ابو برزہ اسلمی
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | نضلہ بن عبد اللہ بن حارث |
محل زندگی | مدینہ، بصرہ |
مہاجر/انصار | انصار |
دینی معلومات | |
جنگوں میں شرکت | احد، جنگ خیبر، جنگ حنین، فتح مکہ، جنگ جمل، جنگ صفین و جنگ نہروان |
وجہ شہرت | پیغمبر اکرم (ص)، امام علی (ع)، امام حسن (ع) کے صحابی، |
نضلہ بن عبد اللہ بن حارث (متوفی 64 ھ، 684 ء) ابو برزہ اسلمی کے نام سے معروف، پیغمبر اکرم (ص) اور امام علی (ع) کے اصحاب میں سے ہیں۔ انہوں نے متعدد غزوات جنگ صفین، جنگ جمل و جنگ نہروان میں شرکت کی۔ خلفاء کے زمانہ کی بعض فتوحات میں بھی شریک ہوئے۔ بعض نے ان کا شمار سلمان، مقداد، ابوذر اور عمار کی صف میں کیا ہے۔ ابو برزہ نے پیغمبر اسلام (ص) اور امام حسن مجتبی (ع) سے چند روایات نقل کی ہیں۔ ان کا شمار ان افراد میں سے ہے جنہوں نے امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد یزید پر اعتراض کیا۔
نام و کنیت
ابن سعد[1] نے ابو برزہ کے فرزند کے حوالے سے ان کا نام نضلہ بن عبد اللہ، خلیفہ بن خیاط[2] و عبد اللہ بن نضلہ نقل کیا ہے۔ لیکن زیادر تر مصادر نے نضلہ بن عبید پر اتفاق کیا ہے۔[3] البتہ ان کے کئی اور نام دسترس میں ہیں۔[4]
نووی[5] کے بقول اسلام سے پہلے ان کا نام نضلہ بن نیاز (نیاز=شیطان) تھا۔ آنحضرت (ص) نے ان کا نام نضلہ بن عبد اللہ رکھ دیا۔[6] ان کی کنیت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ صرف شیخ طوسی نے انہیں اصحاب پیغمبر کے ضمن میں ابو بردہ[7] اور اصحاب امیر المومنین کے ذیل میں ابو برزہ ذکر کیا ہے۔[8] ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کوئی غلطی پیش آئی ہے۔ نووی کا ماننا ہے کہ اصحاب ہیغمبر (ص) فقط وہ ہیں جن کی کنیت ابو برزہ تھی۔[9]
غزوات پیغمبر (ص) میں شرکت
ان کا شمار ان اصحاب میں ہوتا ہے جو فتح مکہ،[10] غزوات حنین و خیبر[11] اور کئی دیگر غزوات میں پیغمبر اکرم (ص) کے ہمراہ تھے۔
ان کے غزوات کی تعداد 6 یا 7[12] یا 9[13] ذکر ہوئی ہے۔
خود ان کے بقول: جب جنگ احد میں آنحضرت (ص) زخمی ہو گئے تو وہ آپ کی دیکھ بھال میں لگ گئے۔ ٹھیک ہونے کے بعد پیغمبر (ص) نے ان کے حق میں دعا کی۔[14]
فتح مکہ کے دن جب حضور (ص) نے تمام اہل مکہ کو امان دے دی تو فرمایا ابن خطل کو قتل کردو چاہے وہ خانہ کعبہ کے پردہ سے ہی کیوں نہ لپٹا ہوا ہو، اس لئے کہ وہ مرتد ہو گیا ہے اور اس نے ایک مسلمان کو قتل کیا ہے اور اس کی دو کنیزوں کو بھی جنہوں نے آنحضرت (ص) کی ہجو کی تھی۔[15]
لہذا ابو برزہ اس کے پاس گئے تو دیکھا کہ وہ خانہ کعبہ کا پردہ پکڑے ہوئے تھا، انہوں نے رکن و مقام کے درمیان اس کی گردن اڑا دی۔[16] البتہ اکثر منابع ابن خطل کے قتل میں ان کے ساتھ سعید بن حریث مخزومی کو شریک قرار دیتے ہیں۔[17]
خلفاء کے زمانے میں
- نبرد عین شمس
طبری کے مطابق،[18] سن 20 ہجری میں جب عین شمس کی جنگ (مصر کے شہر میں) پیش آئی، جس میں عمرو بن عاص کا سامنا مقوقس سے ہوا۔ اس وقت مسلمانوں کا ایک گروہ ڈر گیا اور اس نے سستی ظاہر کی تو اس وقت عمرو عاص نے لشکر میں حاضر اصحاب پیغمبر سے نصرت طلب کی۔ ان میں سے جو لوگ پیش قدم ہوئے ان میں ابو برزہ بھی تھے۔ ان کے پیش قدم ہونے سے مسلمانوں میں قوت پیدا ہوئی اور انہوں نے کامیابی حاصل کی۔[19]
