شعب ابی طالب

ویکی شیعہ سے
(شعب ابی‌ طالب سے رجوع مکرر)
شعب ابی‌ طالب کی موجودہ حالت

شِعب ابی طالب، مکہ کے کوہ ابو قبیس اور کوہ خندمہ کے درمیان واقع ایک درہ ہے۔ سنہ 7 بعثت کو مشرکین مکہ نے رسول اللہؐ، بنی ہاشم اور اولاد عبدالمطلب کو تین سال تک اسی مقام پر اقتصادی و سماجی محاصرے میں رکھا۔ جس کی طرف امام علیؑ نے معاویہ کے نام اپنے ایک خط میں اشارہ کیا ہے۔

یہ درہ عبد المطلب کی ملکیت تھا۔ حضرت خدیجہ کا گھر جس میں حضور اکرمؐ نے آپ سے شادی کی اور آپ کی تمام اولاد اسی گھر میں پیدا ہوئی، بھی اسی محلے میں واقع تھا۔ یہ درہ جو کعبہ کے مشرق میں شعب بنی عامر کے برابر میں، مقامِ سعی کے بعد واقع ہے، کعبہ سے کم فاصلے کی بنا پر مکہ کا بہترین مقام سمجھا جاتا تھا اور رسول اللہؐ اور بنی ہاشم کے بعض دوسرے بزرگوں من جملہ: فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مولد بھی ہے۔ آج محلۂ شعب ابی طالب کا کچھ حصہ بنام سوق اللیل باقی ہے اور اس کا بیشتر حصہ حرم کے مختلف توسیعی منصوبوں کے تحت مسجد الحرام میں شامل ہو چکا ہے۔

لغت

پہاڑ کے بیچ میں دراڑ[1]، درے، پہاڑ میں راستے[2] اور قریب واقع دو پہاڑوں کے درمیان واقع احاطے کو بھی شعب کہا جاتا ہے۔[3]

مذہبی اور تاریخی حیثیت

قصی بن کلاب مکہ کے حاکم بنے تو قریش کے ہر خاندان کو اس شہر کے ایک محلے میں بسایا۔ انہوں نے کعبہ کے سامنے واقع حصے کو جو شعب ابی طالب پر مشتمل تھا اور مکہ کے معلاۃ کی سمت واقع تھا، اپنے خاندان، عبد مناف اور عبد الدار کی اولاد کے لئے پسند کیا۔ یہ شعب کعبہ کے ساتھ کم فاصلے کی وجہ سے مکہ کا بہتر نقطہ تھا۔[4]

شعب ابی طالب کی زمین کے مالک عبدالمطلب تھے اور انہوں نے اپنی حیات کے آخر میں جب ان کی آنکھیں کمزور ہو چکی تھیں۔ اس کو اپنے فرزندوں کے درمیان تقسیم کیا اور پیغمبر اکرمؐ کو آپ کے والد عبداللہ کا حصہ دیا۔[5]

بنو ہاشم کے نمایاں افراد اسی شعب میں پیدا ہوئے ہیں اور[6] یہیں زندگی بسر کر چکے ہیں۔ شعب ابی طالب رسول اللہؐ کا مولد ہے۔[7]۔[8] اسی بنا پر "شعب مولد" کے نام سے بھی مشہور ہے۔[9]

نیز شعب ابی طالب حضرت خدیجہ کا گھر بھی ہے اور انھوں نے اسی مقام پر رسول اللہؐ کے ساتھ مشترکہ زندگی گذاری ہے اور فاطمۂ زہرا(س) کی ولادت بھی اسی گھر میں ہوئی ہے۔[10]

نام

یہ شعب خاندان بنو ہاشم کے ہاتھ میں تھا اور مختلف ادوار میں اس نے مختلف نام اختیار کئے ہیں جیسے: شعب بنی ہاشم، شعب ابی طالب، شعب علی بن ابی طالب اور شعب ابی یوسف۔[11]۔[12] [13]

جغرافیائی محل وقوع

یہ شعب مسجد الحرام کے قریب صفا اور مروہ کی پشت پر اور کوہ ابو قبیس اور کوہ خندمہ کے دہانے میں واقع ہوا ہے جہاں خاندان بنی ہاشم اور بنو عبدالمطلب زندگی کے ایام بسر کرتے رہے ہیں۔[14]

شعب کا مقام وسیع احاطے پر مشتمل ہے جس پر آج پتھر کا فرش بچھایا گیا ہے جہاں حج کے ایام میں حجاج آرام کرتے ہیں۔[15]

