شان نُزول یا اسباب نزول سے مراد وہ اشخاص، حوادث یا واقعات ہیں جن کے کے بارے میں قرآن کی آیت یا آیات نازل ہوئی ہیں۔ قرآنی آیات کی تفسیر میں شان نزول کو ایک اہم اور بنیادی کردار حاصل ہے۔

علم تفسیر
اہم تفاسیر
شیعہ تفاسیرتفسیرابوالجارود150-160ھ. • تفسیر قمی 307ھ • تفسیر عیاشی 320ھ • تفسیر تبیان 460ھ • تفسیر مجمع البیان 548ھ • جوامع الجامع 548ھ • تفسیر الصافی 1091ھ • تفسیر المیزان 1402ھ
سنی تفاسیرتفسیر طبری 310ھ • تفسیر ابن عطیہ 541ھ • تفسیر قرطبی 671ھ • تفسیر ابن کثیر 774ھ • تفسیر جلالین 864/911ھ
تفسیری رجحان
تقابلی تفسیرعلمی تفسیرعصری تفسیرتاریخی تفسیرفلسفی تفسیرکلامی تفسیرعرفانی تفسیرادبی تفسیرفقہی تفسیر
تفسیری روشیں
تفسیر قرآن بہ قرآنتفسیر رواییتفسیر عقلیتفسیر اجتہادی
اقسام تفسیر
ترتیبی تفسیرموضوعی تفسیر
اصطلاحات علم تفسیر
اسباب نزولناسخ و منسوخمحکم و متشابہتحدیاعجاز قرآنجری

قرآنی علوم اور تفاسیر میں شأن نزول پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ مسلمان علماء نے اسباب نزول کے متعلق مستقل کتابیں تالیف کی ہیں۔ قرآن کی تمام آیات شان نزول نہیں رکھتی ہیں۔ بعض قرآن شناس علماء نے اسباب نزول سے متعلق آیات کی کل تعداد تقریبا ۴۶۰ بیان کی ہیں۔

شیعہ اور بعض اہل سنت مفسرین نے اساب نزول کی بحث میں اہل بیتؑ خاص کر امام علیؑ کی فضیلت میں نازل ہونے والی آیات کے شأن نزول پر خصوصی توجہ دی ہیں۔

لغوی معنا

اسباب سبب کی جمع ہے۔ ہر وہ چیز جس کے ذریعے سے ہدف تک پہنچنے میں مدد لی جا سکے وہ سبب ہے ۔قرآن پاک میں پیوند، آلہ، باعث، دستاویز اور تعلق داری کے معانی میں استعمال ہوا ہے ۔[1]

سبب اور اسباب کا کلمہ قرآن کریم میں درج ذیل مفاہیم میں استعمال ہوا ہے :

  1. رسی کے معنا میں ہر وہ چیز جس کے ذریعے کسی چیز کو حاصل کیا جائے، آیت مَن کانَ یظُنُّ أَن لَّن ینصُرَ‌هُ اللَّهُ فِی الدُّنْیا وَالْآخِرَ‌ةِ فَلْیمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَی السَّمَاءِ ثُمَّ لْیقْطَعْ فَلْینظُرْ‌ هَلْ یذْهِبَنَّ کیدُهُ مَا یغِیظُسوره حج آیت نمر۱۵۔ترجمہ:جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ خدا دنیا اور آخرت میں اس کی مدد نہیں کرے گا تو اسے چاہیے کہ ایک رسی کے ذریعہ آسمان تک پہنچ کر شگاف لگائے۔ پھر دیکھے کہ آیا اس کی یہ تدبیر اس چیز کو دور کر سکتی ہے جو اسے غصہ میں لا رہی تھی۔
  2. وسیلہ اور آلہ یا طریق اور راستہ جیسا کہ آیت إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِن كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا سوره کہف آیت۸۴۔ترجمہ:ہم نے اسے زمین میں اقتدار عطا کیا تھا اور اسے ہر طرح کا ساز و سامان مہیا کر دیا تھا۔
  3. پیوند اور تعلق داری إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ﴿١٦٦﴾سورت بقرہترجمہ: اور (وہ مرحلہ کتنا کھٹن ہوگا) جب وہ (پیر) لوگ جن کی (دنیا میں) پیروی کی گئی اپنے پیرؤوں (مریدوں) سے برأت اور لاتعلقی ظاہر کریں گے اور خدا کا عذاب ان سب کی آنکھوں کے سامنے ہوگا اور سب وسائل اور تعلقات بالکل قطع ہو چکے ہوں گے۔ (166)
  4. ابواب اور دروازے جیسے أَمْ لَهُم مُّلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبَابِ ﴿١٠﴾ سورت ص ترجمہ: یا کیا آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کی حکومت ان کیلئے ہے (اگر ایسا ہے) تو پھر انہیں چاہیے کہ سیڑھیاں لگا کر چڑھ جائیں۔ (10)
  5. طرق اور راستے جیسےوَقَالَ فِرْ‌عَوْنُ یا هَامَانُ ابْنِ لِی صَرْ‌حًا لَّعَلِّی أَبْلُغُ الْأَسْبَابَترجمہ:اور فرعون نے کہا اے ہامان! میرے لئے ایک اونچا محل بنا (بنوا) تاکہ میں (اس پر چڑھ کر) راستوں تک پہنچ جاؤں۔ (36)

