مندرجات کا رخ کریں

احمد بن حنبل

ویکی شیعہ سے
احمد بن حنبل
احمد بن حنبل سے منسوب آرامگاہ
احمد بن حنبل سے منسوب آرامگاہ
ذاتی کوائف
مکمل ناماحمد بن حنبل
لقبامام المحدثین
تاریخ پیدائش164ھ
محل پیدائشمرو یا بغداد
محل زندگیبغداد
تاریخ وفات241ھ
مدفنبغداد
محل وفاتبغداد
علمی معلومات
اساتذہمحمد بن ادریس شافعی
تألیفاتمسند الامام احمد، فضائل الصحابہ
سیاسی اور سماجی سرگرمیاں
شہرتاهل‌ سنت فقہی مذاہب میں سے ایک کے پیشوا

احمد ابن حنبل (164-241ھ) اہل سنت چار بڑے فقہا اور ان کے محدثین میں سے ایک ہیں، جن کی فقہ کا رجحان دوسرے مکاتب فکر کی نسبت احادیث نبوی اور صحابہ کرام کے اقوال کی طرف زیادہ مائل ہے۔ شافعی (چار اہل سنت فقہاء میں سے ایک) اور ہشیم بن بشیر ان کے اساتذہ میں سے تھے۔

وہ حدیث غدیر اور امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کی دیگر احادیث کے راویوں میں سے ہیں۔ احمد بن حنبل امام علیؑ کی فضیلت میں 30 ہزار احادیث کے حافظ تھے اور انہیں اس میدان میں بے مثال سمجھا جاتا ہے۔ احمد بن حنبل نے خلفائے اربعہ کی تشکیل یعنی حضرت علیؑ کو چوتھا خلیفہ ماننے اور عثمانیت کے مقابلے میں مذہب اہل سنت کو رائج کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

ابن حنبل کی زندگی کا سب سے اہم واقعہ جو ان کی شہرت کا باعث بنا وہ "محنت" کا واقعہ تھا جس میں انہوں نے قرآن کا مخلوق خدا نہ ہونے کے نظریے پر تأکید کرتے ہوئے بہت سی سختیاں برداشت کیں، جو اگرچہ متوکل عباسی کے دور میں مورد توجہ قرار پایا اور محنت کے نظر یے کے مخالفین کے پیشوا کے طور پر پہچانے جانے لگا۔

بہت سی کتابیں ان سے منسوب ہیں؛ جن میں مسند احمد حنبل، فضائل صحابہ، اور فضائل امیر المومنین علیؑ شامل ہیں۔ وہابیت نے سلفیت کی پیروی کرتے ہوئے احمد بن حنبل کو اپنا رہنما منتخب کیا۔

زندگی نامہ

احمد بن حنبل کا عرفی نام ابا عبد اللہ ہے[1]جو بغداد کے نامور علماء اور اہل سنت مکاتب فکر کے آخری فقہی مذہب[2]، مذہب حنبلی کے پیشوا ہیں۔[3]

آپ کی پیدائش ربیع الاول 164ھ میں بغداد میں ہوئی۔ [4] ان کا خاندان ان کی پیدائش سے پہلے ایران میں مقیم تھے، ان کے والد محمد بن حنبل یا عبداللہ بن حنبل[5] سرخص کے گورنر تھے۔[6] ان کی والدہ ان کی حمل کے وقت مرو سے بغداد چلی گئی[7] تاہم کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ احمد بن حنبل مرو میں پیدا ہوا تھا اور شیرخوارگی کے ایام میں اپنی ماں کے ساتھ بغداد چلے گئے تھے،[8] اسی بنا پر انہیں "مروزی" کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔[9] تین سال کی عمر میں وہ باپ کے سائے سے محروم ہو گئے اور والدہ کی زیر نگرانی پلے بڑے ہیں۔[10]

ان کے دو بیٹے تھے جن کے نام صالح اور عبداللہ تھا،[11] صالح اصفہان میں قضاوت کے عہدے تک پہنچا اور سنہ 266ھ کو اس دنیا سے رخصت ہوا اور عبداللہ 290ھ تک زندہ تھا۔[12]

ان کے بارے میں امام الدنیا، خدا کی طرف سے اولین و آخرین کا علم سونپا جانا[13] جیسی فضیلتوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔[14] چنانچہ انہیں علم حدیث، فقہ، سنت، زہد اور ورع میں امام ور رہنما جانا گیا ہے۔[15]

