انہدام جنت البقیع

ویکی شیعہ سے
قبرستان بقیع انہدام سے پہلے

انہدام جنت البقیع ان واقعے کی طرف اشارہ ہے جس میں وہابیوں نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کرکے وہاں موجود قبرستان بقیع اور اس پر بنائے گئے مختلف بارگاہوں کو مسمار کر دیا۔ ان بارگاہوں میں امام حسنؑ، امام سجادؑ، امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے مزارات شامل ہیں۔ وہابیوں کے ہاتھوں جنت البقیع دو بار تخریب ہوئی؛ پہلی مرتبہ سنہ 1220ھ میں اور دوسری مرتبہ سنہ 1344ھ میں۔ یہ کام انہوں نے مدینہ کے 15 مفتیوں کے فتوے کی روشنی میں انجام دیا جس میں قبور پر بارگاہیں بنانے کو بدعت قرار دیتے ہوئے ان کی تخریب کو واجب قرار دیا گیا۔ جنت البقیع کے انہدام پر ایران نے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ایک دن سوگ کا اعلان کیا اور سعودی عرب کی تازہ تاسیس حکومت کو تسلیم کرنے میں تین سال کی تأخیر لگا دی۔ شیعیان جہان ہر سال 8 شوال کو "یوم انہدام جنۃ البقیع" مناتے ہوئے اس کام کی پر زور مذمت اور سعودی عرب کی موجودہ حکومت سے اس قبرستان کی فی الفور تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں۔

تخریب کے بعد جنت البقیع ایک ہموار زمین میں تبدیل ہو گئی ہے لیکن شیعوں کے چار اماموں کے قبور کی جگہ اب بھی قابل تشخیص ہیں۔ شیعہ علماء اور ایرانی حکومت کی جانب سے ائمہ بقیع کے مزارات پر باگاہوں کی تعمیر اور جنت البقیع کے قبرستان کے ارد گرد چاردیواری کا مطالبہ سعودی عرب کی جانب سے تسلیم کرنے کے باوجود اب تک عملی نہیں ہو پایا۔

شیعہ علماء نے جنت البقیع کے انہدام پر احتجاج اور اس واقعے کی مذمت کے علاوہ اس پر مختلف کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں مذہبی مقامات کی تخریب کے سلسلے میں وہابیوں کے نظریات پر تنقید کرتے ہوئے وہابیوں کو مذہبی نظریات کی بنیاد پر مذہبی مقامات تخریب کرنے والا پہلا گروہ قرار دیئے ہیں۔ من جملہ ان کتابوں میں سید محسن امین کی کتاب کشف الإرتیاب اور محمد جواد بلاغی کی کتاب دعوۃ الہدی قابل ذکر ہیں۔

قبرستان بقیع

بقیع، جنۃ البقیع یا بقیع الغَرقَد (ظہور اسلام سے پہلے بقیع کا نام[1]) مدینہ کا پہلا اور قدیم اسلامی قبرستان تھا[2] اور احادیث کے مطابق حضرت محمدؐ اس پر خاص توجہ دیتے تھے۔[3] جنت البقیع شیعوں کے چار امام اور بہت سارے صحابہ اور تابعین کا محل دفن ہے۔[4] تخریب سے پہلے ائمہ بقیع اور دیگر اشخاص کے قبور پر بارگاہیں بنی ہوئی تھیں۔[5]

تاریخی شواہد کی بنا پر ائمہ بقیع کے مزارات اور بیت‌ الاحزان سمیت کئی دوسرے قبور پر بنی ہوئی بارگاہیں سنہ 1297ھ تک موجود تھیں[6] اور قبرستان بقیع کی پہلی تخریب اور مدینے میں وہابیوں کے فسادات کے بعد ان بارگاہوں کو سنہ 1234ھ میں سلطنت عثمانیہ کے بادشاہ محمود دوم کے حکم سے دوبارہ تعمیر کیا گیا۔[7]

