نماز جمعہ

تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے

نماز جمعہ، دو رکعت ہے جسے جمعہ کے دن نماز ظہر کے بجائے جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔ نماز جمعے کی ادائیگی کے لئے امام جمعہ سمیت کم سے کم پانچ افراد کی موجودگی شرط ہے۔ نماز جمعہ سے پہلے دو خطبے دینا واجب ہیں جن میں مؤمنین کو تقوا اور پرہیزگاری کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔

نماز جمعہ کا حکم سورہ جمعہ میں بیان ہوا ہے۔ احادیث میں نماز جمعہ کو مسکینوں کا حج اور گناہوں کی مغفرت کا موجب نیز بعض احادیث میں نماز جمعہ کے ترک کرنے کو نفاق، اختلاف اور غربت و افلاس کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ نماز جمعہ امام معصوم کی موجودگی میں واجب اور امامؑ کی غیبت کے زمانے میں اکثر فقہا اسے واجب تخییری سمجھتے ہیں۔

برصغیر میں پہلی مرتبہ شیعہ نماز جمعہ سید دلدار علی کی اقتدا میں 27 رجب سنہ 1200 ہجری کو لکھنو میں پڑھی گئی۔

ایران میں نماز جمعہ شاہ اسمعیل صفوی کے دور میں رائج ہوئی، بعد ازاں بہت سے شہروں میں بپا کی جانے لگی۔ ایران کو اسلامی جمہوریہ قرار دئے جانے کے بعد ملک کے تمام شہروں میں نماز جمعہ برپا کی جاتی ہے۔

نماز جمعہ اسلام کے اوائل سے لے کر آج تک مسلمانوں کے مہم ترین اجتماعی شعائر میں سے شمار ہوتی ہے نیز اسے مسلمانوں کے مابین اتحاد اور یکجہتی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ نماز جمعہ سے پہلے کہے جانے والے خطبات کے سیاسی اور معاشرتی پہلؤوں کی بنا پر نماز جمعہ "عبادی اور سیاسی عبادت" کے عنوان سے مشہور ہے۔

اہمیت و منزلت

سورہ جمعہ میں مؤمنین کو صراحت کے ساتھ نماز جمعہ میں شرکت کی دعوت دی گی ہے: جب تمہیں مؤذن کی صدا سنائی دے اور نماز جمعہ کے لئے بلایا جائے تو کاروبار اور تجارت کو ترک کردو[1]

حضرت علی علیہ السلام بعض قیدیوں کو نماز جمعہ میں شرکت کے لئے رہا کیا کرتے تھے۔[2] نیز اسلامی مذاہب کے فقہا سورہ جمعہ کی آیات کی وجہ سے ان اعمال سے اجتناب لازمی سمجھتے ہیں جو نماز جمعہ کی برپائی میں کوتاہی یا اس کو کھو دینے کا سبب بنتے ہیں۔

اسلامی مذاہب کے فقہی مآخذوں میں ابتدا ہی سے نماز کے باب (کتاب الصلوۃ) کی ایک فصل نماز جمعہ سے مخصوص کی جاتی رہی ہے۔[3] اسلامی مذاہب کے جامع فقہی مآخذوں میں ابتدا ہی سے نماز کے باب میں ایک فصل نماز جمعہ سے مخصوص کی جاتی رہی ہے۔[4]

روایات میں بھی نماز جمعہ کی اہمیت اور منزلت درج ذیل عناوین کے تحت بیان ہوئی ہے:

  • گناہوں کی بخشش

رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں:

چار افراد عمل (اور زندگی) کا از سر نو آغاز کرتے ہیں:ّ
1۔ بیمار جب وہ تندرست ہوجائے؛ مشرک جب وہ جو ایمان لاتا ہے؛ 3۔ حاجی جب وہ مناسک حج سے فراغت پاتا ہے؛ 4۔ وہ شخص جو نماز جمعہ کے بعد پلٹ آتا ہے۔[5]
  • ناداروں کا حج
    ایک با ایمان شخص نے رسول اللہ(ص) سے عرض کیا: میں نے کئی مرتبہ حج بجا لانے کا ارادہ کیا لیکن مجھے توفیق نہ ملی تو آپ(ص) نے فرمایا: تمہیں مسلسل نماز جمعہ میں شرکت کرتے رہنا چاہئے کیونکہ نماز جمعہ ناداروں کا حج ہے۔[6]
  • قیامت کی سختیوں کا کم ہونا
رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں: جو شخص نماز جمعہ کی طرف عزیمت کرے، خداوند متعال قیامت کے اندیشوں کو اس کے لئے گھٹا دیتا ہے اور بہشت کی طرف اس کی راہنمائی کرتا ہے۔[7] نیز فرماتے ہیں: جمعہ وہ دن ہے جس میں خداوند سب کو اکٹھا کرلیتا ہے، تو ایسا کوئی بھی مؤمن نہیں ہے جو نماز جمعہ میں شرکت کرے مگر یہ کہ خداوند متعال روز قیامت کو اس کے لئے آسان بنا دیتا ہے اور فرمان جاری کرتا ہے کہ انہیں جنت میں لے جایا جائے۔[8]
  • اجر و ثواب
رسول اللہ(ص) نے فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے، نماز جمعہ کی طرف قدم اٹھائے اور امام کے خطبوں کو سن لے تو اس کے ہر قدم کے بدلے میں اس کے لئے ایسے ایک سال کی عبادت لکھی جاتی ہے کہ جیسے وہ صائم النہار اور قائم اللیل رہا ہو۔[9]
  • آتش جہنم کا حرام ہونا'
امام صادقؑ نے فرمایا: جب کوئی نماز جمعہ کے لئے قدم اٹھائے، خداوند متعال اس کے جسم کو دوزخ کی آگ پر حرام قرار دیتا ہے۔[10]
  • جنت کی طرف سب سے آگے
    امام صادقؑ نے فرمایا: خداوند متعال نے روز جمعہ کو دوسرے ایام پر برتری عطا کی ہے اور بےشک جمعہ کے دن جنت کو زیوروں سے آراستہ کیا جاتا ہے اور وہ زینت پاتی ہے ان لوگوں کے لئے جو نماز جمعہ کے لئے چلے جاتے ہیں؛ اور بےشک تم جنت کی طرف آگے نکل جاتے ہو جس قدر کہ نماز جمعہ کی طرف سبقت کرتے ہو، اور بےشک آسمان کے دروازے بندوں کے اعمال کے لئے کھل جاتے ہیں۔[11]
  • معصوم کی معیت میں نماز جمعہ کا ترک کرنا

امام باقرؑ فرماتے ہیں: نماز جمعہ واجب ہے اور معصوم کی امامت میں اس کے لئے اکٹھا ہونا واجب ہے۔ جو شخص کسی عذر کے بغیر تین دن تک نماز جمعہ ترک کرے (گویا) اس نے واجب ترک کیا ہے اور صرف منافق شخص ہی کسی عذر کے بغیر اسے چھوڑتا ہے[12] نیز امیرالمؤمنین علیؑ نے [حدیث مرفوع میں] فرمایا ہے: جو شخص بغیر کسی عذر کے نماز جمعہ کو تین ہفتوں تک ترک کرے وہ منافقین کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔[13]

  • پریشانی اور تنگدستی کا باعث
رسول اکرم(ص) نے فرمایا: خداوند متعال نے نماز جمعہ کو تم پر واجب کیا۔ جو بھی میری حیات میں اور میری وفات کے بعد، اس کو، بےوقت سمجھ کر یا انکار کی رو سے، ترک کرے خداوند متعال اس کو پریشانی میں مبتلا کرتا اور اس کے کام میں برکت نہیں ڈالتا۔ جان لو! اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ جان لو! جان لو! خداوند متعال اس کی زکوۃ کو قبول نہیں کرتا۔ جان لو! اس کا حج مقبول نہیں ہے، جان لو! اس کے نیک اعمال قبول نہیں ہونگے حتی کہ توبہ کرے اور بعدازاں نماز جمعہ کو ترک نہ کرے، بےوقعت نہ سمجھے اور اس کا انکار نہ کرے۔[14]

نماز جمعہ اور تالیفات

حقیقت یہ ہے کہ اس نماز کے بارے میں مستقل فقہی کتب و رسائل کی تالیف کا سلسلہ ابتدائی صدیوں سے فقہ اسلامی سے شروع ہوا جو اسلامی تعلیمات میں اس عبادت کی اہم حیثیت و منزلت کا ثبوت ہے۔ ان تالیفات میں سے بعض کے عناوین حسب ذیل ہیں:

  • کتاب الجمعۃ؛ بقلم: محمد بن ادریس شافعی (متوفی سنہ 204ھ ق)؛
  • کتاب الجمعۃ و العیدین، تألیف احمدبن موسی اشعری (متوفی سنہ [تقربیا] 300ھ ق)؛
  • کتاب الجمعۃ، بقلم: عبدالرحمان نَسائی (متوفی سنہ 303ھ ق)؛
  • کتاب صلاۃ الجمعۃ، بقلم: محمدبن احمد جُعفی المعروف بہ صابونی (متوفی بعد از 339ھ ق)؛
  • کتاب صلاۃ یوم الجمعۃ، بقلم: محمدبن مسعود عیاشی (متوفی بعد از 340ھ ق)؛
  • کتاب الجمعۃ والجماعۃ، بقلم: ابوالقاسم جعفربن محمدبن قولویہ (متوفی سنہ 369ھ ق)؛
  • کتاب الجمعۃ والعیدین، بقلم: احمد بن ابی زاہر اشعری قمی (متوفی سنہ [تقریبا] 262ھ ق)؛
  • کتاب الجمعۃ والجماعۃ، بقلم: شیخ صدوق (متوفی سنہ 381ھ ق)؛
  • کتاب عمل الجمعۃ، بقلم: احمد بن عبدالواحد بن احمد بزاز (متوفی سنہ 423ھ ق)۔[15][16]

