حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا

علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
ویکی شیعہ سے
خدیجہ کبری سلام‌ اللہ علیہا
پیغمبرؐ و خدیجہؑ کا پہلا وضو، کتاب سیرت النبی کے مطابق، یہ پینٹنگ گیارہ ہجری میں سلطان مراد، حاکم سوم عثمانی اور سید سلیمان کسیم پاشا کے ذریعہ آمادہ کی گئی ہے۔
پیغمبرؐ و خدیجہؑ کا پہلا وضو، کتاب سیرت النبی کے مطابق، یہ پینٹنگ گیارہ ہجری میں سلطان مراد، حاکم سوم عثمانی اور سید سلیمان کسیم پاشا کے ذریعہ آمادہ کی گئی ہے۔
کوائف
نام:خدیجہ بنت خویلد
مشہور اقارب:پیغمبر اکرمؐ اور حضرت فاطمہ(س)
وجہ شہرت:سب سے پہلے اسلام لانے والی شخصیت یا خاتون اور زوجۂ پیغمبر اکرمؐ
پیدائش:آغاز بعثت سے تین یا چار دہائی پہلے،
مقام پیدائشمکہ
محل زندگی:مکہ
وفات:دسویں بعثت (عام الحزن) 65 سال کی عمر میں، مکہ
مدفن:مکہ کے کوہ حجون کے دامن میں قبرستان معلاۃ


خَدیجَہ بنت خُوَیلِد (متوفی سنہ 10 بعثت) خدیجۃ الکبری و ام المومنین کے نام سے مشہور، پیغمبر اکرمؐ کی اولین زوجہ اور حضرت زہراؑ کی مادر گرامی ہیں۔ آپ نے بعثت سے پہلے حضرت محمدؐ کے ساتھ شادی کی۔ آپ آنحضرت پر ایمان لانے والی پہلی خاتون ہیں۔

حضرت خدیجہؑ نے اپنی ساری دولت اسلام کی راہ میں خرچ کی۔ پیغمبر اکرمؐ نے حضرت خدیجہؑ کے احترام میں ان کی زندگی کے دوران دوسری زوجہ اختیار نہیں کی اور آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کو اچھے الفاظ میں یاد فرماتے تھے۔

ایک قول کی بنا پر پیغمبر اکرمؐ کے حضرت خدیجہؑ سے دو بیٹے قاسم و عبداللہ، چار بیٹیاں زینب، رقیہ، ام کلثوم اور حضرت فاطمہؑ تھیں۔ اس بنا پر ابراہیم کے علاوہ پیغمبر اسلامؐ کی باقی اولاد حضرت خدیجہؑ سے ہی تھیں۔

حضرت خدیجہؑ نے ہجرت سے تین سال پہلے 65 سال کی عمر میں مکہ میں وفات پائی۔ پیغمبر اکرمؐ نے آپ کو قبرستان معلاۃ میں سپرد خاک فرمایا۔

سوانح حیات

حضرت خدیجہؑ، خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی القرشیہ الاسدیہ[1]اور فاطمہ بنت زائدہ[2] کی بیٹی تھیں۔ آپ بعثت سے تیس یا چالیس سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئیں اور اسی شہر میں اپنے والد کے گھر پر پرورش پائی۔[3]

تاریخی مآخذ میں اسلام سے پہلے حضرت خدیجہ کے بارے میں کوئی دقیق معلومات میسر نہیں صرف اتنا ملتا ہے کہ آپ ایک مالدار خاتون تھیں، تجارت کرتی تھیں اور اپنے سرمایہ کو مضاربہ اور تجارت کے لئے لوگوں کو استخدام کرنے میں صرف کرتی تھیں۔[4]

تاریخی مآخذ میں آپ کے مقام و منزلت اور حسب و نسب کے اعتبار سے نیک نامی کی طرف اشارہ ہوا ہے؛ ابن سید الناس اس سلسلے میں کہتے ہیں: "آپ ایک شریف اور با درایت خاتون تھیں جنہیں خدا نے خیر اور کرامت عطا کی۔ نسب کے لحاظ سے عرب کے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں لیکن عظیم شرافت اور دولت کی مالکہ تھیں۔[5]

بلاذری نے واقدی سے یوں نقل کیا ہے: خدیجہؑ بنت خویلد اعلی حسب و نسب کی مالکہ اور ایک دولت مند تاجر خاتون تھیں۔[6]

پیغمبر اکرمؐ سے شادی

پیغمبر اسلامؐ

ما أبدلنی اللہ خیرا منہا، صدقتنی إذ کذبنی الناس وواستنی بمالہا اذ حرمنی الناس، ورزقنی اللہ الولد منہا ولم‌یرزقنی من غیرھا؛ ترجمہ=خدا نے خدیجہ سے بہتر کوئی عورت مجھے نہیں دی۔ جب لوگ مجھے جھوٹا کہتے تھے، تو وہ میری سچائی کی گواہی دیتی اور جب لوگوں نے مجھ پر پابندیاں لگائیں تو اس نے اپنی دولت کے ذریعے میری مدد کی۔ اور خدا نے اس سے مجھے ایسی اولاد عطا کی جو دوسری زوجات سے عطا نہیں کی۔

