سورہ

ویکی شیعہ سے
(سورتوں سے رجوع مکرر)

سوره یا سورت ، ایک قرآنی اصطلاح ہے جو چند آیات کے مجموعے کو کہا جاتا ہے اور عموما ہر سورت کا آغاز بسم الله الرحمن الرحیم سے ہوتا ہے۔ بعض مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ کسی بھی سورت کی تمام آیات ایک دوسرے سے مربوط اور ایک بنیادی موضع کے متعلق ہوتی ہیں۔ بعض قرآنی سورتیں مختلف شباہتوں کی بنا پر مختلف گروہوں میں تقسیم ہوتی ہیں؛ زمان نزول کے اعتبار سے سورتوں کو مکی اور مدنی سورتوں میں جبکہ آیات کے اعبتار سے سَبع طِوال، مِئون، مَثانی اور مُفَصَّل میں تقسیم ہوتی ہیں۔

مشہور قرآنی محققین کے مطابق قرآن 114 سورتوں پر مشتمل ہے۔ لیکن بعض مصنفین بغیر اس کے کہ قرآن کی آییتوں میں کمی بیشی کریں سورتوں کی تعداد کو 112 یا 113 بتاتے ہیں؛ کیونکہ ان حضرات کا کہنا ہے کہ سورہ توبہ حقیقت میں سورہ انفال جزء ہے کوئی مستقل سورہ نہیں ہے۔ اسی طرح بعض سورہ فیل اور قُرَیْش نیز سورہ ضُحی اور اِنْشِراح کو بھی ایک سورہ قرار دیتے ہیں۔ قرآن کی تمام سورتوں کو ایک خاص نام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے اور اکثر طور پر ہر سورت کا نام اس کے ابتدائی لفظ یا الفاظ کے ذریعے رکھا گیا ہے۔ بعض قرآنی محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ قرآنی سورتوں کا نام پیعمبر اکرمؐ نے انتخاب کیا ہے اس بنا پر ان کے ناموں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن دوسرے محققین اس نظریے کو صحیح نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ قرآنی سورتوں کا نام زمانہ گزرنے کے ساتھ کثرت استعمال کی وجہ سے معین ہوئے ہیں۔

پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہونے والی پہلی اور آخری سورت کے بارے میں قرآنی علوم میں بحث کی جاتی ہے۔ بعض کے نزدیک سورہ فاتحۃ پہلی اور سورہ نصر آخری سورت ہے جن کے تمام آیات ایک ساتھ پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہوئی ہیں۔ شیعہ اور اہل سنت حدیثی منابع میں بہت ساری احادیث قرآنی سورتوں کے فَضائل کے بارے میں نقل ہوئی ہیں۔ لیکن محققین ان میں سے اکثر احادیث کو سند اور متن دونوں حوالے سے مورد مناقشہ قرار دیتے ہیں۔

سورہ کا مفہوم اور اسلامی تعلیمات میں اس کی اہمیت

قرآن کی ایک سورت کی ابتداء کا نمونہ

سوره یا سورت ، ایک قرآنی اصطلاح ہے جو چند آیات کے مجموعے کو کہا جاتا ہے اور عموما ہر سورت کا آغاز بسم الله الرحمن الرحیم سے ہوتا ہے سوائے سورہ توبہ کے جس کی ابتداء بسم الله الرحمن الرحیم سے نہیں ہوتی ہے۔[1] بعض کتابوں میں قرآنی سورتوں کو کتابوں کے ابواب سے تشبیہ دی گئی ہے،[2] لیکن بعض محققین اس تشبیہ کو صحیح نہیں مانتے ہیں؛ کیونکہ قرآنی سورتیں کتابوں کے ابواب کی خصوصیات کے حامل نہیں ہوتی ہیں۔[3] قرآن کی مختلف تقسیم بندیوں جیسے جُزْء اور حِزب میں صرف آیت اور سورت میں قرآن کی تقسیم بندی کو حقیقی تقسیم بندی قرار دی جاتی ہے جس کا منشاء خود قرآن ہی ہے۔[4]

چھوٹی سورتیں ارو بعض بڑی سورتیں جیسے سورہ انعام کی تمام آیات ایک ساتھ پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہوئی ہیں۔[5] بعض سورتیں تدریجی طور پر نازل ہوئی ہیں جن کی آیتوں کو پیغمبر کرمؐ کے حکم سے ترتیب دیا گیا ہے۔[6] کہا جاتا ہے کہ قرآن کو سورتوں میں تقسیم کرنے کے کچھ فوائد ہیں منجملہ ان میں سے بعض یہ ہیں: قرآن کو سمجھنے اور زبانی یاد کرنے میں آسانی، قرآن کے قاریوں میں تنوع و نشاط پیدا کرنا، ایک جیسی آیات کو ایک ساتھ قرار دینا اور موضوع کے اعتبار سے مختلف سورتوں کو ایک دوسرے سے متمائز کرنا۔[7]