صفوی دور میں ایران میں، نماز جمعہ کے قیام کے بعد، اس سلسلے میں شیعہ فقہاء کی رسالہ نویسی کا سلسلہ زیادہ سنجیدگی سے انجام پانے لگا۔[17] بہت سے نامور فقہاء نے نماز جمعہ کے بارے میں عربی یا فارسی میں رسالے لکھے جن میں سے بعض دوسرے رسالوں کی تردید یا دفاع میں لکھے گئے۔[18][19]

فقہی نقطۂ نظر کے لحاظ سے ان رسالوں کی چار قسمیں ہیں: وہ رسالے جو ثابت کرنے چاہتے ہیں کہ نماز جمعہ واجب عینی ہے، وہ جو عصر غیبت میں نماز جمعہ کے جائز ہونے یا اس کے واجبِ تخییری ہونے کو ثابت کرنا چاہتے ہیں، وہ رسالے جو نماز جمعہ کی حرمت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں اور وہ رسالے جن کے مؤلفین کا نقطۂ نظر صحیح طور پر واضح نہیں ہے۔[20]

نماز جمعہ کا فلسفہ

اسلام میں چار بڑے اور اہم اجتماعات پائے جاتے ہیں: وہ اجتماعات جو یومیہ نماز جماعت کے لئے منعقد ہوتے ہیں؛ وہ ہفتہ وار اجتماعات جو جمعہ کی نماز کے لئے منعقد ہوتے ہیں اور فطر اور ضحی کے لئے منعقد ہوتے ہیں اور حج کا اجتماع جو ہر سال خانۂ خدا کے طواف و زیارت کے لئے منعقد ہوتے ہیں۔

نماز جمعہ اہم سیاسی، معاشرتی اور معاشی مسائل کے بیان کی خاطر متعدد اثرات مرتب کرتی ہیں جن میں کچھ یہ ہیں:

  • اسلامی تعلیمات اور اہم سماجی اور سیاسی واقعات کے بارے میں معاشرتی آگہی کا حصول؛
  • مسلمانوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ یکجہتی اور یگانگت کا معرض وجود میں آنا؛
  • دینی روح اور معنوی نشاط کی تجدید؛
  • مسائل و مشکلات کے لئے تعاون کے اسباب کی فراہمی۔
جمعۃ الوداع کے دن سکردو بلتستان میں نماز جمعہ ادا کی جارہی ہے

نماز جمعہ کا وجوب

شیعہ اور سنی فقہاء نے نماز جمعہ کے وجوب کے لئے سورہ جمعہ کی آیت 9 اور متعدد احادیث[21][22][23][24] اور اجماع سے استناد کیا ہے۔[25][26][27]

بعض فقہاء نے سورہ جمعہ کی آیت 9 سے استناد کے حوالے سے، نماز جمعہ بپا کرنے کے وجوب کے سلسلے میں بحث اور نزاع کا راستہ اپنایا ہے اور کہا ہے کہ مذکورہ آیت نماز جمعہ کے وجوب کے لئے نازل نہیں ہوئی ہے بلکہ نماز جمعہ کے صحیح قیام کو لازم قرار دیتی ہے اور ان لوگوں پر ملامت کرتی ہے جو صحیح نماز جمعہ کے بپا ہونے کے باوجود، اس میں حاضر ہونے اور شرکت کرنے سے اجتناب کرتے ہیں اور تجارت یا دوسرے امور میں مصروف ہوجاتے ہیں۔[28][29]

نماز جمعہ تمام افراد پر واجب نہیں ہے اور بعض لوگوں کے دوش سے اٹھائی گئی ہے:

  • خواتین؛
  • مسافرین؛
  • بیمار اور شرکت سے عاجز جیسے اندھے اور معمر لوگ؛
  • غلام؛
  • نماز جمعہ میں شرکت جانی اور مالی نقصان کا موجب ہو؛
  • مقام جمعہ سے دو فرسخ[30] کی مسافت پر مقیم لوگ۔[31][32][33]

غیبت کے دوران حکم نماز جمعہ

امام معصوم علیہ السلام کی غیبت کے دوران نماز جمعہ کے جواز یا عدم جواز کا مسئلہ شیعہ فقہاء کے درمیان بحث انگیز بن چکا ہے اور اس کے بارے میں کئی آراء سامنے آئی ہیں جیسے: 1۔ حرمت، 2۔ وجوب تعیینی، 3۔ وجوب تخییری۔[34]

حرمت

قالَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِي لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (ترجمہ: اے ایمان لانے والو! جب پکارا جائے جمعہ کے دن والی نماز کے لئے تو دوڑ پڑو ذکر خدا کی طرف اور خرید وفروخت چھوڑ دو، وہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو)[؟–9]

بعض متقدم شیعہ فقہاء جیسے سَلاّر دیلمی[35] اور ابن ادریس حِلّی[36] نیز ان کی پیروی کرتے ہوئے بہت سے متأخر فقہاء جیسے فاضل ہندی نے نماز جمعہ کے جواز کو امام معصومؑ کے حضور اور موجودگی یا ایسے فرد کی موجودگی سے مشروط کیا ہے جو امامؑ کی طرف سے امامت جمعہ کے لئے مقرر کیا گیا ہو۔[37]

نماز جمعہ کی حرمت پر مبنی فتوا کے پیروکار کہتے ہیں کہ نماز جمعہ کی صحت کی شرط امام معصومؑ کی اجازت یا پھر امامؑ کا نمائندہ ہونا ہے جبکہ غیبت کے زمانے میں ایسی کوئی اجازت موجود نہیں ہے چنانچہ اس زمانے میں نماز جمعہ جائز نہیں ہے۔[38]

نیز بعض علماء کا کہنا ہے کہ جن امور میں ولی فقیہ کو وسیع اختیارات (بَسطِ ید) کی ضرورت ہے جیسے نماز جمعہ کا قیام اور حکم جہاد، ان میں ولی فقیہ کو معصوم کی نیابت حاصل نہیں ہے۔[39] نماز جمعہ کی حرمت کے قائل افراد جن امور سے استناد کرتے ہیں:

ان میں وہ حدیثیں شامل ہیں جن میں "امام" اور "امامٌ عَدلٌ تَقیٌ" جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ نماز جمعہ کے سلسلے میں امام کی مخالفت ہلاکت اور تباہی کا موجب ہے یا پرہیزگار اور عادل امام کی موجودگی کے بغیر نماز جمعہ بپا کرنا جائز نہیں ہے۔[40]

امام سجادؑ نے صحیفہ سجادیہ میں[41] بھی امامتِ جمعہ کو اللہ کے برگزیدہ افراد کے لئے مخصوص قرار دیا ہے۔ بعض متاخر فقہاء نے ان احادیث میں بروئے کار آنے والی عبارات کا مصداق امام معصوم قرار نہیں دیا ہے اور ان سے ایسا عام مفہوم مراد لیا ہے جس میں امام جماعت بھی شامل ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں ان احادیث میں نماز کے باجماعت انعقاد کی ضرورت پر زور دینا مقصود ہے۔[42]

وجوب تعیینی

دوسری طرف سے دسترسی میں موجود زیادہ تر متقدم فقہی مآخذوں میں بعض احادیث نماز جمعہ کے تاکید وجوب پر مذکور ہوئی ہیں اور امام معصومؑ یا ان کے نائب کی امامت صراحت کے ساتھ شرط قرار نہیں پائی ہے۔[43] بایں حال، بعد کی صدیوں کے تقریبا تمام شیعہ فقہاء نے حاکمِ عادل[44] یا امام عادل کی موجودگی یا اجازت[45] کو نماز جمعہ کی برپائی کی شرطوں میں گردانا ہے۔ امام جمعہ کے لئے عدالت کی شرط فقہائے شیعہ نے لازمی قرار دی ہے اور اہل سنت کے فقہاء اس کے قائل نہیں ہیں۔[46] گوکہ نماز جمعہ کے واجب تعیینی[47] ہونے کا نظریہ غیبت کبری کے آغاز ہی سے کم و بیش فقہاء کے ہاں زیر بحث رہا ہے۔[48] اور اس کے واجب تعیینی ہونے پر دسویں صدی ہجری میں شہید ثانی نے زیادہ سنجیدگی سے بحث کی۔[49] بعض فقہاء جیسے شہید ثانی کے نواسے اور مدارک الاحکام کے مصنف[50] ـ نے ان کی پیروی کی[51] اور یہ نظریہ صفوی دور میں ـ بطور خاص اس زمانے کے سماجی اور سیاسی حالات کے پیش نظر ـ[52] وسیع سطح پر رائج ہوا۔

بعض فقہاء کی رائے کے مطابق ہرگاہ ـ امام معصومؑ کے حضور کے زمانے میں نماز جمعہ کے لئے حالات فراہم سازگار ہوجائیں اس کا قیام واجب ہے اور اس امر کے لئے امام معصومؑ کی طرف سے نصب عام یا خاص کی ضرورت نہیں ہے۔ نیز کہا گیا ہے کہ نماز جمعہ کا قیام فتوا دینے اور بحیثیت قاضی فیصلے کرنا، عصر غیبت میں فقہاء کے اختیارات اور فرائص میں شامل ہے۔ عصر غیبت میں نماز جمعہ کے وجوب کے قائل فقہاء زیادہ تر اخباری رجحانات رکھتے ہیں، گوکہ شہید ثانی اور بعض دیگر نامور اصولی علما بھی اس نظریئے کے تابع تھے۔[53]