بعض لوگوں نے غلطی سے قبرستان حجون کو جہاں ابو طالبؑ کا مدفن واقع ہوا ہے، شعب ابی طالب سمجھا ہے؛ حالانکہ اس مقام پر ابتداء ہی سے اہل مکہ کا قبرستان تھا جو شہر سے باہر اور جدا تھا۔[16]

زائر جب مسجد الحرام سے باہر نکلتا ہے اور باب العباس، باب العلی یا باب السلام سے باہر آتا ہے مسعی سے بھی گذرتا ہے اور ایک وسیع احاطے میں پہنچتا ہے جو کوہ ابو قبیس کے نیچے سنگ فرش ہو چکا ہے۔

حال حاضر میں شعب ابی طالب کے محلے کا کچھ حصہ باقی ہے جو سوق اللیل کہلاتا ہے اور پہاڑی کے اوپر واقع ہوا ہے۔ مسعی کے بالمقابل پہاڑ پر بنائے گئے گھروں کو محلۂ سوق اللیل کہا جاتا ہے، شعب میں واقع تاریخی گھر اور مقامات مختلف توسیعی منصوبوں کے تحت مسجد کے احاطے میں شامل کرلئے گئے ہیں۔[17]

بنو ہاشم کا محاصرہ

اس شعب میں رسول خداؐ، خاندان بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کے ہمراہ، قریش کے دوسرے خاندانوں [کے مشرکین] کے ہاتھوں تین سال تک قلعہ بند رکھے گئے اور انہیں شدید ترین مشقتیں برداشت کرنا پڑیں اور صعوبتیں جھیلنا پڑیں۔[18]

ناکہ بندی کا سبب

سنہ 6 ہجری کے اواخر میں قریش کے عمائدین یکتا پرستی اور اسلام کی تیز رفتار پیشرفت سے سخت فکرمند اور چارہ جوئی اور راہ حل کی تلاش میں تھے۔

حمزہ بن عبدالمطلب جیسے افراد کا اسلام قبول کرنا اور قریش کے روش دل نوجوانوں کا اسلام کی طرف رجحان نیز ملک حبشہ میں مسلمانوں کو فراہم ہونے والی حریتِ عمل نے حکومت وقت مکہ کے صاحبان اقتدار کی حیرت اور سرگردانی میں اضافے کے اسباب فراہم کر رہی تھی اور اپنی سازشوں کی ناکامی کی وجہ سے سخت برہم تھے چنانچہ وہ نئے منصوبے کی فکر میں مصروف ہوئے اور مسلمانوں کی معاشی ناکہ بندی کے ذریعے اسلام کے اثر و رسوخ کا سد باب اور اس حصار میں دین مبین کے بانی اور آپؐ کے حامیوں کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کی۔[19] [20]

عہد نامہ

مشرکین مکہ دار الندوہ میں جمع ہوئے اور قریش کی اعلی مجلس کے اراکین نے منصور بن عکرمہ کے قلم سے ایک عہدنامے پر دستخط کئے۔ یہ عہدنامہ کعبہ کے اندر دیوار پر لٹکایا گیا اور قسم اٹھائی کہ ملت قریش زندگی کے آخری لمحوں تک درج ذیل نکات پر عمل کریں گے:

عہدنامے میں مندرجہ نکات

  • محمدؐ کے حامیوں کے ساتھ ہر قسم کے لین دین پر پابندی ہوگی؛
  • ان کے ساتھ تعلق اور معاشرت سختی کے ساتھ ممنوع ہوگی؛
  • ہر قسم کا ازدواجی رشتہ اور ہر قسم کا پیوند، منع ہے؛
  • تمام تر واقعات میں محمدؐ کے مخالفین کی حمایت کی جائے گی۔

مذکورہ عہدنامے کے متن اور تمام تر نکات پر مطعم بن عدی کے سوا قریش کے تمام با اثر افراد[21] نے دستخط کئے اور اس کو پوری شدت سے نافذ کیا۔[22] [23]۔[24] [25]

ابو طالبؑ نے بنو ہاشم کو دعوت دی اور پیغمبرؐ کی حمایت کی ذمہ داری ان پر عائد کردی اور حکم دیا کہ ان کے تمام اعزاء و اقارب مکہ کے اندر سے نکل کر نواح کی پہاڑیوں کے بیچ پہنچیں جس کو شعب ابی طالب کہا جاتا تھا اور اس میں چھوٹے چھوٹے گھر اور مختصر سے سایہ بان تھے اور وہیں سکونت اختیار کریں۔