چنانچہ مراد میرزا(1168-1212ش) جو حسام السلطنہ کے نام سے مشہور تھے، نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کم از کم سنہ 1297ھ تک امام حسنؑ، امام سجادؑ، امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے مزارات پر محراب اور لکڑی کے بنے ہوئے سبز رنگ کی ضریح بنی ہوئی تھی اور حضرت زہرا(س) سے منسوب بیت الاحزان ان قبور کے پیچھے واقع تھا۔[8] ایاز خان قشقایی کے سفر نامے کے مطابق سنہ 1341ھ یعنی بقیع کی مکمل تخریب سے دو سال قبل شیعوں کے چار اماموں کے مزرات ایک ہی بارگاہ کے اندر موجود تھے لیکن ہر ایک کی قبر جداگانہ طور پر مشخص تھی۔[9] اسی طرح وہ پیغمبر اکرم کے صاحبزادے ابراہیم اور عبداللہ بن جعفر طیار کے قبور پر بھی بارگاہیں موجود ہونے کی تائید کرتے ہیں اور قبرستان بقیع کے نزدیک ایک گلی میں پیغمبر اکرمؐ کی پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطلب، عاتکہ بنت عبدالمطلب، ام البنین مادر حضرت عباس اور بنی ہاشم کے کئی دیگر افراد سے منسوب قبور کے مشاہدہ کرنے کی بات بھی کرتے ہیں۔[10]

مکمل تخریب کے بعد

چنانچہ سنہ 1344ھ میں وہابیوں کے ہاتھوں بقیع کی مکمل تخریب کے بعد جدہ میں اس وقت کے ایرانی نمائندے مظفر اعلم نے 14 ربیع الاول سنہ 1370ھ کو حج کمیشن کے نام ایک خط [11] میں لکھا کہ قبرستان بقیع میں موجود ائمہ بقیع کے تمام قبور مسمار ہو چکے ہیں اور بزرگان دین کے قبور قابل تشخیص نہیں ہیں۔[12] لیکن رسول جعفریان معتقد ہیں کہ شیخ عبدالرحیم صاحب فصول حائری کی سعودی عرب کے بادشاہ عبدالعزیز سے ملاقات کے باعث قبرستان بقیع کا کچھ حصہ جہاں ائمہ بقیع کی قبور تھے دوسرے حصوں کی طرح مکمل طور پر ہموار نہیں ہوئی بلکہ ائمہؑ کے قبول اس کے بعد بھی قابل تشخیص تھے۔[13]

قبرستان بقیع اور دیگر اسلامی مقامات کی تخریب کے بعد ایران[14]، افغانستان،[15] اور دوسرے اسلامی ممالک سمیت نجف اشرف،[16] قم اور برصغیر پاک و ہند[17] کے شیعہ علماء کی طرف سے جنت البقیع کی دوبارہ تعمیر نو کیلئے مختلف اقدامات عمل میں آئے لیکن یہ کوششیں اب تک ثمر آور نہ ہو سکیں یہاں تک کہ ائمہ بقیع کے اردگرد دیوار اور سائبان بنانا سعودی عرب حکومت کی موفقت کے باوجود اب تک اس پر کوئی عملی اقدام نہیں ہو پایا ہے۔[18] البتہ قبرستان بقیع کے ارد گرد موجود دیوار ملک فہد بن عبدالعزیز کے زمانے میں دوبارہ تعمیر کی گئی اس کّ بعد سنہ 1418 سے 1419ھ کے دوران اس قبرستان کے اندر قبور کے درمیان زائرین کی رفت و آمد کے راستوں پر پتھر کی فرش بنائی گئی ہے۔[19]

مختلف تاریخی شواہد کی موجود ہیں کہ حالیہ سالوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نامی ادارے سے منسور افراد قبرستان بقیع کے راستوں پر کھڑے ہو کر زائرین کو ان قبور کے نزدیک ہونے اور ان سے متبرک ہونے سے منع کرتے ہیں۔[20] اس وقت ائمہ بقیع سمیت صدر اسلام کے مختلف بزرگان کے قبور پر سوائے چند پتھروں کے ان کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔[21] قبرستان بقیع کی موجودہ حالت اس کے تخریب کے ابتدائی سالوں کی نسبت بہتر ہونے کی اطلاعات ہیں۔[22]

