فاطمہ بنت اسد (ولادت 55 سال قبل از ہجرت وفات سن 4 ہجریامام علی(ع) کی والدہ ماجدہ اور ابو طالب علیہ السلام کی زوجہ تھیں جبکہ ان کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت ہرم بن رواحہ ہے۔[1] فاطمہ بنت اسد، خواتین میں دوسری خاتون ہیں جو رسول اللہ(ص) پر ایمان لائیں، پہلی خاتون ہیں جنہوں نے رسول اللہ(ص) کے ہاتھ پر بیعت کی اور مردوں اور خواتین میں گیارہویں فرد تھیں جو رسالت محمدیہ پر ایمان لائیں۔

تصویر "مولود کعبہ، تخلیق محمود فرشچیان
فاطمہ بنت اسد ولادت علی(ع) کے بعد کعبہ سے نکلتے وقت

پیغمبر اسلام(ص) کی سرپرستی

پیغمبر اسلامؐ نے فاطمہ بنت اسد کی شان میں فرمایا

بے شک وہ میری ماں تھیں؛ کیونکہ وہ اپنے بچوں کو بھوکا رکھتی تھیں اور مجھے کھانا کھلاتی تھیں، اور انہیں گرد آلود چھوڑ دیتی تھیں جبکہ مجھے نہلاتی اور آراستہ رکھتی تھیں؛ حقیقت ہے کہ وہ میری ماں تھیں۔

مآخذ، آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص 49.

چونکہ رسول اللہ(ص) ایام طفولت میں ہی والدین اور جد امجد حضرت عبدالمطلب کے سایے سے محروم ہوئے تھے چنانچہ آپ(ص) کو 8 سال کی عمر سے اپنے چچا حضرت ابو طالب کی سرپرستی حاصل ہوئی۔[2] فاطمہ بنت اسد ابو طالب کی زوجہ ہونے کے ناطے رسول اللہ(ص) کی سرپرستی میں شریک تھیں۔ پیغمبر اکرم(ص) کی نسبت فاطمہ بنت اسد کی مہربانی اور شفقت اس حد تک تھی کہ جب ان کا انتقال ہوا تو آنحضور(ص) نے فرمایا: "آج میری ماں رحلت کر گئیں"۔ آپ(ص) نے اپنا پیراہن بطور کفن فاطمہ بنت اسد کو پہنایا اور ان کی قبر میں اترے اور لحد میں لیٹے اور جب کہنے والے نے کہا کہ "اے رسول خدا(ص) آپ اس قدر بےچین کیوں ہوئے ہیں؟" تو آپ(ص) نے فرمایا: "وہ بےشک میری ماں تھیں؛ کیونکہ وہ اپنے بچوں کو بھوکا رکھتی تھیں اور مجھے کھانا کھلاتی تھیں، اور انہیں گرد آلود چھوڑ دیتی تھیں جبکہ مجھے نہلاتی اور آراستہ رکھتی تھیں؛ حقیقت ہے کہ وہ میری ماں تھیں۔[3]

ولادت فرزند کعبہ میں

فاطمہ بنت اسد کو امام علی(ع) کی پیدائش کے وقت درد زہ لاحق ہوا تو انھوں نے کعبہ کے پاس پہنچ کر اللہ پر اپنے ایمان کا اقرار و اظہار کیا اور اللہ سے التجا کی کہ یہ درد ان کے لئے آسان کردے۔[4] دیوار کعبہ میں شگاف پڑ گیا اور فاطمہ کعبہ کے اندر چلی گئیں او رتین روز تک کعبہ میں رہنے کے بعد چوتھے روز یعنی "تیرہ رجب" 30 سال بعد از عام الفیل، کعبہ سے باہر آئیں جبکہ بیٹا امام علی(ع) کو آغوش میں لئے ہوئے تھیں۔[5]

دوسری مسلم خاتون

مسلمانوں میں وہ گیارہویں[6] اور خواتین میں زوجۂ رسول(ص) حضرت خدیجہ(س) کے بعد دوسری خاتون تھیں جنہوں نے اسلام قبول کیا۔[7]

ہجرت

پہلی خاتون جنہوں نے علی(ع) کی معیت میں مکہ سے مدینہ ہجرت کی، فاطمہ بنت اسد تھیں۔ امام صادق(ع) فرماتے ہیں: "امیرالمؤمنین(ع) کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد پہلی خاتون تھیں جنہوں نے پائے پیادہ مکہ سے مدینہ رسول اللہ(ص) کی طرف ہجرت کی۔ وہ رسول اللہ(ص) کی نسبت نیک سیرت ترین خاتون تھیں"۔[8]

رسول اللہ(ص) کے ہاتھ پر بیعت کرنے والی پہلی خاتون

فتح مکہ کے بعد، جب رسول اللہ(ص) کوہ صفا پر کھڑے ہوئے تھے اور مردوں سے بیعت لی تو مکہ کی خواتین بھی ـ جو اسلام قبول کرچکی تھیں ـ بیعت کے لئے آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ اسی وقت سورہ ممتحنہ کی آیت 12 نازل ہوئی[9] جس میں آپ(ص) سے فرمایا گیا:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئاً وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔
ترجمہ: اے پیغمبر! جب آپ کے پاس ایمان لانے والی عورتیں بیعت کرنے کے لئے آئیں، ان شرائط پر کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گی اور چوری نہیں کریں گی اور زناکاری نہیں کریں گی اور اپنی اولاد کی جان نہیں لیں گی اور کوئی بہتان نہیں باندھیں گی اپنے ہاتھوں اور پیروں کے بیچ میں اور آپ کے احکام کی جو نیکی کے ساتھ ہوں گے نافرمانی نہیں کریں گی تو ان سے بیعت لے لیجئے اور ان کے لئے اللہ سے دعائے مغفرت کیجئے۔ یقینا اللہ بخشنے والا ہے، بڑا مہربان۔