وفات

احمد حنبل 77 سال کی عمر میں [16]اور 241ھ[17] اور دوسرے قول کے مطابق 242ھ[18] کو بغداد میں ان کا انتقال ہوا[19] اور شاندار طریقے سے ان کی تشییع جنازہ کی گئی۔[20] ان کی تشییع جنازے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کے بعض انبیاء کے جنازے کے علاوہ اس وقت تک اس طرح کا کوئی جنازہ نہیں ہوا تھا[21] اور ان کے جنازے میں شریک مردوں کی مجموعی تعداد تقریبا 8 لاکھ جبکہ خواتین کی تعداد 60,000 بتائی گئی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان کے جنازے میں 20 ہزار یہودی، عیسائی اور مجوسی مسلمان ہوئے تھے۔[22] البتہ بعض محققین اس طرح کی روایتوں میں مذہبی تعصبات کو اثرانداز سمجھتے ہیں۔[23]

بعض منابع میں ان کی وصیت کو مکمل طور پر نقل کیا گیا ہے۔ [24] ان کی قبر بغداد میں مسلمانوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے اور ساتویں صدی ہجری کے کچھ علماء نے ان کی شہرت اور ان کی قبر کے گرد زائرین کے جمع ہونے کا تذکرہ کیا ہے۔[12] البتہ بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ آج کل ان کی قبر مشخص نہیں ہے کیونکہ دریائے دجلہ میں آنے والے سیلاب کی زد میں آکر کر خراب ہو گئی ہے۔[25]

اساتذہ اور شاگرد

احمد بن حنبل نے 15[26] یا 16[10] سال کی عمر سے تعلیم حاصل کرنا شروع کیا اور احادیث کو سننے اور جمع کرنے کے لیے انہوں نے کوفہ، بصرہ، مکہ، مدینہ، یمن، شام، جزیرہ[27]، ایران، مراکش اور دیگر دور دراز علاقوں کا سفر کیا۔[28] وہ ان علاقوں کے محدثین کے درمیان عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔[10]

احمد نے کچھ وقت ابو یوسف قاضی (جو امام ابو حنیفہ کے مشہور شاگرد تھے)[29] سے متأثر ہو کر ان کے ساتھ گزارا۔[30] پھر وہ ہشیم بن بشیر سے ملے اور احادیث کو یاد کرنے کی طرف متوجہ ہو گئے۔[31] وہ امام شافعی (جو اہل سنت کے چار مشہور فقہا میں سے ایک ہیں)[32] کے خاص شاگرد تھے[33] اور کہا جاتا ہے کہ احمد بن حنیل سب سے زیادہ شافعی سے متأثر تھا۔[34] شافعی بھی بغداد میں احمد بن حنبل کے علم اور تقویٰ کو بے مثال سمجھتے تھے۔[35]

ابن حنبل نے دیگر اساتذہ سے بھی کسب فیض کیا، یہاں تک کہ ان کے حدیثی مشایخ کی تعداد 700 نفر[36] اور چہ بسا بے شمار قرار دیتے ہیں۔[37] ان کے اساتذہ میں سفیان بن عیینہ، ابراہیم بن سعد، جریر بن عبد الحمید، یحییٰ القطان، ولید بن مسلم، علی بن ہاشم بن برید، معتمر بن سلیمان، بشر بن المفضل، زیاد البکائی، ابو بکر بن عیاہجری شمسی، عباد بن العوام، عمر بن عبید الطنافسی، المطلب بن زیاد، یحییٰ بن ابی زائدہ، وکیع، ابن نمیر اور عبدالرزاق شامل ہیں۔[38]

ایک قول کے مطابق احمد نے چالیس سال کی عمر میں تدریس شروع کی۔[26] بہت سارے راویوں نے ان سے احادیث نقل کی ہیں جن میں محمد بن اسماعیل بخاری، مسلم بن حجاج (جو صحیحین کے مصنفین ہیں)،[39] عبدالرزاق بن ہمام، یحییٰ بن آدم، ہشام بن عبد الملک طیالسی، محمد بن ادریس شافعی، اسود بن عامر شاذان اور ابو داود سجستانی جیسے محدثین شامل ہیں۔[40]


علم حدیث میں ان کا مقام

احمد بن حنبل بڑے محدثین میں سے تھے[41] اور اصحابِ حدیث کے پیروکاروں میں شمار ہوتے تھے۔[42] انہوں نے احادیث کو جمع کرنے اور حفظ کرنے میں بہت محنت کی۔[43] ان کو علم حدیث میں بے ہمتا قرار دیا گیا ہے؛[44] اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ دس لاکھ احادیث کے حافظ تھے،[45] اسی بنا چر انہیں "امام المحدثین" بھی کہا جاتا ہے۔[46]