شیخ مفید، الافصاح، ۱۴۱۴ق، ص۲۱۷

تمام تاریخی مآخذ حضرت خدیجہ کو پیغمبر اکرمؐ کی پہلی زوجہ مانتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس ازدواج کی تاریخ دقیق مشخص نہیں ہے۔ حضرت خدیجہ سے شادی کے وقت حضرت محمدؐ کی عمر 21 سے 37 سال کے درمیان ذکر کی گئی ہے۔[7] لیکن جو چیز تمام مورخین کے یہاں قابل اعتماد ہے وہ 25 سال ہے۔[8] چنانچہ مآخذ میں آیا ہے کہ جب حضرت خدیجہؑ حضرت محمدؐ کے نیک سلوک، اچھے گفتار، اعلی اخلاقی اقدار اور امانت داری سے متاثر ہوئیں تو انہوں نے پبغمبر اکرمؐ کو اپنے تجارتی سامان پر امین مقرر کرکے تجارت کے لئے شام روانہ کیا اور اس سفر سے واپسی پر جب میسرہ نامی اپنے غلام کی زبانی پیغمبر اکرمؐ کے منفرد خصوصیات سے آشنا ہوئیں تو انہوں نے حضرت محمدؐ سے شادی کی خواہش ظاہر کی۔[9] بعض مورخین اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت خدیجہ نے پیغمبر اکرمؐ کی صداقت، امانت‌، حسن خلق اور نیک سلوک سے متاثر ہو کر آپ سے شادی کی خواہش ظاہر کی۔[10] ابن اثیر نے بھی کتاب اسد الغابہ میں انہیں عوامل کو بیان کیا ہے۔[11] اہل سنت کے اکثر تاریخی مآخذ میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے پہلے حضرت خدیجہ (س) کے شوہر دار اور بچہ دار ہونے کا ادعا ملتا ہے؛[حوالہ درکار] بلاذری انساب الاشراف میں ابو ہالہ ہند بن نباش کو پیغمبر اکرمؐ سے پہلے حضرت خدیجہ کا شوہر قرار دیتے ہیں۔[12] اسی طرح "عتیق بن عابد بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم" کو بھی حضرت خدیجہ (س) کا شوہر قرار دیا گیا ہے۔[13]

ان سب کے باوجود بعض شیعہ علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت خدیجہ (س) نے پیغمبر اکرمؐ کی زوجیت میں آنے سے پہلے کسی سے شادی نہیں کی ہیں۔ ابن شہر آشوب کے مطابق سید مرتضی اپنی کتاب شافی اور شیخ طوسی اپنی کتاب التلخیص میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شادی کے موقع پر حضرت خدیجہ کے باکرہ ہونے کی طرف اشارہ کئے ہیں۔[14] بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ سرزمین حجاز میں رائج قومی اور نژادی تعصبات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کو قبول نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت خدیجہ جو قریش کے بزرگوں میں سے تھیں، کی شادی قبیلہ بنی تمیم اور قبیلہ بنی مخزوم کے دو اعرابی سے انجام پائی ہو[15] اور جن اولاد کی نسبت حضرت خدیجہ کی طرف دی جاتی ہیں حقیقت میں وہ ان کی بہن ہالہ کی تھیں جن کی وفات کے بعد ان کے بچے حضرت خدیجہ کی زیر سرپرستی پلی بڑی ہیں۔[16]

آنحضرت سے شادی کے وقت آپ کی عمر

ازواج رسول خدا
خدیجہ بنت خویلد (ازدواج: 25 عام الفیل)
سودہ بنت زمعہ (ازدواج: قبل از ہجرت)
عائشہ بنت ابوبکر (ازدواج: 1 یا 2 یا 4 ہجری)
حفصہ بنت عمر (ازدواج: 3 ہجری)
زینب بنت خزیمہ (ازدواج: 3 ہجری)
ام سلمہ بنت ابوامیہ (ازدواج: 4 ہجری)
زینب بنت جحش (ازدواج: 5 ہجری)
جویریہ بنت حارث (ازدواج: 5 یا 6 ہجری)
رملہ بنت ابوسفیان (ازدواج: 6 یا 7 ہجری)
ماریہ بنت شمعون (ازدواج: 7 ہجری)
صفیہ بنت حیی (ازدواج: 7 ہجری)
میمونہ بنت حارث (ازدواج: 7 ہجری)

پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شادی کے وقت حضرت خدیجہؑ کی عمر کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے اس بنا پر اس وقت آپ کی عمر 25 سے 46 سال تک بتائی گئی ہیں۔ اکثر مورخین نے پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شادی کے وقت آپ کی عمر 40 سال بتائی ہیں۔[17] لیکن اس سلسلے میں مزید روایات بھی ہیں۔[18] جبکہ بعض مصادر کے مطابق آپ کی عمر 25 سال تھی[19] اسی طرح 28 سال[20]، 30 سال [21]، 35 سال[22]، 44 سال[23]، 45 سال[24] اور 46 سال[25] بھی کہا گیا ہے۔

پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شادی کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر سے متعلق صحیح معلومات حاصل کرنا دشوار ہے۔ اس کے باوجود اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ پیغمبر اکرمؐ اور خدیجہؑ کی مشترکہ زندگی کل 25 سال پر محیط تھی (15 سال بعثت سے پہلے [26]اور 10 سال بعثت کے بعد) اور تاریخی شواہد کے مطابق وقات کے وقت خدیجہؑ کی عمر 65 سال یا 50 سال تھی، یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شادی کے وقت آپ کی عمر 25 سے 40 سال کے درمیان تھی۔ پس اگر وفات کے وقت حضرت خدیجہؑ 50 سال کی تھیں تو اس کا مطلب ہے کہ شادی کے وقت آپؑ کی عمر 25 سال تھی، اسی نظریے کو بعض محققین نے بھی ترجیح دی ہے[27] لیکن دوسری طرف سے پیغمبر اکرمؐ اور حضرت خدیجہ کا بیٹا قاسم کی وفات بعثت کے بعد ہوئی[28] جس کا لازمہ یہ نکتا ہے کہ قاسم کی ولادت کے وقت حضرت خدیجہؑ کی عمر کم از کم 55 سال جو مذکورہ نظریے کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔

البتہ پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شادی کے وقت حضرت خدیجہ کے کنوارہ ہونے سے متعلق بعض شیعہ علماء کے نظریے[29] سے اس نظریے کو بھی تقویت ملتی ہے کیونکہ قریش جیسے اعلی خاندان سے تعلق رکھنے والی ایسی شان و منزلت والی خاتون کا 40 سال تک بغیر شادی کے رہنا بہت بعید نظر آتا ہے۔ ان دلائل کی بنا پر بعض محققین نے شادی کے وقت خدیجہؑ کی عمر 25 یا 28 سال ذکر کی ہیں۔[30]

پیغمبر اکرمؐ سے آپ کی اولاد

ابراہیم کے علاوہ پیغمبر اکرمؐ کی تمام اولاد حضرت خدیجہ سے تھیں۔[31] مشہور قول کی بنا پر پیغمبرؐ اور خدیجہ کبریؑ کی اولاد کی تعداد 6 ہیں۔[32] دو بیٹے قاسم اور عبداللہ جبکہ چار بیٹیاں؛ زینب، رقیہ، ام کلثوم اور حضرت فاطمہ(س)۔[33] بعض مصادر میں آپ کے فرزندوں کی تعداد سات یا آٹھ لکھی گئی ہے[34]، مثلا کے طور پر ابن اسحاق، ابن ہشام، اور کلینی کہتے ہیں کہ رسول خداؐ کے حضرت خدیجہ سے تین بیٹے تھے، قاسم بعثت سے پہلے جبکہ طیب اور طاہر بعثت کے بعد متولد ہوئے۔[35] بعض مورخین کا خیال ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اور حضرت خدیجہ کی اولاد کی تعداد میں اختلاف ان کے اسماء اور القاب میں اشتباہ کی وجہ سے پیدا ہوا ہے؛ کیونکہ عبداللہ کو بعثت اور ظہور اسلام کے بعد متولد ہونے کی وجہ سے طیب و طاہر کا لقب دیا گیا تھا[36] لیکن بعض نے یہ خیال کیا کہ طیب و طاہر پیغمبر اکرمؐ کے دو اور بیٹوں کے نام ہیں۔[37]

بعض نے کہا ہے کہ پیغمبرؐ اور خدیجہؑ کے فرزندوں کی تعداد میں اختلاف کی وجہ ان کے نام اور لقب کا آپس میں مل جانا ہے۔ اس نظر کے مطابق پیغمبرؐ اور خدیجہؑ کے فرزندوں کی تعداد 6 ہیں دو بیٹے قاسم اور عبداللہ، چار بیٹیاں زینب، رقیہ، ام کلثوم، اور فاطمہؑ۔[38]

اسی طرح بعض مورخین کے مطابق حضرت فاطمہ(س) پیغمبر اکرمؐ کی اکلوتی بیٹی تھی جبکہ زینب، رقیہ اور ام کلثوم حضرت خدیجہ اور پیغمبر اکرمؐ کی ربیبہ تھیں۔[39]

