مندرجات کا رخ کریں

قبور پر عمارت بنانا

ویکی شیعہ سے

قبروں پر عمارت بنانا سے مراد قبور ہر قسم کی تعمیرات ہے جیسے ان پر گنبد بنانا، ضریح بنانا اور مسجد بنانا وغیرہ۔ علمائے اسلام کی اکثریت قبروں پر عمارت بنانے کو جائز اور مشروع سمجھتی ہے۔ وہ اس سلسلے میں پیغمبر اکرمؐ، صحابہ اور تابعین کی سیرت کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں؛ لیکن وہابیوں کے نزدیک اس عمل کو بدعت اور شرک سمجھا جاتا ہے، اسی لیے انہوں نے ان عمارتوں کے مسمار کرنے کا فتویٰ دیا ہے جو قبور کے اوپر تعمیر کی گئی ہیں۔

وہابیوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں، شیعوں کے اماموں اور بزرگانِ دین کی قبور پر تعمیر کی گئی عمارتوں کو منہدم کیا۔ جن میں قبورِ بقیع خاص طور پر نمایاں ہیں۔ اسی طرح سنہ 1216 ہجری میں انہوں نے کربلا پر حملہ کیا، جہاں حرم امام حسینؑ اور حرم حضرت عباسؑ کو مسمار کر کے ان کے اموال، ذخائر اور قیمتی اشیاء کو لوٹ لیا گیا۔

مفہوم اور اہمیت

مدینہ میں پیغمبر اکرمؐ کا مرقد مطہر

قبروں پر عمارت بنانے سے مراد قبور پر بنائے جانے والی ہر قسم کی تعمیرات ہیں جیسے گنبد بنانا، بارگاہ (بقعہ) بنانا، گھر بنانا، ضریح بنانا اور مسجد وغیرہ بنانا۔[1] قبروں پر عمارت سازی، خاص طور پر انبیاء، بندگان صالح اور اولیائے الٰہی کی قبور پر، ان موضوعات میں سے ہے جن پر آج (پندرہویں صدی ہجری) میں وہابیوں کے ہاں خاص حساسیت پائی جاتی ہے۔ وہ دوسرے مسلمانوں، خصوصاً شیعوں کو اس عمل کے سبب تنقید اور ملامت کا نشانہ بناتے ہیں۔[2] اسی وجہ سے اسلام کی نظر میں اس عمل کی مشروعیت اور جواز کا موضوع علما اور محققین کے درمیان خاص طور پر بحث و تحقیق کا مرکز رہا ہے۔[3]

قبروں پر عمارت سازی کا تاریخی پس منظر

کہا جاتا ہے کہ قبروں پر عمارتیں تعمیر کرنا، اسلام کے ظہور کے بعد سے ہی مسلمانوں کی عملی سیرت رہا ہے اور اس پر نہ تو رسول اکرمؐ، نہ صحابہ کرام اور نہ ہی تابعین نے اعتراض کیا ہے۔[4] مثال کے طور پر مورخین نے لکھا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے فاطمہ بنت اسد کو مسجد کے ایک حصے میں دفن کیا، جو بعد میں تاریخ اسلام میں "قبر فاطمہ" کے نام سے مشہور ہوا۔[5] اسی طرح صدر اسلام میں، صلح حدیبیہ کے قریب، سب سے پہلی عمارت یا مسجد ابوجُندُل نے ابوبصیر صحابی کی قبر پر بنائی تھی اور پیغمبر اکرمؐ کو اس کی اطلاع ہونے کے باوجود آپؐ نے اس عمل سے منع نہیں کیا۔[6]