نزول سے مراد قران کریم کی آیات کا وحی کی صورت میں نازل ہونا ہے۔ یہ کلمہ اپنے مشقات کے ساتھ قرآن پاک میں کئی مرتبہ استعمال ہوا ہے ۔[2]

شان نزول کے بغیر آیات اور سورے

بہت سی ایسی آیات اور سورے ہیں جو کسی سبب اور کسی خاص انگیزے کے بغیر نازل ہوئے ہیں ،ان آیات اور سورتوں کی وحی کے موقع پر کسی قسم کا کوئی حادثہ یا واقعہ یا سوال نہیں پوچھا گیا تھا کہ جن کے شان نزول یا اسباب نزول کے متعلق تفحص اور جستجو کی جائے ، بلکہ ایسے موقعوں پر عمومی اور کلی لحاظ سے شان نزول اور سبب نزول کو تلاش کیا جائے گا اور اس سے مراد بشری ضرورتوں کو الہی رہنمائیوں اور انسانی قدرت سے بالاتر افکار کو وحی کے ذریعے مکمل اور پورا کرنا ہے تا کہ اس کے ذریعے زندگی کے تمام شعبوں میں حق کو باطل سے تشخیص دے جا سکے ۔[3]

کسی خاص شان نزول کے بغیر نازل ہونے والی آیات یا سورے قرآن پاک کے کچھ حصے کو شامل ہیں کہ جن کی طرف درج ذیل قابل ذکر ہیں  :

  1. گذشتہ امتوں کی تاریخ اور واقعات سے مربوط آیات و سورتیں ہیں البتہ گذشتہ امتوں کے قصص سے مربوط آیات سبب نزول کے تحت نازل ہوئے ہیں جیسا کہ ذو القرنین سے مربوط حصہ لوگوں کے استفسار کے جواب میں آیا ہے ۔یہ امور اس لحاظ سے قرآن میں آئے ہیں کہ پیامبر(ص) کے معاصرین اور اسی طرح تمام زمانوں کے انسان ان واقعات سے آگاہ ہوں، وہ انہیں اپنے حافظوں میں محفوظ رکھیں اور اپنی زندگی کے مختلف موارد میں ان واقعات سے سعادت و یا شقاوت و بدبختی،قوموں کے عروج و زوال ،انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے رموز سے آگاہی اور عبرت حاصل کریں اور قوموں کی سرفرازی اور سعادت کے عوامل جانیں اور شقاوت و بدبختی کے اسباب سے اپنے آپ کو بچائیں ۔[4]
  2. قرآن کریم کی کچھ آیات اور سورتیں ہیں جو غیبی خبروں ، عالم برزخ،جنت و جہنم اور قیامت کے حالات ،بہشتیوں اور دوزخیوں کے احوال پر مشتمل ہیں کہ جن میں مخصوص شان نزول کو تلاش نہیں کیا جا سکتا ہے ۔[5]

