صعصعہ ابن صوحان

ویکی شیعہ سے
صعصعہ بن صوحان
کوائف
نام:صعصعہ بن صوحان
نسبقبیلہ عبد القیس
جائے پیدائشقطیف
وفاتتقریبا سنہ 70 ھ دور حکومت معاویہ
اصحابامام علیؑ اور امام حسنؑ


صَعْصَعہ بن صَوحان، امام علیؑ کے برجستہ اصحاب میں سے تھے۔ آپ نے جنگ جمل، صِفّین اور نَہرَوان میں شرکت کی۔ صعصعہ خطابت میں مہارت رکھتے تھے اور اسی مہارت کے ذریعے امام علیؑ کے دفاع اور معاویہ پر تتقید کیا کرتے تھے۔ امام علیؑ نے صعصعہ کو اپنے بزرگ اصحاب میں شمار فرمایا ہے۔ امام صادقؑ بھی انہیں ان معدود افراد میں شمار کرتے ہیں جنہیں امام علیؑ کی حقیقی معرفت حاصل تھی۔ کوفہ میں مسجد صعصعہ آپ سے منسوب ہے۔

نسب

صَعصَعۃ بن صَوحان کا تعلق قبیلہ عبد القیس سے تھا۔[1] وہ قطیف کے نزدیک کسی مقام پر پیدا ہوئے اور کچھ مدت بعد کوفہ میں قیام پذیر ہوئے۔[2] اسی وجہ سے انہیں کوفی بھی کہا جاتا ہے۔[3] ان کی کنیت "أبا طَلحۃ" ہے۔[4] ان کے دو بھائی زید بن صوحان اور صیَحان بن صوحان بھی امام علیؑ کے پیروکاروں میں سے تھے۔[5]

خلفا کے دور میں

صعصعہ پیغمبر اسلام کی حیات مبارکہ میں مسلمان ہوئے لیکن ا­نہیں آپ کا دیدار نصیب نہیں ہوا۔[6] دوسرے خلیفہ، عمر بن خَطّاب کے دور میں ابو موسی اشعری نے خلیفہ کے پاس کچھ مال بھیجا۔ خلیفہ نے اسے مسلمانوں میں تقسیم کر دیا اور کچھ باقی بچا۔ خلیفہ نے اس سے متعلق مسلمانوں کی رائے دریافت کی۔ صعصعہ نے کہا:

"لوگوں سے مشورہ ایسے مسائل میں لینا چاہئے جن کے بارے میں خدا نے قرآن میں کوئی حکم ارشاد نہ فرمایا ہو لیکن اگر کسی چیز کے بارے میں خدا نے کوئی حکم دیا ہے تو اسی پر عمل کرنا چاہئے۔"[7]

صعصعہ تیسرے خلیفہ عثمان بن عَفّان کے مخالفین میں سے تھے۔ خلیفہ نے انہیں ان کے بھائی زید بن صوحان اور مالک اشتر کے ساتھ شام جلاوطن کر دیا۔[8] تاریخی منابع میں عثمان کے ساتھ ان کی تنقیدی گفتگو مذکور ہے۔[9]

امام علی کے صحابی

"امام علیؑ کے ساتھ کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو آپ کو جس طرح پہنچاننا چاہئے تھا پہچان لیں مگر صعصعہ اور آپؑ کے اصحاب خاص کے"۔

ابن داود

شیخ مفید کے مطابق صعصعہ امام علیؑ کے برجستہ اصحاب میں سے تھے۔[10] تیسری صدی کے دانشور ابن قتیبہ دینوری بھی صعصعہ کو مشہور شیعہ شخصیات میں شما کرتے ہیں۔[11] مُروج الذَّہَب میں مسعودی کے مطابق امام علیؑ بھی صعصعہ کو عرب کے بزرگان اور اپنے سرکردہ اصحاب میں میں شمار کرتے ہیں۔[12] کلینی سے منقول ایک حدیث میں امام علیؑ نے انہیں اپنی وصیت میں بطور گواہ مقرر فرمائے تھے۔[13]

صعصعہ امام علیؑ کی تشییع جنازہ میں شریک تھے۔ آپؑ کو دفن کرنے کے بعد وہ اپنے سر پر خاک ڈالتے اور گریہ کرتے ہوئے آپ کی قبر پر آئے اور ایک طرف امام علی کے فضائل بیان کر رہے تھے تو دوسری طرف اپنے آپ کو امیر المؤمنین حضرت علیؑ کے دوستداران میں سے قرار دینے اور آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق کیلئے دعا کر رہے تھے۔[14]