وہ پیغمبر اکرمؐ کی سنت اور صحابہ کرام اور تابعین کے اقوال کو بڑی اہمیت دیتے تھے اور آیات اور احادیث کے ظاہر پر عمل کرتے تھے اور ان کی تاویل کی کسی بھی صورت کو مسترد کرتے تھے۔[47] بعض کا خیال ہے کہ وہ ضعیف اور مرسل احادیث پر بھی عمل کرتے تھے۔[48]

احمد بن حنبل اعتقادی مسائل کو احادیث کی بنیاد پر ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اس مقصد کے لیے وہ عقل کے استعمال پر یقین نہیں کرتے تھے جس کی بنیاد پر وہ عقیدے میں خدا کی تجسیم اور تشبیہ کے رجحانات کو فروغ دیا کرتے تھے۔[49]

فقہ میں احمد بن حنبل کا مقام

اہل سنت کے چار بڑے فقہا

احمد بن حنبل کو اہل‌ سنت کے چار بڑے فقہاء میں شمار کیا جاتا تھا اور بعض فقہ میں ان سے بڑھ کر کسی کو اعلم ہی نہیں سمجھتے تھے،[50] لیکن اس کے باوجود بعض ماہرین کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے فقہ[51] یا اصول فقہ میں کوئی مستقل کتاب نہیں لکھی ہے،[52] یہاں تک کہ بعض انہیں فقیہ ہی نہیں ملانتے بلکہ محض ایک محدث مانتے ہیں اور حکومت کی حمایت حاصل ہونے کے باوجود بغداد سے باہر ان کے فقہی نظریات کی عدم مقبولیت کی دلیل اسی مسئلے کو قرار دیتے ہیں۔[53] یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ احمد بن حنبل غیر حدیثی موضوعات پر کتاب لکھنے سے اجتناب کرتے تھے[42] چنانچہ ان سے منسوب ایک قول ہے کہ وہ فتویٰ دینے کے بجائے دوسروں کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیتے تھے۔[54] طبری نے اپنی ایک کتاب میں اپنے دور کے فقہا کے اقوال جمع کیا ہے لیکن اس میں انہوں نے احمد بن حنبل کا ذکر تک نہیں کیا ہے،[55] جس پر ان کے پیروکاروں (حنابلہ) نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔[56]

احمد بن حنبل حدیثی فقہ کے پیروکار تھے[42] اور قیاس و رائے سے اجتناب کرتے تھے،[26] اور صرف ضرورت کے وقت محدود پیمانے پر نہیں قبول کرتے تھے۔[42] ان کے فقہی اصولوں میں قرآن، سنت، صحابہ کے فتاویٰ، استصحاب، مصالح مرسلہ، اور سد ذرائع شامل ہیں۔[57] چنانچہ شرعی احکام کو حاصل کرنے کے حوالے سے بھی ان کے کچھ مخصوص اصول ذکر کئے گئے ہیں۔[58] بعض منابع میں ان کی فقہی روش شافعی کے طریقے سے متاثر مانی جاتی ہے۔[10]

فقہ حنبلی فقہ حنفی، مالکی، اور شافعی، کے مقابلے میں احادیث اور صحابہ کے اقوال کے ظاہر پر زیادہ انحصار کرتی ہے اور فقہ حنبلی کو اہل سنت میں تعبدی رجحان کا نمایندہ سمجھا جاتا ہے۔[42] اگرچہ ابتدائ میں احمد بن حنبل کے پیروکاروں کی تعداد دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی نسبت کم بتائی جاتی ہے[59] لیکن بعد میں فقہ حنبلی حجاز، قطر، فلسطین، اور بحرین میں اکثریتی مذہب میں تبدیل ہو گئی۔[60]

امام علیؑ کے بارے میں ان کا موقف

احمد بن حنبل حدیث غدیر کے ناقلین میں سے ہیں۔[17] انہوں نے اپنی کتاب "فضائل الصحابہ" میں امام علیؑ کی کچھ فضیلتیں ذکر کی ہیں جن میں حدیث منزلت اور پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ عقد اخوت کا نام لیا جا سکتا ہے[61] اور بعض اوقات انہوں نے متعدد روایات کی بنیاد پر امام علیؑ کی فضیلت کو ثابت کیا ہے۔[62] اس سلسلے میں انہوں نے "فضائل امیرالمؤمنین علی بن ابی طالبؑ" کے عنوان سے ایک کتاب بھی تحریر کی ہے[63] جو ان کی کتاب فضائل صحابہ کا ایک حصہ ہے جو مستقل طور پر شایع ہوا ہے۔[64] احمد حنبل فضائل میں امام علیؑ کو دوسرے صحابہ کی نسبت بے ہمتا سمجھتے[65] اور خود ان کا کہنا تھا کہ انہیں امام علیؑ کی فضیلت میں 30 ہزار حدیثیں زبانی یاد تھیں۔[66]