وجوب تخییری

درمیانی اور متاخرہ شیعہ فقہاء میں سے متعدد فقہاء نماز جمعہ کے وجوب تخییری ہونے کے قائل ہیں جیسے مُحقق حلّی،[54] علامہ حِلّی،[55] ابن فہد حلّی،[56] شہید اول،[57] اور محقق کرکی[58]؛ نماز جمعہ کے وجوب تخییر سے مراد یہ ہے کہ مکلّف بروز جمعہ، بوقت ظہر، یا تو نماز جمعہ پڑھے یا نماز ظہر۔[59] نیز دوسرے دلائل جیسے نماز جمعہ بپا نہ کرنے پر مبنی اصحاب ائمہ نیز متقدم فقہاء کی روش نماز جمعہ کے واجب تعیینی نہ ہونے کی دلیل ہے۔[60]

نماز جمعہ کے وجوب تخییری کا نظریہ متاخر فقہاء کے درمیان یعنی تیرہویں صدی ہجری سے مقبول ہوا ہے۔[61] اور مجموعی طور پر اصولی فقہاء کے درمیان نماز جمعہ کے وجوب تخییری کی طرف رجحان زیادہ رائج ہے گو کہ ان میں سے بعض اس کی حرمت کے قائل ہوئے ہیں۔[62]

شرائط

نماز جمعہ میں تمام با جماعت نمازوں کے لازمی مقدمات اور شروط کے علاوہ دوسری شرطیں ہیں جنکی رعایت اس کے وجوب اور صحت کے لئے ضروری ہے:

شرکا کی تعداد
مختلف اسلامی مذاہب کے فقہاء نماز جمعہ کے انعقاد کم سے کم ضروری افراد کی تعداد کے بارے میں اختلاف رائے موجود ہے:
  • اکثر شیعہ فقہاء[63] کی رائے ہے کہ نمازگزاروں کی تعداد کم از کم پانچ[64] جبکہ بعض دوسروں کے ہاں یہ تعداد سات ہونی چاہئے۔
  • احناف کے ہاں یہ تعداد امام جمعہ کے علاوہ تین ہونی چاہئے۔
  • شافعیوں اور حنابلہ کے ہاں یہ تعداد چالیس
  • مالکیوں کی رائے کے مطابق نماز جمعہ کے لئے کم از کم شہر کے اہلیان میں سے 12 افراد کی موجودگی لازمی ہے۔[65]
فاصلے کی رعایت
نماز جمعہ کی صحت کی ایک شرط ـ جس کو شیعہ اور زیادہ تر سنی مذاہب نے ذکر کیا ہے ـ نماز جمعہ کے قیام کے مقامات کے درمیان مناسب فاصلے کی رعایت کرنا یا ایک شہر میں ایک سے زیادہ مقامات پر نماز جمعہ کا عدم قیام ہے اور اگر اس شرط کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو جو نماز پہلے منعقد ہوگی وہ صحیح ہوگی اور متاخرہ نماز باطل ہوگی۔[66]
مقام انعقاد
نماز جمعہ عام طور پر ہر شہر کی مسجد جامع منعقد کی جاتی تھی جسے کبھی مسجد اعظم، مسجد جماعت، مسجد جمعہ اور مسجد آدینہ کہا جاتا ہے۔[67] ان نمازوں کے جامع کہلانے کا سبب یہ تھا کہ ان میں نماز جمعہ جیسے اجتماعات منعقد کئے جاتے تھے۔[68]

کبھی کبھار شہروں کی حدود اور آبادی میں اضافے اور مختلف فرقوں اور مذاہب کی موجودگی اور حکمرانوں کے سیاسی اور سلامتی کے تقاضوں کی بنا پر ایک شہر میں متعدد مقامات پر نماز جمعہ بپا کی جاتی تھی۔[69]

ابن بطوطہ کی روایت کے مطابق، ساتویں صدی ہجری میں، بغداد میں 11 مساجد میں نماز جمعہ بپا کی جاتی تھی؛ ممالیک کی حکومت کے دور میں اس شہر کی آبادی بہت بڑھ گئی تھی چنانچہ نماز جمعہ مقامی مساجد اور مدرسوں میں بھی بپا کی جاتی تھی۔[70]

امام جمعہ کا تقرر
تفصیلی مضمون: امام جمعہ

شیعہ نیز زیادہ تر مذاہب اہل سنت کے فقہاء، [دوسری جسمانی عبادات کی مانند]، نماز جمعہ کی صحت کو حاکم کی موجودگی یا اجازت سے مشروط نہیں کرتے اور وہ عثمان کے محاصرے کے دوران حضرت علی علیہ السلام کی امامت کو بطور ثبوت پیش کرتے ہیں۔[71] اس کے باوجود پوری تاریخ اسلام میں امامت جمعہ سرکاری منصب کے طور پر پہچانی جاتی رہی ہے۔[72]
اہل سنت میں احناف کا عقیدہ ہے کہ نماز جمعہ کی امامت کے لئے، سلطان یا اس کے نائب یا نماز جمعہ بپا کرنے کے لئے سلطان کے اجازہ یافتہ شخص کا ہونا، لازمی ہے، خواہ وہ سلطان ظالم ہی کیوں نہ ہو۔[73]

نماز جمعہ کی کیفیت

نماز جمعہ سے پہلے دو خطبے پڑھے جاتے ہیں بعدازاں نماز جمعہ کی نیت سے دو رکعت نماز با جماعت ادا کی جاتی ہے۔ اس نماز کی پہلی رکعت میں رکوع سے پہلے ایک قنوت اور دوسری رکعت میں رکوع کے بعد قنوت پڑھنا مستحب ہے۔

  • خطبے

نماز جمعہ کا آغاز دو خطبوں سے ہوتا ہے جو در حقیقت نماز ظہر کی پہلی دو رکعتوں کے متبادل ہیں۔[74]

خطیب جمعہ کو امام جماعت کی تمام شروط پر پورا اترنے کے علاوہ[75] دوسری کئی خصوصیات کا حامل ہونا چاہئے مثلا اونچی آواز کا مالک ہو، شجاع ہو، حقائق کے بیان میں کھرا، صاف گو اور بے جھجھک ہو اور اسلام و مسلمین کی مصلحتوں سے آگاہ ہو۔ نیز بہتر ہے کہ امام جمعہ عادل ترین اور شریف ترین افراد میں سے منتخب کیا جائے۔[76]

امام رضاؑ ان خطبوں کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:

خطبہ اس لئے روز جمعہ کے لئے وضع ہوا ہے کہ خداوند متعال مسلمانوں کے حاکم کو موقع فراہم کرتا ہے کہ لوگوں کو موعظہ کرے اور انہیں خدا کی اطاعت کی رغبت دلائے، اللہ کی نافرمانی سے ڈرائے، انہیں ان کے دین اور دنیا کی مصلحتوں سے آگاہ کردے، دنیا بھر سے اس کو ملنے والی اہم خبروں اور واقعات ـ جو عوام کے مقدرات کے لئے اہمیت رکھتے ہیں ـ کو ان تک پہنچا دے۔ دو خطبے قرار دیئے گئے ہیں تا کہ ایک خطبے میں اللہ کی حمد و تقدیس کا اہتمام ہو اور دوسرے میں ضروریات سے آگاہ کیا جائے، بعض مسائل کے سلسلے میں ہوشیار اور خبردار کیا جائے، دعاؤں کا اہتمام کیا جائے اور ان اوامر اور اسلامی معاشرے کی صلاح یا فساد سے متعلق احکام ان تک پہنچا دے۔[77]
    • وقت اور مضامین

اکثر مراجع تقلید کی رائے کے مطابق خطبات جمعہ ظہر شرعی سے قبل دیئے جائیں۔[78]

فقہائے شیعہ کا مشہور فتوی یہ ہے کہ خطبہ کم از کم حمد خدا، رسول اللہ(ص) پر صلوات، وعظ و نصیحت، تقوی کی تلقین و ترغیب اور قرآن کی ایک چھوٹی سورت پر مشتمل ہونا چاہئے۔[79]

    • خطبات کا سننا

نمازیوں کو ہر وہ عمل ترک کردینا چاہئے جو انہیں خطبوں کی سماعت سے باز رکھتا ہو جیسے بولنا یا نماز پڑھنا وغیرہ۔[80]

امیرالمؤمنین علیؑ فرماتے ہیں:

نماز جمعہ میں شرکت کرنے والوں کی تین قسمیں ہیں: وہ لوگ جو امام سے پہلے نماز میں حاضر ہوتے ہیں، اور خاموش رہ کر خطبے سنتے ہیں، ان لوگوں کی نماز جمعہ میں شرکت ان کے 10 دنوں کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ بعض وہ لوگ ہیں جو نماز جمعہ میں شرکت کرتے ہیں لیکن بات چیت اور ہلنے جلنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کو نماز جمعہ سے ملنے والا صلہ "دوستوں کے ساتھ گفتگو اور ان کے ساتھ مل بیٹھنا" ہے۔ تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو امام خطبہ دینا شروع کرتا ہے تو وہ نماز میں مصروف ہوجاتے ہیں، وہ بھی سنت کے خلاف عمل کرتے ہیں؛ یہ وہ لوگ ہیں جو اگر خدا سے کچھ مانگیں تو اللہ چاہے تو انہیں عطا کرتا ہے، چاہے تو انہیں محروم کردیتا ہے۔[81]
  • دو رکعت نماز

دو خطبے دیئے جانے کے بعد دو رکعت نماز جمعہ پڑھی جاتی ہے۔ پہلی رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ جمعہ اور دوسری رکعت میں سورہ منافقون یا پہلی رکعت میں سورہ اعلی اور دوسری رکعت میں سورہ غاشیہ پڑھنا مستحب ہے۔ اونچی آواز [یعنی جَہْر] سے سورتوں کی تلاوت بھی مستحب ہے۔[82]

  • دو قنوت
بعض شیعہ فقہاء کے مطابق پہلی رکعت میں رکوع سے پہلے اور دوسری رکعت میں رکوع کے بعد قنوت پڑھنا مستحب ہے۔[83]