کسی ایک سورت کی آیتوں کے درمیان موجود رابطے کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔[8] علامہ طباطبائی، سید قُطب اور محمد عِزّت دَرْوَزہ جیسے مفسرین کا خیال ہے کہ قرآنی سورتوں میں سے ہر سورہ میں ایک قسم کی وحدت اور یگانگی پائی جاتی ہے جو دوسری سورتوں سے مختلف ہے۔[9] کتاب المیزان کے مصنف کے مطابق قرآنی سورتیں مختلف اہداف کے حامل ہوتی ہیں اور ہر سورت کا ایک خاص ہدف اور مفہوم ہوا کرتا ہے اور متعلقہ سورت اور اس کی تمام آیتیں اسی ہدف اور مفہوم کے اردگر گرد گھومتی ہیں۔[10] کہا جاتا ہے کہ بیسویں صدی عیسوی میں یہ نظریہ رائج ہوا ہے۔[11] اس کے مقابلے میں بعض مفسرین جیسے تفسیر نمونہ کے مصنف آیت اللہ مکارم شیرازی کسی سورت کی تمام آیتوں کے درمیان خاص وحدت اور یکسانیت کو ضروری نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ایک سورت میں مختلف موضوعات کے بارے میں گفتگو ہونا بھی امکان پذیر ہے۔[12]

کہا جاتا ہے کہ بعثت کی ابتداء میں سورت کی اصطلاح قرآن کی بعض آیتوں پر اطلاق ہوتی تھی جو معنا کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مشابہ ہوتی تھیں، اس نظریے کے مطابق سورہ بقرہ خود تقریبا تیس سورتوں پر مشتمل تھی۔[13] لیکن پیغمبر اکرمؐ کی زندگی کے آخری سالوں میں یہ اصطلاح موجودہ معنی میں استعمال ہونے لگی۔[14] اسلامی محقق مجید معارف کا خیال ہے کہ یہی امر شیعہ اور اہل سنت میں اس اصطلاح کے مفہوم کے بارے میں اخلاف کا موجب بنا ہے؛ کیونکہ شیعہ فقہ میں نماز میں سورہ حمد کے بعد ایک مکمل سورت (سوائے سور عزائم کے) پڑھنا واجب ہے، حبکہ اہل‌ سنت فقہ میں کسی سورت کا ایک حصہ پڑھنا کافی ہے۔[15]

ردیف ترتیب الفبائی نام سوره تعداد آیات ترتیب نزول[16] مکی/مدنی
1 63 فاتحہ 7 5 مکی
2 16 بقرہ 286 87 مدنی
3 1 آل عمران 200 89 مدنی
4 104 نساء 176 92 مدنی
5 84 مائدہ 120 113 مدنی
6 12 انعام 165 55 مکی
7 7 اعراف 206 39 مکی
8 13 انفال 75 88 مدنی
9 23 توبہ 129 114 مدنی
10 114 یونس 109 51 مکی
11 110 ہود 123 52 مکی
12 113 یوسف 111 53 مکی
13 37 رعد 43 96 مدنی
14 2 ابراہیم 52 72 مکی
15 30 حِجر 99 54 مکی
16 103 نحل 128 70 مکی
17 6 اسراء 111 50 مکی
18 80 کہف 110 69 مکی
19 90 مریم 98 44 مکی
20 54 طہ 135 45 مکی
21 9 انبیاء 112 73 مکی
22 29 حج 78 104 مدنی
23 98 مؤمنون 118 74 مکی
24 108 نور 64 103 مدنی
25 67 فرقان 77 42 مکی
26 45 شعراء 227 47 مکی
27 106 نمل 93 48 مکی
28 75 قصص 88 49 مکی
29 60 عنکبوت 69 85 مکی
30 38 روم 60 84 مکی
31 82 لقمان 34 57 مکی
32 43 سجدہ 30 75 مکی
33 3 احزاب 73 90 مدنی
34 42 سبأ 54 58 مکی
35 64 فاطر 45 43 مکی
36 112 یس 83 41 مکی
37 49 صافات 182 56 مکی
38 48 ص 88 38 مکی
39 41 زمر 75 59 مکی
40 62 غافر 85 60 مکی
41 68 فصّلت 54 61 مکی
42 47 شوری 53 62 مکی
43 39 زخرف 89 63 مکی
44 34 دخان 59 64 مکی
45 25 جاثیہ 37 65 مکی
46 4 احقاف 35 66 مکی
47 87 محمد 38 95 مدنی
48 65 فتح 29 112 مدنی
49 31 حجرات 18 107 مدنی
50 71 ق 45 34 مکی
51 35 ذاریات 60 67 مکی
52 55 طور 49 76 مکی
53 102 نجم 62 23 مکی
54 77 قمر 55 37 مکی
55 36 الرحمن 78 97 مدنی
56 111 واقعہ 96 46 مکی
57 32 حدید 29 94 مدنی
58 86 مجادلہ 22 106 مدنی
59 33 حشر 24 101 مدنی
60 96 ممتحنہ 13 91 مدنی
61 50 صف 14 111 مدنی
62 26 جمعہ 11 109 مدنی
63 97 منافقون 11 105 مدنی
64 20 تغابن 18 110 مدنی
65 53 طلاق 12 99 مدنی
66 19 تحریم 12 108 مدنی
67 95 مُلک 30 77 مکی
68 76 قلم 52 2 مکی
69 28 حاقہ 52 78 مکی
70 94 معارج 44 79 مکی
71 107 نوح 28 71 مکی
72 27 جن 28 40 مکی
73 91 مزّمّل 20 3 مکی
74 88 مدثر 56 4 مکی
75 78 قیامہ 40 31 مکی
76 10 انسان 31 98 مدنی
77 89 مرسلات 50 33 مکی
78 101 نباء 40 80 مکی
79 99 نازعات 46 81 مکی
80 57 عبس 42 24 مکی
81 22 تکویر 29 7 مکی
82 14 انفطار 19 82 مکی
83 93 مطففین 36 86 مکی
84 11 انشقاق 25 83 مکی
85 15 بروج 22 27 مکی
86 52 طارق 17 36 مکی
87 8 اعلی 19 8 مکی
88 61 غاشیہ 26 68 مکی
89 66 فجر 30 10 مکی
90 17 بلد 20 35 مکی
91 46 شمس 15 26 مکی
92 83 لیل 21 9 مکی
93 51 ضحی 11 11 مکی
94 44 شرح 8 12 مکی
95 24 تین 8 28 مکی
96 59 علق 19 1 مکی
97 73 قدر 5 25 مکی
98 18 بینہ 8 100 مدنی
99 40 زلزلہ 8 93 مدنی
100 56 عادیات 11 14 مکی
101 72 قارعہ 11 30 مکی
102 21 تکاثر 8 16 مکی
103 58 عصر 3 13 مکی
104 109 همزه 9 32 مکی
105 70 فیل 5 19 مکی
106 74 قریش 4 29 مکی
107 85 ماعون 7 17 مکی
108 81 کوثر 3 15 مکی
109 79 کافرون 6 18 مکی
110 105 نصر 3 102 مدنی
111 92 مسد 5 6 مکی
112 5 اخلاص 4 22 مکی
113 69 فلق 5 20 مکی
114 100 ناس 6 21 مکی