حضرت خدیجہ کی دوسری اولاد

بعض مآخذ میں کہا گیا ہے کہ حضرت خدیجہ نے پیغمبر اکرمؐ سے پہلے دو دفعہ شادی کی جن سے آپ کی اولاد بھی ہوئی۔[40] اسی سلسلے میں ہند بن ابی‌ ہالہ کو حضرت خدیجہ اور ان کے پہلے شوہر کی اولاد قرار دیتے ہیں۔[41] اس کے مقابلے میں بعض کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ پیغمبر اکرمؐ سے شادی کے وقت دوشیزہ تھیں اور اس سے پہلے آپ نے کوئی شادی نہیں کی تھیں[42]۔

اسلام لانا

بعض مورخین جیسے بلاذری[43] اور ابن‌ سعد (کاتب واقدی)[44] (تیسری صدی ہجری)، ابن‌ عبدالبر (پانچویں صدی ہجری)[45] اور ابن‌ خلدون (آٹھویں صدی ہجری)[46] آپ کو پیغمبر اسلام پر ایمان لانے والے پہلے مسلمان قرار دیتے ہیں۔ بعض مورخین کے مطابق اس بات پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ حضرت خدیجہ پیغمبر اسلام پر ایمان لانے والی پہلی شخصیت تھیں۔[47]

اسی طرح اسلام میں السّابقون کے مصادیق کی تعیین میں بعض مآخذ حضرت خدیجہ (س) اور حضرت علیؑ کو پیغمبر اکرمؐ پر ایمان لانے والے پہلے اشخاص قرار دیتے ہیں۔[48] اسی طرح ان مآخذ میں سب سے پہلے نماز قائم کرنے والوں میں بھی حضرت علیؑ کے ساتھ حضرت خدیجہ کا نام لیتے ہیں۔[49]

اسلام میں آپ کا کردار

قبرستان جنت المعلی، تخریب سے پہلے، جناب خدیجہ کا مرقد
قبرستان ابو طالب، حجون کی موجودہ تصویر
حضرت خدیجہؑ اور پیغمبرؐ کے بیٹے قاسم کا مقبرہ۔انہدام سے پہلے

حضرت خدیجہؑ کی مالی امداد کی بدولت رسول خداؐ تقریبا غنی اور بے نیاز ہو گئے۔ خداوند متعال آپؐ کو اپنی عطا کردہ نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: وَ وَجَدَكَ عَائِلاً فَأَغْنَى (ترجمہ: اور (خدا نے) آپ کو تہی دست پایا تو مالدار بنایا)[؟؟][50] رسول خداؐ خود بھی فرمایا کرتے تھے: ما نَفَعَنِي مالٌ قَطُّ ما نَفَعَني (أَو مِثلَ ما نَفَعَني) مالُ خَديجة (ترجمہ: کسی مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا فائدہ مجھے خدیجہؑ کی دولت نے پہنچایا۔)[51] رسول خداؐ نے خدیجہؑ کی ثروت سے مقروضوں کے قرض ادا کئے؛ یتیموں، تہی دستوں اور بے نواؤں کے مسائل حل کئے۔

شعب ابی طالبؑ کے محاصرے کے دوران حضرت خدیجہؑ کی دولت بنی ہاشم [اور بنی المطلب] کی امداد میں صرف ہوئی۔ یہاں تک کی احادیث میں آیا ہے کہ: أنفق أبو طالب وخديجة جميع مالہما" (ترجمہ: ابو طالبؑ اور خدیجہؑ نے اپنا پورا مال (اسلام اور قلعہ بند افراد کی راہ میں) خرچ کیا۔)[52] شعب ابی طالبؑ میں محاصرے کے دوران حضرت خدیجہؑ کا بھتیجا حکیم بن حزام گندم اور کھجوروں سے لدے ہوئے اونٹ لایا کرتا تھا اور بے شمار خطرات اور زحمت و مشقت سے بنی ہاشم کو پہونچا دیتا تھا۔[53]

یہ بخشش اس قدر قابل قدر اور خالصانہ تھی کہ خداوند عالم نے اس کی قدر دانی کرتے ہوئے اس نیک کام کو اپنی طرف سے اپنے حبیب حضرت محمدؐ کو عطا کردہ نعمات میں شمار فرمایا۔[54] پیغمبر اکرمؐ بھی اس عظیم المرتبت خاتون کی بخشندگی اور ایثار کو ہمیشہ یاد فرماتے تھے۔[55]

مقام و مرتبت

حضرت خدیجہ باعظمت، مالدار اور اپنے زمانے کے مؤثر خواتین میں سے تھیں۔[56] جابر بن عبداللہ انصاری پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں حضرت خدیجہ(س)، حضرت فاطمہ(س)، مریم اور آسیہ کو عالمین کے عورتوں کی سرادار قرار دیتے ہیں۔[57] اسی طرح پیغمبر اکرمؐ حضرت خدیجہ(س) کو دنیا کے با کمال [58] اور بہترین خاتون قرار دیتے ہیں۔[59] اسلامی مآخذ میں حضرت خدیجہ کو طاہرہ، زکیہ، مرضیہ، صدیقہ، سیدہ نساء قریش [60]، خیرالنساء [61] اور باعظمت خاتون [62] کے القاب اور ام المؤمنین کی کنیت سے یاد کرتے ہیں۔[63]

