طلاق
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
طلاق ایک فقہی اور قانونی اصطلاح ہے جس کے معنی خاص شرائط کے ساتھ میاں بیوی کا ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرنے کے ہیں۔ اسلام میں طلاق جائز ہے؛ لیکن ان کاموں میں سے ایک ہے جس کی نہایت مذمت کی گئی ہے۔ قرآن میں اسی نام سے ایک سورہ بھی موجود ہے۔
طلاق کی دو قسم ہیں:
طلاق رِجعی: جس میں مخصوص شرائط کے ساتھ شوہر نکاح پڑھے بغیر بیوی کو دوبارہ اپنی زوجیت میں لوٹا سکتا ہے۔
طلاق بائِن: جس میں شوہر کیلئے ایسا کوئی حق نہیں ہے۔ طلاق خُلع اور مُبارات، طلاق بائن کے اقسام میں سے ہیں۔
طلاق کا حق مرد کے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن خاص شرائط کے ساتھ حاکم شرع مرد کو طلاق پر مجبور کر سکتا ہے۔ موجودہ دور میں بعض مواقع عقد کے وقت شوہر، بیوی کو وکالت دے دیتا ہے تا کہ بیوی خاص شرائط کے ساتھ اپنے آپ کو مرد سے طلاق دلوا سکیں۔
تعریف
طلاق لغت میں علیحدگی، آزاد کرنا، ترک کرنا، مفارقت اور جدایی کے معنی میں آتا ہے۔[1] دینی اصطلاح میں خاص شرائط کی رعایت کرتے ہوئے مخصوص صیغہ کے ساتھ میاں بیوی کا ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرنے کو طلاق کہا جاتا ہے۔[2] طلاق ایقاعات میں سے ہے عقود میں سے نہیں ہے بنابراین ایک شخص (مرد) کی جانب سے انجام پاتا ہے اور عورت کی جانب سے قبول کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
موجودہ دور میں مختلف ممالک میں طلاق جاری کرنے کے مختلف طریقے ہیں لیکن اکثر ممالک میں طلاق جاری کرنے کے لئے کسی عدالت یا قانونی ادارے کی تائید ضروری ہوتی ہے۔ مختلف مذاہب میں طلاق کے حوالے سے مختلف نطقہ نظر پائے جاتے ہیں۔
طلاق تاریخ کے آئینے میں
طلاق پرانے زمانے سے مختلف ممالک منجملہ یونان، ایران، مصر اور چین میں رائج تھی۔ مسیحیت کاتولیک میں طلاق مطلقا ممنوع ہے اور صرف میاں اور بیوی کا جداگانہ زندگی گزارنا جائز ہے اس صورت میں ان دونوں میں سے ہر ایک کو دوبارہ کسی سے شادی کرنے کا حق نہیں ہے۔ جبکہ مذہب ارتدوکس طلاق کو صرف مرد اور عورت کا زنا انجام دینے کی صورت میں جائز سمجھتے ہیں اس صورت میں بھی یہ دونوں کسی اور سے شادی کرنے کا حق نہیں رکھتے ہیں۔[3] لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ مسحیی ممالک اپنے قوانین میں میاں اور بیوی کو طلاق کا حق دینے پر مجبور ہوئے۔
اسلام میں طلاق کی حیثیت
اسلام میں طلاق کو منفورترین حلال کا نام دیا گیا ہے،[4] جس سے عرش الہی کو زلزلہ آتا ہے۔[5] احادیث میں ۱۲۰۰ سے زائد حدیث طلاق اور اس کے احکام سے متعلق وارد ہوئی ہیں۔
طلاق کا لفظ ۱۴ دفعہ قرآن میں استعمال ہوا ہے اور ان میں سے اکثر ان موارد کی طرف اشاہ ہے جن میں طلاق کا صیغہ جاری ہوا ہو اور عورت عدّت گزار رہی ہو اور مستقیم یا غیر مستقیم طور پر انہیں مشترک زندگی کی طرف لوٹ آنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر سورہ بقرہ میں 12 دفعہ "معروف" کا لفظ تکرار ہوا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں دوسروں کے حقوق کا احترام کرنا اور ان کے حقوق سے سوء استفادہ نہ کرنا اور ایک محترمانہ اور اچها طریقہ اختیار کرنے کی کتنی اہمیت ہے۔