سورتوں کی تقسیم‌ بندی

قرآن کی بعض سورتیں کو ایک دوسرے کے ساتھ مختلف شباہتوں کی وجہ سے مختلف اقسام میں تقسیم کی گئی ہیں۔[17]

زمان نزول کے اعتبار سے سورتوں کی تقسیم

قرآنی محققین کے درمیان مشہور نظریے کے مطابق قرآنی سورتوں کو زمان نزول کے لحاظ سے «مَکّی» اور «مَدَنی» سورتوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔[18]اس تقسیم کے مطابق ہجرت مدینہ سے پہلے نازل ہونے والی سورتوں کو «مَکّی سورتیں» جبکہ پیغمبر اکرمؐ کا مدینہ پہنچنے کے بعد نازل ہونے والی سورتوں کو «مَدَنی سورتیں» کہا جاتا ہے۔ اس بنا پر اگر کوئی سورہ یا آیت ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہو تو مدنی سورہ یا آیت کہلائے گی؛ یہاں تک کہ خود شہر مکہ یا پیغمبر اکرمؐ کے کسی سفر کے دوران نازل کیوں نہ هوئی ہو؛ جیسے فتح مکہ کے وقت نازل ہونے والی آیات یا حَجَّۃُ الوِداع کے موقع پر نازل ہونے والی آیات۔[19]

بعض قرآنی محققین کے مطابق مکی اور مدنی سورتوں کو ان کے زمان نزول کے اعتبار سے نہیں بلکہ مکان نزول یا مخاطب کے اعتبار سے معین کی جاتی ہیں۔ اس نظریے کے مطابق مکان اور جگہے کے اعتبار سے مکہ اور اس کے اطراف جیسے مِنا، عَرَفات اور حُدَیبیّہ وغیرہ میں نازل ہونے والی سورتوں کو مکی کہلائے گی، اگرچہ ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہو اور مدینہ اور اس کے اطراف جیسے بدر اور اُحُد وغیرہ میں نازل ہونے والی سورتوں کو مدنی کہلائے گی اگرچہ ہجرت سے پہلے ہی کیوں نہ نازل ہوئی ہو۔[20] لیکن مخاطب کے اعتبار سے مکی سورت وہ ہے جو اہل مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ہو اور مدنی سورت وہ ہے جو اہل مدینہ کے بارے میں نازل ہوئی ہو۔[21] مخاطب کی تشخیص کا معیار یہ ہے کہ جن آیتوں یا سورتوں میں «یا ایہا الناس» کی تعبیر آئی ہو وہ مکی اور جن میں «یا ایہا الذین آمنوا» کی تعبیر آئی ہو وہ مدنی کہلائے گی۔[22]

طولانی اور مختصر ہونے کے اعتبار سے تقسیم

قرآنی سورتوں کو آیات اور مضامین کے طولانی یا مختصر ہونے کے اعتبار سے "سبع طوال"، "مئون"، "مثانی" اور مفصل میں تقسیم کی گئی ہیں۔[23]

