مسلم بن عبد اللہ مجاشعی

ویکی شیعہ سے
مسلم بن عبد اللہ مجاشعی
کوائف
نسبقبیلہ مجاشع یا عبدالقیس
مشہور اقاربام ذریح عبدیہ
مقام سکونتمدائن
شہادت10 جمادی‌ الاول 36ھ
اصحابامام علیؑ


مسلم بن عبداللہ مُجاشِعی (شہادت 36ھ) جنگ جمل کے شہداء میں سے ہیں۔ آپ کا تعلق قبیلہ مجاشع یا عبد القیس سے بتایا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ صحابی پیغمبرؐ حذیفۃ بن یمان سے ہونے والی گفتگو کی وجہ سے مسلم مجاشعی امام علیؑ کے اصحاب میں شامل ہوئے۔ جنگ جمل شروع ہونے سے پہلے انہوں نے اصحاب جمل کو قرآن اور امام علیؑ کی اطاعت کی دعوت دی۔

زندگی‌ نامہ

مسلم فرزند عبدللہ،[1] جنگ جمل میں امام علیؑ کے سپاہیوں میں سے تھا جو عِجْلی[2] اور مُجاشِعی[3] کے نام سے جانے جاتے تھے۔ چوتھی صدی ہجری کے اہل سنت مورخ محمد بن جریر طبری نے انہیں بنی تمیم کے ایک قبیلہ[4] مُجاشِع[5] سے جبکہ شیخ مفید (متوفی 413ھ) نے انہیں قبیلہ عبدالقیس سے قرار دیا ہے۔[6] دوسری صدی ہجری کے مورخ ابو مخنف سے نقل ہوا ہے کہ ان کی ولدہ اُمّ ذَریح عَبدِیَّہ شیعہ شاعرہ تھیں۔[7]

مسلم سنہ 35 ہجری میں مدائن میں مقیم تھے[8] اور جوانی کے ابتدائی سالوں میں جنگ جمل (36ھ) میں شریک ہوئے۔[9]

امام علیؑ کی طرف رجحان

شیعہ محدث حسن بن محمد دیلمی کے مطابق خود مسلم بن عبداللہ سے منقول ہے کہ شہر مدائن کے گورنر حذیفۃ بن یمان (متوفی 37ھ) کے ساتھ ہونے والی ان کی گفتگو کی وجہ سے وہ امام علیؑ کے خاص اصحاب میں شامل ہو گئے۔[10]

دیلمی کے مطابق ارشاد القلوب میں آیا ہے کہ امام علیؑ نے خلافت قبول کرنے کے بعد پیغمبر اکرمؐ کے صحابی حذیفۃ بن یمان کو مدائن کی گورنری پر باقی رکھا۔ حذیفہ نے منبر پر جا کر اپنی تقریر میں امام علیؑ کو حقیقی امیر المؤمنین قرار دیا۔ مسلم نے ان کی تقریر سے یہ اخذ کیا کہ امام علیؑ سے پہلے والے خلفاء حقیقی امیر المؤمنین نہیں تھے۔ حذیفہ نے مسلم کی درخواست پر بعض گذشتہ واقعات کو بیان کیا۔ من جملہ یہ کہ امام علیؑ کا امیر المؤمنین کے لقب سے ملقب ہونا جبرئیل کی طرف سے تھا جس کے بعد خلفائے ثلاثہ اور دوسرے لوگوں نے آپ کو اس لقب کے ساتھ مبارک باد دینے کا واقعہ۔[11] اسی طرح انہوں نے صحیفہ ملعونہ، پیغمبر اکرمؐ کے قتل کرنے کی سازش، واقعہ غدیر اور ابوبکر اور عمر بن خطاب کے توسط سے خلافت کو غصب کرنے کے واقعات کے بارے میں بھی مسلم کو آگاہ کیا۔[12]

جنگ جمل میں شہادت

مسلم بن عبداللہ 10 جمادی‌ الاول 36ھ کو جنگ جمل میں شہادت کے مقام پر فائر ہوئے۔[13]

امام علیؑ نے جنگ شروع ہونے سے پہلے آخری بار اتمام حجت کے لئے اپنے اصحاب سے پوچھا کون قرآن کے ساتھ مقابل لشکر کی طرف جانے کو تیار ہے؟ مسلم بن عبداللہ نے اپنی آمادگی کا اظہار کیا اور دشمن کے روبرو کھڑے ہو گئے۔[14] انہوں نے امام علیؑ کو قرآن کی طرف دعوت دینا والا قرار دیا اور دشمن کو خدا کی اطاعت اور قرآن کی طرف واپس آنے کی دعوت دی۔[15]