- فتح بلح و اصطخر
سن 29 ھ میں عبد اللہ بن عامر نے اصطخر، دارابگرد و اردشیر خورہ (قدیم فارس کے علاقہ) پر لشکر کشی کی تو وہ فوج کے میمنہ کے سردار تھے۔ یہ جنگ ان علاقوں پر فتح کے ساتھ ختم ہوئی۔
اسی طرح سے وہ اس پچاس ہزار کے لشکر میں شامل تھے جس کے سردار ربیع بن زیاد تھے اور جس میں بلخ و قہستان پر (51 ھ) مسلمانوں نے فتح حاصل کی۔[20]
امام علی کے ہمراہ
ابو برزہ امام علی (ع) کے اصحاب میں سے تھے۔[21] برقی[22] نے انہیں سلمان، مقداد، ابوذر و عمار کی صف میں قرار دیا ہے۔
وہ جنگ صفین، جنگ جمل اور جنگ نہروان میں حضرت علی (ع) کے ہمراہ تھے۔[23]
ابو برزہ کی معصومین سے روایات
ابو برزہ نے پیغمبر اکرم (ص) سے روایات نقل کی ہیں۔ احمد بن حنبل نے مسند میں[24] ان کے واسطہ سے 49 احادیث نقل کی ہیں۔ اسی طرح سے امام حسن (ع) سے منقول ان کی روایات امامیہ محدثین منجملہ شیخ کلینی[25] کی توجہ کا سبب قرار پائی ہے۔[26]
ابو برزہ کی روایات کے راوی
ان کے واسطے سے روایت نقل کرنے والوں میں ان کے بیٹے مغیرہ کے علاوہ ابو المنہال سیار بن سلامہ، ابو الوازع، عبد اللہ بن مطرف و ازرق بن قیس کے اسماء قابل ذکر ہیں۔[27]
یزید پر اعتراض
جس وقت یزید چوپ سے سر امام حسین (ع) کی توہین کر رہا تھا اور اس پر شراب ڈال رہا تھا۔ ابو برزہ نے اس پر اعتراض کیا تو یزید نے انہیں دربار سے باہر نکال دیا۔[28]
وفات
پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد ابو برزہ اپنے خانوادہ کے ساتھ مدینہ سے بصرہ چلے گئے اور وہیں سکونت اختیار کر لی اور آخر امر جہاد کے لئے خراسان جاتے ہوئے مرو میں وفات پائی۔[29] ابن حبان نے ان کا محل وفات سجستان اور ہرات کے درمیان بیابان[30] اور حاکم نیشاپوری نے نیشاپور[31] میں ذکر کیا ہے۔[32]
حوالہ جات
- ↑ ابن سعد، طبقات الکبری، دار صادر، ج۴، ص۲۹۸، ج۷، ص۳۶۶
- ↑ ابن خیاط، الطبقات، ۱۹۶۶م، ج۲، ص۸۲۹، ج۱، ص۲۴۱
- ↑ بخاری، التاریخ الصغیر، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۱۵۷، ص۱۶۶؛ ابو زرعہ، تاریخ، ۱۴۰۰ق، ج۱، ص۴۷۷
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابہ، دار الاحیاء، ج۵، ص۱۴۶-۱۴۷؛ ذہبی، تاریخ، ۱۳۶۸ق، ج۲، ص۳۲۸؛ عبد الغنی، الکمال فی معرفت الرجال، ج۱، ص۱۶۷
- ↑ نووی، تہذیب الاسماء، ج۲، ص۱۸۰
- ↑ ابن حجر، الاصابہ، ۱۸۵۳م، ج۶، ص۲۳۷
- ↑ طوسی، رجال، ۱۳۸۰ق، ص ۳۰
- ↑ ص ۶۰
- ↑ نووی، تہذیب الاسماء، ج۲، ص۱۷۹
- ↑ ابن سعد، طبقات الکبری، دار صادر، ج۴، ص۲۹۸؛ ابن حجر، الاصابہ، ۱۳۵۳ق، ج۶، ص۲۳۷.
- ↑ ابن حجر، الاصابہ، ۱۳۵۳ق، ج۶، ص۲۳۷؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، دار الاحیاء، ج۵، ص۱۹.
- ↑ احمد بن حنبل، مسند، دار صادر، ج۴، ص۴۲۳؛ بخاری، التاریخ الصغیر، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۱۵۸.
- ↑ مزی، تحفہ الاشراف، ۱۳۹۷ق، ج۹، ص۹.
- ↑ ابو نعیم، ذکر اخبار اصبہان، ۱۹۳۴م، ج۲، ص۳۹
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۳۶۰.