دوسری تقسیمات

عَزائِم، مُسَبِّحات، حَوامیم، مُمتَحِنات، حامدات، چہارقُل، طَواسین مُعَوَّذَتیْن و زَہراوان قرآنی سورتوں کی دوسری تقسیمات میں سے ہیں۔[30]

  • عَزائِم یا عَزائِمُ السُجود؛ سورہ سَجدہ، فُصِّلَت، نَجم اور عَلَق کو کہا جاتا ہے جو واجب سجدہ والی آیات پر مشتمل ہیں، اگر کوئی شخص ان آیات کو خود پڑھیں یا کسی اور سے سنے تو اسی وقت سجدہ کرنا واجب ہو جاتا ہے۔[31]
  • حَوامیم؛ قرآن کی موجودہ ترتیب کے مطابق چالیسویں سورہ (سورہ غافر) سے لے کر چھیالیسویں سورہ (سورہ احقاف) تک کو جن کا آغاز حروف مقطّعہ «حم» (حا میم) سے ہوتا ہے حوامیم کہا جاتا ہے۔[32] ان تمام سورتوں میں حروف مقطّعات کے فورا بعد قرآن اور اس کے نزول کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔[33]

تعداد

اکثر محققین کا اس بات پر اتفاق ہیں کہ قرآن کریم کی سورتوں کی تعداد 114 ہیں۔[35] لیکن بعض مصنفین قرآنی آیتوں میں کمی بیشی کئے بغیر سورتوں کی تعداد کو 112 ذکر کرتے ہیں اور اس نظریہ کو شیعوں کا مشہور نظریہ قرار دیا گیا ہے۔[36] ان کے مطابق سورہ فیل اور قریش نیز سورہ ضُحی اور انشراح دو الگ الگ سورتیں نہیں بلکہ ایک ہی سورت کے دو جزء ہیں؛[37] یہ نظریہ اس سلسلے میں موجود دو قسم کے احادیث کو جمع کرنے کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے۔[38] ان احادیث میں سے بعض کے مطابق نماز میں سورہ حمد کے بعد صرف ایک سورہ پڑھنا ضروری ہے[39] جبکہ دوسری قسم کی احادیث کے مطابق جب بھی نماز میں سورہ حمد کے بعد سورہ فیل پڑھی جائے تو ضروری ہے کہ سورہ قریش بھی پڑھی جائے اسی طرح اگر سورہ ضحی پڑھی جائے تو اس کے بعد سورہ انشراح بھی پڑھنا ضروری ہے۔[40] بعض محققین اس نظریہ کو رد کرتے ہوئے مذکورہ احادیث میں ان سورتوں کو جمع کرنے کی کوئی اور وجہ بیان کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اگرچہ نماز میں فاتحۃ الکتاب کے بعد صرف ایک ہی سورت پڑھنا ضروری ہے لیکن سور فیل اور قریش اسی طرح سورہ‌ ضحی اور انشراح اس حکم سے مستثنی ہیں۔[41]بعض شیعہ اور اہل سنت مفسرین سورہ انفال اور سورہ توبہ کو بھی ایک سورہ قرار دیتے ہیں اور قرآن کی آیتوں میں کسی قسم کی کمی کئے بغیر قرآنی سورتوں کی تعداد کو 113 بتاتے ہیں۔[42]

بعض منابع کے مطابق اہل‌ سنت کے یہاں قرآنی سورتوں کی تعداد کے بارے میں پیدا ہونے والا اختلاف قرآنی آیات میں کمی بیشی کا سبب بنا ہے۔[43] کتاب الاِتقان کے مصنف سیوطی کے مطابق مصحف عبد اللہ بن مسعود 112 سورتوں پر مشتمل تھا؛ کیونکہ وہ مُعَوَّذَتَین کو تعویذ قرار دیتے ہوئے اسے قرآن میں شامل نہیں کرتا تھا۔[44]اسی طرح سیوطی مصحف اُبَی بن کَعب کو 116 سورتوں پر مشتمل قرار دیتے ہیں؛ کیونکہ اُبَی بن کَعْب خَلْع و حَفْد کے نام سے دو سورتوں کو قرآن میں اضافہ کرتا تھا۔[45] بعض مستشرقین کے مطابق سورہ‌ عَلَق اور سورہ مُدَّثِر کو دو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے ذریعے قرآنی سورتوں کی تعداد میں اضافہ کر کے ان کی تعداد 116 بیان کی گئی ہیں۔[46]

نام گذاری

قرآن کریم کی تمام سورتوں کا مخصوص نام رکھا گیا ہے ۔ اکثر سوروں کا نام اس کے ابتدائی حروف یا اس کے مضامین میں موجود پیغام کو مدنظر رکھ کر انتخاب کیا گیا ہے۔ مثلا سورہ بقرہ کا نام اس سورۃ میں بنی اسرائیل کے گائے کے تذکرے کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔ اسی طرح سورہ نساء کا نام اس سورۃ میں عورتوں کے احکام ذکر ہونے کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔[47] بعض سورتیں ایک سے زیادہ نام رکھتی ہیں سیوطی نے سورہ حمد کیلئے 25 نام ذکر کیے ہیں ۔[48]