ابو طالب نے سب کو تین پہاڑیوں کے بیچ جمع کیا جو بعد میں شعب ابی طالب کے عنوان سے مشہور ہوا اور اس کے اطراف میں بعض افراد تعینات کیا جو شعب کی حفاظت کرتے تھے۔

(مشرکین کے عہدنامے کے تحت) مکہ میں داخل ہونے والے افراد کو بنی ہاشم کے ساتھ لین دین کرنے کا حق حاصل نہیں تھا اور اگر کوئی ایسا کرتا تو اس کا مال ضبط کیا جاتا تھا۔[26]

جب کبھی کوئی رسمی جشن وغیرہ کا موقع آن پہنچتا تھا مسلمان بھی خرید یا دعوت و تبلیغ کے لئے شعب سے نکل سکتے تھے۔[27]

ناکہ بندی کے پہلے سال کے موسم حج میں رسول اللہؐ نے جس کو بھی دیکھا اس کو اسلام کی دعوت دی اور یہی بات مشرکین کی مزید دشمنی کا سبب بنی اور انھوں نے ابو طالبؑ سے کہا: اپنا بھتیجا ہمارے سپرد کرو کیونکہ ہم اس کو قتل کرنا چاہتے ہیں، تاہم ابو طالبؑ نے دندان شکن جواب دے کر ناامید کیا۔[28]

ابو طالبؑ کو تشویش تھی کہ کہیں مشرکین رات کے وقت رسول اللہؐ پر حملہ کرکے آپؐ کو قتل نہ کریں چنانچہ جب بھی آپؐ سوتے اپنا بستر آپؐ کے ایک پہلو میں بچھا دیتے تھے اور اپنے ایک بیٹے کا بستر آپؐ کے دوسرے پہلو میں قرار دیتے تھے اور یوں پیغمبرؐ کو بیچ میں قرار دیتے تھے۔

بنو ہاشم کی افسوس ناک صورت حال

شعب ابی طالب کی ناکہ بندی تین سال تک جاری رہی اور قریش کا رویہ شدت اختیار کر گیا یہاں تک فرزندان بنی ہاشم کے کراہنے کی صدائیں مکہ کے سنگ دلوں کے کانوں تک پہنچتی تھی[29] لیکن ان کے دلوں پر کسی قسم کا اثر نہیں ہوتا تھا۔

قریش کے جاسوس تمام راستوں کی نگرانی کرتے تھے کہ کہیں اشیائے خورد و نوش شعب ابی طالب تک نہ پہنچنے پائیں۔ لیکن شدید نگرانی کے باوجود کبھی کبھی خدیجۃ الکبری کا بھتیجا حکیم بن حزام[30] اور ابو العاص بن ربیع[31] اور ہشام بن عمر آدھی راتوں کو گندم اور کھجور اونٹ پر لاد کر شعب کے قریب پہنچا دیتے تھے اور پھر اونٹ کی زمام اس کی گردن پر ڈال کر چھوڑ دیتے تھے اور کبھی یہی خفیہ تعاون ان کے لئے مسائل کا سبب بنتی تھی۔[32]

پیغمبرؐ اور آپؐ کے اصحاب اور چچا ابو طالبؑ اور زوجہ خدیجہ(س) کو مشکل ترین صورت حال سے گذرنا پڑا؛ انھوں نے اس عرصے کے دوران خدیجہ(س) کے سرمائے سے گذر بسر کی۔ کبھی ان کے اعزاء و اقارب عہدنامے کے برعکس اور خونی اور خاندانی رشتوں کی بنیاد پر خفیہ طور پر انہیں کھانے پینے کی اشیاء پہنچا دیتے تھے۔ اس دور میں پغمبرؐ اور اصحاب کی پامردی نے قریش کو شدید گھٹن سے دوچار کیا تھا۔ قریش میں سے بہت سے ایسے افراد بھی تھے جن کے شعب ابی طالب میں بیٹے، بیٹیاں، پوتے پوتیاں یا نواسے نواسیاں اور قریبی رشتہ دار تھے اور وہ اس کوشش تھے کہ اپنوں کو شعب سے نکال دیں۔