متعدد روایات میں پیغمبر اکرمؐ کے نزدیک حضرت خدیجہ کے خاص مقام و منزلت کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ مآخذ میں آیا ہے کہ حضرت خدیجہ(س) پیغمبر اکرم کے لئے بہترین اور صادق ترین وزیر اور مشاور کی حیثیت رکھتی تھیں نیز آپ حضورؐ کے لئے سکون دل کا باعث بھی تھیں۔[64] پیغمبر اکرمؐ آپ کی وصال کے سالوں بعد بھی آپ کو یاد فرماتے ہوئے آپ کو بے نظیر اور بے مثال خاتون قرار دیتے تھے۔ جب حضرت عایشہ نے پیغمبر اکرمؐ سے کہا کہ خدیجہ آپ کے لئے ایک بوڑھی زوجہ سے زیادہ کچھ نہیں تھی، تو پیغمبر اکرمؐ بہت ناراض ہو گئے اور اس بات کے جواب میں فرمایا: "خدا نے میرے لئے خدیجہ سے بہتر کوئی زوجہ عطا نہیں فرمایا، اس نے اس وقت میری تصدیق کی جب میری تصدیق کرنے والا کوئی نہیں تھا، اس نے اس وقت میری مدد کی جب میری مدد کو کوئی حاضر نہیں تھا اور اس وقت اپنی دولت کا مکمل اختیار مجھے دے دیا جب دوسرے مجھے اپنی دولت سے دور رکھے جا رہے تھے۔" [65]

بعض معتقد ہیں کہ حضرت خدیجہ کی مادی اور دنیاوی دولت سے زیادہ ان کی معنوی ثروت اہمیت کا حامل تھی۔ انہوں نے قریش کے بزرگان اور اشراف کی طرف سے دی گئی شادی کی پیشکش کو ٹھکرانے اور پیغمبر اکرمؐ کو اپنے شوہر کے طور پر انتخاب کرنے کے ذریعے مادی اور دنیوی مال دولت پر اخروی سعادت اور بہشت کے ابدی نغمات سے بہرہ مند ہونے کو ترجیح دے کر اپنی عقلمندی اور دور اندیشی کا ثبوت دیا۔ انہوں نے ان نعمتوں سے بہرہ مند ہونے کے لئے سب سے پہلے پیغمبر اکرمؐ کی تصدیق کی اور ان کی معیت میں نماز قائم کر کے اولین مسلمان ہونے کا اعزاز بھی اپنے نام کر لیا۔

وفات

اکثر تاریخی مآخذ میں حضرت خدیجہؑ کی تاریخ وفات کو بعثت کا دسواں سال (یعنی ہجرت مدینہ سے 3 سال پہلے) قرار دیا ہے۔[66] ان مآخذ میں وفات کے وقت آپ کی عمر 65 سال ذکر کی ہیں۔[67] ابن عبدالبر کا کہنا ہے کہ خدیجہؑ کی عمر بوقت وفات 64 سال چھ ماہ تھی۔[68] بعض مصادر میں ہے کہ حضرت خدیجہؑ کا سال وفات ابو طالبؑ کا سال وفات ہی ہے۔[69] ابن سعد کا کہنا ہے کہ حضرت خدیجہؑ ابو طالبؑ کی رحلت کے 35 دن بعد رحلت کر گئی ہیں۔[70] وہ اور بعض دوسرے مؤرخین نے کہا ہے کہ آپ کی وفات کی صحیح تاریخ رمضان سنہ 10 بعثت ہے۔[71] پیغمبر اکرمؐ کے چچا ابوطالب بھی اسی سال رحلت کر گئے تھی لہذا پیغمبر اکرمؐ نے اس سال کو عام الحزن کا نام دیا۔[72]

آرامگاہ

اسلامی احادیث کے مطابق رسول اللہؐ نے آپ کو اپنی ردا اور پھر جنتی ردا میں کفن دیا اور مکہ کے بالائی حصے میں واقع پہاڑی (کوہ حجون) کے دامن میں، مقبرہ معلی' (جنت المعلی) میں سپرد خاک کیا۔[73]