مقبرہ سلمان فارسی

پیغمبر اکرمؐ کی تدفین بھی آپؐ کے اپنے گھر یعنی حجرۃ النبی میں ہوئی اور آپؐ کے وصال کے ابتدائی سالوں ہی سے مسلمانوں اور خلفا نے اس گھر کو محفوظ رکھنے اور اس کی تعمیر پر توجہ دی۔[7] یہی معاملہ صحابہ اور تابعین کے زمانے میں بھی جاری رہا اور قبروں پر عمارتیں بنانا مسلمانوں میں ایک عام رواج رہا۔ مثال کے طور پر منقول ہے کہ عقیل بن ابی‌ طالب نے اپنے گھر میں ایک کنواں کھودا۔ کھدائی کے دوران ایک پرانی قبر ظاہر ہوئی جو حبیبہ بنت صخر بن حرب کی تھی۔ عقیل نے وہ کنواں مٹی سے بھر دیا اور اس پر ایک عمارت تعمیر کر دی۔[8]

مصر کے شافعی عالم دین سمہودی (وفات: 911ھ) بیان کرتے ہیں کہ حمزۃ بن عبد المطلب کے مزار پر ایک خوبصورت اور مضبوط گنبد بنا ہوا تھا جس کا دروازہ لوہے کا تھا۔ یہ گنبد خلافت الناصر لدین اللہ کے دور میں بنایا گیا تھا۔[9]

اسی طرح کہا جاتا ہے کہ اہل سنت کے چاروں ائمہ فقہ کے مزارات پر بھی گنبد اور عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں۔ تاریخ نگاروں کے مطابق بغداد میں حنفی مذہب کے امام ابو حنیفہ (وفات: 150ھ) کے مزار پر چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں گنبد اور بارگاہ تعمیر کی گئی۔[10] اسی طرح بقیع میں مالک بن انس (وفات: 179ھ)،[11] مصر میں شافعی مذہب کے پیشوا محمد بن ادریس شافعی (وفات: 150ھ)[12] اور بغداد میں احمد بن حنبل (وفات: 241ھ) کے مزاروں پر بھی گنبد بنایا گیا ۔[13]

جعفر سبحانی کے مطابق،[14] ان تمام تاریخی نمونوں کے باوجود، اسلام کی تاریخ میں سب سے پہلے ابن تیمیہ حرانی اور اس کے شاگرد ابن قیم جوزی وہ لوگ تھے جنہوں نے قبروں پر عمارت سازی کی مخالفت کی اور اس کے حرام ہونے اور ان عمارتوں کو منہدم کرنے کا فتویٰ جاری کیا۔[15]

علمائے اسلام کا نظریہ

وہابیوں کے حملوں کے نتیجے میں مسمار ہونے سے پہلے مزارات بقیع کا منظر

وہابیوں کے سوا تمام علمائے اسلام قبور پر عمارت بنانے کو جائز اور مشروع سمجھتے ہیں اور اس کی مشروعیت کے اثبات میں درج ذیل دلائل پیش کرتے ہیں:

  • سورہ کہف کی آیت 21 میں آیا ہے کہ جب لوگوں کو اصحاب کہف کے حالات کا علم ہوا اور اُن کے اجساد کو غار میں دیکھا، تو مشرکین کے ایک گروہ نے یہ تجویز دی کہ اس غار کو بند کر دیا جائے تاکہ یہ واقعہ جو قیامت کے حق ہونے کی دلیل تھا؛ فراموش ہو جائے۔ لیکن مؤمنین نے اس کے برعکس اُن کی قبروں پر ایک مسجد تعمیر کی تاکہ اُن کی یاد باقی رہے اور یہ جگہ لوگوں کے لیے عبادت اور زیارت کا مرکز بن گئی۔[16] بعض علما نے اس آیت سے قبروں پر عمارت بنانے کی مشروعیت پر استدلال کیا ہے۔[17]
  • پیغمبروں اور اولیائے خدا کی قبروں پر عمارتیں بنانا اور انہیں فنا و نابودی سے محفوظ رکھنا، تعظیم شعائر میں شمار ہوتا ہے جس کی قرآن کی اس آیت میں تاکید کی گئی ہے؛ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّہِ فَإِنَّہَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ۔[18]
  • رسول اکرمؐ اور ابتدائے اسلام کے مسلمانوں کی عملی سیرت سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قبروں پر عمارت بنانا مشروع اور جائز ہے۔[19] حاکم نیشابوری نے اپنی کتاب المستدرک علی الصحیحین میں اُن روایات کے ذیل میں لکھا ہے جن میں قبروں پر عمارت بنانے سے منع کیا گیا ہے، کہ ان روایات پر عمل نہیں کیا جائے گا، کیونکہ عملاً مسلمانوں کے پیشواؤں نے قبروں پر عمارتیں بنائی ہیں اور بعد کے علما نے بھی اسی پر عمل کیا۔[20]
  • بعض علما نے قبروں پر عمارت بنانے کی مشروعیت اور جواز کو علما کا اجماعی مسئلہ قرار دیا ہے۔[21]
  • شیعہ روائی مآخذ میں بھی ایسی روایات نقل ہوئی ہیں جو خاص طور پر پیغمبروں اور اولیائے خدا کی قبروں پر عمارت سازی کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر روایت ہے کہ امام جعفر صادقؑ نے اپنے ایک صحابی، صفوان جَمّال، کو کچھ رقم دی تاکہ وہ حضرت علیؑ کی قبر کی تعمیر ا ور اس کی مرمت کریں۔[22]

وہابیوں کا نقطہ نظر

جنت البقیع میں ائمہ بقیع کی مسمار شدہ قبور کا منظر

وہابی علما ابن تیمیہ[23] کی پیروی کرتے ہوئے قبروں پر عمارت بنانے کے سخت مخالف ہیں اور اس عمل کو بدعت اور شرک قرار دیتے ہیں۔[24]وہ اپنی اس رائے کے لیے ان روایات سے استدلال کرتے ہیں جن میں رسول اکرمؐ نے قبروں پر مسجد بنانے سے منع فرمایا ہے۔[25] تاہم اس کے جواب میں علما نے کہا ہے کہ یہ روایات قبروں پر عمارت بنانے کو حرام یا بدعت ثابت نہیں کرتیں؛ بلکہ ان سے زیادہ سے زیادہ مکروہ ہونے کا حکم اخذ کیا جا سکتا ہے؛[26] اسی وجہ سے فقہائے مذاہب اسلامی نے بھی اسے صرف مکروہ قرار دیا ہے، مگر ساتھ ہی یہ بھی وضاحت کی ہے کہ پیغمبروں، اولیا اور اوصیاے الٰہی کی قبروں پر عمارت بنانے کو اس کراہت سے مستثنیٰ سمجھا گیا ہے۔[27] بعض فقہا نے حتیٰ کہ علمائے دین کی قبروں پر عمارت بنانے کو بھی مکروہ نہیں سمجھا ہے۔[28]

وہابیوں کے ہاتھوں قبور کی تخریب

وہابی فقہا نے نہ صرف قبروں پر عمارت سازی کو حرام اور بدعت قرار دیا ہے بلکہ ان عمارتوں کو منہدم کرنے کا بھی فتویٰ دیا اور اس فتوا پر عمل بھی کیا گیا۔ وہ پہلی بار سنہ 1220ھ [29] اور پھر دوسری بار 8 شوال سنہ 1344ھ کو قبرستان بقیع پر حملہ آور ہوئے۔ ان حملوں میں حضرت فاطمہ زہراؑ سے منسوب گنبد (بیت الاحزان) سمیت تمام تاریخی آثار اور بقعے منہدم کر دیے گئے اور حتیٰ کہ حرم نبوی کو بھی نقصان پہنچایا۔[30]

حرم امامین عسکریَّین پر سلفی انتہا پسند گروہوں کا حملہ، جس کے نتیجے میں حرم کو نقصان پہنچا اور گنبد کو مسمار کر دیا گیا

اسی طرح، سنہ 1216ھ میں عید غدیر کے دن، وہابیوں نے کربلا پر حملہ کیا[31] اور حرم امام حسینؑ اور حرم حضرت عباسؑ کو منہدم کیا اور ان کے اموال، ذخائر اور قیمتی اشیا کو لوٹ لیا۔[32]