جنت البقیع میں ائمہ بقیع کے مزارات

تخریب کے علل و اسباب

سنہ 1220ھ میں تین سال کے محاصرے اور شہر میں قحطی آثار نمودار ہونے کے بعد وہابیوں نے مدینے پر قبضہ کر لیا۔[23] دستیاب منابع کے مطابق سعود بن عبدالعزیز نے مدینہ پر قابض ہونے کے بعد مسجد نبوی کے خزانوں میں موجود تمام اموال کو ضبط کرتے ہوئے شہر میں موجود تمام بارگاہوں من جملہ قبرستان بقیع کی تخریب کا حکم صادر کیا۔[24] یوں ائمہ بقیع اور حضرت فاطمہ(س) سے منسوب بیت الاحزان کو تخریب یا نقصان پہنچایا۔[25]

اس واقعے کے بعد سلطنت عثمانیہ نے مدینہ کو وہابیوں سے دوبارہ واپس لینے کیلئے مدینہ پر حملہ کیا اور سنہ 1227ھ کو مدینہ پر دوبارہ قابض ہو گئے۔ یوں سلطنت عثمانیہ کے تیسویں امیر محمود دوم نے سنہ1234ھ کو قبرستان بقیع میں موجود بارگاہوں کی دوبارہ تعمیر کا حکم صادر کیا۔[26]

وہابیوں نے ایک دفعہ پھر صفر سنہ 1344 ہجری قمری میں مدینہ پر حملہ کیا۔[27] اس حملے میں مسجد نبوی سمیت دیگر مذہبی مقامات کو نقصان پہنچایا۔[28] اس کے سات مہینے بعد یعنی رمضان سنہ 1344ھ کو شیخ عبداللہ بن بُلَیہد (1284-1359ھ) جو سنہ 1343 سے 1345ھ تک مکے کا قاضی تھا،[29] نے مدینہ کے مفتیوں سے قبور پر بنائے گئے بارگاہوں سے متعلق سوال کر کے ان کی تخریب کا فتوا صادر کرایا۔[30] یوں 8 شوال سنہ 1344ھ کو جنت البقیع میں موجود تمام بارگاہیں مکمل طور پر تخریب ہوئے۔[31] دستیاب اسناد کے مطابق اس تخریب کے بعد سعودی عرب کے بادشان ملک عبدالعزیز نے 12 شوال سنہ 1344ھ کو ایک خط میں عبداللہ بن بلیہد کے اقدامات کو سہراہا۔[32]

رد عمل

مکہ اور مدینہ میں موجود مذہبی مقامات خاص کر جتت البقیع کے انہدام نے مسلمانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر اعتراضات اور رد عمل کو وجود میں لایا اور بعض اسلامی ممالک کو اس کے خلاف آواز بلند کرنے پر مجبور کیا۔ وہابیوں کے اس اقدام کے خلاف خود انہی کے درمیان سے سعودی عرب میں مقیم بعض وہابیوں نے اس شدت پسندانہ کاروائی کی مذمت کی۔[33] شیعیان جہاں ہر سال 8 شوال کو یوم انہدام جنۃ البقیع کے نام سے سوگ مناتے ہیں۔

عوامی رد عمل

جنت البقیع اور دیگر مقدس مقامات کی ویرانی نے عام لوگوں میں وہابیوں کے خلاف ایک نفرت اور غم و غصے کی لہر ایجاد کی۔ بہت سارے اسلامی اور غیر اسلامی ممالک سے مذہبی اور غیر مذہبی افراد نے وہابیوں کے اس غلط اقدام کی مذمت کیں۔