سورہ طلاق میں طلاق کے احکام کے علاوہ عدّت طلاق، مطلقہ عورتوں کے نفقہ کا مسألہ، رضاع کے احکام اور شیرخوار بچوں اور دودھ پلانے والی عورتوں کے حقوق بھی مطرح ہوئے ہیں۔ اسی طرح طلاق رجعی کے دوران مطلقہ بیوی کو گھر سے نکال دینے سے منع بھی کی گئی ہے۔
قرآن سورہ نساء میں مردوں کو اپنی بیویوں کو طلاق نہ دینے کی سفارش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک ددسرے سے صلح صفائی کو اچھا اقدام قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بعض اوقات تمہاری بھلائی ان بیویوں یا شوہروں میں رکھی ہوتی ہے جنہیں تم پسند نہیں کرتے ہو۔ [6] میاں بیوی کے درمیان جگھڑے فساد کی صورت میں بھی قرآن کریم نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ میاں اور بیوی کے خاندان سے ایک ایک داور مل بیٹھ کر مشورت کریں اور مشترک زندگی کو جاری رکھنے کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔[7]
آخر میں خداوندعالم میاں بیوی دونوں کو طلاق کے بعد بھی اپنے غیبی خزانوں سے بے نیاز کرنے کا وعدّت دیتے ہیں۔[8]
طلاق کے شرائط اور احکام
طلاق کے چار عمدہ رکن ہیں جو درج ذیل ہیں: ۱- طلاق دینے والا ۲- طلاق لینے والی ۳- طلاق کا صیغہ ۴- گواہ رکھنا[9]
طلاق دینے والا درج ذیل چار شرائط کا حامل ہونا ضروری ہے:
- بالغ ہو؛
- عاقل ہو؛
- اپنی اختیار سے طلاق دے کسی نے مجبور نہ کیا ہو؛
- کسی کو وکالت دیتے وقت یا خود صیغہ طلاق جاری کرتے وقت، حقیقتا طلاق دینے کا قصد رکھتا ہو؛[10]
مطلَّقہ (وہ عورت جسے طلاق دی جا رہی ہو) میں بھی تین شرط معتبر ہیں:
- طلاق دیتے وقت عورت حیض اور نفاس سے پاک ہو وگرنہ طلاق باطل ہے۔ یہ شرط یائسہ اور حاملہ اسی طرح وہ لڑکی جو ابھی حیض دیکھنے کی عمر میں نہیں پہنچی ہو، میں ساقط ہے۔
- حیض اور نفاس سے پاکی (طُہر) کے وہ ایام جس میں طلاق جاری ہو رہی ہو، میں شوہر نے بیوی کے ساتھ ہمبستری نہ کی ہو۔
- اگر طلاق دینے والا کئی بیویاں رکھتا ہو تو جسے طلاق دی جارہی ہے اسے معین کرنا ضرروی ہے۔[11]
صیغہ طلاق اور گواہ رکھنے میں بھی کئی شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
- طلاق کا مخصوص صیغہ "هی طالِقٌ یا فُلانَة طالِقٌ یا اَنتِ طالِقٌ"، عربی میں پڑھنا ضروری ہے مگر یہ کہ کوئی بات نہ کر سکتا ہو تو اس سے یہ شرط ساقط ہو جاتا ہے۔[12]
- گواہ، دو یا دو سے زیادہ عادل مرد کا ہونا ضروری ہے۔[13][14]
طلاق کے اقسام
طلاق، رجوع کر سکنے اور رجوع نہ کر سکنے کے لحاظ سے: بائن اور رجعی میں تقسمی ہوتی ہے
طلاق رجعی
طلاق رِجعی، اس طلاق کو کہا جاتا ہے جس میں مرد عدّت کے دوران دوبارہ نکاح کئے بغیر مطلقہ عورت (سابقہ بیوی) کو اپنی زوجیت میں لانے کا حق رکھتا ہے۔ درج ذیل اقسام کے علاوہ باقی صورتوں میں طلاق رجعی ہو گا۔