بعد کے ادوار میں بھی اس نوعیت کے حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔ سنہ 2000ء اور 2002ء میں وہابی فکر رکھنے والے تکفیری دہشتگردوں نے حرم عسکریین کو بم دھماکوں کا نشانہ بنایا۔ ان دھماکوں کے نتیجے میں حرم عسکریین کی زریں اینٹوں والی دیوار، دیواروں کی کاشی کاری اور گلدستے تباہ ہو گئے۔[33]

مونو گرافی

اگرچہ وہابیت پر لکھے گئے بعض مطالعاتی و تحقیقی آثار میں قبروں پر عمارت بنانے کے مسئلے پر بحث کی گئی ہے،[34] لیکن اس موضوع پر مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں:

  • کتاب "إحیاء القبور من أدلۃ جواز بناء المساجد علی القبور"؛ مصنف: اہل سنت عالم دین احمد غمار حسنی (وفات: 1380ھ)۔ اس کتاب میں مصنف نے قبروں پر عمارت سازی کے بارے میں وہابیوں کے دلائل ذکر کیے ہیں اور پھر ان کا علمی رد پیش کیا ہے۔[35]
  • کتاب "البناء علی القبور؛ شرع أم خرافۃ؟؛ مصنف: سید حسن طاہری خرم آبادی۔ اس کتاب میں وہابیوں کے دلائل کو رد کیا گیا ہے[36] اور اسلام میں قبروں پر عمارت بنانے کی مشروعیت کے دلائل بیان کیے گئے ہیں۔[37]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. شربینی، مغنی المحتاج، 1421ھ، ج1، ص364۔
  2. سبحانی، آیین وہابیت، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ص38۔
  3. سبحانی، آیین وہابیت، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ص92-93۔
  4. رضوانی، وہابیت و مسئلہ قبور، 1390شمسی، ص32۔
  5. سمہودی، وفاء الوفاء، 1374ھ، ج3، ص3۔
  6. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، 1426ھ، ج16، ص182؛ غماری حسنی، احیاء المقبور من ادلۃ جواز بناء المساجد علی القبور، 1429ھ، ص69۔
  7. ملاحظہ کیجیے: سمہودی، وفاء الوفاء، 1374ھ، ج2، ص109-110؛ امین، کشف الارتیاب، 1411ھ، 315-316۔
  8. نمیری بصری، تاریخ المدینۃ، 1410ھ، ج1، ص120۔
  9. سمہودی، وفاء الوفاء، 1374ھ، ج3، ص104۔
  10. ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک، 1412ھ، ج16، ص100؛ ابن بطوطہ، تحفۃ النظار فی غرائب الامصار و عجائب الاسفار: رحلۃ ابن بطوطۃ،‌ دار الشرق العربی، ج1، ص172۔
  11. ابن جبیر، الرحلۃ، دار بیروت للطباعۃ و النشر، ص173؛ ابن بطوطہ، تحفۃ النظار فی غرائب الامصار و عجائب الاسفار: رحلۃ ابن بطوطۃ،‌ دار الشرق العربی، ج1، ص65۔
  12. ابن بطوطہ، تحفۃ النظار فی غرائب الامصار و عجائب الاسفار: رحلۃ ابن بطوطۃ،‌ دار الشرق العربی، ج1، ص25۔
  13. ابن بطوطہ، تحفۃ النظار فی غرائب الامصار و عجائب الاسفار: رحلۃ ابن بطوطۃ،‌ دار الشرق العربی، ج1، ص173۔
  14. سبحانی، آیین وہابیت، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ص38۔
  15. ابن‌تیمیہ، منہاج السنۃ، 1406ھ، ج1، ص478؛ ابن‌تیمیہ، مجموعۃ الرسائل و المسائل، لجنۃ التراث العربی، ج1، ص59-60؛ ابن‌قیم جوزی، زاد المعاد، 1415ھ، ج3، ص443۔