سورتوں کے اسامی کے توقیفی ہونے یعنی پیغمبر اکرم(ص) نے وحی الہی کے تناظر میں یہ نام انتخاب کیا ہے یا بعد میں صحابہ نے ان سورتوں کا نام تجویز کیا ہے اس بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[49] سیوطی اور زرکشی جیسے قرآنی محققین کا خیال ہے کہ قرآنی سورتوں کے اسامی توقیفی ہیں یعنی خود پیغمبر اکرمؐ کے توسط سے یہ اسامی انتخاب کئے گئے ہیں۔[50] اور قرآنی سورتوں کو ان کے علاوہ کوئی اور نام سے یاد نہیں کرنا چاہئے۔[51] قرآنی سورتوں کے اسامی کے توقیفی ہونے کی بنا پر بعض مصنفین نے قرآنی سورتوں کی نام گزاری کو قرآن کے ادبی اعجاز میں شمار کرتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ اس نام گزاری کا اصلی مقصد متعلقہ سورت کا لب لباب بیان کرنا ہے جو اس سورت کے نام سے پتہ چلتا ہے۔[52]

اس کے مقابلے میں چودہویں صدی کے شیعہ مفسرین علامہ طباطبائی اور آیۃ اللہ جوادی آملی ان ناموں کے توقیفی ہونے کو قبول نہیں کرتے[53] ان کے مطابق اکثر سورتوں کا نام پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں کثرت استعمال کی وجہ سے صحابہ کے توسط معین کئے گئے تھے۔[54] آیت اللہ جوادی آملی کے مطابق یہ معقول نہیں ہے کہ بلند و بالا معارف اور عمیق حکمتوں اور احکام پر مشتمل سورت کا نام پیغمبر اکرمؐ کے توسط سے کسی حیوان کے نام رکھنا بعید ہے(سورہ بقرہ) اسی طرح سورہ انعام جو توحید کی 40 دلائل پر مشتمل ہے کا نام حیوانات کے نام رکھا جائے یا سورہ نمل جو کہ عمیق معارف اور بہت سارے انبیاء کی داستانوں پر مشتمل ہے کا نام چیونٹی کے نام رکھا جائے۔[55]

ترتیب نزول

اکثر محققین کا خیال ہے کہ قرآن کریم میں سورتوں کی موجودہ ترتیب رسول خداؐ کے حکم سے انجام نہیں پائی بلکہ صحابہ نے انہیں اس ترتیب کے ساتھ مرتب کئے ہیں۔[56] اس نظریے کی تأیید میں بیان ہونے والی دلائل میں سے ایک صحابہ کے مصحفوں میں سورتوں کی ترتیب کا اختلاف ہے؛[57] چنانچہ مُصْحف امام علی(ع) موجودہ مصحف کی ترتیب پر نہیں ہے جس میں سورتوں کو ترتیب نزول کے تحت مرتب کئے گئے ہیں۔[58] قرآن کا موجودہ نسخہ جو اس وقت مسلمانوں کے پاس ہے وہ خلیفہ سوم عثمان بن عَفّان کے حکم سے ترتیب دئے گئے مصحف کا ایک نسخہ ہے[59] جسے امام علیؑ اور دوسرے شیعہ ائمہؑ کی تائید حاصل ہے۔[60]

ان تمام باتوں کے باوجود بعض قرآنی محققین کے مطابق قرآنی سورتوں کی موجودہ ترتیب خود رسول خداؐ کے حکم سے مرتب کی گئی تھی۔[61] ان میں سے بعض افراد اس بات کے معتقد ہیں کہ قرآنی سورتیں ایک دوسرے کے ساتھ ایک منظم اور مناسب رابطے کے تحت واقع ہیں۔[62] ایک اور گروہ اس بات کے معتقد ہیں کہ قرآنی سورتوں کی ترتیب توقیف (پیغمبر اکرمؐ کے حکم) اور صحابہ کی اجتہاد کا نتیجہ ہے؛ اس معنی میں کہ بعض سورتوں کی ترتیب رسول خداؐ کے حکم سے جبکہ بعض سورتوں کی ترتیب صحابہ‌ کے اجتہاد کے نتیجے میں ہے جنہیں عثمان نے قرآن کی جمع آوری کی ذمہ داری سونپی تھی۔[63]

پہلی اور آخری سورت

قرآن کریم کی سب سے پہلے نازل ہونے والی سورت کے بارے میں تین نظریے موجود ہیں؛ بعض سورہ عَلَق کی ابتدائی آیات جبکہ بعض سورہ مُدَّثِر کی ابتدائی آیات اور بعض سورہ فاتِحَۃُ الکتاب کو حضرت محمدؑ پر نازل ہونے والی سب سے پہلی سورت قرار دیتے ہیں۔[64] کتاب التمہید کے مصنف آیت اللہ معرفت اس بات کے معتقد ہیں کہ اگرچہ سورہ علق کی ابتدائی آیات پیغمبر اکرمؐ پر سب سے پہلے نازل ہونے والی آیات ہیں اور سورہ مُدَّثِر کی ابتدائی آیات دورہ فَترَت کے بعد نازل ہونے والی پہلی آیات ہیں لیکن سب سے پہلے مکمل طور پر نازل ہونے والی سورت، سورہ حمد ہے۔[65]

