آیہ شِراء یا اِشْتراء سورہ بقرہ کی آیت نمبر 207 کو کہا جاتا ہے جو لیلۃ المَبیت کو نازل ہوئی۔ قرآن مجید کی اس آیت میں ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو اللہ تعالی کی رضایت حاصل کرنے کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ شیعہ اور بعض اہل سنت علما اس بات کے قائل ہیں کہ یہ آیت امام علیؑ کی شان میں نازل ہوئی جب آپ نے "لیلۃ المبیت" (شب ہجرت) کو پیغمبر اکرمؐ کی بستر پر سو کر آپؐ کی جان بچائی۔
آیت کی خصوصیات | |
---|---|
آیت کا نام | شراء |
سورہ | بقرہ |
آیت نمبر | 207 |
پارہ | 2 |
صفحہ نمبر | 32 |
محل نزول | مدینہ |
موضوع | عقائد |
متن اور ترجمہ
وَ مِنَ النَّاسِ مَن یشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ وَ اللَّـهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ ﴿۲۰۷﴾
اور لوگوں میں وہ بھی ہیں جو اپنے نفس کو مرضی پروردگار کے لئے بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔
سورہ بقرہ: آیت 207
شان نزول
علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں لکھتے ہیں: بہت ساری احادیث اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ آیت شراء "لیلۃالمبیت" کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[1] اہل سنت عالم دین ابن ابی الحدید معتزلیِ شرح نہج البلاغہ میں لکھتے ہیں کہ تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت امام علیؑ کی شأن میں "لیلۃ المبیت" کے واقعے میں نازل ہوئی ہے۔[2] "لیلۃ المبیت" کو مشرکین مکہ نے پیغمبر اسلامؐ پر مدینہ میں اکھٹے حملہ کرکے آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس رات امام علیؑ پیغمبر اکرمؐ کی جان کی حفاظت کی خاطر آپ کے بستر پر سوئے یوں پیغمبر اکرمؐ مشرکین کے اس ناپاک عزائم سے محفوظ رہے۔[3]
البتہ بعض اہل سنت علماء بعض احادیث سے استناد کرتے ہوئے اس آیت کو ابوذر، صُہیب بن سنان،[4] عمار یاسر اور ان کے والدین، خَبّاب بن اَرْت اور بلال حبشی[5] جیسے افراد کی شأن میں نازل ہونے کے قائل ہیں؛ لیکن ان احادیث کا صحیح ہونا محل تردید ہے اور بعض محققین کے مطابق یہ احادیث تعصب اور امام علیؑ کے فضائل کو چھپانے کے لئے جعل کی گئی ہیں۔[6]
تفسیری نکات
آیت شِراء ان لوگوں کی توصیف میں نازل ہوئی ہیں جو خدا کی خشنودی کے درپے ہوتے ہیں اور خدا کی رضا کے لئے اپنی جان تک بھی دے دیتے ہیں۔[7] ان کے مقابلے میں انسانوں کا ایک اور گروہ بھی ہے ہیں جن کی توصیف اس آیت سے پہلی چند آیتوں میں میں یوں کی گئی ہے؛ یہ افراد خودخواہ، لجوج، معاند اور منافق ہیں جو اپنے آپ کو خیرخواہ ظاہر کرتے ہیں، لیکن ان کا اصل مقصد فساد پھیلانا ہے۔[8] علامہ طباطبایی کے مطابق مذکورہ آیات کا سیاق و سباق اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انسانوں کے یہ دونوں گروہ پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں موجود تھے۔[9]
شراء نفس کے اقسام
بعض مفسرین آیت شراء کی تفسیر میں شراء نفس کو تین قسموں میں تقسیم کرتے ہیں: جہنم کی آگ کی خوف سے اپنے نفسوں کو فروخت کرنا، بہشت کی رغبت میں اپنے نفسوں کو فروخت کرنا اور تیسری قسم خدا کی خوشنودی کے لئے اپنی نفسوں کو فروخت کرنا۔ ان میں آخری قسم کا درجہ باقیوں سے بلند ہے اس قسم میں انسان اپنے نفس کے بدلے کسی چیز کے طلبگار نہیں ہوتا اور امام علیؑ کا لیلۃ المبیت کو پیغمبر اکرمؐ کے بستر پر سونا اس کی ایک واضح مثال جانا جاتا ہے۔ [10]
شِراء نفس سے مراد
مذکورہ آیت میں "یَشْری" کا لفظ "شِراء" کے مادے سے لیا گیا ہے[11] جس کے معنی بیچنے اور فروخت کرنے کے ہیں۔[12] علامہ طباطبائی کے مطابق خدا کی رضا کی خاطر نفس کو بیچنے اور فروخت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان افراد کے پاس خدا کی خوشنودی کے علاوہ کسی اور چیز کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور یہ لوگ خدا کی مرضی کے طلب گار ہوتے ہیں نہ خواہشات نفسانی کے۔[13]
حوالہ جات
- ↑ رجوع کریں: طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۱۰۰۔
- ↑ ابن ابیالحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱۳، ص۲۶۲۔
- ↑ طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ق، ص۴۶۶۔
- ↑ طبری، جامع البیان، ۱۴۲۲ق، ج۳، ص۵۹۱۔
- ↑ فخر الرازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۳۵۰۔
- ↑ ہاشمی، «بررسی سبب نزول آیہ اشترای نفس»، ص۱۵۳۔
- ↑ طالقانی، پرتوی از قرآن، ۱۳۶۲، ج۲، ص۱۰۰.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۷۹.
- ↑ نگاه کنید به طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۹۸.
- ↑ رجوع کریں: صادقی تہرانی، الفرقان، ۱۴۰۶ق، ج۳، ص۲۲۵و۲۲۶.
- ↑ صادقی تہرانی، الفرقان، ۱۴۰۶ق، ج۳، ص۲۲۵.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۷۸.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۹۸.
مآخذ
- ابن ابی الحدید، عبدالحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغہ، تصحیح ابراہیم محمد ابولالفضل، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، ۱۴۰۴ق۔
- صادقی تہرانی، محمد، الفرقان فی تفسیر القرآن، قم، فرہنگ اسلامی، ۱۴۰۶ق۔
- طالقانی، سیدمحمود، پرتوی از قرآن، تہران، شرکت سہامی انتشار، ۱۳۶۲ش۔
- طباطبايی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ق۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب العلمیہ، ۱۳۷۱ش۔
- ہاشمی، سیدہ مرضیہ، «بررسی سبب نزول آیہ اشترای نفس» در فصلنامہ سفینہ، شمارہ ۱۳، ۱۳۸۵ش۔