  16. ملاحظہ کیجیے: طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص328؛ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج13، ص265-267؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج12، ص382۔
  17. برای نمونہ نگاہ کنید بہ غماری، إحیاء المقبور من أدلۃ بناء المساجد على القبور، 1429ھ، ص21-22؛ سبحانی، آیین وہابیت، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ص45۔
  18. سبحانی، الوہابیۃ فی المیزان، 1385شمسی، ص33-37؛ سبحانی، آیین وہابیت، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ص43-44۔
  19. ملاحظہ کیجیے: حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج1، ص525؛ ابن‌حجر ہیتمی، الفتاوی الفقہیۃ الکبری، المكتبۃ الإسلامیۃ، ج2، ص16؛ طاہری خرم‌آبادی، البناء علی القبور شرع ام خرافۃ؟، 1430ھ، ص61۔
  20. حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج1، ص525۔
  21. حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج1، ص525؛ امین، کشف الارتیاب، 1411ھ، ص288۔
  22. علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج100، ص280۔
  23. امین، کشف الارتیاب، 1411ھ، ص286۔
  24. ملاحظہ کیجیے: ابن‌باز، مجموع فتاوی، دار القاسم للنشر، ج13، ص237؛ قفاری، أصول مذہب الشیعۃ الإمامیۃ الإثنی عشریۃ (عرض و نقد)، 1414ھ، ج2، ص481۔
  25. ملاحظہ کیجیے: مسلم، صحیح مسلم، 1412ھ، ج2، ص666-667؛ بخاری، صحیح بخاری، 1410ھ، ج1، ص291۔
  26. طاہری خرم‌آبادی، البناء علی القبور؛ شرع ام خرافۃ، 1430ھ، ص43-45؛ جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، 1427ھ، ج32، ص250۔
  27. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج2، ص127-128؛ طاہری خرم‌آبادی، البناء علی القبور؛ شرع ام خرافۃ، 1430ھ، ص43-45؛ جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، 1427ھ، ج32، ص250۔
  28. ملاحظہ کیجیے: ہیتمی، الفتاوی الفقہیۃ الکبری، المكتبۃ الإسلامیۃ، ج2، ص17۔
  29. جبرتی، عجائب الآثار،‌ دار الجیل، ج3، ص91۔
  30. جبرتی، عجائب الآثار،‌ دار الجیل، ج3، ص91؛ ماجری، البقیع قصۃ التدمیر، 1411ھ، ص113-139؛ امینی، بقیع الغرقد، 1386شمسی، ص49۔
  31. طعمہ، تراث کربلاء، 1393شمسی، ص116۔
  32. طعمہ، سلمان‌ہادی، تاریخ مرقد الحسین و العباس، 1416ھ، ص263۔
  33. صحتی سردرودی، گزیدہ سیمای سامرا، 1388شمسی، ص68؛ خامہ‌یار، تخریب زیارتگاہ‎‌ہای اسلامی در کشورہای عربی، 1393شمسی، ص29 و 30۔
  34. برای نمونہ نگاہ کنید بہ امین، کشف الارتیاب، ص286؛ سبحانی، آیین وہابیت، ص38؛ سبحانی، الوہابیۃ فی المیزان، ص29۔
  35. غمار حسنی، إحیاء المقبور، ص17۔
  36. طاہری خرم‌آبادی، البناء علی القبور؛ شرع أم خرافۃ؟، 1430ھ، ص16۔
  37. طاہری خرم‌آبادی، البناء علی القبور؛ شرع أم خرافۃ؟، 1430ھ، ص51۔