ناکہ بندی کا خاتمہ

بعثت کا دسواں سال تھا جب رات کے وقت ابو جہل حکیم بن حزام کے راستے میں رکاوٹ بنا۔ وہ خدیجہ کے لئے گندم لے کر جا رہا تھا۔ دوسرے افراد نے مداخلت کی اور ابو جہل پر لعنت ملامت کی۔ رفتہ رفتہ قریش کے کئی افراد اپنے کئے پر نادم ہوئے اور بنو ہاشم کی حمایت کرنے لگے۔ وہ کہا کرتے تھے: "ایسا کیوں ہے کہ بنو مخزوم نعمتوں میں کھیلیں اور ہاشم اور عبدالمطلب کے بیٹے مشقتیں جھیلتے رہیں؟!"۔ آخر کار سب نے مطالبہ کیا کہ یہ عہدنامہ منسوخ ہونا چاہئے۔ عہدنامے میں شریک بعض افراد نے اس کے پھاڑنے کا فیصلہ کیا۔ ابن ہشام نے ابن اسحاق کے حوالے سے لکھا ہے کہ "قریش عہدنامہ دیکھنے گئے تو دیکھا کہ دیمک پورا عہدنامہ کھا گیا ہے اور صرف جملہ "باسمک اللہم" باقی ہے۔[33]

ابن ہشام بعض اہل علم سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ابو طالبؑ نے قریش کی انجمن میں جاکر کہا: "میرے بھتیجے کا کہنا ہے کہ دیمک نے اس عہدنامے کو چاٹ کھایا ہے جو تم نے تحریر کیا تھا اور صرف اللہ کے نام کو باقی چھوڑا ہے؛ جاؤ دیکھو اگر ان کی بات سچی ہے تو ہمارا محاصرہ اٹھاؤ اور اگر جھوٹی ہے تو میں انہیں تمہارے سپرد کروں گا" قریش عہدنامہ دیکھنے گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ دیمک نے اللہ کے نام کے سوا پورے عہدنامے کو کھا لیا ہے۔ یوں بنو ہاشم کا محاصرہ ختم ہوا اور وہ شعب ابی طالب سے باہر آئے۔[34]۔[35]

ناکہ بندی کا زمانہ

ابن سعد کے بقول یہ محاصرہ محرم سنہ 7 ہجری میں شروع ہوا[36] اور بعثت کے دسویں سال جب ابو طالب علیہ السلام نے مشرکین کو عہدنامے کی نابودی کی اطلاع دی تو محاصرہ بھی اٹھ گیا۔[37]

امیرالمؤمنینؑ کا مکتوب معاویہ کے نام

نصر بن مزاحم کی روایت کے مطابق حضرت علیؑ نے شعب ابی طالب میں میں پیغمبرؐ اور مسلمانوں پر مشرکین قریش کے مظالم کے سلسلے میں معاویہ کے نام اپنے مراسلے میں تحریر فرمایا:

"فَأَرَادَ قَوْمُنَا قَتْلَ نَبِيِّنَا وَاجْتِيَاحَ أَصْلِنَا وَهَمُّوا بِنَا الْهُمُومَ وَ فَعَلُوا بِنَا اَلْأَفَاعِيلَ وَمَنَعُونَا الْعَذْبَ وَأَجْلَسُونَا اَلْخَوْفَ وَاِضْطَرُّونَا إِلَى جَبَلٍ وَعْرٍ وَأَوْقَدُوا لَنَا نَارَ اَلْحَرْبِ فَعَزَمَ اَللَّهُ لَنَا عَلَى اَلذَّبِّ عَنْ حَوْزَتِهِ وَالرَّمْيِ مِنْ وَرَاءِ حُرْمَتِهِ مُؤْمِنُنَا يَبْغِي بِذَلِكَ اَلْأَجْرَ وَ كَافِرُنَا يُحَامِي عَنِ اَلْأَصْلِ وَ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ قُرَيْشٍ خِلْوٌ مِمَّا نَحْنُ فِيهِ بِحِلْفٍ يَمْنَعُهُ أَوْ عَشِيرَةٍ تَقُومُ دُونَهُ فَهُوَ مِنَ اَلْقَتْلِ بِمَكَانِ أَمْنٍ"
ترجمہ: پس ہماری قوم (قریش) نے ہمارے نبیؐ کے قتل اور ہماری نسل کے خاتمے کا ارادہ کیا؛ ہمارے بارے میں مختلف بارہا بیٹھ کر منصوبے بنائے اور ہمارے ساتھ مختلف قسم کے مظالم روا رکھے۔ ہمیں میٹھی زندگی سے محروم کیا اور خوف و ہراس کے مقام پر بٹھایا؛ ہمیں ناہموار پہاڑی میں پناہ لینے پر مجبور کیا اور [اس کو کافی نہیں سمجھا بلکہ] ہمارے خلاف جنگ کی آگ بھڑکا دی؛ لیکن خدا نے چاہا تھا کہ آپؐ کے دین برحق کی حفاظت کریں اور کسی کو آپؐ کی حرمت کے حرمت تک ہاتھ نہ بڑھانے دیں۔ ہمارے درمیان جو لوگ ایمان لائے تھے وہ اللہ کے اخروی اجر کی امید سے اور جو کافر تھے وہ اصل و نسب کے تحفظ کی خاطر حریم رسالت کا تحفظ کرتے تھے۔ قریش میں ایمان لانے والے اس اذیت و آزار سے محفوظ تھے جس سے ہم دوچار تھے؛ کیونکہ یا تو ان کا کوئی حلیف ان کی حمایت کرتا تھا یا اس کا خاندان اس کی مدد کے لئے اقدام کرتا تھا؛ بہر صورت وہ محفوظ تھے۔[38]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ابن منظور، لسان العرب، ج1، ص449۔
  2. طریحی، مجمع البحرین، ج2، ص90۔
  3. رسول جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص 149۔
  4. رسول جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص 149۔
  5. حموی، معجم البلدان، ج3، ص347۔
  6. مثلا عبداللہ بن عباس بھی یہیں پیدا ہوئے: اخبار الدولۃ العباسیۃ، تحقیق الدوری و المطلبی، ص25۔
  7. مجلسی، بحار الانوار، ج15، ص251، 252، 276۔
  8. کلینی، كـافی، ج 1، ص 439۔
  9. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی، ص114۔
  10. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی، ص114۔
  11. حموی، معجم البلدان،ج3، ص347۔
  12. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی، ص114۔
  13. رسول جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص 149۔
  14. ابن ہشام، السیرة النبویۃ، 1، ص352 ۔
  15. رسول جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص151
  16. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی، ص115۔
  17. رسول جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص151۔
  18. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج1، 163۔
  19. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج1، ص163
  20. شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 53
  21. طبرسی، اعلام الوری، ص72
  22. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی، ص113۔
  23. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج3، 86۔
  24. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج1، ص163۔
  25. شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 53۔
  26. طبرسی، اعلام الوری، ص71-72۔
  27. طبرسی، اعلام الوری، ص72۔
  28. طبرسی، اعلام الوری، ص 72-73۔
  29. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی در مکہ و مدینہ، ص114۔
  30. ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ج1، ص354۔
  31. طبرسی، اعلام الوری، ص73۔
  32. ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ج1، ص354 ۔
  33. شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 53۔
  34. شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 53 ۔
  35. طبرسی، اعلام الوری، ص73-74۔
  36. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج1، ص163۔
  37. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص114۔
  38. نہج البلاغہ، مکتوب شمارہ 9۔

مآخذ

  • آثار اسلامی مکہ و مدینہ۔
  • ابن سعد، الطبقات الكبری، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت، دار الكتب العلمیة، ط الأولی، 1410 ہجری قمری/1990عیسوی۔
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دار الفكر، 1407ہجری قمری/ 1986عیسوی۔
  • ابن منظور، محمد بن مكرم، لسان العرب، ناشر: دار صادر، بیروت، چ: سوم، 1414ہجری قمری۔
  • أخبار الدولۃ العباسیۃ و فیہ أخبار العباس و ولده، مؤلف مجہول، تحقیق عبد العزیز الدوری و عبد الجبار المطلبی، بیروت، دار الطلیعۃ، 1391ہجری قمری۔
  • حموی، یاقوت بن عبدالله، معجم البلدان، بیروت، دار صادر، ط الثانیۃ، 1995عیسوی۔
  • رسول جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ۔
  • شہیدی، سیدجعفر، تاریخ تحلیلی اسلام، تہران: مرکز نشر دانشگاہی، 1390ہجری قمری۔
  • طریحی، مجمع البحرین، نرم افزار مجموعہ آثار میلانی (گنجیہ الحقائق)۔
  • عبدالملك بن ہشام الحمیری المعافری، السیرة النبویۃ، تحقیق مصطفی السقا و ابراہیم الأبیاری و عبد الحفیظ شلبی، بیروت، دار المعرفۃ، بی تا۔
  • فضل بن حسن طبرسی، اعلام الوری (زندگانی چہارده معصوم علیہم السلام)، ترجمہ عزیز الله عطاردی‏، ناشر: اسلامیۃ، تہران‏، چ:اوّل‏، 1390ہجری قمری۔
  • قائدان، اصغر، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ناشر: نشر مشعر، تہران، چ:چہارم، 1381ہجری شمسی۔
  • كلینی، الكافی، دار الكتب الإسلامیۃ تہران، 1365ہجری شمسی۔

بیرونی روابط