آٹھویں صدی ہجری میں حضرت خدیجہ (س) کا مقبرہ ایک مرتفع گنبد کے ساتھ بنایا گیا۔[74] احتمالا یہ آرامگاہ سنہ 950 ہجری تک جس میں عثمانی پادشاہ سلطان سلیمان قانونی نے اس مقبرے کو مصری مقبروں کے طرز پر بلند گنبد کے ساتھ تجدید بنا کیا، تخریب نہیں ہوا تھا۔ نئی عمارت کی تعمیر تک حضرت خدیجہ (س) کا مزار فقط لکڑی کے ایک صندوق پر مشتمل تھا۔ اس آرامگاہ پر نصب سائن بورڈ کے مطابق سنہ 1298 میں اس کی مرمت ہوئی ہے۔[75] تیرہویں صدی میں فراہانی[76] اس مزار کے پر موجود مخمل کے کپڑوں میں ڈھانپی ہوئی لکڑی کی ضریح اور اس کی دیکھ بال پر مامور متولی اور زیارتنامہ پڑھنے والے کے متعلق خبر دیتے ہیں۔ اسی طرح آل سعود کی حکومت اور ان کے توسط سے بہت سارے مذہبی اور تاریخی مقامات کے تخریب ہونے سے پہلے مکہ جانے والے بہت سارے حجاج حضرت خدیجہ کے مقبرے کا ذکر کرتے تھے۔[77] موجودہ زمانے میں حضرت خدیجہ کے آرامگاہ پر ایک چھوتی عمارت بنی ہوئی ہے اور حج پر مکہ جانے والے حجاج اس کی زیارت سے مشرف ہوتے ہیں۔

