مندرجات کا رخ کریں

میسرہ

ویکی شیعہ سے

میسرہ حضرت خدیجہ (س) کے خادم تھے[1] جنہوں نے حضرت خدیجہ سے نبی اکرمؐ کی شادی میں کردار ادا کیا۔[2] حضرت خدیجہ کے شام جانے والے تجارتی قافلوں کی دیکھ بھال بھی ان کے ذمے تھی.[3] صحابہ کے بارے میں لکھنے والے اہل سنت مورخ ابن حجر عسقلانی کے مطابق، خدیجہ کے شام جانے والے جس قافلے کی قیادت نبی اکرمؐ کر رہے تھے اس میں میسرہ بھی شامل تھے اور انہوں نے آپؐ کی نبوت کی کچھ نشانیاں دیکھیں.[4] اس سفر کے دوران نَسطور نامی ایک عیسائی راہب نے انجیل میں مذکور نشانیوں کا حوالہ دیتے ہوئے پیشین گوئی کی کہ حضرت محمدؐ نبوت پر مبعوث برسالت ہونگے۔[5] میسرہ نے ان بادلوں (یا فرشتوں) کو بھی دیکھا جو نبی اکرمؐ کو دھوپ سے بچا رہے تھے۔[6] قافلے کے واپس آنے کے بعد،حضرت خدیجہ نے میسرہ سے سفر کے روداد اور تجارتی منافع کی اطلاع سے متاثر ہوکر رسول اللہ (ص) سے شادی کی تجویز پیش کی.[7] بعض ذرائع نے یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ خدیجہ نے اس واقعہ کے بعد میسرہ کو آزاد کر دیا.[8] اس واقعے کا تذکرہ تیسری صدی ہجری کے سیرہ ابن ہشام،[9] انساب الاشراف،[10] اور الطبقات الکبری[11] جیسے تاریخی مآخذ میں ملتا ہے.

ابن حجر عسقلانی بتاتے ہیں کہ رسول اللہؐ کے بعثت کے وقت میسرہ کی موجودگی کے بارے میں کوئی واضح اور روشن دستاویز موجود نہیں ہے.[12] حنبلیوں کے پیشوا احمد بن حنبل نے اپنی کتاب فضائل الصحابہ میں حضرت خدیجہ کے خادم کے بارے میں ایک قصہ بیان کیا ہے[13] جسے اس کتاب کے محقق نے میسرہ سمجھا ہے.[14] اس روایت میں رسول اللہؐ نے اپنی بعثت سے پہلے اپنے سلسلہ میں ایک خدا کی پرستش کی طرف اشارہ کیا ہے.[15]

حوالہ جات

  1. ابن‌عَساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج61، ص315؛ ابن‌حَجَر عَسقَلانی، الاِصابۃ، ج6، ص189۔
  2. طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج1، ص103۔
  3. بَلعمی، تاریخنامہ طبری، 1373ہجری شمسی۔ ج3، ص23۔
  4. ابن‌حَجَر عَسقَلانی، الاِصابۃ، ج6، ص189۔
  5. دیاربَکری‏، تاریخ الخمیس، دار الصادر، ج1، ص261۔
  6. مغربی، شرح الاخبار فی فضائل الأئمۃ الأطہار (ع‏)، 1409ھ، ج1، ص184؛ شبانکارہ‌ای، مجمع الأنساب، 1381ش، ج1، ص162۔
  7. طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج1، ص103۔
  8. استرآبادی‏، آثار احمدی‏، 1374ش، ص70؛ واعظ خرگوشی‏، شرف النبی‏، 1361ش، ص49۔
  9. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج1، ص188-191۔
  10. بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص98۔
  11. ابن‌سعد، الطبقات الکبری‏، 1410ھ۔ ج1، ص124۔
  12. ابن‌حَجَر عَسقَلانی، الاِصابۃ، ج6، ص189۔
  13. ابن‌حنبل، فضائل الصحابۃ، 1430ھ، ج2، ص1075۔
  14. وصی‌اللہ، تحقیق فضائل الصحابہ، 1430ھ، ج2، ص1075۔
  15. ابن‌حنبل، فضائل الصحابۃ، 1430ھ، ج2، ص1075۔

مآخذ

  • ابن‌حنبل، احمد بن محمد، فضائل الصحابۃ، تحقیق: عباس، وصی‌اللہ، قاہرہ، دار ابن‌الجوزی، چاپ چہارم، 1430ھ۔
  • ابن‌حَجَر عَسقَلانی، احمد بن علی، الاِصابۃ فی تمییز الصحابۃ، تحقیق: عادل احمد عبد الموجود و علی‌محمد معوض، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1415ھ۔
  • ابن‌سعد، محمد بن سعد‏، الطبقات الکبری‏، تحقیق: محمد عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1410ھ۔
  • ابن‌عَساکر، علی بن حسن‏، تاریخ مدینۃ دمشق و ذکر فضلہا و تسمیۃ من حلہا من الأماثل أو اجتاز بنواحیہا من واردیہا و أہلہا، تحقیق: علی شیری، بیروت، دار الفکر، چاپ اول، 1415ھ۔
  • ابن‌ہشام، عبدالملک، السیرۃ النبویۃ، تحقیق: مصطفی سقا و ابراہیم الأبیاری، عبد الحفیظ شلبی، بیروت، دار المعرفۃ، چاپ اول، بی‌تا.
  • استرآبادی‏، احمد بن تاج الدین، آثار احمدی تاریخ زندگانی پیامبر اسلام و ائمہ اطہار (ع)، تہران، میراث مکتوب‏، چاپ اوّل‏، 1374ہجری شمسی۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق: سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دار الفکر، چاپ اول، 1417ھ۔
  • بَلعمی، محمد بن محمد، تاریخنامہ طبری، تحقیق: محمد روشن، تہران، البرز، چاپ سوم، 1373ہجری شمسی۔
  • دیاربَکری‏، شیخ حسین، تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس‏، بیروت، دار الصادر، بی‌تا.
  • شبانکارہ‌ای، محمد بن علی، مجمع الأنساب، تصحیح: ہاشم محدث، تہران، امیر کبیر، چاپ اول، 1381ہجری شمسی۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری بأعلام الہدی، قم، مؤسسہ آل البیت، چاپ اول، 1417ھ۔
  • مغربی، قاضی نعمان‏، شرح الاخبار فی فضائل الأئمۃ الأطہار (ع‏)، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، 1409ھ۔
  • واعظ خرگوشی‏، ابوسعید، شرف النبی‏، تحقیق، محمد روشن، تہران، نشر بابک، 1361ہجری شمسی۔
  • وصی‌اللہ، عباس، تحقیق فضائل الصحابہ تألیف احمد بن حنبل، قاہرہ، دار ابن‌الجوزی، چاپ چہارم، 1430ھ۔