طلاق بائن
طلاق بائن میں مرد عدّت کے دوران اپنی بیوی سے رجوع نہیں کر سکتا اس کی پانچ قسمیں ہیں:
- اس لڑکی کی طلاق جس کی ابھی 9 سال کامل نہ ہوئی ہو۔
- اس عورت کی طلاق جو یائسہ ہو چکی ہو۔
- اس عورت کی طلاق جس سے نکاح کے بعد شوہر نے ہمبستری نہ کی ہو۔
- اس عورت کی طلاق جسے تین بار طلاق دی گئی ہو۔
- اس عورت کی طلاق جسے "طلاق خُلع یا طلاق مُبارات دی گئی ہو۔
اگر بیوی شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے پر راضی نہ ہو تو شوہر سے اپنی جان چھڑانے کیلئے کچھ مال دی جاتی ہے تاکہ اس کا شوہر اس کے بدلے اسے طلاق دے دے۔ اس صورت میں طلاق کی دو قسم ہے:
- طلاق خُلع
- طلاق مُبارات
طلاق خلع
طلاق خُلع سے مراد یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے نفرت ہو اور اس کے ساتھ زندگی گزارے پر راضی نہیں ہے یوں شوہر سے علیحدگی اختیار کرنے کیلئے شوہر کو کچھ مقدار میں مال دے دیتی ہے تاکہ شوہر اس کے بدلے اسے طلاق دے دے۔
طلاق خلع متحقق ہونے کیلئے درج ذیل شرایط کا ہونا ضروری ہے:
- بیوی کو شوہر سے نفرت ہو؛
- کچھ مقدار میں مال بعنوان فدیہ دی جائے، ممکن ہے فدیہ یک مقدار بیوی کے مہر کے برابر ہو یا اس سے کمتر یا بیشتر۔
- طلاق اگرچہ ایقاع ہے اور اسے کے واقع ہونے کیلئے بیوی کا قبول کرنا شرط نہیں ہے لیکن جب بھی طلاق، خلع کی صورت میں واقع ہو تو چونکہ اس میں طلاق عورت کی طرف سے کچھ مقدرا میں مال کے عوض واقع ہوتی ہے، عقد کی طرح ایجاب و قبول کی ضرورت پڑتی ہے یعنی میاں اور بیوی دونوں کے توافق سے طلاق خلغ متحقق ہوتی ہے۔
اس قسم کی طلاق میں اگر بیوی پشیمان ہو جائے تو فدیہ کی رقم واپس لے سکتی ہے یوں طلاق بائن، طلاق رجعی میں تبدل ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں شوہر کو بھی عدّت کے دوران دوباہ رجوع کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ طلاق واقع ہونے کے بعد شوہر "فدیہ" کا مالک بن جاتا ہے اور اس میں جس طرح چاہے تصرف کر سکتا ہے، عورت صرف عدّت کے دوران "فدیہ" کو واپس لینے کا حق رکھتی ہے اس صورت میں بھی عورت کو فورا رجوع کرنا ضروری ہے تاکہ مرد طلاق رجعی میں رجوع کرنے کے اپنے حق سے استفادہ کر سکے۔
طلاق مبارات
طلاق مُبارات میں نفرت دونوں طرف سے ہو یعنی میاں بیوی دونوں کو ایک دوسرے سے نفرت ہو اس صورت میں فدیہ کی مقدار مہر سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔
طلاق مبارات بھی طلاق خلع کی طرح دو طرفہ ہے یعنی صرف مرد طلاق مبارات جاری کرے تو کافی نہیں ہے بلکہ بیوی کی طرف سے بھی اس پر رضایت کا اظہار کرنا ضروری ہے۔
عدّت طلاق
طلاق کا صیغہ جاری ہونے کے بعد عورت ایک مدت تک دوسری شادی نہیں کر سکتی اس مدت کو عدّت کہا جاتا ہے۔ یہ مدت مختلف حالات میں مختلف ہو سکتی ہے۔ نیز طلاق رجعی میں مرد عدّت تمام ہونے تک اپنی بیوی کو گھر سے نہیں نکال سکتا کرنا اور اس دوران مرد نکاح بغیر دوبارہ بیوی کی طرف رجوع کرکے اسے اپنی زوجیت میں لا سکتا ہے۔
طلاق کا اختیار