آذربایجان ، روس، ازبکستان، ترکمنستان، ایران، ترکی، افغانستان، عراق، چین، مغولستان، ہندوستان وعیرہ کے لوگوں نے خطوط اور دیگر مراسلاتی اور مواصلاتی ابزار کے ذریعے اپنے غم و غصے اور اظہار اور مذمتی پیغامات کے ذریعے اس کام کو مرقد نبوی کی انہدام کا پیش خیمہ قرار دیئے۔[34]

حکومتی سطح پر رد عمل

بعض اسلامی ممالک من جملہ ایران نے حکومتی سطح پر اس واقعے کی مذمت کے ساتھ ساتھ مختلف انداز میں اس پر اپنا رد عمل ظاہر کئے ہیں جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:

  • ایران نے 16 صفر سنہ 1344 ہجری قمری کو بقیع کی ہتک حرمت کی مناسبت سے عمومی سوگ کا اعلان کیا اور آیت اللہ مدرس نے ایرانی پارلیمنٹ میں اس طرح کے اقدامات سے مقابلہ کرنے کی تجاویز پیش کی۔ ایرانی پارلیمنٹ نے اس موضوع کی تحقیق کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ سعودی عرب کی حکومت نے مسلمانوں کے غم و غصے سے بچنے اور مذہبی مقامات کی انہدام کی توجیہ کیلئے مسلمان حکومتوں کے وفود کو مکہ مکرمہ بلایا۔ ایران سے بھی ایک وفد غفار خان جلال السلطنہ، مصر میں ایران کے وزیر مختار اور حبیب اللہ خان ہویدا کی سربراہی میں ایک وفد مورخہ 24 شہریور 1304ش کو جدہ پہنچے۔ سعودی عرب کی مکارانہ پالیسی اور اسلامی ممالک کے سربراہان کی عدم دلچسپی کے باعث یہ معاملہ خاموشی کی نذر ہوگیا۔[35]
  • حبیب اللہ خان ہویدا نے حجاز میں عبدالعزیز بن عبدالرحمن بن سعود کے ساتھ ملاقات کیا اور ان کے بقول عبدالعزیز نے مقدس مقامات کی مسماری کہ ذمہ داری "عرب کے جاہل بدوؤں" کے گردن پر ڈال دی اور اپنے آپ کو اس مذموم عمل سے برئ الذمہ کردیا۔[36]
  • ایران میں پارلیمنٹ کے ممبران نے آل سعود کے خلاف شدید احتجاج کیا اور ایک کمیٹی تشکیل دی اور اس واقعے کی تحقیق کیلئے سنہ 1304ش میں ایک وفد کو حجاز روانہ کیا۔ [37]
  • سعودی عرب کی جانب سے منہدم شدہ مذہبی مقامات کی تعمیر نہ کرنے کی وجہ سے ایران نے تین سال تک سعودی عرب کی حکومت کو تسلیم کرنے میں تأخیر کی اور یہ مسئلہ بعد میں بھی دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کا باعث بنا۔[38][39]

علماء اسلام کا رد عمل

جنت البقیع اور مکہ و مدینہ کے دیگر مذہبی مقامات کی تخریب سے سید ابوالحسن اصفہانی اور شیخ عبدالکریم حائری سمیت حوزہ علمیہ نجف اور قم کے دیگر بزرگان میں شدید غم غصے کی لہر پیدا ہوئی اور حوزہ علمیہ کے درس و تدریس کی تعطیلی کا باعث بنا۔[40] محمدحسین کاشف الغطاء نے اس وقت کے وہابیوں کی چیف جسٹس عبداللہ ابن بلیہد کے نام ایک خط میں توحید پر شیعوں کے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے اسے علمی مقابلے کی دعوت دی اور اس کی طرف سے جواب نہ دینے کو ان کی علمی کمزوی قرار دیئے۔[41] بہت سارے شیعہ فقہاء نے ائمہ بقیع کے بارگاہوں کی دوبارہ تعمیر کے حوالے سے فتوے صادر کئے؛[42] من جملہ ان میں آیت اللہ فاضل لنکرانی، آیت اللہ مکارم شیرازی اور آیت اللہ صافی گلپایگانی نے ائمہ بقیع کے قبور کی تعمیر کیلئے کوشش کرنے کو واجب یا واجب کفایی قرار دیئے اور آیت اللہ سیستانی نے اس عمل کو جایز قرار دیا۔[43]