[پہلی رکعت میں غائب ہونے کی صورت میں] نماز جمعہ کی دوسری رکعت میں شامل ہونا کافی ہے، یعنی یہ ہوسکتا ہے کہ نماز جمعہ کی ایک رکعت با جماعت اور دوسری رکعت فرادٰی کی صورت میں، ادا کی جائے۔[84]

تاریخی پس منظر

نماز جمعہ بعثت کے 12 سال بعد اور ہجرت سے پہلے مکہ میں تشریع (اور وضع) ہوئی۔ اس سال رسول اکرمؐ کیلئے مکہ میں نماز جمعہ برپا کرنے کا امکان میسر نہ تھا اور آپ نے مُصعَب بن عُمَیر کو مکتوب لکھ کر ہدایت کی کہ نماز جمعہ مدینہ میں بپا کریں۔[85] ددوسری روایت کے مطابق[86] پہلی نماز جمعہ اَسعَد بن زُرارَہ نے مدینہ میں منعقد کروائی اور رسول اللہؐ مدینہ پہنچے تو نماز جمعہ آپؐ کی امامت میں برپا ہوئی۔[87]

مدینہ کے بعد جس علاقے میں سب سے پہلے نماز جمعہ بپا ہوئی وہ بحرین کا "قریۂ عبدالقیس" تھا۔[88]

عصر رسالت کے بعد بھی ـ تاریخی روایات کے مطابق ـ خلفائے راشدین نیز امام علی (سنہ 35 تا 40ھ ق) اور امام حسن مجتبی (سنہ 40ھ ق) علیہما السلام کے زمانے میں رائج تھی۔[89]

بعض شیعہ روایات ـ جیسے رسول اکرمؐ کا خطبہ شعبانیہ اور نہج البلاغہ میں امام علیؑ کے بعض خطباب، ان نمازوں کی یادگاریں ہیں۔

اموی (سنہ 41 تا 132ھ ق) اور عباسیان (سنہ 132 تا 656ھ ق) کے ادوار میں میں بھی خلفا اور ان کے والی اور عوامل نماز جمعہ کا انعقاد کرتے تھے جو خلیفہ وقت کے نام خطبہ پڑھ کر یا اس کے لئے دعا کرکے اس کا ساتھ دیا کرتے تھے۔[90]

خلفا دارالخلافہ کے ائمۂ جمعہ کا تعین کیا کرتے تھے[91] اور دیگر شہروں کے خطبائے جمعہ کا تقرر ان ہی شہروں کے والیوں اور امراء کے ذمے تھا۔[92]

نماز جمعہ میں ائمہ کی شرکت

شیعہ نقطۂ نظر سے حکامِ جور اور ان کی طرف سے مقرر شدہ ائمۂ جمعہ و جماعت کی کوئی شرعی حیثیت نہ تھی لہذا ان کی امامت میں نماز نہیں پڑھی جاسکتی۔ اس کے باوجود بعض روایات کے مطابق ائمۂ شیعہ علیہم السلام اور ان کے پیروکار تقیہ کی رو سے یا دوسری وجوہات کی بنا پر نماز جمعہ میں شرکت کرتے تھے،[93]

بعض اوقات حکومتوں کے مخالفین اپنی مخالفت کے اظہار کے لئے نماز جمعہ میں شرکت سے اجتناب کرتے تھے۔[94] نماز جمعہ سے غیر حاضری لوگوں کی نگاہ میں معیوب سمجھی جاتی تھی۔[95]

شیعہ نماز جمعہ

شیعہ معاشروں میں نماز جمعہ کے بارے میں منقولہ قدیم ترین روایات میں سے ایک روایت کا تعلق سنہ 329ھ ق میں شیعیان بغداد کی نماز جمعہ سے ہے جو وہ مسجد براثا میں احمد بن فضل ہاشمی کی امامت میں بپا کرتے تھے،[96] اور حتی کہ سنہ 349ھ ق کے فتنے کے دوران بھی ـ جب بغداد میں نماز جمعہ کا انعقاد معطل ہوکر رہ گیا تھا ـ مسجد براثا میں نماز جمعہ کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہا،[97] لیکن سنہ 420ھ ق میں خلیفہ کی جانب سے اس مسجد کے لئے ایک سنی خطیب کا تقرر ہوا تو یہاں نماز کا قیام کچھ عرصے تک تعطل کا شکار ہوا۔[98] نیز قاہرہ کی جامع ابن طولون میں سنہ 359ھ ق کو اور جامع ازہر میں سنہ 361ھ ق کو نماز جمعہ بپا ہوئی۔[99] بعض تاریخی شہادتوں[100] سے معلوم ہوتا ہے کہ ان شہروں میں ابتدائی ہجری صدیوں میں نماز جمعہ بپا ہوا کرتی تھی۔[101]