مخصوص شان نزول کی حامل آیات اور سورتیں

قرآن پاک کی بعض آیات اور سورتیں کسی سبب کی حامل ہیں کہ جو کسی سبب یا علت کے ہمزمان نازل ہوئیں۔ قرآن کے اس حصے کی وہی آیات اور سورتیں ہیں جن کے بارے میں تفاسیر یا اسباب النزول کے عنوان سے لکھی جانے والی کتابوں میں گفتگو ہوتی ہے ۔ اس بنا پر اسباب نزول کی اصطلاح کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ آیات یا قرآن کی بعض سورتیں کسی سبب کی کی وجہ سے نازل ہوئے ہیں اور یہ واقعات رسول خدا کی زندگی میں رونام ہوئے ۔[6] دوسرے الفاظ میں:

  1. ایسے اہم اور جالب نظر یا شدید خطرناک اور نہایت برے رونما ہونے والے واقعات ہوتے تھے،
  2. رسول اکرم کے سامنے لوگ سوال کرتے تھے ،
  3. مسلمانوں کیلئے ایسے حالات اور شرائط مہیا ہوجاتے کہ جن میں ان حالات و شرائط کے لحاظ سے انکی حالت کو مشخص ہونا چاہئے؛

ان امور کے بعد آیات اور کبھی سورتیں نازل ہوتیں جن میں اس واقعے ،سوال کے جواب یا مسلمانوں کی ذمہ داری کے تعین کا بیان ہوتا ۔بہرحال ان میں مسئلے کی حقیقت اور اساس کو بیان کیا جاتا ۔[7]

فرق

اگرچہ شان نزول اور سبب نزول ایک ہی معنا میں استعمال ہوتا ہے لیکن بعض علمائے علوم قرآن شان نزول اور سبب نزول کے درمیان فرق کے قائل ہیں ۔ان کی نگاہ میں شان نزول سبب نزول کی نسبت اعم ہے اور سبب نزول شان نزول کی نسبت اخص ہے ۔کیونکہ جب کوئی واقعہ پیش آتا اور اس کے مقابلے میں ابہام ہوتا ، یا سوال پوچھا جاتا اور اسکے مقابلے میں جواب واضح نہ ہوتا یا کوئی ایسا امر پیش آجاتا جس کا کوئی راہ حل موجود نہ ہوتا تو ایسی صورتحال میں قرآنی آیات نازل ہوتی تو ایسے مقامات کی نسبت سبب نزول کہا جاتا ہے ۔ اور قرآنی آیات کسی امر کے بیان و شرح کے عنوان سے نازل ہوتی تو وہاں شان نزول کہا جاتا ہے اس مقام پر عمومیت پائی جاتی ہے جیسا کہ انبیاء،امم سالفہ وغیرہ سے مربوط آیات میں یہی صورت پیش نظر ہوتی ہے ۔ پس سبب نزول عصر پیغمبر میں پیش آنے والی مشکلات مانند ابہام واقعہ ،سوال و راہ حل ، کی طرف ناظر ہے جبکہ شان نزول واقعیت امر کی طرف ناظر ہے ۔[8]

اقسام

قرآن کا اکثر حصہ کسی سبب نزول کے بغیر رسول خدا پر وحی کی صورت میں نازل ہوا جبکہ کچھ حصے کا سبب نزول بیان ہوا ہے ۔ مجموعی طور پر سبب نزول کی درج ذیل اقسام بیان کی جاتی ہیں :

  • پہلی قسم:

اسباب نزول متعدد اور نازل واحد:اسباب کی ایک سے زیادہ مرتبہ تکرار ہونے کی وجہ سے ایک ہی چیز کا نزول ایک سے زیادہ مرتبہ ہوتا ہے ۔جیسا کہ کہا جاتا ہے سورہ حمد دو مرتبہ نازل ہوئی ۔ایک مرتبہ مکہ میں اور دوسری مرتبہ مدینہ میں نازل ہوئی ۔[9]

  • دوسری قسم:

سبب نزول واحد اور نازل متعدّد: ممکن نازل متعدد ہوں اور سبب نزول ایک ہو.جیسا کہ حضرت ام سلمۃ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ کی خدمت میں عرض کیا میں نے نہیں سنا کہ خدا نے عورتوں کی ہجرت کے متعلق کبھی کوئی بات کی ہو ؟تو اس وقت خدا نے اس آیت کو نازل فرمایا: [10]سو ان کے پروردگار نے ان کی دعا و پکار کو قبول کر لیا (اور فرمایا) میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو خواہ مرد ہو یا عورت کبھی ضائع نہیں کرتا۔ تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہی تو ہو۔ سو جن لوگوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے۔ اور میری راہ میں انہیں ایذائیں دی گئیں۔ اور (دین کی خاطر) لڑے اور مارے گئے، تو میں ان کی برائیاں مٹا دوں گا اور ان کو ایسے بہشتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ ہے اللہ کے ہاں ان کی جزا۔ اور اللہ کے پاس بہترین ثواب و جزاء ہے۔ (195)۔[11]

نیز آیت[12] نازل ہوئی : بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں، اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں، سچے مرد اور سچی عورتیں، صابر مرد اور صابر عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو بکثرت یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں اللہ نے ان کیلئے مغفرت اور بڑا اجر و ثواب مہیا کر رکھا ہے۔ (35)

پس ام سلمۃ کا سوال ایک تھا لیکن آل عمران اور سورہ احزاب دو سورتوں کی آیات نازل ہوئیں۔

  • تیسری قسم:

سبب نزول خاص اور نازل بھی ایک لفظ کے ساتھ خاص: یعنی سبب اور نازل ہونے والی آیات بھی خاص ہوں ۔جیسا کہ تَبَّتْ یَدا أَبی‏ لَهَبٍ وَ تَبَّ ابولہب کے بارے میں نال ہوئی ۔

  • اگر آیت عمومیت پر دلالت کرے لیکن شان نزول بعض معین افراد سے مخصوص ہونے کا تقاضا کرے تو اس صورت میں سبب نزول کی وجہ سے آیت کو سبب نزول کی وجہ سے مخصوص افراد میں منحصر نہیں سمجھیں گے بلکہ آیت کی عمومیت کو باقی سمجھا جائے گا ۔[13]

اسلوب بیان

شان نزول کی روایات میں درج ذیل اسلوب استعمال ہوتے ہیں :

  • سبب نزول هذه الآية كذا

یہ اسلوب واضح طور پر سببیت کو بیان کرتا ہے ۔

  • فنزلت الآية

نزل یا اسکے مشتقات کو فا کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔یہ اسلوب بھی سببیت کا واضح بیان ہے ۔

گاہی مذکورہ تعبیروں سے استفادہ نہیں کیا جاتا لیکن ایسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں جو قطعی طور پر سببیت کے بیان گر ہوتے ہیں۔[14]

  • نزلت هذه الآية في كذا

یہ اسلوب دونوں احتمال رکھتا ہے ۔کبھی اس سے سببیت کا قصد کیا جاتا ہے اور کبھی اس سے ارادہ کیا جاتا ہے کہ یہ آیت کے معنا میں شامل ہے ۔

  • أحسب هذه الآية نزلت في كذا یا ما أحسب هذه الآية نزلت إلّا في كذا

یہ دونوں اسلوب بھی سببیت اور غیر سببیت کو شامل ہوسکتے ہیں۔[15]

علامہ طباطبائی اسباب نزول کی روایات میں معتقد ہیں کہ شان نزول کی روایات میں بہت زیادہ اختلاف پائے جانے کی وجہ سے ان میں راویوں کے اجتہاد یا ان روایات میں جعل کا احتمال پایا جاتا ہے لہذا اس وجہ سے بہت سی روایات کا اعتبار مورد تردید ہے۔پس اس بنا پر اسباب نزول میں مذکور ہونے والی روایات میں اگر خبر متواتر یا قطعی الصدور ہو تو اسے مانا جائے اور اگر ایسا نہ ہو تو اُس روایت کو محل بحث آیت کے سامنے رکھا جائے اگر وہ اسکے ساتھ سازگار ہو تو اس سبب نزول پر اعتماد کریں گے ورنہ سبب نزول والی روایت قابل اعتبار نہیں ہے اس روش سے اگرچہ اکثر سبب نزول کی روایات قابل اعتبار نہیں رہیں گی ۔[16]