صعصعہ معتقد تھے کہ امام علیؑ نے خلافت کو زینت اور مقام و مرتبہ عطا فرمایا اور خلافت کو امام علیؑ کی زیادہ ضرورت تھی نہ امام کو خلافت کی۔[15]

جنگ جمل، صفین اور نہروان میں

صعصعہ نے امام علیؑ کے دور خلافت میں مختلف جنگوں میں شرکت کی۔ جنگ جمل میں ان کے بھائی صیحان قبیلہ عبدالقیس کا علمدار تھا۔ صیحان کی شہادت کے بعد آپ کے دوسرے بھائی زید نے علم سنبھالی جب زید بھی شہید ہوئے تو صعصعہ نے خود آگے بڑھ کر پرچم کو سنبھال لیا۔[16]

جنگ صفین میں بھی صعصعہ قبیلہ عبدالقیس کے سردار کی حیثیت سے شریک ہوئے۔[17] جنگ سے پہلے معاویہ کے لشکر نے پانی پر قابض ہو کر امام علیؑ کے سپاہیوں کو پانی تک جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ امام علیؑ نے صعصعہ کو مذاکرات کیلئے معاویہ کے پاس بھیجا۔[18]

جنگ نہروان سے پہلے بھی امام علیؑ نے صعصعہ کو خوارج کے ساتھ مذاکرات اور انہیں نصیحت کرنے کیلئے بھیجا۔[19] اس گفتگو میں انہوں نے خوارج کو امام علیؑ کی پیروی کرنے پر زور دیا۔ خوارج کے ساتھ صعصعہ کی گفتگو کو شیخ مفید نے کتاب الاختصاص میں نقل کیا ہے۔[20]

مُنذِر بن جارود کی شفاعت

کوفہ میں مسجد صعصعہ

بِحار الانوار میں آیا ہے کہ مُنذِر بن جارود جسے امام علیؑ کی طرف سے کسی منطقے کی سرپرستی کیلئے بھیجا گیا تھا، نے بیت المال سے کچھ مال اپنے لئے اٹھا لیا۔ امام علیؑ نے انہیں قید خانے میں زندانی فرمایا؛ لیکن صعصعہ کی سفارش پر آپؑ نے منذر کو رہا کر دیا۔[21] کتاب الغارات کے مطابق صعصعہ نے امام علیؑ سے کہا: منذر بن جارود کی بہن ہر روز اس کے لئے گریہ کرتی ہے، آپ انہیں رہا کریں جو کچھ انہوں نے بیت المال سے اٹھا لیا ہے اس کی میں ضمانت دیتا ہوں۔ امام علیؑ نے فرمایا: ضمانت کی ضرورت نہیں اگر وہ بیت المال سے کچھ نہ اٹھائے کی قسم کھالیں تو اسے آزاد کر دوں گا۔[22]

معاویہ کی مخالفت

معرفۃالرجال میں کَشّی لکھتے ہیں کہ امام حسنؑ کی معاویہ کے ساتھ صلح میں امام حسنؑ نے جن افراد کیلئے اَمان طلب فرمایا ان میں سے ایک صعصعہ بھی تھا۔[23] صلح امام حسن کے بعد معاویہ نے کوفہ میں صعصعہ سے ملاقات میں ان سے کہا: خدا کی قسم میں نہیں چاہتا تھا کہ تم میرے امان میں ہو۔ صعصعہ نے جواب میں کہا خدا کی قسم میں بھی نہیں چاہتا تھا تمہیں اس نام سے پکاروں؛ اس کے بعد معاویہ کو خلیفہ کے عنوان سے سلام کیا۔ معاویہ نے کہا اگر حقیقتا مجھے خلیفہ ماننے ہو تو منبر پر جا کر علیؑ پر لعن کرو۔ صعصعہ منبر پر گئے اور خدا کی حمد و ثنا کے بعد دو پہلوں کلام میں کہا:‌ اے لوگو! میں ایک شخص (معاویہ) کی جانب سے آیا ہوں، اس نے مجھے علیؑ پر لعن کرنے کا کہا ہے۔ تم سب اس (معاویہ) پر لعن کرو۔[24]