سید محسن امین نے خود حالات کا جائزہ لینے کے لئے حجاز کا سفر کر کے اپنی تحقیقات کو کتاب کشف الارتیاب میں مسلمانوں کے سامنے رکھا۔[44]

کتابوں کی اشاعت

اس واقعے کے خلاف علماء اسلام کے دیگر اقدامات میں اولیاء الہی کے قبور کی تعمیر کے حوالے سے فقہی منابع اور احکام پر مشتمل کتابوں اور جرائد کی اشاعت تھی۔ محمد جواد بلاغی نے اپنی کتاب رد الفتوی بہدم قبور الائمۃ فی البقیع میں قبور کی مسماری کے جواز کے حوالے سے وہابیوں کی فکر اور سوچ کو مخدوش کیا۔[45] اس کے علاوہ بقیع کی ویرانی کے حوالے سے مختلف کتابیں لکھی گئی منجملہ ان میں سید عبدالرزاق موسوی مقرم نے اپنی کتاب ثامن شوال میں سنہ ۱۳۴۳ھ کے واقعے کو تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ [46] اسی طرح یوسف ہاجری کی کتاب البقیع قصۃ تدمیر آل سعود للآثار الاسلامیہ اور عبدالحسین حیدری موسوی کی کتاب قبور ائمۃ البقیع قبل تہدیمہا میں ائمہ بقیع کی بارگاہوں کی ویرانی کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ حسن آل برغانی کی کتاب بقیع الغرقد میں مدینہ پر وہابیوں کے پہلے حملے اور بقیع کی ویرانی کا ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر شعبہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کا قبرستان بقیع کی انہدام پر اظہار افسوس اور ندامت کو مختلف شاعروں نے اپنے اشعار میں قلم بند کیا ہے۔[47] محمد جواد بلاغی کی کتاب "دعوی الہدی الی الدرع فی الافعال و التقوی" اور "معجم ما الفّہ علماء الاسلام رداً علی الوہابیہ" بھی اسی نوعیت کی ہیں۔[48]

قبور سے متعلق وہابیوں کے اعتقادات

قبرستان بقیع تخریب سے پہلے

8 شوال سنہ 1344ھ کو مدینہ کے مفتیوں کے فتوے کی روشنی میں سعودی عرب کے چیف جسٹس شیخ عبداللہ بلیہد کے حکم سے جنت البقیع کے تمام تاریخی اور مذہبی آثار مسمار کر دئے گئے۔[49] مدینہ کے 15 مفیتوں[50] نے اپنے اپنے فتوے میں قبور کے اوپر بارگاہ بنانے کو ممنوع قرار دیتے ہوئے انہیں تخریب کرنے کا حکم دیا۔[51] لیکن وہابیوں کے برخلاف اہل سنت اور شیعوں کے عقیدے میں قبور پر بارگاہ بنانا نہ فقط اسلامی تعلیمات کے مخالف نہیں بلکہ مذہبی رہنماؤں اور مؤمنین کے قبور کی زیارت ایک مستحب عمل بھی جانا جاتا ہے۔[52] محمدجواد بلاغی نے اپنی کتاب "الردَ علی الوہابیۃ" میں پیغمبر اسلامؐ، امام علیؑ، امام صادقؑ اور دیگر ائمہ سے منقول احادیث اور صدر اسلام سے مسلمانوں کے مستمر سیرت سے استناد کرتے ہوئے وہابیوں کے اس عقیدے کو باطل قرار دیتے ہوئے ان کے مستند احادیث کو مذکورہ مقاصد سے غیر مربوط قرار دیتے دیئے ہیں۔ کیونکہ ان کے بقول وہابیوں نے جن احادیث سے استناد کئے ہیں وہ قبور پر دیوار بنانے سے ممانعت ہوئی ہے نہ یہ کہ قبور پر بارگاہ ینانے سے۔[53]

