ربیبہ

ویکی شیعہ سے

رَبیبہ بیوی کی بیٹی کو کہا جاتا ہے۔ قرآن اور فقہی منابع میں ربیبہ سوتیلے باپ کے محارم میں سے ہے اور اس کے ساتھ شادی کرنا حرام ہے۔ فقہا کے نظریے کے مطابق بیوی کی پوتی اور نواسی بھی شوہر کے لئے ربیبہ ‌شمار ہوتی ہیں۔

فقہا سوتیلے باپ کی ربیبہ سے شادی کی حرمت ابدی کو اس کی ماں کے ساتھ مباشرت سے مشروط سمجھتے ہیں۔ سوتیلی بیٹی اور سوتیلا باپ ایک دوسرے سے ارث نہیں لے سکتے۔

مفہوم ‌شناسی

لغت میں ربیبہ کے معنی تربیت شدہ بیٹی ہے اور فقہی اصطلاح میں ربیبہ اس لڑکی کو کہا جاتا ہے جو عورت کے پہلے شوہر سے ہو۔ [1] لڑکی کے سوتیلے باپ کی گود میں تربیت ہونے کی بنا پر اس کو ربیبہ کہتے ہیں۔[2] ربیبہ میں عورت کی نواسی یا رضاعی بیٹی بھی شامل ہوتی ہے۔ عورت کے بعد والے شوہر کی بیٹی بھی ربیبہ شمار ہوگی البتہ اس صورت میں لڑکی عورت کے پہلے شوہر کے لئے ربیبہ کا حکم رکھتی ہے۔[3]

قرآن مجید سورہ نساء میں ربیبہ کا لفظ جمع کی صورت 'ربائب' آیا ہے۔ اس آیت میں خداوند عالم نے ربیبہ کے ساتھ ان لوگوں کا تذکرہ کیا ہے جن سے شادی کرنا حرام ہے۔[4] فقہی کتب باب نکاح میں ربیبہ کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔[5]

حرمت نکاح اور ارث نہ ملنا

فقہی منابع کی بنا پر، ربیبہ سوتیلے باپ کی محرم ہے اور سوتیلا باپ اس سے شادی نہیں کرسکتا ہے۔ فقہا نے ربیبہ سے شادی کی حرمت ابدی کو اس کی ماں کے ساتھ شوہر کی ہمبستری سے مشروط کیا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ربیبہ کی ماں سے سوتیلے باپ کی شادی دائمی ہو یا متعہ کی صورت میں۔ اس بنا پر ربیبہ کے لئے سوتیلا باپ اس صورت میں محرم ہے جب اس کی ماں سے جنسی رابطہ رکھتا ہو۔ [6]

بعض فقہا نے ربیبہ کو سوتیلے باپ کی محرم ہونے کے لئے اس بات سے مشروط کیا ہے کہ سوتیلے باپ نے اس کی ماں سے مباشرت کے علاوہ، اس کے پاس اس کی تربیت بھی ہوئی ہو۔[7] البتہ اگر سوتیلا باپ ربیبہ کی ماں سے ہمبستر نہ ہو تو اس صورت میں اس سے طلاق لے لے یا عورت مر جائے تو ربیبہ سے شادی کر سکتا ہے۔[8]

بعض فقہا کے نظریے کے مطابق ربیبہ اپنے سوتیلے باپ اور سوتیلا باپ اپنی ربیبہ سے میراث نہیں پاتے ہیں.[9]

ربیب

سوتیلا بیٹا شوہر کی دوسری بیوی کے بیٹے کو کہتے ہیں بعض اس کو ربیب بھی کہتے ہیں۔[10] سورہ نور کی اکتیسویں آیت میں ان کا نام واضح طور سےآیا ہے۔ فقہا نے اس آیت کی بنا پر سوتیلے بیٹے کو سوتیلی ماں کے لئے محرم کا حکم دیا ہے۔[11] اسی طرح سورہ نور کی بائیسویں آیت میں سوتیلی ماں سے سوتیلے بیٹے کی حرمت نکاح کا اشارہ ہوا ہے۔

گود لی اولاد

بعض مجتہد فقہا کے نظریے کے مطابق جس لڑکی کو گود لیا جائے وہ ربیبہ کے حکم میں نہیں ہے اور عورت کے شوہر کی محرم حساب نہیں ہوگی۔[12] اسی بنا پر اس کے ساتھ سرپرست کی شادی جائز ہے۔ فقہا نے گود لی ہوئی لڑکی کو سرپرست کی محرم بنانے کے لئے متعدد راستے بتائے ہیں۔[13] البتہ بعض محققین آیہ محارم سے استناد کرتے ہوئے اور ربیبہ سے شادی کرنے کی حرمت پر دلالت کرنے والی دلیل کے مفہوم کی وسعت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے ساتھ شادی کو حرام سمجھتے ہیں۔[14]

حوالہ جات

  1. نجفی، جواہر الکلام، ۱۹۸۱م، ج۲۹، ص۳۴۹۔
  2. قرشی ‌بنایی، قاموس قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۳، ص۴۵؛ طوسی، التبیان، دار احیاءالتراث العربی، ج۳، ص۱۵۷ و ۱۵۸۔
  3. علامہ حلی، تذكرۃ الفقہاء، المكتبۃ المرتضویۃ لاحیاء الآثار، ج۲، ص۶۳۰۔
  4. سورہ نساء، آیہ ۲۳۔
  5. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۵۸۔
  6. نجفی، جواہر الکلام، ۱۹۸۱م، ج۲۹، ص۳۴۹؛ رسالہ توضیح المسائل مراجع، بخش نکاح، مسئلہ ۲۳۸۷۔
  7. شریعتی ‌نسب، «محرمیت در فرزند خواندگی»، ۱۳۹۳ش، ص۲۳۷۔
  8. نجفی، جواہر الکلام، ۱۹۸۱م، ج۲۹، ص۳۴۹۔
  9. «ارث ربیبہ (فرزند ہمسر)»، خبر رساں سائٹ آیت ‌اللہ مکارم شیرازی۔
  10. دہخدا، لغت نامہ، ذیل واژہ «ربیب»۔
  11. موسوعۃ الفقہ الإسلامی، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۳۰۴۔
  12. [http://www.tabnak.ir/fa/news/351754 «گود لی ہوئی لڑکی سے سرپرست کی شادی قانونی ہوگئ، تابناک سائٹ
  13. صانعی، مجمع المسائل، ج۲، ص۳۵۷ و ۳۵۸؛ صدر اللہی دامغانی، «مسئلہ فرزند خواندگی»، ۱۳۸۷ش، ص۵۔
  14. میر داماد نجف‌ آبادی، «بررسی مشروعت ازدواج فرزندپذیر با فرزند خواندہ با نگاہ بہ آیات قرآن کریم»، ص۱۴۔

مآخذ