ابن اعثم کوفی لکھتے ہیں کہ جب معاویہ نے بزرگان کوفہ سے کہا: تمہارا کیا خیال ہے کہ میں نے تم لوگوں کی نادانی پر تم لوگوں کو بخش دیا ہے، ورنہ تم لوگ مجازات کے مستحق تھے؟ خدا ابو سفیان پر اپنی رحمت نازل کرے کہ وہ ایک صبور انسان تھے اور اگر تم لوگ سب ان کی اولاد میں سے ہوتے تو تم لوگ بھی صبور ہوتے۔ اس موقع پر صعصعہ نے کہا: اے معاویہ! خدا کی قسم یہ لوگ ابو سفیان سے کئی درجہ افضل اشخاص کی اولاد ہیں اور ابو سفیان کی نسل میں صبور انسانوں کی نسبت ناداں اور جاہل افراد کی تعداد زیادہ ہے۔[25]

خطابت میں مہارت

صعصعہ خطابت میں مہارت رکھتے تھے۔ تاریخی اور حدیثی منابع میں اسے ایک فصیح و بلیغ شخص کے عنوان سے جانا گیا ہے۔[26] امام علیؑ نے صعصعہ کی "الخَطیبُ الشَّحْشَح" (زبردست خطیب) کے عنوان سے توصیف کی ہیں۔[27] معاویہ [28] اور مغیرہ بن شعبہ[29] بھی ان کی فصاحت و بلاغت کے معترف تھے۔ معاویہ ا­نہیں تیز طرار زبان کے مالک سمجھتے تھے۔[30]

کَشّی کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے فن خطابت کے ذریعے حضرت علیؑ کا خوب دفاع کیا۔[31]

وفات

بحرین میں صعصعہ سے منسوب مسجد اور قبر

صعصعہ کی وفات معاویہ کے دور میں کوفہ میں ہوئی۔[32] البتہ بعض منابع میں آیا ہے کہ مغیرہ نے معاویہ کے حکم پر صعصعہ کو بحرین میں کسی جزیرے پر جلاوطن کیا اور وہ تقریبا سنہ 70ھ کو وہیں پر فوت ہوئے۔[33]

بحرین کی شہر عسکر میں صعصعہ سے منسوب ایک قبر بھی ہے جو مسجد صعصعہ بن صوحان کے نام سے مشہور ہے۔[34] اسی طرح کوفہ میں مسجد سَہلہ کے قریب بھی ایک مسجد کو مسجد صعصعہ کہا جاتا ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ جگہ ان کی عبادت گاہ تھی۔[35]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. ابن‌ اثیر، اُسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۴۰۳۔
  2. زرکلی، الاعلام، ۱۹۹۸م، ج۳، ص۲۰۵۔
  3. ذہبی، تاریخ‌الاسلام، ۲۰۰۳م، ج۴، ص۲۴۰۔
  4. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۶، ص۲۴۴۔
  5. ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۷۱۷۔
  6. ابن اثیر، اسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۴۰۳۔
  7. ابن‌ عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۷۱۷۔
  8. احمدی میانجی، مکاتیب الأئمۃ(ع)، ۱۴۲۶ق، ج۱، ص۱۴۵۔
  9. برای نمونہ نگاہ کنید بہ ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۵۸۹۔
  10. شیخ مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص۴۷۵۔
  11. ابن‌ قتیبۃ، المعارف، ۱۹۹۲ق، ص۶۲۴۔
  12. مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۳۸۔
  13. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۵۱۔
  14. مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۲، ص۲۹۵۔
  15. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۷۹۔
  16. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۶، ص۲۴۴۔
  17. نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ۱۴۰۴ق، ص۲۰۶۔
  18. نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ۱۴۰۴ق، ص۱۶۰۔
  19. شیخ مفید، الاختصاص، ۱۴۱۳ق، ص۱۲۱۔
  20. شیخ مفید، الاختصاص، ۱۴۱۳ق، ص۱۲۱۔
  21. مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۴، ص۳۲۳۔
  22. ثقفی، الغارات، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۸۹۷۔
  23. کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۲۸۵۔
  24. کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ۱۳۶۳ش، ص۶۹۔
  25. ابن اعثم کوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۳۸۸۔
  26. مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۴۳؛ زمخشری، الفایق فی غریب الحدیث، ۱۴۱۷، ج۱،‌ ص۷۱؛ مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۴، ص۳۰۸۔
  27. نہج‌ البلاغۃ، ص۵۱۷۔
  28. ابن اعثم کوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۳۸۸۔
  29. ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۴۳۰۔
  30. ابن اعثم کوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۳۸۸۔
  31. کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ۱۳۶۳ش، ص۶۹۔
  32. ابن ‌سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۶، ص۲۴۴۔
  33. زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹ق، ج۳، ص۲۰۵۔
  34. الوقاف الجعفریہ
  35. ابن مشہدی، المزار الکبیر، ۱۴۱۹ق، ص۱۴۳؛ شہید اول، المزار، ۱۴۱۰ق، ص۲۶۴۔