حوالہ جات

  1. ابن اثیر جزری، أسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ، ج۶، ص۷۸.
  2. الاستيعاب، ج‏۴، ص۱۷-۱۸
  3. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۱، شمارہ ۴۰۹۶.
  4. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۲، ص۲۹۳؛ ابن سید الناس، عیون الاثر، ج۱، ص۶۳.
  5. ابن سید الناس، عیون الاثر، ج۱، ص۶۳.
  6. بلاذری، الانساب الاشراف، ج۱، ص۹۸.
  7. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج‏۵، ص۲۹۳۔
  8. ابن شہرآشوب، المناقب آل ابی طالب، ۱۳۷۶ق، ج۱، ص۱۴۹؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج۲، ص۲۰؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ، ۱۳۸۷ق، ج۲ ، ص۲۸۰۔
  9. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۲۹۳۔
  10. ابن سیدالناس، عیون الاثر، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۶۳۔
  11. ابن اثیر جزری، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۳۔
  12. بلاذری، الانساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۰۶؛ ابن حبیب، المنمّق، ۱۴۹۵ق، ص۲۴۷۔
  13. ابن حبیب، المحبّر، بیروت، ص۴۵۲۔
  14. ابن شہرآشوب، المناقب آل ابی طالب، قم، ج۱، ص۱۵۹: «روی أحمد البلاذری و أبوالقاسم الکوفی فی کتابیہما و المرتضی فی الشافی و أبو جعفر فی التلخیص: أن النبی (ص) تزوج بہا و کانت عذراء»۔
  15. عاملی، الصحیح، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۱۲۳۔
  16. عاملی، الصحیح، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۱۲۵۔
  17. ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۳۹؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۸ ،ص۱۷۴؛ ابن اثیر جزری، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، ج۱، ص۲۳؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱،ص۹۸ و ج۹ ،ص۴۵۹ ؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک ، ج۲ ،ص۲۸۰۔
  18. مسعودی، مروج الذہب، ج۲، ص۲۸۷ :«و فی سنۃ ست و عشرین کان تزویجہ بخدیجۃ بنت خویلد، و ہی یومئذ بنت أربعین، و قیل فی سنہا غیر ہذا»۔
  19. بیہقی، دلائل النبوۃ، ج۲، ص۷۱؛ السیرۃ الحلبیہ، ج۱، ص۱۴۰؛ البدایۃ و النہایۃ، ج۲، ص۲۹۴: «‌وکان عمرہا إذ ذاک خمسا و ثلاثین و قیل خمسا و عشرین سنہ»؛ بلاذری انساب الاشراف، ج۱، ص۹۸۔
  20. بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۹۸: «وتزوّج رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خدیجۃ و ہو ابن خمس و عشرین سنہ، وہی ابنۃ أربعین سنہ۔»
  21. جعفر مرتضی عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ، ج۲، ص۱۱۵۔ بہ نقل از السیرۃ الحلبیہ، ج۱، ص۱۴۰؛ تہذیب تاریخ دمشق، ج۱، ص۳۰۳؛ تاریخ الخمیس، ج۱، ص۲۶۴۔
  22. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۲، ص۲۹۵ ؛ ابن کثیر، السیرۃ النبویۃ، ج۱، ص۲۶۵۔
  23. واقدی، مختصر تاریخ دمشق، ج۱، ص۳۰۳
  24. واقدی، مختصر تاریخ دمشق، ج۲، ص۲۷۵؛ تہذیب الاسماء، ج۲، ص۳۴۲۔
  25. بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۹۸: «یقال إنہ تزوّجہا و ہی ابنۃ ست و أربعین سنہ»۔
  26. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۲، ص۲۹۵؛ بیہقی، دلائل النبوۃ، ج۲، ص۷۲۔
  27. بیہقی، دلائل النبوۃ، ج۲، ص۷۱ ؛ جعفر مرتضی عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ، ج۲، ص۱۱۴۔
  28. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۲، ص۲۹۴: «و قال غیرہ بلغ القاسم أن یرکب الدابۃ و النجیبۃ ثم مات بعد النبوۃ»۔
  29. ابن شہر آشوب، المناقب آل ابی طالب ، ج۱، ص۱۵۹: «روی أحمد البلاذری و أبو القاسم الکوفی فی کتابیہما و المرتضی فی الشافی و أبو جعفر فی التلخیص: أن النبیؐ تزوج بہا و کانت عذراء»۔
  30. جعفر مرتضی عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ، ج۲، ص۱۱۴۔
  31. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸ ، ص۱۷۴؛ ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۲۹۴۔
  32. ابن‌ سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸ ، ص۱۷۴؛ ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۲۹۴۔
  33. زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۲، ص۳۰۲۔
  34. ابن اثیر جزری، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۸۱۔
  35. ابن ہشام، سیرۃ النبی، بیروت، ج ۱، ص ۲۰۶۔
  36. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج۲، ص۲۰؛ زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۲، ص۳۰۲۔
  37. طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۷۶ش، ج۱، ص۲۷۵۔
  38. زرکلی، الاعلام، ج۲، ص۳۰۲: «فولدت لہ القاسم (وکان یکنی بہ) و عبداللہ (و ہو الطاہر و الطیب) و زینب و رقیہ و‌ام کلثوم و فاطمہ»۔
  39. عاملی، الصحیح، ۱۴۱۵ق، ج ۲، صص ۲۰۷-۲۲۰۔
  40. ابن اثیر جزری، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج ۵، ص۷۱؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج ۶، ص۳۰۸- ۳۰۹۔
  41. امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج ۶، ص۳۰۸- ۳۰۹۔
  42. ابن شہر آشوب، اسے بعض علماء سے نقل کرتے ہیں: المناقب، قم، ج۱، ص۱۵۹؛ برای استدلال‌ہا در رد فرزند داشتن حضرت خدیجہ، نک: عاملی، الصحیح، ۱۴۱۵ق، ج ۲، ص۲۰۷-۲۲۰۔
  43. بلاذری، أنساب‏ الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۷۱.
  44. ابن‌ سعد، الطبقات‏ الكبرى، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۱۵.
  45. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۵۴۶.
  46. ابن خلدون، تاریخ‏ ابن‏‌خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۴۱۰.
  47. ابن‌اثیر، الكامل، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۵۷.
  48. مقریزی، امتاع الاسماء، ۱۴۲۰ق، ج۹، ص۸۸ .
  49. ابن اثیر جزری، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج‏۶، ص۷۸؛ ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۱۰۸۹
  50. سورہ ضحی (93) آیت 8۔
  51. مجلسی، بحار الانوار، ج19، ص 63۔
  52. مجلسی، بحار الانوار، ج19، ص 16۔
  53. ابن ہشام، سیرۃ النبی، ترجمہ: رسولی محلاتی، ج1، ص 221۔
  54. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۵، ص۴۲۵؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، قم، ج۳، ص۳۲۰۔
  55. ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج‏۴، ص۱۸۱۷۔
  56. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۲۸۱۔
  57. ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج‏۲، ص۱۲۹۔
  58. ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج‏۲، ص۱۲۹۔
  59. مقریزی، إمتاع‏ الأسماع، ۱۴۲۰ق، ج‏۱۵، ص۶۰۔
  60. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۱۵۔( ابن کثیر وحی کے ابتدائی ایام میں حضرت خدیجہ(س) کے ان القابات کی طرف اشارہ کرتے ہیں)؛ بیہقی، دلائل النبوۃ، ۱۴۰۵ق، مقدمہ کتاب، ص۱۶۔
  61. ابن اثیر جزری، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج‏۶، ص۸۳۔
  62. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۰۰، ص۱۸۹۔
  63. السیلاوی، الأنوار الساطعۃ، ۱۴۲۴ق، ص۲۴۔
  64. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۶۱ ؛ ابن اثیر جزری، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج‏۱، ص۲۶۔
  65. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۸۲۴۔
  66. مسعودی، مروج‏ الذہب، ج2، ص 282؛ ابن سیدالناس، عیون الاثر، ج1، ص 151؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج4، ص1817؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج11، ص 493؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج8 ، ص 14۔
  67. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج11، ص493: «و توفيت قبل الہجرۃ بثلاث سنين، و ہي يومئذ ابنۃ خمس و ستين سنہ»۔
  68. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج4، ص 1818۔
  69. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج11، ص 493؛ ابن سیدالناس، عیون الاثر، ج1، ص 151۔
  70. ابن سعد، الطبقات‏ الكبرى، ج‏1، ص96۔
  71. ابن سعد، الطبقات‏ الكبرى، ج 8 ، ص14۔
  72. مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۴۵.
  73. ابو الحسن بکری، الانوار الساطعہ من الغرّاء الطاہرۃ، ص735۔
  74. جاسر، اماکن تاریخی اسلامی در مکہ مکرّمہ، ۱۳۷۶ش، ص۱۱۵۔
  75. رفعت پاشا، مرآۃ الحرمین، ۱۳۷۷ش، ص ۶۴۔
  76. فراہانی، سفرنامہ میرزا محمد حسین حسینی فراہانی، ۱۳۶۲ش، ص۲۰۲۔
  77. حسام السلطنہ، دلیل الانام، ۱۳۷۴ش، ص۱۲۶؛ حیدرآبادی، روزنامچہ سفر حج و عتبات، ۱۳۹۰ش، ص۲۳۵۔