- ↑ واقدی، المغازی، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۸۵۹؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، دار صادر، ج۴، ص۲۹۹؛ احمد بن حنبل، العلل، ۱۹۶۳م، ج۱، ص۳۵۹
- ↑ ابن ہشام، سیره النبی، ۱۹۷۲م، ج۴، ص۸۶۸؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۶۰؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۲۴۹
- ↑ طبری، تاریخ، ج۴، ص۱۱۱
- ↑ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۵۶۵
- ↑ ابن اثیر، الکامل، ج۳، ص۱۰۱، ص۴۸۹؛ ابن خلدون، تاریخ، ۱۹۵۷م، ج۳ (۱)، ص۳۰
- ↑ ابن خلدون، تاریخ، ۱۹۵۷م، ج۳ (۱)، ص۳۰.
- ↑ برقی، رجال، ۱۳۴۲ش، ص۳
- ↑ ابو نعیم، ذکر اخبار اصبہان، ۱۹۳۴م، ج۲، ص۳۹؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، دار الاحیاء، ج۵، ص۱۹.
- ↑ احمد بن حنبل، مسند، دار صادر، ج۴، ص۴۱۹-۴۲۶.
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۳۶۲ش، ج۶، ص۱۷.
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۰۳ق، ج۲۱، ص۴۳.
- ↑ احمد بن حنبل، مسند، ج۴، ص۴۱۹-۴۲۶
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۳، ص۴۱۶؛ طبری، ج۵، ص۳۹۰؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، دار احیاء، ج۵، ص۲۰؛ ابن اثیر، الکامل، ج۴، ص۸۵
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۷، ص۳۶۶؛ ابن قتیبہ، المعارف، ۱۳۸۸ق، ص۳۳۶
- ↑ ابن حبان، مشاہیر علماء الامصار، ص۳۸
- ↑ خلیفہ نیشابوری، ترجمہ و تلخیص تاریخ نیشابور حاکم نیشابوری، ص۱۰
- ↑ ابن قیسرانی، الجمع بین کتابی الکلاباذی و الاصیہانی، ۱۳۲۳ق، ج۲، ص۵۳۴؛ ذہبی، سیر، ج۳، ص۴۳
مآخذ
- ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغابہ، بیروت، دار احیاء التراث العربی
- ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل
- ابن حبان، محمد، مشاہیر علماء الامصار، بہ کوشش م. فلایشہامر، قاہره، ۱۳۷۹ق/۱۹۵۹ع
- ابن حجر، احمد بن علی، الاصابہ، کلکتہ، ۱۸۵۳ع
- ابن خلدون، عبد الرحمن، تاریخ، بیروت، ۱۹۵۷ع
- ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر
- ابن قتیبہ، عبد اللہ بن مسلم، المعارف، بہ کوشش ثروت عکاشہ، قاہره، ۱۳۸۸ق/۱۹۶۹ع
- ابن قیسرانی، محمد بن طاہر، الجمع بین کتابی الکلاباذی و الاصیہانی، حیدرآباد، ۱۳۲۳ق
- ابن ہشام، عبد الملک، سیره النبی، بہ کوشش محمد محیی الدین عبد الحمید، قاہره، ۱۹۷۲ع
- ابو زرعہ دمشقی، عبد الرحمن بن عمرو، تاریخ، دمشق، ۱۴۰۰ق/۱۹۸۰ع
- ابو نعیم، احمد بن عبد اللہ، ذکر اخبار اصبہان، لیدن، ۱۹۳۴ع
- احمد بن حنبل، العلل، آنکارا، ۱۹۶۳ع
- احمد بن حنبل، مسند، بیروت، دار صادر
- بخاری، محمد بن اسماعیل، التاریخ الصغیر، بیروت، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶ع
- برقی، احمد بن ابی عبد اللہ، رجال، تہران، ۱۳۴۲ش.
- بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، قاہره، ۱۹۵۹ع
- خلیفہ بن خیاط، الطبقات، بہ کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۹۶۶ع
- خلیفہ نیشابوری، احمد بن محمد، ترجمہ و تلخیص تاریخ نیشابور حاکم نیشابوری، بہ کوشش بہمن کریمی، تہران، ۱۳۳۹ش.
- خوئی، ابو القاسم، معجم رجال حدیث، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳ع
- ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام، قاہره، ۱۳۶۸ق
- ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، بہ کوشش شعیب ارنؤوط، بیروت، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵ع
- طبری، تاریخ؛
- طوسی، محمد بن حسن، رجال، نجف، ۱۳۸۰ق/۱۹۶۱ع
- عبد الغنی مقدسی، الکمال فی معرفه الرجال، نسخہ عکسی موجود در کتابخانہ مرکز
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، بہ کوشش علی اکبر غفاری، تہران، ۱۳۶۲ش
- مزی، یوسف بن عبد الرحمن، تحفة الاشراف، بمبئی، ۱۳۹۷ق
- نووی، یحیی بن شرف، تہذیب الاسماء، قاہره، اداره الطباعہ المنیریہ
- واقدی، محمد بن عمرو، المغازی، بہ کوشش مارسدن جونز، بیروت، ۱۴۰۴ق/۱۹۸۴ع