صفوی دور
نماز جمعہ کو، شاہ اسمعیل اول صفوی (حکومت از سنہ905 تا 930ھ ق) کے زمانے سے، رفتہ رفتہ ایران کے شیعہ معاشرے میں، فروغ ملا۔ اس امر کا سبب یہ تھا کہ ایک طرف سے حکومت عثمانیہ کی طرف سے اہل تشیع پر یہ اعتراض تھا کہ وہ نماز جمعہ منعقد نہیں کرتے اور دوسری طرف سے محقق کَرَکی (متوفی سنہ 940ھ ق) سمیت شیعہ علماء کی کوشش تھی ایران میں نماز جمعہ کو رواج ملے۔[102] اس کے باوجود کہ، بہت سے فقہاء ـ منجملہ علمائے جبل عامل ـ محقق کرکی کی حمایت کررہے تھے اور صفوی حکومت بھی ان کی پشت پناہی کررہی تھی، لیکن چونکہ نماز جمعہ اہل تشیع کے درمیان وسیع سطح پر رائج نہ تھی، اور متعدد علماء بھی اس کی سختی سے مخالفت کررہے تھے،[103] لہذا ایران کے شیعہ معاشرے میں اس کو رسمی حیثیت تدریجا میسر ہوئی۔[104]
غیبتِ امام معصومؑ میں نماز جمعہ کے [شرعی] حکم اور وجوب یا حرمت کے سلسلے میں بحث و نزاع کا سلسلہ شاہ سلیمان اول صفوی (حکومت از سنہ 1077 یا 1078 تا 1105ھ ق) اس حد تک پہنچا کہ انھوں نے فقہاء کی ایک مجلس ترتیب دی اور اپنے وزیر اعظم کو اس مجلس میں روانہ کیا تا کہ وہ نماز جمعہ کے حکم کے سلسلے میں مشترکہ نتیجے تک پہنچیں۔[105]
شاہ طہماسب اول (حکومت از سنہ 930 تا 984ھ ق) نے محقق کرکی کے مشورے سے ہر شہر کے لئے امام جمعہ مقرر کیا۔[106]
شاہ عباس اول (حکومت از سنہ 996 تا 1038ھ ق) کے زمانے میں امامت جمعہ کا منصب باضابطہ طور پر بنیاد رکھی گئی۔[107]
عام طور پر ہر شہر کا شیخ الاسلام اس منصب کا عہدیدار ہوا کرتا تھا لیکن کبھی کبھار ـ شیخ الاسلام کی عدم موجودگی میں ـ وہ علماء بھی بادشاہ کی درخواست پر امامت جمعہ کی ذمہ داری قبول کیا کرتے تھے جو شیخ الاسلام نہ تھے؛ جس کی ایک مثال ملا محسن فیض کاشانی (متوفی سنہ 1091ھ ق) تھے۔[108]
عصر صفوی میں پہلی نماز جمعہ محقق کرکی نے اصفہان کی جامع مسجد عتیق میں بپا کی۔ اس دور کے دوسرے اہم ائمۂ جمعہ میں شیخ بہائی (متوفی سنہ 1030 یا 1031ھ ق)، میرداماد (متوفی سنہ 1041ھ ق)، محمد تقی مجلسی (متوفی سنہ 1070ھ ق)، محمد باقر مجلسی (متوفی سنہ 1110 یا 1111ھ ق)، محمد باقر سبزواری (متوفی سنہ 1090ھ ق) اور شیخ لطف اللہ اصفہانی (متوفی سنہ 1032ھ ق) شامل ہیں۔[109]
صفوی دور میں نماز جمعہ کے خطبات پر مشتمل کتب کی تالیف رائج ہوئی جن میں مشہور ترین میرزا عبداللہ افندی (متوفی سنہ 1130ھ ق) کی تالیف بساتین الخطباء ہے۔
اس سلسلے کی دوسری اہم کتب میں مولی محسن فیض کاشانی (متوفی سنہ 1091ھ ق) کی کتاب "الخُطَب"، میرداماد (متوفی سنہ 1041ھ ق) کی کتاب "الخطب للجمعۃ والاعیاد" شیخ یوسف البحرانی (متوفی سنہ 1186ھ ق) کی کتاب "الخُطَب"، خطیب عبدالرحیم بن محمد بن نباتہ (متوفی سنہ 374ھ ق) کی کتاب "الخُطَب" اور جمال الدین ابوبکر محمد (متوفی سنہ 768ھ ق) المعروف بہ "ابن نباتہ المصری ـ جو عبدالرحیم بن محمد کے پڑپوتوں میں سے تھے ـ کی کتاب "دیوان الخطب الجمعیہ" شامل ہیں۔[110]
محقق کرکی نے سنہ 921ھ ق میں ـ غیبتِ امام معصوم کے زمانے میں نماز جمعہ کے جواز کے اثبات کے سلسلے میں ایک کتاب تصنیف کی جو در حقیقت ولایت فقیہ کے موضوع کے سلسلے میں ایک رسالہ، سمجھی جاتی ہے۔ محقق کرکی کے بعض ہم عصر علماء اور ان کے بعض شاگردوں نے ان کے نظریئے پر تنقید کرتے ہوئے نماز جمعہ کی حرمت کے اثبات یا اس کے وجوب عینی کی تردید میں رسائل تحریر کئے۔[111]
پاک و ہند
سید دلدار علی کے عتبات عالیہ کے سفر سے واپسی کے بعد لکھنؤ کی عوام نے آپ سے اس شہر میں نماز جمعہ کے اقامہ کی درخواست کی جسے آپ نے انکے اصرار کے بعد قبول کیا ۔اس سے پہلے آپ امام زمانہ کی غیبت میں نماز جمعہ کے اثبات کو آئمہ طاہرین کی تعلیمات کی روشنی میں تحریری صورت میں لکھ چکے تھے۔ نواب شجاع الدولہ کے فرزند نواب آصف الدولہ،نواب مرزا حسن رضا خان،ملا محمد علی فیض آبادی اور علی اکبر صوفی اس کار خیر کا موجب بنے۔1200 ھ ق کے ماہ رجب کی تیرھویں (13) تاریخ کو وزیر اعظم حسن رضا خان کے محل میں پہلی نماز جماعت ظہرین پڑھی گئی اور رجب کی ستائیسویں(27) تاریخ کو لکھنؤ میں مذہب شیعہ کی پہلی نماز جمعہ آیت اللہ سید دلدار علی نقوی کی اقتدا میں پڑھی گئی ۔[112]
عہد قاجار
امامت جمعہ، عہد قاجار (سلسلۂ حکومت از سنہ 1210 تا 1344ھ ق) میں بھی عہد صفوی کی طرح ایک حکومتی اور سرکاری منصب سمجھی جاتی تھی۔[113] اس دور میں مذہبی مناصب کی حیثیت و اعتبار گھٹ جانے کے تناسب سے، امامت جمعہ اپنی دینی اور سیاسی حیثیت کھو گئی۔ عہد قاجار کے اواخر میں، بعض ائمۂ جمعہ، آئینی انقلاب کے حامی اور استبدادی حکومت کے مخالف علماء کے مد مقابل آکھڑے ہوئے۔[114] افشاریہ دور حکومت (1148 تا 1210ھ ق) اور عہد قاجار میں بڑے شہروں کے بہت سے ائمہ جمعہ کے اسماء کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان ادوار میں امامت جمعہ کا منصب موروثی بن چکا تھا اور بعض خاندان نسل اندر نسل اس منصب کے عہدیدار ہوتے تھے؛ جن میں ـ تہران میں خاندان خاتون آبادی، اصفہان میں خاندان مجلسی اور یزد میں خاندان محمد مقیم یزدی ـ شامل ہیں۔ [115] دوسرے شہروں میں یہی سلسلہ دکھائی دیتا ہے۔[116]
پہلوی دور
پہلوی دور (سنہ 1299 تا 1357ھ ش / 1339 تا 1399ھ ق / 1921 تا 1979ع‍) میں ائمۂ جمعہ ـ بطور خاص تہران جیسے شہروں میں ـ حکومت کے ساتھ باضابطہ تعلق کی بنا پر، مقبولیت عامہ سے محروم تھے اور نماز جمعہ کو کچھ زیادہ رونق حاصل نہیں تھی۔[117] یہ امر قابل ذکر ہے کہ بعض علماء نماز جمعہ کے وجوب تخییری یا تعیینی ہونے پر صادرہ فتاوی کے تحت، نماز جمعہ قائم کرتے تھے اور چونکہ ان کی نماز کا حکومت سے تعلق نہیں تھا، لہذا اس کو عوامی مقبولیت حاصل رہی۔[118] ان نمازوں میں ایک آیت اللہ محمد علی اراکی کی نماز تھی جو سنہ 1336 ہجری شمسی سے اسلامی انقلاب کی کامیابی تک قم کی مسجد امام حسن عسکریؑ میں بپا ہوتی رہی۔ آیت اللہ سید محمد تقی غضنفری نے بھی سنہ 1310ھ ق سے لے کر سنہ 1350ھ ق میں اپنی وفات تک، شہر خوانسار میں، نماز جمعہ بپا کرتے رہے ہیں۔
عہد اسلامی جمہوریہ
[سنہ 1357ھ ش / 1399ھ ق / 1979ع‍ میں] انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد، ایران میں ایک بار پھر نماز جمعہ کو فروغ ملا۔ اس دور میں پہلی نماز جمعہ بمورخہ 5 مُرداد 1358ھ ش / 27 جولائی سنہ 1979ع‍‌، بمقام جامعۂ تہران، بامامت آیت اللہ سید محمود طالقانی (متوفی ستمبر 1979ع‍)، بپا ہوئی، جنہیں امام خمینی نے بطور امام جمعہ متعین کیا تھا۔
تہران کے دوسرے امام جمعہ آیت اللہ منتظری (متوفی سنہ 2009ع‍) تھے جو بطور امام جمعہ تعین کے کچھ ہی عرصہ بعد مستعفی ہوکر قم چلے گئے اور امام خمینی کے حکم پر آیت اللہ سید علی حسینی خامنہ ای تہران کے امام جمعہ کے طور پر مقرر ہوئے۔[119]
تہران میں نماز جمعہ کے نئے دور کے آغاز کے بعد دوسرے شہروں کے عوام نے بھی، اپنے لئے ائمہ جمعہ کے تعین کا مطالبہ کیا۔ تہران میں نماز جمعہ کے قیام کی سطح وسیع ہونے کے بعد، امام خمینی نے اس وقت کے صدر جمہوریہ سید علی حسینی خامنہ ای کی تجویز پر نماز جمعہ سے متعلق مسائل کے نظم و نسق کی ذمہ داری قم میں واقع ایک مرکز کے سپرد کی اور سنہ 1371ھ ش میں، یہ ذمہ داری، آیت اللہ خامنہ ـ بطور رہبر انقلاب اسلامی ـ کے حکم پر ایک 9 رکنی کونسل، بعنوان "ائمہ جمعہ پالیسی کونسل" نے سنبھالی۔[120]
ماہ رمضان میں جمعہ کی نمازیں دوسرے مہینوں کی نسبت لوگوں کی زیادہ بڑی تعداد شرکت کرتی ہے اور رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کی ریلیاں منعقد ہوتی ہیں اور نمازگزار رسول اللہؐ کی توہین اور فلسطینی عوام پر صہیونی ریاست کے مظالم اور دوسرے مسائل پر احتجاج کے لئے مظاہرے کرتے ہیں۔
شہدائے محراب
تفصیلی مضمون: شہید محراب

دسمبر 1979 سے اکتوبر 1982ع‍ تک کے عرصے میں [مجاہدین خلق نامی دہشت گرد تنظیم کی] دہشت گردانہ کاروائیوں میں ایران کے کئی مشہور ائمۂ جمعہ نے جام شہادت نوش کیا جن میں آیت اللہ سید محمد علی قاضی طباطبائی (ولادت سنہ 1293 شہادت 1358ھ ش) اور آیت اللہ سید اسد اللہ مدنی (ولادت سنہ 1292 شہادت 1360ھ ش) [دونوں بمقام تبریز]، آیت اللہ سید عبدالحسین دستغیب (ولادت سنہ 1288 شہادت 1360ھ ش [بمقام شیراز])، آیت اللہ محمد صدوقی (ولادت 1287 شہادت 1361ھ ش [بمقام یزد]) اور آیت اللہ عطاء اللہ اشرفی اصفہانی (ولادت سنہ 1279 شہادت 1361ھ ش [بمقام کرمانشاہ]) شامل ہیں۔[121]