اس کتاب میں مصنف نے وہابیوں کو وہ پہلا گروہ قرار دیا ہے جس نے مذہبی نظریات کے تحت مذہبی رہنماؤوں کے مزارات اور بارگاہوں کو تخریب کئے ہیں۔ البتہ چہ بسا وہابیوں کے علاوہ بھی بعض افراد مختلف منابع میں بقیع میں خلفا کی موجودگی سے ممانعت کرنے والے مطالب سے استناد کرنے ہوئے قبرستان بقیع کی تخریب پر اتر آئے لیکن وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔[54]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۲ش، ص۳۲۲۔
  2. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۲ش، ص۳۲۲۔
  3. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۲ش، ص۳۲۸۔
  4. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۲ش، ص۳۲۲۔
  5. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۲ش، ص۳۳۰۔
  6. حسام السلطنہ، دلیل الانام، ۱۳۷۴ش، ص۱۵۲۔
  7. جعفریان، پنجاہ سفرنامہ حج قاجاری، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۱۹۶۔
  8. حسام السلطنہ، دلیل الانام، ۱۳۷۴ش، ص۱۵۲۔
  9. ایازخان قشقایی، سفرنامہ حاج ایاز خان قشقایی، ۱۳۸۹ش، ص۴۵۵۔
  10. ایازخان قشقایی، سفرنامہ حاج ایاز خان قشقایی، ۱۳۸۹ش، ص۴۵۵۔
  11. قاضی عسکر، تخریب و بازسازی بقیع، ۱۳۸۶ش، ص۴۱۔
  12. قاضی عسکر، تخریب و بازسازی بقیع، ۱۳۸۶ش، ص۹۵-۹۶۔
  13. جعفریان، «چہ شد کہ پس از تسلط وہابیان، صورت قبور ائمہ بقیع سالم ماند؟»۔
  14. قاضی عسکر، تخریب و بازسازی بقیع، ۱۳۸۶ش، ص۹۵-۱۵۸۔
  15. قاضی عسکر، تخریب و بازسازی بقیع، ۱۳۸۶ش، ص۱۵۳-۱۵۴۔
  16. قاضی عسکر، تخریب و بازسازی بقیع، ۱۳۸۶ش، ص۶۳، ۶۵، ۱۳۳۔
  17. قاضی عسکر، تخریب و بازسازی بقیع، ۱۳۸۶ش، ص۱۶۷-۱۶۸۔، قاضی عسکر، تخریب و بازسازی بقیع، ۱۳۸۶ش، ص۱۵۶-۱۵۸۔
  18. قاضی عسکر، تخریب و بازسازی بقیع، ۱۳۸۶ش، ص۱۵۹؛ قاضی عسکر، تخریب و بازسازی بقیع، ۱۳۸۶ش، ص۹۵-۱۵۸۔
  19. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۲ش، ص۳۳۲۔
  20. جعفریان، با کاروان صفا، ۱۳۸۳ش، ص۱۳۵-۱۳۷۔
  21. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۲ش، ص۳۳۳۔
  22. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۲ش، ص۳۳۲۔
  23. جبرتی، عجائب الآثار،‌ دار الجیل، ج۳، ص۹۱۔