بعض سورہ توبہ، بعض سورہ نصر اور بعض سورہ مائدہ کو پیغمبر پر نازل ہونے والی سب سے آخری سورت قرار دیتے ہیں۔[66] امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہونے والی آخری سورت، سورہ نصر ہے۔[67]چونکہ سورہ نصر فتح مکہ سے پہلے نازل ہوئی اور سورہ توبہ فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی ہے اس بنا پر آیت اللہ معرفت کے مطابق اگرچہ سورہ برائت کی ابتدائی آیات سورہ نصر کے بعد نازل ہوئی ہیں لیکن مکمل طور پر نازل ہونے والی آخری سورت، سورہ نصر ہی ہے۔[68]

فضائل سور

ابتدائی شیعہ حدیث منابع میں بہت ساری احادیث قرآنی سورتوں کے فَضائل کے بارے میں نقل ہوئی ہیں اور کتاب الکافی[69] اور ثوابُ الاعمال[70] جیسی کتابوں میں اسی عنوان سے خصوصی ابواب ترتیب دئے گئے ہیں۔ بعد والے دور میں بھی بعض علماء نے اپنی کتابوں میں ان احادیث کو نقل کیا ہے۔[71] اہل‌ سنت حدیثی منابع میں بھی بہت ساری احادیث بعض سورتوں اور آیات کی فضیلت کے بارے میں نقل ہوئی ہیں۔[72] ان تمام باتوں کے باوجود مذکورہ احادیث میں سے بعد سند اور متن کے اعتبار سے مختلف مشکلات کا شکار ہیں اسی بنا پر ان میں سے اکثر احادیث کو جعلی قرار دی جاتی ہیں۔[73]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. معارف، مباحثی در تاریخ و علوم قرآنی، 1383ہجری شمسی، ص52۔
  2. رکنی، آشنایی با علوم قرآن، 1379ہجری شمسی، ص104۔
  3. معارف، مباحثی در تاریخ و علوم قرآنی، 1383ہجری شمسی، ص52۔
  4. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج13، ص230-231۔
  5. معارف، درآمدی بر تاریخ قرآن، 1383ہجری شمسی، ص137۔
  6. معارف، درآمدی بر تاریخ قرآن، 1383ہجری شمسی، ص137۔
  7. زرقانی، مناہل العرفان، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص344۔
  8. خامہ‌گر، ساختار ہندسی سورہ‌ہای قرآن، 1386ہجری شمسی، ص14-19۔
  9. میر، «پیوستگی سورہ، تحولی در تفسیر قرآن در قرن بیستم»، ترجمہ محمدحسن، محمدی مظفر، ص443۔
  10. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج1، ص16۔
  11. میر، «پیوستگی سورہ، تحولی در تفسیر قرآن در قرن بیستم»، ترجمہ محمدحسن، محمدی مظفر، ص438۔
  12. مکارم شیرازی، قرآن و آخرین پیامبر، 1385ہجری شمسی، ص307۔
  13. معارف، درآمدی بر تاریخ قرآن، 1383ہجری شمسی، ص137۔
  14. معارف، درآمدی بر تاریخ قرآن، 1383ہجری شمسی، ص138۔
  15. معارف، درآمدی بر تاریخ قرآن، 1383ہجری شمسی، ص138۔
  16. معرفت، آموزش علوم قرآن، ج1، ص165ـ168.
  17. رامیار، تاریخ قرآن، 1369ہجری شمسی، ص596۔
  18. معرفت، التمہید، 1386ہجری شمسی، ج1، ص131۔
  19. معرفت، التمہید، 1386ہجری شمسی، ج1، ص130۔
  20. سیوطی، الاتقان، 1421ھ، ج1، ص55۔
  21. سیوطی، الاتقان، 1421ھ، ج1، ص56۔
  22. سیوطی، الاتقان، 1421ھ، ج1، ص81۔
  23. احمدیان، قرآن شناسی، 1382ہجری شمسی، ص56-57.
  24. رادمنہجری شمسی، آشنایی با علوم قرآنی، 1374ہجری شمسی، ص150.
  25. رادمنہجری شمسی، آشنایی با علوم قرآنی، 1374ہجری شمسی، ص150.
  26. معرفت، التمهید، 1386ہجری شمسی، ج1، ص282.
  27. جوان آراسته، درسنامه علوم قرآنی، 1380ہجری شمسی، ص192-193.
  28. رامیار، تاریخ قرآن، 1369ہجری شمسی، ص595.
  29. رامیار، تاریخ قرآن، 1369ہجری شمسی، ص595.
  30. رامیار، تاریخ قرآن، 1369ہجری شمسی، ص596-597۔
  31. بنی‌ہاشمی، توضیح المسائل مراجع، 1381ہجری شمسی، ج1، ص592-593۔
  32. رامیار، تاریخ قرآن، 1369ہجری شمسی، ص596۔