مآخذ

  • ابن بطوطہ، محمد بن عبداللہ، تحفۃ النظار فی غرائب الامصار و عجائب الاسفار: رحلۃ ابن بطوطۃ،‌ بی‌جا، دار الشرق العربی، بی‌تا۔
  • ابن جبیر، محمد بن احمد، الرحلۃ، بیروت،‌ دار بیروت للطباعۃ و النشر، بی‌تا۔
  • ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، 1412ھ۔
  • ابن‌باز، عبدالعزیز، مجموع فتاوی، ریاض، دار القاسم للنشر، بی‌تا۔
  • ابن‌تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، مجموعۃ الرسائل و المسائل، تحقیق سیدمحمد رشیدرضا، بی‌جا، لجنۃ التراث العربی، بی‌تا۔
  • ابن‌تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، منہاج السنۃ، بی‌جا، جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ، 1406ھ۔
  • ابن‌حجر ہیتمی، احمد بن محمد، الفتاوی الفقہیۃ الکبری، بی‌جا، المكتبۃ الإسلامیۃ، بی‌تا۔
  • ابن‌قیم جوزی، محمد بن ابوبکر، زاد المعاد فی ہدی خیر العباد، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1415ھ۔
  • امین، سیدمحسن، کشف الارتیاب، بیروت، بی‌نا، 1411ھ۔
  • امینی، محمدامین، بقیع الغرقد، تہران، مشعر، 1386ہجری شمسی۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، دمشق، دار طوق النجاۃ، 1410ھ۔
  • جبرتی، عبدالرحمان، عجائب الآثار، بیروت،‌ دار الجیل، بی‌تا۔
  • جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، کویت، وزارۃ الاوقاف و الشئون الاسلامیۃ، 1427ھ۔
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، دار الكتب العلمیۃ، چاپ اول، 1411ھ۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، تصحیح سید محمدرضا حسینی جلالی، قم، مؤسسہ آل البیت، 1416ھ۔
  • خامہ‌‎یار، احمد، تخریب زیارت‌گاہ‎‌ہای اسلامی در کشورہای عربی، قم، دارالإعلام لمدرسۃ اہل‌‎البیت(ع)، 1393ہجری شمسی۔
  • رضوانی، علی‌اصغر، وہابیت و مسئلہ قبور، تہران، نشر مشعر،1390ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، آیین وہابیت، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، بی‌تا۔
  • سبحانی، جعفر، الوہابیۃ فی المیزان، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1385ہجری شمسی۔
  • سمہودی، علی بن عبداللہ، وفاء الوفاء، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1374ھ۔
  • شربینی، محمد بن احمد، مغنی المحتاج، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1421ھ۔
  • صحتی سردرودی، محمد، گزیدہ سیمای سامرا سینای سہ موسی، مشعر، تہران، 1388ہجری شمسی۔
  • طاہری خرم‌آبادی، سیدحسن، البناء علی القبور شرع ام خرافۃ؟، قم، مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی، 1430ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1393ھ۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1417ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1415ھ۔
  • طعمہ، سلمان ہادی، تراث کربلاء، تہران، نشر مشعر، 1393ہجری شمسی۔
  • طعمہ، سلمان‌ہادی، تاریخ مرقد الحسین و العباس، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1416ھ۔
  • عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، قم، مؤسسہ علمی فرہنگی دار الحديث، 1426ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، 1403ھ۔
  • غماری حسنی، احمد، احیاء المقبور من ادلۃ جواز بناء المساجد علی القبور، قاہرہ، مکتبۃ القاہرۃ، 1429ھ۔
  • قفاری، ناصر بن عبداللہ، أصول مذہب الشیعۃ الإمامیۃ الإثنی عشریۃ (عرض و نقد)، بی‌جا، بی‌نا، 1414ھ۔
  • ماجری، یوسف، البقیع قصۃ التدمیر، بیروت، مؤسسۃ بقیع لاحیاء التراث، 1411ھ۔
  • مسلم، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، قاہرہ، دار الحدیث، 1412ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1374ہجری شمسی۔
  • نمیری بصری، عمر بن شبۃ، تاریخ المدینۃ، بی‌جا، انتشارات دار الفکر، 1410ھ۔