویل پر مشتمل تھا۔
  2. حضرت امام علی کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا۔
  3. اس کی جمع آوری بدیع، ابتکاری اور ایسی انفرادی تھی کہ اس کی مانند کسی نے اسے اسطرح محفوظ اور جمع نہیں کیا تھا اور نزول کی شرائط کے لحاظ سے یہ ایک بے نظیر کام تھا۔[19]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. سید محمد حسین طباطبائی، قرآن در اسلام، ص ۱۱۳۔ سجستانی، کتاب المصاحف، ص ۱۶؛ سیوطی، الاتقان، ج ۱، ص ۱۶۱.
  2. ایازی، مصحف امام علی (ع)، ص167.
  3. شہرستانی، مفاتیح الاسرار و مصابیح الابرار، ج۱، ص۵آ؛ نیز ر.ک: تفسیر شہرستانی، تحقیق آذرشب، ج۱، ص۱۲۰، بہ حوالۂ خرمشاہی، قرآن پژوہی (۲)، ص ۴۶۸
  4. ایازی، مصحف امام علی (ع)، ص۱۷۲-۱۷۳، بہ حوالہ شہرستانی، مفاتیح الاسرار و مصابیح الانوار، ج۱، ص۱۲۰؛ نیز ر.ک: شہرستانی، مفاتیح الاسرار و مصابیح الابرار، ج۱، ص۵آ.
  5. ابن الندیم، الفہرست، ص۳۰.
  6. رامیار، تاریخ قرآن، ص ۳۶۸.
  7. تاریخ یعقوبی، ج ۲، صص ۱۵-۱۶
  8. سخاوی سے سیوطی کی نقل کے مطابق سورہ طہ جمال القراء، سورہ کلیم هم کہتے ہیں(سیوطی، الاتقان، ج۱، ص۵۶) و اینجا مراد سورہ قصص است (به نقل یعقوبی، تاریخ یعقوبی (ترجمه)، ج۲، ص۱۶، پاورقی ۱).
  9. نسخه بدل: جاثیہ. کرمانی کی العجائب سے سیوطی کی نقل کے مطابق سورہ جاثیہ کو سورہ شریعت اور سورہ دہر بھی کہتے ہیں (سیوطی، اتقان، ج۱، ص۵۶، بہ نقل یعقوبی، تاریخ یعقوبی (ترجمہ)، ج۲، ص۱۶، تعلیقہ۲).
  10. یہ تمام 109 سورے ہیں اور 5 سورے نسخے میں نہیں ہیں۔ ر.ک: مفاتیح الاسرار و مصابیح الابرار شہرستانی، بحوالہ یعقوبی، تاریخ یعقوبی (ترجمہ)، ج۲، ص۱۶، تعلیقہ ۴.
  11. رامیار، تاریخ قرآن، ص ۳۷۰-۳۷۱.
  12. رامیار، تاریخ قرآن، ص ۳۷۰-۳۷۱.
  13. بحار، ۸۸:۹۲؛ وافی ۲: ب۱۳۰/۷۲، بحوالۂ رامیار، تاریخ قرآن، ص ۳۷۱.
  14. شہرستانی، مفاتیح الاسرار و مصابیح الابرار، ج۱، ص15؛ نیز ر.ک: تفسیر شہرستانی، تحقیق آذرشب، ج۱، ص۱۲۰، بہ نقل خرمشاہی، قرآن پژوہی (۲)، ص ۴۶۸.
  15. اوائل المقالات، ص۹۴، بحوالۂ خرمشاہی، قرآن پژوہی (۲)، ص ۴۶۹-۴۶۸.
  16. زنجانی، تاریخ قرآن، ص۵۴، بحوالۂ خرمشاہی، قرآن پژوہی (۲)، ص ۴۶۹.
  17. خرمشاہی، قرآن‎پژوہی (۲)، ص ۴۶۹.
  18. حقائق ہامہ، ص۱۶۰، بحوالۂ نقل خرمشاہی، قرآن‎پژوہی (۲)، ص ۴۶۹.
  19. ایازی، مصحف امام علی(ع)، ص۱۷۷-۱۷۸.

مآخذ

  • ابن ندیم، فہرست ابن الندیم، تحقیق: رضا تجدد، بی جا، بی تا (سافٹ وئر مکتبہ اہل البیت (ع) نسخہ دوم).
  • السجستانی، عبد الله بن سلیمان، کتاب المصاحف، بیروت: دار الکتب العلمیہ، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵ء.
  • ایازی، سید محمد علی، مصحف امام علی (ع)، در دانشنامہ امام علی (ع)، ج12، زیر نظر علی اکبر رشاد، تہران: مرکز نشر آثار پژوہشگاه فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1380.
  • طباطبائی، سید محمد حسین، قرآن در اسلام، مصحح: محمد باقر بہبودی، تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۶ش.
  • شہرستانی، محمد بن عبد الکریم، مفاتیح‌ الاسرار و مصابیح ‌الابرار، با مقدمہ عبد الحسین حائری، طہران: مرکز انتشارات نسخ خطی، ۱۴۰۹ق/۱۳۶۸ش.
  • سیوطی، جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن، تحقیق: سعید المندوب، لبنان: دار الفکر، ۱۴۱۶ق/۱۹۹۶ء.
  • خرمشاہی، بہاء الدین، قرآن پژوہی، تہران: علمی فرہنگی، ۱۳۸۹.
  • رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران: امیر کبیر، ۱۳۶۹.
  • یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب (ابن واضح یعقوبی)، تاریخ یعقوبی، ج۲، ترجمہ محمد ابراہیم آیتی، تہران: علمی و فرہنگی، ۱۳۷۸.