فوٹو گیلری


حوالہ جات

  1. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِي لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (ترجمہ: اے ایمان لانے والو! جب پکارا جائے جمعہ کے دن والی نماز کے لئے تو دوڑ پڑو ذکر خدا کی طرف اور خرید و فروخت چھوڑ دو، وہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو)[؟–9]۔
  2. نوری، مستدرک الوسائل، ج6، ص27۔
  3. مالک بن انس، المُوَطّأ، ج1، ص101ـ112۔شافعی، الامّ، ج1، ص188ـ209۔کلینی، الکافی، ج3، ص418ـ 428۔ابن بابویہ، المقنع، ص144-148۔عسقلانی، فتح الباری، ج2، ص450ـ544۔
  4. مالک بن انس، المُوَطّأ، ج1، ص101ـ112۔شافعی، الامّ، ج1، ص188-209۔کلینی، الکافی، ج3، ص418-428۔ابن بابویہ، المقنع، ص144-148۔عسقلانی، فتح الباری، ج2، ص450-544۔
  5. مجلسی، بحار الانوار، ج86، ص197۔
  6. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج5، ص5۔
  7. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج7، ح9390۔
  8. ابن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، ج1، ص427۔
  9. نوری، مستدرک الوسائل، ج2، ص504۔
  10. ابن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، ج1، ص247۔
  11. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج5، ص70۔
  12. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج5، ص4۔
  13. نوری، مستدرک الوسائل، ج2، ص6291۔
  14. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج5، ص7۔
  15. ابن ندیم، الفہرست، ص215 244 264 271۔
  16. نجاشی، فہرست اسماء مصنفی الشیعۃ، ص87-88، 101، 123، 347، 352، 389، 398۔
  17. جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص37۔
  18. جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی،ص37ـ 38۔
  19. جعفریان، صفویہ در عرصہ دین، ج3، ص251۔
  20. جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص58، 92۔
  21. ابن حنبل، المسند، ج3، ص424ـ425۔
  22. نسائی، السنن، ج3 ص85 89۔
  23. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7 ص295ـ302۔
  24. نوری، مستدرک الوسائل، ج6 ص10۔
  25. شوکانی، نیل الاوطار، ج3 ص254ـ255۔
  26. طوسی، الخلاف، ج1، ص593۔
  27. محقق حلی، المعتبر، ج2، ص274۔
  28. منتظری، البدر الزاہر، ص6۔
  29. غروی تبریزی، التنقیح، ج1، ص16ـ17۔
  30. فرسخ اکثر اسلامی اصطلاحات میں استعمال ہوتا ہے ایک فرسخ تین میل یا 5544 میٹر یا 12000 قدم یا 18000 فٹ کے برابر ہے۔ (فیروزاللغات اردو، دہلی۔
  31. مفید، المقنعۃ، ص164۔
  32. حسینی عاملی، مفتاح الکرامہ، ج8، ص463ـ483۔
  33. زحیلی، الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج2، ص265ـ 268۔
  34. دیگر اقوال کے لئے رجوع کریں: رضا نژاد، صلاۃ الجمعہ، ص28۔
  35. رضا نژاد، صلاۃ الجمعہ، ص77۔
  36. ابن ادریس حلی، السرائر، ج1 ص304۔
  37. فاضل ہندی، کشف اللثام، ج1 ص246ـ 248۔۔طباطبائی، ریاض المسائل، ج4، ص73ـ 75۔ نراقی، مستند الشیعۃ، ج6 ص60۔احمد خوانساری، جامع المدارک، ج1، ص524۔
  38. مذکورہ بالا مآخذ سے رجوع کریں۔
  39. منتظری، البدر الزاہر، ص57-58۔
  40. قاضی نعمان، دعائم الاسلام، ج1، ص234۔نوری، مستدرک الوسائل، ج6، ص13ـ14۔
  41. نوری، وہی ماخذ، ج6، ص474۔
  42. بطور نمونہ: حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص310۔
  43. رک: کلینی، الکافی، ج3 ص418ـ419۔ابن بابویہ، الامالی، ص573۔
  44. مفید، المقنعۃ، ص676۔ عَلَمُ الہُدیٰ، مسائل الناصریات، ص265۔ طوسی، المبسوط، ج1، ص143۔
  45. عَلَمُ الہُدیٰ، رسائل، ج1 ص272۔عَلَمُ الہُدیٰ، وہی ماخذ، ج3، ص41۔
  46. محقق حلی، المعتبر، ج2 ص279ـ280۔
  47. واجب تعیینی، وہ واجب عمل ہے جو خود واجب ہوا ہے اور کوئی دوسرا عمل اس کی جگہ نہیں لے سکتا، جیسے یومیہ نمازیں، اس کے مقابلے میں واجب تخییری ہے جس میں مکلف کو اختیار ہے کہ ایک غلام آزاد کرے، 60 دن روزہ رکھے یا 60 افراد کو کھانا کھلائے۔واجب تعیینی و تخییری۔
  48. رضا نژاد، صلاۃ الجمعہ، ص29ـ65۔
  49. شہید ثانی، الرسائل، ص197۔
  50. "جناب سید شمس الدین محمد بن علی بن حسین موسوی عاملی جبعی" المعمروف بہ صاحب مدارک ۔
  51. الموسوي العاملي، مدارک الاحکام فی شرح شرائع الاسلام، ج4، ص25۔
  52. محمد مقیم یزدی، الحجۃ في وجوب صلاۃ الجمعۃ، ص53-54۔
  53. اس نظریئے کے دیگر قائلین اور شہید ثانی کے تفصیلی دلائل کے لئے رجوع کریں: شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ج1، ص299ـ301۔ فیض کاشانی، الشہاب الثاقب فی وجوب صلاۃ الجمعۃ العینی، ص47ـ102۔ آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ، ج15 ص63 67 73۔ جابری، صلاۃ الجمعۃ تاریخیاً وفقہیاً، ص54 - 55۔
  54. محقق حلی، شرائع الاسلام، ج1، ص76۔
  55. علامہ حلی، مختلف الشیعۃ، ج2 ص238ـ239۔
  56. ابن فہد حلی، المهذب البارع، ج1 ص414۔
  57. شہید اول، الدروس، ج1 ص186۔
  58. محقق کرکی، الرسائل، ج1، 158ـ171۔
  59. نراقی، مستند الشیعۃ، ج6، ص59۔ توضیح المسائل مراجع، ج1، ص871-872۔ علامہ حلّی، تذکرۃ الفقہاء، ج4، ص27۔ محقق کرکی، الرسائل، ص163۔ حسینی عاملی، مفتاح الکرامہ، ج8 ص216۔
  60. مزید تفصیلات کے لئے رجوع کریں: مبلغی، عناصر تأثیرگذار در وجوب تعیینی نماز جمعہ، ص211ـ216۔
  61. کاشف الغطاء، کشف الغطاء، ج3، ص248۔ نجفی، جواہر الکلام، ج11، ص151۔امام خمینی، تحریرالوسیلۃ، ج1، ص205۔ نماز جمعہ کے وجوب تخییری کے دوسرے قائلین کے لئے رجوع کریں: فہرست کتابخانۂ مرکزی دانشگاہ تہران، ج14، ص3604۔
  62. جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص37۔
  63. عَلَمُ الہُدیٰ، رسائل، ج1 ص222۔ ابن ادریس حلّی، السرائر، ج1 ص290۔ فاضل ہندی، کشف اللثام، ج4 ص215۔
  64. طوسی، تہذیب الاحکام، ص103۔
  65. کاسانی، بدائع الصنائع، ج1 ص266۔
  66. حسینی عاملی، مفتاح الکرامہ، ج2 ص130ـ135۔نجفی، جواہر الکلام، ج11 ص245۔
  67. کلینی، الکافی، ج4، ص176۔ ماوردی، الاحکام السلطانیۃ، ص164۔
  68. کاسانی، بدائع الصنائع، ج2 ص113۔
  69. ابن جوزی، المنتظم، ج13، ص5-6۔ حموی، معجم البلدان، ج4، ص230۔ ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ج5، جزء 10، ص105۔ ابن کثیر، وہی ماخذ، ج6، جزء 11، ص332۔
  70. قلقشندی، صبح الاعشی، ج3، ص362۔
  71. شافعی، الامّ، ج1، ص192۔ ابن قدامہ، المغنی، ج2، ص173ـ174۔ نووی، المجموع، ج4، ص509۔
  72. جعفریان، صفویہ در عرصہ دین، ج3، ص255۔
  73. اوزاعی، فقہ الاوزاعی، ج1، ص 260-261۔
  74. عَلَمُ الہُدیٰ، رسائل، ج3، ص41۔رافعی قزوینی، فتح العزیز، ج4، ص576۔ نَوَوی، المجموع، ج4، ص513۔ قس حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص312ـ313۔
  75. بنی ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص872-873۔
  76. ابن عطار، ادب الخطیب، ص89- 96۔ امام خمینی، تحریرالوسیلۃ، ج1 ص209۔ بنی ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص879-880۔
  77. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج7 ص344۔
  78. علامہ حلّی، تذکرۃ الفقہاء، ج4، ص68ـ69۔ حائری، صلاۃ الجمعۃ، ص193ـ199۔
  79. سلاّر دیلمی، المراسم العلویۃ فی الاحکام النبویۃ، ص77۔حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص344۔ بنی ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص878، 879۔
  80. سرخسی، کتاب المبسوط، ج2، ص29ـ30۔ ابن ادریس، السرائر، ج1، ص291، 295۔ نووی، روضۃ الطالبین، ج1، ص573۔ خوئی، منہاج الصالحین، ج1، ص187۔ بنی ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص888، 892۔
  81. مجلسی، بحار الانوار، ج86 ص198۔
  82. مفید، المقنعۃ، ص141۔کاسانی، بدائع الصنائع، ج1، ص269۔نجفی، جواہر الکلام، ج11، ص133ـ134۔
  83. طوسی، النہایۃ، ص106۔طوسی، الخلاف، ج1، ص631ـ 632۔بنی ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص878۔
  84. نجفی، جواہر الکلام، ج11، ص147۔زحیلی، الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج2، ص273۔
  85. طبرانی، المعجم الکبیر، ج17، ص267۔ احمدی میانجی، مکاتیب الرسول، ص239۔
  86. ابن ماجہ، السنن، ج1، ص344۔النسائی، السنن، بشرح جلال الدین سیوطی، ج8، ص150۔
  87. بطور مثال رجوع کریں: مسعودی، مروج الذہب، ج3، ص19۔
  88. حلبی، السیرۃ، ج2، ص59۔
  89. طبری، تاريخ الرسل والملوک، ج3، ص447، 2740۔ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج13، ص251۔ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ج4، جزء7، ص189۔محمودی، نہج السعادۃ، ج1، ص427، 499۔محمودی، وہی ماخذ، ج2، ص595، 714۔محمودی، وہی ماخذ، ج3، ص153 و 605۔
  90. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص285، 365۔ طبری، تاریخ الرسل والملوک، ج8، ص570، 579، 594۔ طبری، وہی ماخذ، ج9، ص222۔
  91. ابن جوزی، المنتظم، ج14، ص383۔ ابن جوزی، وہی ماخذ، ج15، ص351۔
  92. قلقشندی، صبح الاعشی، ج10 ص15، 19۔20۔
  93. زراری، تاریخ آل زرارہ، ج2، ص27۔ نوری، مستدرک الوسائل، ج6 ص40۔ جابری، صلاۃ الجمعۃ تاریخیاً وفقہیاً، ص24۔
  94. برای نمونه ابن جوزی، المنتظم، ج16 ص31ـ32۔ مجلسی، بحار الانوار، ج44، ص333۔
  95. طبری، تاریخ الرسل والملوک، ج4، ص328۔
  96. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج1، ص430۔
  97. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج8، ص533۔
  98. ابن جوزی، المنتظم، ج15 ص198ـ201۔
  99. قمی، کتاب الکنی و الالقاب، ج2، ص417۔ جعفریان، صفویہ در عرصہ دین، ج3، ص258ـ259۔
  100. جیسے قم سمیت شیعہ اکثریتی شہروں میں مساجد جامع کی موجودگی۔
  101. جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص23ـ25۔
  102. منتظری، البدر الزاہر، ص7۔ جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص26ـ27۔
  103. منجملہ: شیخ ابراہیم القطیفی (متوفی تقریبا 950ھ ق)۔
  104. جابری، صلاۃ الجمعۃ تاریخیاً وفقہیاً، ص50ـ54۔ جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص28۔
  105. قزوینی، تتمیم امل الآمل، ص172ـ173۔
  106. آقا بزرگ طہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، قسم1، ص176۔ جابری، صلاۃ الجمعۃ تاریخیاً وفقہیاً، ص50ـ51۔
  107. آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ، ج25 ص28۔
  108. جعفریان، صفویہ در عرصہ دین، ج3، ص237۔
  109. اس موضوع اور دوسرے متعلقہ موضوعات کے لئے رجوع کریں: محمدتقی مجلسی، لوامع صاحبقرانی، ج4، ص513۔ خوانساری، جامع المدارک، ج2، ص68، 78، 122ـ123۔ البحرانی، لؤلؤۃ البحرین، ص61، 95، 136 و 445۔
  110. البحرانی، لؤلؤۃ البحرین، ص100 و 127۔ آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ، ج7، ص183ـ187۔
  111. جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص37ـ 38۔ جعفریان، صفویہ در عرصہ دین، ج3، ص251۔
  112. نماز جمعہ کی تفصیل کیلئے دیکھیں ورثۃ الانبیاء صص252و253...
  113. منتظری، البدر الزاہر، ص7۔
  114. جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص32۔
  115. اولین امام جمعه یزد متوفی 1084۔ محمدمقیم یزدی، الحجۃ في وجوب صلاۃ الجمعۃ، ص50۔