  33. سیوطی، تناسق الدرر فی تناسب السور، 1406ھ، ص115۔
  34. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج19، ص144۔
  35. محمدی، سروش آسمانی، 1381ہجری شمسی، ص99۔
  36. گروہی از مؤلفان، علوم القرآن عند المفسرین، 1375ہجری شمسی، ص273۔
  37. گروہی از مؤلفان، علوم القرآن عند المفسرین، 1375ہجری شمسی، ص273۔
  38. دشتی، «بررسی وحدت ضحی و انشراح، و فیل و قریش»، ص77-78۔
  39. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج3، ص314۔
  40. برای نمونہ: شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، 1407ھ، ج2، ص72؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج10، ص827۔
  41. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج20، ص365؛ دشتی، «بررسی وحدت ضحی و انشراح، و فیل و قریش»، ص87۔
  42. ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج9، ص146؛ سیوطی، الاتقان، 1421ھ، ج1، ص228۔
  43. سیوطی، الاتقان، 1421ھ، ج1، ص229۔
  44. سیوطی، الاتقان، 1421ھ، ج1، ص229۔
  45. سیوطی، الاتقان، 1421ھ، ج1، ص229۔
  46. بدوی، و سیدی، دفاع از قرآن در برابر آرای خاورشناسان، 1383ہجری شمسی، ص175۔
  47. سیوطی، الاتقان فی علوم القرآن، ج 1، ص 197.
  48. سیوطی، الاتقان فی علوم القرآن، ج 1، ص 187.
  49. اَبو‌شَہْبہ، المدخل لدراسۃ القرآن الکریم، 1423ھ، ص321۔
  50. برای نمونہ ملاحظہ کریں: زرکشی، البرہان، 1410ھ، ج1، ص367؛ سیوطی، الاتقان، 1421ھ، ج1، ص192۔
  51. اَبو‌شَہْبہ، المدخل لدراسۃ القرآن الکریم، 1423ھ، ص321۔
  52. خامہ‌گر، ساختار ہندسی سورہ‌ہای قرآن، 1386ہجری شمسی، ص132۔
  53. طباطبایی، قرآن در اسلام، 1353ہجری شمسی، ص219؛ جوادی آملی، تفسیر تسنیم، 1389ہجری شمسی، ج 2، ص27۔
  54. طباطبایی، قرآن در اسلام، 1353ہجری شمسی، ص219؛ جوادی آملی، تفسیر تسنیم، 1389ہجری شمسی، ج 2، ص27۔
  55. جوادی آملی، تفسیر تسنیم، 1389ہجری شمسی، ج 2، ص27۔
  56. فقہی‌زادہ، پژوہشی در نظم قرآن، 1374ہجری شمسی، ص72۔
  57. رامیار، تاریخ قرآن، 1369ہجری شمسی، ص598۔
  58. شیخ مفید، المسائل السَرَویّہ، 1413ھ، ص79۔
  59. فقہی‌زادہ، پژوہشی در نظم قرآن، 1374ہجری شمسی، ص73۔
  60. معرفت، التمہید، 1386ہجری شمسی، ج 1، ص341-342۔
  61. سیوطی، الاتقان، 1421ھ، ج1، ص223؛ صبحی صالح، مباحث فی علوم القرآن، 1372ہجری شمسی، ص71۔
  62. سیوطی، ترتیب سور القرآن، 2000م، ص32۔
  63. ابن‌عطیہ، المحرر الوجیز، 1422ھ، ج1، ص50۔
  64. سیوطی، الاتقان، 1421ھ، ج1، ص106-108؛ معرفت، التمہید، 1386ہجری شمسی، ج1، ص124-126۔
  65. معرفت، التمہید، 1386ہجری شمسی، ج 1، ص127۔
  66. معرفت، التمہید، 1386ہجری شمسی، ج1، ص127۔
  67. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2، ص6۔
  68. معرفت، التمہید، 1386ہجری شمسی، ج1، ص128۔
  69. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص596۔
  70. شیخ صدوق، ثواب الاعمال، 1406ھ، ص103۔
  71. برای نمونہ: حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج6، ص37؛ مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج89، ص223، ج110، ص263؛ بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، 1386ہجری شمسی، ج23، ص790۔
  72. مالک بن انس، الموطا، 1425ھ، ج1، ص202؛ بخاری، صحیح بخاری، 1422ھ، ج6، ص187-189؛ ترمذی، سنن الترمذی، 1419ھ، ج4، ص231۔
  73. نصیری، «چگونگی تعامل با روایات فضائل و خواص آیات و سور»، ص67۔