مآخذ

  • ‌ ابن اثیر جزری، علی بن محمد، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،‌ دار الفکر، بیروت، ۱۴۰۹ق۔
  • ابن اثیر جزری، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ،‌ دار صادر، بیروت، ۱۳۸۵ق۔
  • ابن اعثم کوفی، احمد بن اعثم، الفتوح، تحقیق: علی شیری،‌ دار الاضواء، بیروت، ۱۴۱۱ق۔
  • ابن خلدون، عبد الرحمن بن محمد، دیوان المبتدأ و الخبر فی تاریخ العرب و البربر و من عاصرہم من ذوی الشأن الأکبر(تاریخ ابن خلدون)، تحقیق خلیل شحادۃ، بیروت،‌ دار الفکر، چاپ دوم، ۱۴۰۸ق۔
  • ابن سعد کاتب واقدی، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۱۸ق۔
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبد اللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق: علی محمد البجاوی،‌ بیروت، دار الجیل، ۱۴۱۲ق۔
  • ابن قتیبۃ، عبد اللہ بن مسلم، المعارف، تحقیق: ثروت عکاشۃ، قاہرۃ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، ۱۹۹۲م۔
  • ابن مشہدی، محمد بن جعفر، المزار الکبیر، محقق و مصحح: جواد قیومی اصفہانی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۹ق۔
  • احمدی میانجی، علی، مکاتیب الأئمۃ(ع)، قم،‌ دار الحدیث، ۱۴۲۶ق۔
  • ثقفی، ابراہیم بن محمد، الغارات أو الإستنفار و الغارات، محقق و مصحح: جلال‌ الدین محدث، تہران، انجمن آثار ملی، ۱۳۹۵ق۔
  • حلی، حسن بن علی بن داود (ابن داود)، الرجال، تہران، دانشگاہ تہران، ۱۳۴۲ق۔
  • ذہبی، شمس‌ الدین محمد بن أحمد، تاریخ الاسلام و وَفیات المشاہیر و الأعلام، محقق: بشار عوّاد معروف،‌ دار الغرب الإسلامی، ۲۰۰۳م۔
  • زرکلی، خیر الدین، الاعلام، بیروت،‌ دار العلم للملایین، ۱۹۸۹م۔
  • زمخشری، محمود بن عمر، الفائق فی غریب الحدیث، محقق و مصحح: ابراہیم شمس الدین، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۱۷ق۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغۃ، محقق: صبحی صالح، قم، ہجرت، ۱۴۱۴ق۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، المزار فی کیفیۃ زیارات النبی و الأئمۃ(ع)، قم، مدرسہ امام مہدی(عج)، ۱۴۱۰ق۔
  • شیخ مفید، الاختصاص، محقق و مصحح: علی‌ اکبر غفاری و محمود محرمی زرندی، قم، المؤتمر العالمی لالفیۃ الشیخ المفید، ۱۴۱۳ق۔
  • شیخ مفید، الجمل و النصرۃ لسید العترۃ فی حرب البصرۃ، محقق و مصحح: علی میر شریفی، قم، کنگرہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ق۔
  • کشی، محمد بن عمر، اختیار معرفۃ الرجال، محقق و مصحح: محمد رجایی، قم، موسسہ آل البیت، ۱۳۶۳ش۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: علی‌ اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۴۰۷ق۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق۔
  • مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق: داغر، اسعد،‌ قم، دار الہجرۃ، ۱۴۰۹ق۔
  • نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، محقق و مصحح: عبد السلام محمد ہارون، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، ۱۴۰۴ق۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌ یعقوب، تاریخ الیعقوبی،‌ بیروت، دار صادر، بی ‌تا۔