  24. غالب، من اخبار الحجاز و النجد، ۱۳۹۵ق، ص۱۰۴؛ماجری، البقیع قصۃ التدمیر، ۱۴۱۱ق، ص۸۴؛ جبرتی، عجائب الآثار،‌ دار الجیل، ج۳، ص۹۱۔
  25. جبرتی، عجائب الآثار،‌ دار الجیل، ج۳، ص۹۱۔
  26. جعفریان، پنجاہ سفرنامہ حج قاجاری، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۱۹۶۔
  27. ماجری، البقیع قصۃ التدمیر، ۱۴۱۱ق، ص۱۱۳-۱۳۹؛ امینی، بقیع الغرقد، ۱۳۸۶ش، ص۴۹۔
  28. ماجری، البقیع قصۃ التدمیر، ۱۴۱۱ق، ص۱۱۳-۱۳۹؛ امینی، بقیع الغرقد، ۱۳۸۶ش، ص۴۹۔
  29. زرکلی، الأعلام، ج۴، ص۹۱۔
  30. البلاغی، الردَ علی الوہابیۃ، ۱۴۱۹ق، ص۳۹-۴۱؛ ماجری، البقیع قصۃ التدمیر، ۱۴۱۱ق، ص۱۱۳-۱۳۹؛ امینی، بقیع الغرقد، ۱۳۸۶ش، ص۴۹۔
  31. نجمی، تاریخ حرم ائمہ، ۱۳۸۶ش، ص۵۱۔
  32. العساف، «عبداللہ بن سلیمان البلیہد۔۔ القاضی والمستشار فی زمن التأسیس»۔
  33. خزانۃ التواریخ النجدیہ، ج۸، ص۱۵۹-۱۶۰.
  34. تخریب و بازسازی بقیع، ص۵۵-۵۶؛ بقیع الغرقد، ص۵۲-۵۳.
  35. تخریب و بازسازی بقیع، ص۴۱-۶۰.
  36. محقق، اسناد و تاریخ دیپلماسی، اسناد روابط ایران و عربستان سعودی (۱۳۰۴-۱۳۵۷ه‍.ش)، چاپ و انتشارات وزارت امور خارجہ، ص۴۶-۵۴.
  37. دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج۱۲، ص۳۹۳، «بقیع».
  38. جنگ ایدئولوژیک ایران و عربستان تا چہ اندازہ جدی است؟
  39. اسناد روابط ایران و عربستان سعودی (۱۳۰۴-۱۳۵۷ه‍.ش)، ص۶۱، ش۱۸، ۱۲نیسان ۱۹۲۵م.
  40. امینی، بقیع الغرقد، ۱۳۸۶ش، ص۵۳۔
  41. مختاری، «سہ سند از علامہ شیخ محمدحسین کاشف الغطاء»، ص۲۱۷۔
  42. امینی، بقیع الغرقد، ۱۳۸۶ش، ص۵۵۔
  43. قاضی عسکر، تخریب و بازسازی بقیع، ۱۳۸۶ش، ص۱۶۰۔
  44. بقیع الغرقد، ص۵۵.
  45. معجم ما کتب فی الحج، ص۱۷۱.
  46. معجم ما کتب فی الحج، ص۸۵.
  47. التاریخ الامین، ص۳۶۶-۳۶۸؛ بقیع الغرقد، ص۳۳۵-۳۴۱.
  48. مجلۃ تراثنا، سال چہارم، شوال ۱۴۰۹،ش ۱۷.
  49. ماجری، البقیع قصۃ التدمیر، ۱۴۱۱ق، ص۱۱۳-۱۳۹؛ امینی، بقیع الغرقد، ۱۳۸۶ش، ص۴۹۔
  50. البلاغی، الردّ علی الوہابیۃ، ۱۴۱۹ق، ص۴۵۔
  51. البلاغی، الردّ علی الوہابیۃ، ۱۴۱۹ق، ص۴۰۔
  52. مدنی، التاریخ الأمین، ۱۴۱۸ق، ص۴۳۱-۴۵۰؛ امینی، بقیع الغرقد، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۔
  53. البلاغی، الردّ علی الوہابیۃ، ۱۴۱۹ق، ص۶۹-۷۲۔
  54. جعفریان، صفویہ در عرصہ دین۔۔۔، ۱۳۷۹ش، ج۲، ص۷۸۳، ۸۴۲۔