مآخذ

  • ابن اثير جزرى، عز الدين أبو الحسن على بن محمد (م 630)، أسد الغابہ فى معرفۃ الصحابہ، بيروت، دارالفكر، 1409/1989.
  • ابن الجوزی، أبو الفرج عبد الرحمن بن على بن محمد (م 597)، المنتظم فى تاريخ الأمم و الملوك، تحقيق: محمد عبد القادر عطا و مصطفى عبد القادر عطا، بيروت، دار الكتب العلميہ، چاپ اول، 1412/1992.
  • ابن العمرانى، محمد بن على بن محمد (م 580)، الإنباء فى تاريخ الخلفاء، تحقيق: قاسم السامرائى، قاہرہ، دار الآفاق العربيۃ، چاپ اول، 1421/2001.
  • ابن حبيب بن اميۃ الہاشمى البغدادي، ابو جعفر محمد (م 245)، المحبّر، تحقيق: ایلیزہ ليختن شيتر، بيروت، دار الآفاق الجديد، بى تا.
  • ابن حبيب بن اميۃ الہاشمى البغدادي، ابو جعفر محمد (م 245)، المنمّق فى اخبار قريش، تحقيق: خورشيد احمد فاروق، بيروت، عالم الكتب، چاپ اول، 1405/1985.
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی (م 852)، الإصابۃ فى تمييز الصحابۃ، تحقيق: عادل احمد عبدالموجود و على محمد معوض، بيروت، دار الكتب العلميہ، چاپ اول، 1415/1995.
  • ابن سعد، محمد بن سعد بن منيع الہاشمي البصري (م 230)، الطبقات الكبرى، تحقيق: محمد عبد القادر عطا، بيروت، دار الكتب العلميہ، چاپ اول، 1410/1990.
  • ابن سید الناس، ابو الفتح محمد (م 734)، عيون الأثر فى فنون المغازى و الشمائل و السير، تعليق: ابراہيم محمد رمضان، بيروت، دار القلم، چاپ اول، 1414/1993.
  • ابن عبد البر، ابو عمر يوسف بن عبداللہ (م 463)، الاستيعاب فى معرفۃ الأصحاب، تحقيق: على محمد البجاوى، بيروت، دار الجيل، چاپ اول، 1412/1992.
  • ابن کثیر، أبو الفداء اسماعيل بن عمر الدمشقى (م 774)، البدايۃ و النہايۃ، بيروت، دار الفكر، 1407/ 1986.
  • بسوی، أبو يوسف يعقوب بن سفيان (م 277)، المعرفۃ و التاريخ، تحقيق: اكرم ضياء العمرى، بيروت، مؤسسۃ الرسالۃ، چاپ دوم، 1401/1981.
  • بلاذری، أحمد بن يحيى بن جابر (م 279)، جمل من انساب الأشراف، تحقيق: سہيل زكار و رياض زركلى، بيروت، دار الفكر، چاپ اول، 1417/1996.
  • علي بن موسي ابن طاووس (سید بن طاووس)، جمال الأسبوع بكمال العمل المشروع۔
  • زرکلی، خیر الدین (م 1396)، الأعلام؛ قاموس تراجم لأشہر الرجال والنساء من العرب والمستعربين والمستشرقين، بيروت، دار العلم للملايين، چاپ دوم، 1989.
  • طبري، أبو جعفر محمد بن جرير (م 310)، تاريخ الأمم و الملوك، تحقيق: محمد أبو الفضل ابراہيم، بيروت، دار التراث، چاپ دوم، 1387/1967.
  • علی اکبر دہخدا، لغت نامہ دہخدا (زیر نظر دکتر محمد معین و دکتر سید جعفر شہیدی)، مؤسسہ انتشارات وچاپ دانشگاہ تہران، چاپ دوم از دورہ جدید،1377، ج7.
  • کرمی فریدنی، علی، جلوہ ہایی از فروغ آسمان حجاز حضرت خدیجہؑ، قم، دلیل ما، چاپ اول، 1383.
  • شیخ مفید، الإفصاح، تحقیق: مؤسسۃ البعثۃ، بیروت: دار المفيد للطباعۃ والنشر والتوزيع، 1414-1993ء.
  • مقریزی، تقى الدين أحمد بن على (م 845)، إمتاع الأسماع بما للنبى من الأحوال و الأموال و الحفدہ و المتاع، تحقيق: محمد عبد الحميد النميسى، بيروت، دار الكتب العلميہ، چاپ اول، 1420/1999.