فوائد

سیوطی نے شان نزول کے درج ذیل فوائد شمار کئے ہیں : [17]

  1. آیت یا آیات کے شان نزول کی حکمت کی شناخت۔
  2. آیات قرآنی کی درست فہم اور غموض اور ابہام کا کشف ہونا۔
  3. شان نزول کے ذریعے افراد کا تعین ۔
  4. آیات کے الفاظ یا عام اور خاص کے لحاظ سے اسباب کی پہچان ۔
  5. گاہی آیت میں توہم حصر پایا جاتا ہے جبکہ شان نزول کے ذریعے اس توہم کو رفع کیا جاتا ہے ۔[18]

واحدی قرآن پاک کی دقیق تفسیر کیلئے آیات کے شان نزول اور اس سے مربوط مسائل سے آگاہی کو ضروری سمجھتا ہے ۔ [19]

حوالہ جات

  1. حجتی، اسباب نزول، ص۱۷.
  2. حاجی میرزایی، اسباب نزول، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۱، ص۱۹۲.
  3. سید محمد باقر حجتی، اسباب نزول، ص۱۹.
  4. سیدمحمدباقر حجتی ، اسباب نزول، ص۱۹.
  5. سیدمحمدباقر حجتی ، اسباب نزول، ص۱۹-۲۰.
  6. سیدمحمدباقر حجتی ، اسباب نزول، ص۲۰.
  7. سیدمحمدباقر حجتی ، اسباب نزول، ص۲۰.
  8. ہادی معرفت،تلخیص التمہید،112/113،مؤسسہ نشر اسلامی التابعہ لجماعۃ الدرسین قم۔
  9. زرقانی،مناہل العرفان فی علوم القرآن،1/116۔
  10. آل عمران 195۔
  11. زرقانی،مناہل العرفان فی علوم القرآن،1/121،122۔
  12. احزاب35۔
  13. زرقانی،مناہل العرفان، ج 1، ص 93 ، مطبعہ عيسى البابي الحلبي وشركاه. نقل از درسنامہ علوم قرآن سطح 2 فصل سوم اسباب نزول
  14. زرقانی، مناہل العرفان في علوم القرآن،1/115،مطبعہ عيسى البابي الحلبي وشركاه
  15. محمد بکر اسماعیل،دراسات في علوم القرآن،155،دار المنار۔
  16. محمد حصین طباطبائی ،قرآن در اسلام، ص 176. نقل از: درسنامہ علوم قرآنی،فصل سوم، اسباب نزول۔
  17. سیوطی ،الاتقان، ج۱، ص107 الهيئۃ المصريۃ العامۃ للكتاب .
  18. تمہيد، ج 1، ص 124؛ ميزان، ج 20، ص 378. نقل از درسنامہ علوم قرآنی سطح 2 فصل سوم،اسباب نزول۔
  19. اسباب النزول، ص۳۔

مآخذ

  • حجتی، سیدمحمدباقر، اسباب نزول، تہران: وزارت ارشاد اسلامی اداره کل، انتشارات و تبلیغات، زمستان ۱۳۶۵ش.
  • دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۱، کوشش بہاءالدین خرمشاہی، تہران: دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش.
  • محمد عبد العظيم الزُّرْقاني (المتوفى: 1367هـ)، مناہل العرفان في علوم القرآن، مطبعہ عيسى البابي الحلبي وشركاه۔
  • درسنامہ علوم قرآنی سطح 2 قم 1378 مركز انتشارات دفتر تبليغات اسلامى ،حوزه علميہ حسين جوان آراستہ ويرايش دوم ۔
  • جلال الدین سیوطی ،الاتقان في علوم القرآن،الهيئۃ المصريۃ العامۃ للكتاب .