مآخذ

  • ابن‌عطیہ، عبدالحق بن غالب، المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1422ھ۔
  • احمدیان، عبداللہ، قرآن‌شناسی، تہران، نشر احسان، 1382ہجری شمسی۔
  • اَبو‌شَہْبہ، محمد بن محمد، المدخل لدراسۃ القرآن الکریم، قاہرہ، مکتبۃ السنہ، 1423ھ۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، بیروت، دار طوق النجاہ، 1422ھ۔
  • بدوی، عبدالرحمن؛ و سیدی، سید حسین، دفاع از قرآن در برابر آرای خاورشناسان، مشہد، بہ‌نشر، 1383ہجری شمسی۔
  • بروجردی، حسین، جامع أحادیث الشیعۃ، تہران، فرہنگ سبز، 1386ہجری شمسی۔
  • بنی‌ہاشمی، محمدحسن، توضیح المسائل مراجع، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1381ہجری شمسی۔
  • ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، قاہرہ، دار الحدیث، 1419ھ۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، تفسیر تسنیم، قم، اسراء، 1389ہجری شمسی۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، تفسیر تسنیم، قم، نشر اسراء، چاپ ششم، 1389ہجری شمسی۔
  • جوان آراستہ، حسین، درسنامہ علوم قرآنی، قم، بوستان، 1380ہجری شمسی۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعۃ الی تحصیل مسائل الشریعہ، قم، مؤسسہ آل‌البیت(ع)، 1409ھ۔
  • خامہ‌گر، محمد، ساختار ہندسی سورہ‌ہای قرآن، تہران، سازمان تبلیغات اسلامی، 1386ہجری شمسی۔
  • دشتی، سید محمود، «بررسی وحدت ضحی و انشراح، و فیل و قریش»، در مجلہ پژوہش‌نامہ قرآن و حدیث، شمارہ 2، 1382ہجری شمسی۔
  • رادمنہجری شمسی، سید محمد، آشنایی با علوم قرآنی، تہران، جامی، 1374ہجری شمسی۔
  • رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران، امیر کبیر، چاپ سوم، 1369ہجری شمسی۔
  • رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران، امیرکبیر، 1369ہجری شمسی۔
  • رکنی، محمدمہدی، آشنایی با علوم قرآن، تہران، سمت، 1379ہجری شمسی۔
  • زرقانی، محمد عبدالعظیم، مناہل العرفان فی علوم القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • زرکشی، محمد بن عبداللہ، البرہان فی علوم القرآن، بیروت، دار المعرفہ، 1410ھ۔
  • سیوطی، عبدالرحمن، الاِتقان فی علوم القرآن، بیروت، دار الکتاب العربی، 1421ھ۔
  • سیوطی، عبدالرحمن، ترتیب سور القرآن، بیروت، مکتبۃ الہلال، 2000ء۔
  • سیوطی، عبدالرحمن، تناسق الدرر فی تناسب السور، تحقیق عبدالقادر احمد عطا، بیروت،‌ دار الکتب العلمیہ، 1406ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الأعمال و عِقاب الأعمال، قم، دار شریف رضی، 1406ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا(ع)، تہران، نشر جہان، 1378ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، المسائل السَرَویّہ، قم، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • صبحی صالح، مباحث فی علوم القرآن، قم، منشورات رضی، 1372ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، بیروت (لبنان)، چاپ اول، 1417ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، قرآن در اسلام، تہران، دار الکتب الإسلامیہ، 1353ہجری شمسی۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، 1372ہجری شمسی۔
  • فقہی‌زادہ، عبدالہادی، پژوہشی در نظم قرآن، تہران، جہاد دانشگاہی، 1374ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • گروہی از مؤلفان، علوم القرآن عند المفسرین، قم، مکتب الاعلام الاسلامی، 1375ہجری شمسی۔
  • مالک بن انس، المُوَطَّأ، ابوظبی، مؤسسۃ زاید بن سلطان آل نہیان، 1425ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بِحارُ الاَنوار الجامعۃُ لِدُرَرِ اَخْبارِ الاَئمۃِ الأطہار، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • محمدی، کاظم، سروش آسمانی سیری در مفاہیم قرآنی، تہران، وزارت ارشاد، 1381ہجری شمسی۔
  • معارف، مجید، درآمدی بر تاریخ قرآن، تہران، نبأ، 1383ہجری شمسی۔
  • معارف، مجید، مباحثی در تاریخ و علوم قرآنی، تہران، نبأ، 1383ہجری شمسی۔
  • معرفت، محمدہادی، التمہید فی علوم القرآن، قم، موسسہ انتشارات اسلامی، 1386ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، قرآن و آخرین پیامبر، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1385ہجری شمسی۔
  • میر، مستنصر، «پیوستگی سورہ، تحولی در تفسیر قرآن در قرن بیستم»، ترجمہ محمدحسن، محمدی مظفر، در مجلہ آیینہ پژوہہجری شمسی، شمارہ 107 و 108، آذر و اسفند 1386ہجری شمسی۔
  • نصیری، «چگونگی تعامل با روایات فضائل و خواص آیات و سور»، در مجلہ علوم حدیث، شمارہ 79، بہار 1395ہجری شمسی۔