مآخذ

  • امینی، محمد امین، بقیع الغرقد، تہران، مشعر، ۱۳۸۶ش۔
  • ایاز خان قشقایی، سفرنامۀ حاج ایاز خان قشقایی بہ مکہ، مدینہ و عتبات عالیات در روزگار احمد شاہ قاجار، بہ کوشش رسول جعفریان، تہران، نشر علم، ۱۳۸۹ش۔
  • «بررسی تاریخی روابط ایران و عربستان در موضوع حج»، در مجلہ میقات حج، ش۹۲، تابستان ۱۳۹۴ش۔
  • البلاغی، محمد جواد، الردّ علی الوہابیۃ، تحقیق سید محمد علی الحکیم، بیروت، مؤسسۃ اہل البیت لإحیاء التراث، ۱۴۱۹ق/۱۹۹۸ء۔
  • جبرتی، عبدالرحمان، عجائب الآثار، بیروت،‌ دار الجیل۔
  • جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، قم، مشعر، ۱۳۸۲ش۔
  • جعفریان، رسول، با کاروان صفا، تہران، مشعر، ۱۳۸۳ش۔
  • جعفریان، رسول، پنجاہ سفرنامہ حج قاجاری، تہران، نشر علم، ۱۳۸۹ش۔
  • جعفریان، رسول، «چہ شد کہ پس از تسلط وہابیان، صورت قبور ائمہ بقیع سالم ماند؟»، در سایت خبرآنلاین، تاریخ درج مطلب: ۲۹ آبان ۱۳۸۹ش، تاریخ بازدید: ۵ مرداد ۱۳۹۷۔
  • جعفریان، رسول، صفویہ در عرصہ دین، فرہنگ و سیاست، ج۲، قم، پژوہشکدہ حوزہ و دانشگاہ، ۱۳۷۹ش۔
  • حسام السلطنہ، دلیل الانام: فی سبیل زیارۃ بیت اللہ الحرام، تصحیح رسول جعفریان، تہران، نشر مشعر، ۱۳۷۴ش۔
  • الرفاعی، عبدالجبار، معجم ما کتب فی الحج، تہران، مشعر، ۱۴۲۷ق۔
  • زرکلی، خیر الدین، الأعلام، بیروت،‌ دار العلم للملایین، ۲۰۰۲م۔
  • العساف، منصور، «عبداللہ بن سلیمان البلیہد۔۔ القاضی والمستشار فی زمن التأسیس»، در سایت الریاض، تاریخ درج مطلب: ۳ ذی القعدہ ۱۴۳۵ق، تاریخ بازدید: ۶ مرداد ۱۳۹۷ش۔
  • قاضی عسکر، علی، تخریب و بازسازی بقیع بہ روایت اسناد تہران، مشعر، ۱۳۸۶ش۔
  • مختاری، رضا، «سہ سند از علامہ شیخ محمدحسین کاشف الغطاء»، در مجلہ کتاب شیعہ، ش۳، بہار و تابستان ۱۳۹۰ش۔
  • محقق، علی، اسناد روابط ایران و عربستان سعودی (۱۳۰۴-۱۳۵۷ش)، تہران، مرکز چاپ و انتشارات وزارت امور خارجہ، تہران، ۱۳۷۹ش۔
  • محمد علی، عبد اللہ، معجم مؤلفات الإسلامیۃ فی الردّ علی الفرقۃ الوہابیۃ، بی‌جا، [مرکز الزہراء الإسلامی]، ۱۴۳۰ق/۲۰۰۹م۔
  • مدنی، عبدالعزیز، التاریخ الامین لمدینۃ سید المرسلین، قم، مطبعۃ الأمین، ۱۴۱۸ق۔
  • نجمی، محمد صادق، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، نشر مشعر، تہران، ۱۳۸۶ش۔
  • غالب، محمد ادیب، من اخبار الحجاز و النجد فی تاریخ الجبرتی، ریاض، دارالیمامہ، ۱۳۹۵ق۔
  • ماجری، یوسف، البقیع قصۃ التدمیر، بیروت، مؤسسۃ بقیع لاحیاء التراث، ۱۴۱۱ق۔
  • مکی، حسین، مدرس؛ قہرمان آزادی، تہران، بنگاہ ترجمہ و نشر کتاب، ۱۳۵۹ش۔

بیرونی روابط