  116. آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ، ج2، ص76 88۔ آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج3، ص252، 301، 370ـ371۔ آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج4، ص322۔ آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج6، ص5-6، 100۔ آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج9، ص785، 1087ـ 1088۔ رضا نژاد، صلاۃ الجمعہ، ص123ـ 145۔
  117. محمد یزدی، "وظایف روحانیت" در "نقش روحانیت در نظام اسلامی"، ص84۔
  118. بطور نمونہ رجوع کریں: کشوری، فرزانگان خوانسار، ص133۔
  119. خبرگزاری فارس ۔
  120. شورای سیاستگذاری ائمۂ جمعہ، آشنائی با تشکیلات تہران، ص2۔
  121. دفتر عقیدتی سیاسی فرماندہی معظم کل قوا، روزہا و رویدادہا، ج2، ص81 و 229۔ دفتر عقیدتی سیاسی فرماندہی معظم کل قوا، وہی ماخذ، ج3، ص102ـ103، 297۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • ابن اثیر، الکامل فی التاریخ۔
  • ابن ادریس حلّی، کتاب السرائر الحاوی لتحریرالفتاوی، قم، 1410ـ1411ھ ق۔
  • ابن بابویہ، الامالی، قم، 1417ھ ق۔
  • ابن بابویہ، المقنع، قم، 1415ھ ق۔
  • ابن بابویہ، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، نجف، 1972م چاپ افست قم، 1364ھ ش۔
  • ابن بابویہ، کتاب من لایحضرہ الفقیہ، قم، چاپ علی اکبر غفاری قم 1404ھ ق۔
  • ابن برّاج، المہذّب، قم، 1406ھ ق۔
  • ابن بطوطہ، رحلۃ ابن بطوطۃ، بیروت، چاپ محمد عبدالمنعم عریان، 1407ھ ق / 1987ع‍۔
  • ابن تغری بردی، النجوم الزاہرہ فی ملوک مصر و القاہرہ، قاہرہ
  • ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک والامم، بیروت، چاپ محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، 1412ھ ق /1992م
  • ابن حجر عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، بیروت، چاپ عبدالعزیز بن عبداللّہ بن باز، 1418ھ ق /1997م
  • ابن حنبل، مسند احمدبن حنبل، استانبول، 1402ھ ق /1982ع‍۔
  • ابن شبّہ نمیری، تاریخ المدینۃ المنورۃ: اخبار المدینۃ النبویۃ، بیروت، چاپ فہیم محمد شلتوت، 1410ھ ق /1990ع‍۔
  • ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، بیروت، چاپ علی شیری، 1415ـ1421ھ ق / 1995ـ2001ع‍۔
  • ابن عطار، کتاب ادب الخطیب، بیروت، چاپ محمد سلیمانی، 1996ع‍۔
  • ابن فہد حلّی، المہذب البارع فی شرح المختصر النافع، قم، چاپ مجتبی عراقی، 1407ـ1413ھ ق۔
  • ابن قدامہ، المغنی، بیروت، چاپ افست، 1403ھ ق /1983ع‍۔
  • ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، چاپ احمد ابوملحم و دیگران، ج4 1405ھ ق /1985ع‍ ج5 و 6 1407ھ ق /1987ع‍۔
  • ابن ماجہ، محمدبن یزید، السنن، استانبول، 1401ھ ق /1981ع‍۔
  • ابن نجیم، البحر الرائق، بیروت، شرح کنزالدقائق، 1418ھ ق /1997ع‍
  • ابن ندیم، الفہرست۔
  • احمدی میانجی، علی، کتاب مکاتیب الرسول، تہران، 1363ھ ش۔
  • الموسوعۃ الفقہیۃ، ج27، کویت، وزارۃ الاوقاف و الشئون الاسلامیۃ، 1412ھ ق /1992ع‍۔
  • النہایۃ
  • امام چہارم، الصحیفۃ السجادیۃ، چاپ محمدجواد حسینی جلالی، قم، 1380ش
  • آقابزرگ طہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، بیروت، چاپ علینقی منزوی و احمد منزوی، 1403ھ ق /1983م
  • آقابزرگ طہرانی، محمدمحسن، طبقات اعلام الشیعۃ: نقباءالبشر فی القرن الرابع عشر، مشہد، 1404ق
  • اوزاعی، عبدالرحمن بن عمر، (88-157ھ ق)، فقہ عبدالرحمن اوزاعی، محمد رواس قلعہ جی، جامعۃ الکویت، مجلس النشر العلمی، 2003ع‍۔
  • بخاری، محمدبن اسماعیل، صحیح البخاری، استانبول، چاپ محمد ذہنی افندی، 1401ھ ق /1981م
  • بہوتی حنبلی، منصوربن یونس کشّاف القناع عن متن الاقناع چاپ محمدحسن شافعی بیروت 1418/1997؛
  • بنی ہاشمی خمینی، محمد حسن، توضیح المسائل مراجع: مطابق با فتاوای دوازدہ نفر از مراجع، قم: دفتر انتشارات اسلامی، 1378ش
  • جابری، کاظم، صلاۃ الجمعۃ تاریخیاً وفقہیاً، قم، 1376ش
  • جعفریان، رسول، صفویہ در عرصہ دین فرہنگ و سیاست، قم، 1379ش
  • جعفریان، رسول، نماز جمعہ : زمینہ‌ہای تاریخی و آگاہی‌ہای کتابشناسی، تہران، 1372ش
  • حائری، مرتضی، صلاۃ الجمعۃ، قم، 1409ق
  • حرّ عاملی، وسائل الشیعہ
  • حسینی عاملی، محمدجواد بن محمد، مفتاح الکرامۃ فی شرح قواعد العلامۃ، قم، چاپ افست، موسسہ آل البیت
  • حلبی، علی بن ابراہیم، السیرۃ الحلبیۃ، بیروت
  • علامہ حلّی، حسن بن یوسف، تذکرۃ الفقہاء، قم، 1414ق
  • علامہ حلّی، حسن بن یوسف، کتاب منتہی المطلب، تبریز، چاپ سنگی، 1316
  • علامہ حلّی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، قم، 1412ـ 1420ق
  • الحموي، ياقوت بن عبد اللہ الرومي البغدادي، معجم البلدان، دار إحياء الثراث العربي بيروت - لبنان ـ 1399ھ ق / 1979ع‍
  • خطیب بغدادی، تاریخ بغداد
  • خمینی، روح اللّہ، تحریر الوسیلہ، بیروت، 1407ھ ق /1987ع‍۔
  • خوانساری، احمد، جامع المدارک فی شرح المختصر النافع، تعلیق علی اکبر غفاری، ج1، تہران، 1355ھ ش۔
  • خوئی، ابوالقاسم، منہاج الصالحین، قم، 1410ھ ق۔
  • دانش پژوہ، محمدتقی، فہرست کتابخانہ مرکزی دانشگاہ تہران، ج14، تہران، 1340ھ ش۔
  • دسوقی، محمد بن احمد، حاشیۃ الدسوقی علی الشرح الکبیر، بیروت، داراحیاء الکتب العربیۃ۔
  • دمیاطی، عثمان بن محمد شطا، اعانۃ الطالبین علی حل الفاظ فتح المعین، بیروت، داراحیاء التراث العربی۔
  • رافعی قزوینی، عبدالکریم بن محمد، فتح العزیز شرح الوجیز، بیروت، دارالفکر۔
  • رضانژاد، عزالدین، صلاۃ الجمعہ: دراسۃ فقہیۃ و تاریخیۃ، قم، 1415ھ ق۔
  • روزہا و رویدادہا، تہیہ و تنظیم: دفتر عقیدتی سیاسی فرماندہی معظم کل قوا، ج2، تہران، نشر رامین، 1378ش، ج3، تہران، زہد، 1377ھ ش۔
  • زحیلی، وہبہ مصطفی، الفقہ الاسلامی وادلّتہ، دمشق، 1404ھ ق /1984ع‍۔
  • زراری، احمد بن محمد، تاریخ آل زرارہ، اصفہان، بی‌تا۔
  • سرخسی، محمدبن احمد شمس الائمہ، کتاب المبسوط، قاہرہ، 1324ـ 1331ھ ق، چاپ افست استانبول، 1403ھ ق /1983ع‍۔
  • سلاّر دیلمی، حمزہ بن عبدالعزیز، المراسم العلویۃ فی الاحکام النبویۃ، بیروت، چاپ محسن حسینی امینی، 1414ھ ق /1994ع‍۔
  • شافعی، محمدبن ادریس، الامّ، چاپ محمد زہری نجار، بیروت۔
  • شورای سیاستگذاری ائمہ جمعہ، آشنایی با تشکیلات تہران، 1382ھ ش۔
  • شوکانی، محمد، نیل الاوطار: شرح منتقی الاخبار من احادیث سید الاخبار، مصر: شرکہ مکتبہ و مطبعہ مصطفی البابی الحلبی۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، البیان، قم، چاپ محمد حسون، 1412ھ ق۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الامامیۃ، قم، 1412ـ1414ھ ق۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، ذکری الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، قم، 1419ھ ق۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، غایۃ المراد فی شرح نکت الارشاد، قم، 1414ـ1421ھ ق۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، بیروت، چاپ محمد کلانتر، 1403ھ ق /1983ع‍۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، رسائل الشہیدالثانی، قم، 1379ـ1380ھ ش۔
  • طباطبائی، علی بن محمدعلی، ریاض المسائل فی بیان الاحکام بالدّلائل، بیروت، 1412ـ1414ھ ق /1992ـ1993ع‍۔
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، بیروت، چاپ حمدی عبدالمجید سلفی چاپ افست، 1404ـ ? ـ140ھ ق۔
  • الطبري، محمد، تاريخ الرسل والملوک، محمد ابوالفضل ابراہیم، الطبعۃ الثانیۃ، دار المعارف بمصر، سنۃ النشر: 1387ھ ق / 1967ع‍۔
  • طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیۃ، ج1، چاپ محمدتقی کشفی، تہران، 1387ھ ش۔
  • طوسی، محمد بن حسن، النہایۃ فی مجرد الفقہ و الفتاوی، بیروت، 1400ھ ق /1980ع‍۔
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، بیروت، چاپ حسن موسوی خرسان، 1404ھ ق /1981ع‍‌۔
  • طوسی، محمد بن حسن، کتاب الخلاف، قم، 1407ـ1417ھ ق۔
  • طوسی، محمدبن حسن، الفہرست، نجف، چاپ محمد صادق آل بحرالعلوم، 1380ھ ق۔
  • عظیم آبادی، محمد اشرف بن امیر، عون المعبود: شرح سنن ابی داوود، بیروت، چاپ عبدالرحمان محمد عثمانی، 1421ھ ق /2001ع‍۔
  • عَلَمُ الہُدیٰ، علی بن حسین، رسائل الشریف المرتضی، قم، چاپ مہدی رجائی، 1405ـ1410ھ ق۔
  • عَلَمُ الہُدیٰ، علی بن حسین، مسائل الناصریات، تہران، 1417ھ ق / 1997ع‍۔
  • غروی تبریزی، علی، التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی تقریرات درس آیۃ اللّہ خوئی، ج1، قم، 1418ھ ق / 1998ع‍۔
  • فاضل ہندی، محمد بن حسن، کشف اللثام، تہران، چاپ سنگی، 1271ـ 1274 چاپ افست قم 1405ھ ق۔
  • فرید، محمد بک، تاریخ الدولۃ العلیۃ العثمانیۃ، بیروت، چاپ احسان حقی، 1408ھ ق /1988ع‍۔
  • فیروزاللغات اردو، ایجوکیشنل پبلی کییشنز، دہلی۔
  • فیض کاشانی، محمدبن شاہ مرتضی، الشہاب الثاقب فی وجوب صلاۃ الجمعۃ العینی، قم، 1401ھ ق۔
  • فیض کاشانی، محمدبن شاہ مرتضی، کتاب الوافی، اصفہان، چاپ ضیاءالدین علامہ اصفہانی، 1365ـ1374ھ ش۔
  • قاضی نعمان، نعمان بن محمد، دعائم الاسلام و ذکر الحلال و الحرام، بیروت، چاپ عارف تامر، 1416/1995ع‍۔
  • قزوینی، عبدالنبی بن محمدتقی، تتمیم امل الآمل، قم، چاپ احمد حسینی، 1407ھ ق۔
  • قلقشندی، احمد بن علی، صبح الاعشی فی صناعۃ الانشا، قاہرہ، 1331ـ 1338ھ ق / 1913ـ1920ع‍ چاپ افست 1383ھ ق /1963ع‍
  • قلقشندی، احمد بن علی، مأثر الانافۃ فی معالم الخلافۃ، کویت، چاپ عبدالستار احمد فراج، 1964م، چاپ افست، بیروت، 1980ع‍
  • قمی، عباس، کتاب الکنی و الالقاب، صیدا، 1357ـ 1358 چاپ افست قم۔
  • کاسانی، ابوبکر بن مسعود، کتاب بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ، 1409ھ ق / 1989ع‍
  • کاشف الغطاء، جعفر بن خضر، کشف الغطاء عن مبہمات الشریعۃ الغراء، قم، 1380ھ ش۔
  • کحالہ، عمررضا، معجم المؤلفین، دمشق، 1957ـ1961ع‍، چاپ افست بیروت۔
  • کشوری، احمدرضا، قم، فرزانگان خوانسار، 1378ھ ش۔
  • لطیفی، محمود، «عبادت برتر و اسرار آن»، حکومت اسلامی، سال 9، ش 2۔
  • مالک بن انس، المُوَطّأ، استانبول، 1401ھ ق /1981ع‍۔
  • ماوردی، علی بن محمد، الاحکام السلطانیۃ والولایات الدینیۃ، بغداد، 1409ھ ق /1989ع‍۔
  • مبارکفوری، محمد بن عبدالرحمان، تحفۃ الاحوذی بشرح جامع الترمذی، بیروت، 1410ھ ق /1990ع‍۔
  • مبلغی، احمد، «عناصر تأثیرگذار در وجوب تعیینی نماز جمعہ در روش اخباریان»، مجلہ حکومت اسلامی، سال 9، ش 2، تابستان 1383ھ ش۔
  • متقی، علی بن حسام الدین، کنزالعمال فی سنن الاقوال و الافعال، بیروت، چاپ بکری حیانی و صفوہ سقا، 1409ھ ق / 1989ع‍۔
  • مجلسی، محمد باقر بن محمدتقی، بحارالانوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار، بیروت، لبنان۔
  • مجلسی، محمدتقی بن مقصود علی، لوامع صاحبقرانی المشتہر بشرح الفقیہ، ج4، قم، 1374ھ ش۔
  • محقق حلّی، جعفر بن حسن، المعتبر فی شرح المختصر، ج2، قم، 1364ھ ش۔
  • محقق حلّی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تہران، چاپ صادق شیرازی، 1409ھ ق۔
  • محقق کرکی، علی بن حسین، رسائل المحقق الکرکی، قم، چاپ محمد حسون رسالہ 3 : رسالۃ صلاۃ الجمعہ، 1409ـ1412ھ ق۔
  • محمودی، محمدباقر، نہج السعادۃ فی مستدرک نہج البلاغۃ، بیروت۔
  • مسعودی، مروج الذہب، بیروت۔
  • مشکینی، میرزا علی، اصطلاحات الأصول و معظم أبحاثہا، چ6، قم: نشر الہادی، 1416ھ ق۔
  • * شیخ مفید، محمد بن محمد نعمان، مصحح و كاتب: احمد بن محمد صایب الخوانساری، [بی جا]: دارالطباعۃ محمد تقی بن محمد مہدی التبریزی، 1274ھ ق۔