ابن ابی الحدید کہتے ہیں: "فاطمہ بنت اسد پہلی خاتون تھیں جنہوں نے پیغمبر(ص) کے ہاتھ پر بیعت کی[10] ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ آیت فاطمہ بنت اسد کی شان میں نازل ہوئی ہے۔[11]

اولاد

فاطمہ بنت اسد کئی فرزندوں کی ماں ہیں: طالب، عقیل، جعفر، علی بن ابی طالب(ع)، ہند یا ام ہانی، جمانہ، ریطہ یا ام طالب اور اسماء۔[12]

وفات

ابن جوزی کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت اسد چوتھی صدی ہجری میں مدینہ میں دنیا سے رخصت ہوئی؛[13] تاہم اگر وہ روایات کے مطابق، پہلی خاتون ہوں جنہوں نے سورہ ممتحنہ کی بارہویں آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ(ص) کے ہاتھ پر بیعت کی تھی تو وہ واقعہ فتح مکہ کا ہے اور فتح مکہ سنہ آٹھ ہجری میں وقوع پذیر ہوئی ہے لہذا ابن جوزی کی روایت درست نہیں ہو سکتی۔

رسول اللہ(ص) نے اپنے پیراہن سے انہیں کفن دیا[14] اور فرمایا: "[[جبرائیل نے مجھے خبر دی کہ وہ جنتی خاتون ہیں اور خداوند متعال نے ستر ہزار فرشتوں کو حکم دیا ہے کہ ان کی نیابت میں نماز بجا لایا کریں"۔[15] بعدازاں پیغمبر(ص) نے ان پر نماز میت ادا کی اور ان کے جنازے میں شرکت کی حتی کہ میت جنۃ البقیع میں ان کی قبر تک پہنچی۔[16] پیغمبر اسلام(ص) قبر میں اترے اور لحد میں داخل ہوکر لیٹ گئے اور اپنے میت خود اپنے ہاتھ میں لے کر قبر میں رکھ لی۔[17]

حوالہ جات

  1. مجلسی، بحارالانوار، ج35، ص181۔
  2. شهیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، صص37-38۔
  3. ترجمہ تاریخ یعقوبی، صص 368-369؛ بحوالۂ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص49۔
  4. کلینی، الکافی، ج3، ص301۔
  5. امینی، الغدیر، ج6، ص21 ـ 23۔
  6. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص14۔
  7. ابن صباغ مالکی، الفصول المهمّہ، ص31۔
  8. کلینی، الکافی، ج1، ص422۔
  9. طباطبائی، المیزان، ج 19، ص246۔
  10. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج1، ص14۔
  11. ابن جوزی، تذکرة الخواص، ص10۔
  12. مجلسی، ج 19، ص57۔
  13. ابن جوزی، تذکرة الخواص، ص6۔
  14. المتقی الهندی، کنزالعمال، ج6، ص228۔
  15. حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص108۔
  16. اسکداری، ترغیب اهل المودة و الوفاء، ص94۔
  17. ابن شبہ نمیری، تاریخ المدینہ، ج 1، ص124۔

مآخذ

  • آیتی، محمد ابراہیم، تاریخ پیامبر اسلام، تجدید نظر و اضافات از: ابو القاسم گرجی، تہران: انتشارات دانشگاہ تہران، 1378 ہجری شمسی۔
  • ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، تحقیق : محمد أبو الفضل إبراہیم، دار إحیاء الکتب العربیہ - عیسی البابی الحلبی وشرکاہ، 1378 ہجری قمری- 1959 عیسوی۔
  • ابن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرة الخواص، مکتبہ الثقافۃ الدینیۃ، قاهرہ.
  • ابن شبہ نمیری، تاریخ المدینہ، تحقیق فہیم محمد شلتوت، دارالفکر، قم.
  • ابن صباغ مالکی، الفصول المهمّہ، دارالحدیث، قم.
  • اسکداری، ترغیب اہل المودة و الوفاء تحقیق عادل ابو المنعم ابوالعباس، مکتبۃ الثقافہ، مدینہ منورہ.
  • امینی، الغدیر، دارالکتاب العربی، بیروت.
  • شہیدی، سید جعفر، تاریخ تحلیلی اسلام، تہران: مرکز نشر دانشگاہی، 1390 ہجری شمسی۔
  • حاکم نیشابوری، المستدر ک علی الصحیحین، تصحیح عبد السلام بن محمد علّوش، دار المعرفہ، بیروت.
  • طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، اسماعیلیان، 1371 ہجری شمسی۔
  • کلینی، کافی، تصحیح علی اکبر غفاری، دار الکتب الاسلامیہ، تہران.
  • مجلسی، بحار الانوار، الوفاء، بیروت.
  • متقی الہندی، کنزالعمال، الرسالہ، بیروت.
  • یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، بیروت.