ساتویں صدی ہجری کے اہل سنت مورخ ابن اثیر کے مطابق اس موقع پر دشمن نے ان کے دائیں ہاتھ کو کاٹ ڈالا تو اس نے قرآن کو اپنے بائیں ہاتھ میں لے لیا۔ جب ان کا بائیں ہاتھ بھی کاٹ ڈالا گیا تو انہوں نے قرآ کو سینے سے لگا لیا۔[16] محمد بن جریر طبری (متوفی 310ھ) کے مطابق وہ تیر لگنے کی وجہ سے[17] اور شیخ مفید کے مطابق عایشہ کے حکم سے نیزہ‌ برداروں کے ہجوم میں شہید ہوئے۔[18] امام علیؑ نے پہلے ہی ان کو اپنی شہادت کی کیفیت سے آگاہ فرمایا تھا[19] اور ان کو ان لوگوں میں سے قرار دیا تھا جن کے دلوں کو خدا نے ایمان کی نور سے بھر دیا ہے۔[20]

مسلم کی شہادت کے وقت ان کی والدہ بھی وہاں پر حاضر تھی۔[21] انہوں نے اس سلسلے میں ایک مرثیہ میں عایشہ کو ان کے بیٹے کے قاتلوں کی ماں قرار دیا۔[22]

حوالہ جات

  1. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۸۷۹م، ج۳، ص۵۲۴۔
  2. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۸۷۹م، ج۳، ص۵۲۴؛ زرکلی، اعلام، ۱۹۸۹م، ج۷، ص۲۲۲۔
  3. ابن شہرآشوب، المناقب، انتشارات علامہ، ج۳، ص۱۵۵۔
  4. ابن اثیر، اللباب فی تہذیب الانساب، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۲۲۳۔
  5. خوارزمی، المناقب، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۱۸۷۔
  6. مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص۳۴۰۔
  7. امین، اعیان الشیعہ، دارالتعارف، ج۳، ص۴۵۷، بہ نقل از: ابومخنف؛ حسون، اعلام النساء المؤمنات، ۱۴۲۱ق، ص۱۸۴۔
  8. دیلمی، ارشاد القلوب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۳۲۳ و ۳۲۴۔
  9. مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص۳۴۰۔
  10. دیلمی، ارشاد القلوب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۳۴۱۔
  11. دیلمی، ارشاد القلوب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۳۲۳ و ۳۲۴۔
  12. دیلمی، ارشاد القلوب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۳۲۸-۳۳۳۔
  13. مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ش، ج۲، ص۳۶۱؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۸۷۹م، ج۳، ص۵۲۴؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۲۴۶۔
  14. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۲۴۶؛ مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص۳۴۰۔
  15. دیلمی، ارشاد القلوب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۳۴۳۔
  16. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۲۴۶؛ ملاحظہ کریں: ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ۱۴۲۶ق، ج۱، ص۳۷۸۔
  17. مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ش، ج۲، ص۳۶۱؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۸۷۹م، ج۳، ص۵۲۴؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۲۴۶۔
  18. مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص۳۴۰۔
  19. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۲۴۶۔
  20. دیلمی، ارشاد القلوب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۳۴۲۔
  21. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۸۷۹م، ج۳، ص۵۲۴۔
  22. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۸۷۹م، ج۳، ص۵۲۴۔

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، ۱۳۸۵ق۔
  • ابن اثیر، علی بن محمد، اللباب فی تہذیب الانساب، بیروت، دار صادر، ۱۴۱۴ق۔
  • ابن اعثم، احمد، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، ۱۴۱۱ق۔
  • ابن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرۃ الخواص من الامۃ بذکر خصائص الأئمۃ، تحقیق حسین تقی‌زادہ، قم، المجمع العالمی لاہل البیت(ع)، مرکز الطباعۃ و النشر، ۱۴۲۶ق۔
  • ابن شہر آشوب، محمد بن علی، المناقب، تصحیح ہاشم رسولی و محمدحسین آشتیانی، قم، انتشارات علامہ، بی‌تا۔
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بی‌جا، دارالفکر، ۱۴۰۷ق۔
  • امین، محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، بی‌تا۔
  • حسون، محمد و ام‌علی مشکور، اعلام النساء المؤمنات، تہران، اسوہ، ۱۴۲۱ق۔
  • خوارزمی، الموفق بن احمد، المناقب، تحقیق مالک المحمودی، بی‌جا، مؤسسۃ النشر الاسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین بقم، ۱۴۱۱ق۔
  • دیلمی، حسن بن محمد، ارشاد القلوب الی الصواب، قم، الشریف الرضی‏، ۱۴۱۲ق۔
  • زرکلی، خیرالدین، الأعلام قاموس تراجم لأشہر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین، بیروت، دارالعلم للملایین، ۱۹۸۹م۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تصحیح نخبۃ من العلماء، بیروت، منشورات مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ۱۸۷۹م۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق یوسف اسعد داغر، قم، مؤسسہ دارالہجرہ، ۱۴۰۹ق۔
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الجمل و النصرہ لسید العترہ فی حرب البصرہ، قم، کنگرہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ق۔