مفید، محمدبن محمد، المقنعۃ، قم، 1410ھ ق۔

  • مقدس اردبیلی، احمد بن محمد، مجمع الفائدۃ و البرہان فی شرح ارشاد الاذہان، قم، چاپ مجتبی عراقی ج2، 1362ھ ش۔
  • منتظری، حسینعلی، منتظری، البدر الزاہر، تقریرات درس آیۃ اللّہ بروجردی، قم، 1362ھ ش۔
  • الموسوي العاملي، محمد بن علي بن الحسين، مدارك الاحكام في شرح شرائع الاسلام، قم، 1410ھ ق۔
  • ناصر خسرو، سفرنامہ ناصرخسرو، علوی، برلین 1341ھ ش۔
  • نجاشی، احمد بن علی، فہرست اسماء مصنّفی الشیعۃ المشتہر برجال النجاشی، قم، چاپ موسی شبیری زنجانی، 1407ھ ق۔
  • نجفی، محمدحسن بن باقر، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، ج11، بیروت، چاپ عباس قوچانی، 1981ع‍۔
  • نراقی، احمد بن محمد مہدی، مستند الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، قم، ج6، 1415ھ ق۔
  • نسائی، احمدبن علی، سنن النسائی بشرح جلال الدین سیوطی و حاشیہ نورالدین بن عبدالہادی سندی، استانبول، 1401ھ ق /1981ع‍۔
  • نوری، حسین بن محمدتقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، قم، 1407ـ 1408ھ ق۔
  • نووی، یحیی بن شرف، المجموع : شرح المہذّب، بیروت، دارالفکر۔
  • یحیی بن شرف نووی روضۃ الطالبین و عمدۃ المفتین چاپ عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض بیروت۔
  • مقيم يزدي، محمد، الحجۃ في وجوب صلاۃ الجمعۃ في زمن الغيبۃ، تحقیق: جواد المدرسی، ناشر، موسسہ تحقيقات و نشر معارف اہل البيت ؑ، 1304ھ ق۔
  • یزدی، محمد، «وظایف روحانیت» در نقش روحانیت در نظام اسلامی، تہران، شورای سیاستگذاری ائمہ جمعہ، 1375ھ ش۔
  • بحرانی، یوسف بن احمد، لؤلؤۃ البحرین، چاپ محمدصادق بحرالعلوم قم۔

بیرونی ربط