فقہ امامیہ میں طلاق دینے کا اختیار صرف اور صرف مرد کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اگرچہ بعض مواقع یہ قانون مردوں کی راجداری کا باعث بنتا ہے اور مرد مشترک زندگی میں اس کے ذریعے عورت پر سختیاں ایجاد کرتا ہے۔ عقد کے دوران اگر بیوی چاہے تو شوہر کو اس بات پر راضی کر سکتی ہے کہ خاص شرائط کے ساتھ عورت شوہر سے اپنے آپ کو طلاق دینے کا مطالبہ کرے اگر شوہر عقد کے ضمن میں اسے قبول کر لے تو معین شرائط کے ساتھ عورت شوہر سے طلاق کا تقاضا کر سکتی ہے۔ وہ شرائط درج ذیل ہیں
- شوہر چھ مہینے تک بیوی کا نفقہ (خرچہ) اور دیگر واجب حقوق ادا نہ کرے۔
- شوہر کا بیوی بچوں کے ساتھ غیر قابل تحمل بد سلوکی۔
- شوہر کسی ایسی غیر قابل علاج بیماری میں مبتلا ہو جائے جس سے بیوی کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہو
- شوہر ایسے وقت میں دیوانہ ہو جائے جس میں نکاح فسخ کرنا ممکن نہ ہو۔
- شوہر کا کسی ایسے کام میں مشغول ہونا جو بیوی یا اس کے خاندان کی آبرو ریزی کا باعث ہو۔
- شوہر کو پانج سال سے زیادہ قید کی سزا سے محکوم ہونا۔
- شوہر کسی ایسی چیز کا عادی ہو جائے جس سے خاندانی بنیادوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو مثلا یہ کہ عادت کی وجہ سے بیکار ہو جائے اور گھریلو سامان وغیرہ بھیجنے پر مجبور ہ جائے۔
- شوہر کا بغیر کسی وجہ کے بیوی بچوں کو ترک کرنا یا چھ ماہ سے زیادہ کسی عذر موجہ کے غائب رہنا۔
- شوہر کسی بھی ایسی سزا کا مستحق ہونا جس سے بیوی کی آبرو خطره میں پڑے۔
- پانچ سال کے بعد بھی شوہر بچہ دار نہ ہو سکتا ہو۔
- شوہر کا طولانی مدت تک غائب رہنا یا اصلا اس کا کوئی پتہ نہ ملے۔
- شوہر کا بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرنا۔
چنانچہ مرد نے عقد کے وقت طلاق کا حق بیوی کو دیا ہو تو بیوی بغیر کسی شرط کے بھی طلاق اور مہر کا تقاضا کر سکتی ہے۔
حوالہ جات
- ↑ فرہنگ معاصر عربی-فارسی، ص۴۰۲.
- ↑ . جواہر الکلام، ج ۳۲، ص۲
- ↑ بررسی حقوق زنان در مسالہ طلاق، ص۲۳-۲۰.
- ↑ رسولُ اللّہ(ص): ما أحَلَّ اللّہ ُ شیئا أبغَضَ إلَیہ مِن الطَّلاقِ (ترجمہ: خداوندعالم نے طلاق سے زیادہ منفور شئ کو حلال نہیں فرمایا ہے۔) کنزالعمال ۲۷۸۷۱
- ↑ روض الجنان ج۴ ص۷۸
- ↑ نساء آیہ ۱۹.
- ↑ نساء آیہ ۳۵
- ↑ نساء آیہ ۱۳۰.
- ↑ لمعۃ الدمشقیہ، ج ۲، ص۳۸۷.
- ↑ لمعۃ الدمشقیہ، ج ۲، ص۳۸۷.
- ↑ جواہر الکلام، ج ۳۲، ص۴ و ۵۶.
- ↑ جواہر الکلام، ج ۳۲، ص۴ و ۵۶.
- ↑ جواہر الکلام، ج ۳۲، ص۴ و ۵۶.
- ↑ تحریر الوسیلہ، ج ۲، ص۴۴۱.
مآخذ
- محمد بن جمال الدین محمد عامل، لمعۃ الدمشقیہ، چاپ قم، موسسہ اسماعیلیان، ۱۳۷۵ش.
- نجفی، شیخ محمد حسن، جواہر الکلام، تصحیح محمد قوچانی، چاپ بیروت، ۱۹۸۱م.
- امام خمینی، تحریر الوسیلہ، چاپ قم، موسسہ اسماعیلیان، ۱۴۰۸ق.
- آذرتاش آذرنوش، فرہنگ معاصر عربی-فارسی، نشر نی، ۱۳۸۵ش.
- امامی و صفایی، حقوق خانوادہ، انتشارات دانشگاہ تہران.
- گواہی، زہرا، بررسی حقوق زنان در مسالہ طلاق.