بنی امیہ کے دور سے یہ عقیدہ حکومت کی سرپرستی میں عوام میں پھیل چکا تھا کہ حضرت علیؑ مسلمانوں کا چوتھا خلیفہ نہیں ہیں، کیونکہ اگر علیؑ کی خلافت کو تسلیم کیا جاتا تو طلحہ و زبیر کا خون ضائع ہوجاتا۔[67] احمد بن حنبل کو تربیع یعنی امام علیؑ کو مسلمانوں کا چوتھا خلیفہ ماننے والوں میں سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ امام علیؑ کو عثمان کے بعد کا چوتھا خلیفہ مانتے تھے[68] اور اس نظریہ کے مخالفین کے ساتھ سخت موقف اختیار کرتے تھے۔[69] بعض افراد نے انہیں عثمانیت کے مقابلے میں اہل سنت مکتبہ فکر کو رائج کرنے والے اہم ترین شخصیت قرار دیا ہے۔[70] تاہم یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ وہ امام علیؑ کے بارے میں بغض رکھنے والوں کو حقیقی اہل سنت مانتے تھے؛[71] اسی لیے بعض لوگوں نے احمد بن حنبل کو ذو الثدیہ نامی ایک خوارج کی نسل قرار دیتے ہیں جس نے حضرت علیؑ کے زمانے میں آپ کے خلاف بغاوت کی اور امام علیؑ کے بارے میں احمد بن حنبل کے موقف کو اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔[72]

کہا گیا ہے کہ وہ شیعوں کے بارے میں سخت موقف رکھتے تھے اور انہیں اسلام سے خارج سمجھتے تھے۔[73]

نظریہ محنت کے مخالفین کی قیادت

احمد حنبل کو نظریہ قرآن کی تخلیق کی مخالفت کرنے اور اس سلسلے یں بعض عباسی خلفاء کی طرف سے کی گئی تحقیقات کی بنا پر زندان میں جانا پڑا۔[74] اگرچہ وہ بچپن سے بنی عباس کی حمایت اور ان کی خلافت کی مشروعیت میں پیغمبر اکرمؐ سے احادیث نقل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔[75] اس بنا پر محنت کا واقعہ احمد حنبل کی زندگی میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے،[76] اور ان کو اس تحریک کے مخالفین کے رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں[77] اور کہا جاتا ہے کہ یہی مسئلہ ان کی شہرت اور مقبولیت کا باعث بنا۔[78]

محنت کا واقعہ مامون عباسی کی وفات سے پہلے سنہ 218 ہجری میں شروع ہوا۔[79] مامون نے بغداد میں قرآن کی تخلیق کے بارے میں سب سے اقرار لینے کا حکم دیا تھا، جسے احمد بن حنبل اور ایک دوسرے دانشور کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور جب ڈرانے دھمکانے نیز مقرر شدہ وظائف کی بندش سے معاملے کا حل نہ نکلا تو ان کو مامون کے پاس بھیجا گیا لیکن وہ مامون کے دربار میں پہچنے سے پہلے مامون کا انتقال ہوا۔[80]

معتصم کے دور میں تخلیق قرآن کے بارے میں مزید سخت گیری سے کام لینے لگا اور 220ھ [81] کو احمد بن حنبل کو قرآن کے حادث اور مخلوق ہونے کے نظریے[82] کو نہ مانے کی بنا پر قید خانے میں جا کر[83] کوڑے کھانا پڑا۔[84][یادداشت 1] اگرچہ کہا جاتا ہے کہ معتصم اپنے کئے پر پشیمان ہوا اور احمد بن حنبل کے علاج معالجے کا بندوبست کیا۔[85]

اگلا خلیفہ واثق عباسی نے ان کے ساتھ کس طرح کا رویہ اختیار کیا اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ واثق نے احمد حنبل پر کوئی تشدد نہیں کیا[86] جبکہ بعض کے مطابق ان کے دور میں بھی احمد جنبل کو گھر میں نظر بند رکھا گیا تھا[87] اور بعض کا خیال ہے کہ وہ اس دور میں مخفیانہ زندگی گزارتے ہوئے حاکمیت کے خلاف قیام کرنے سے پرہیز کرتے تھے۔[88] یہاں تک کہ متوکل عباسی کی طرف سے اصحاب حدیث کی حمایت اور قرآن کی تخلیق کے نظریے کے انکار[89] کی وجہ سے احمد حنبل بھی خلیفہ وقت کی توجہ کا مرکز بن گیا[90] اور خلیفہ کے قریبی ردباریوں میں شامل ہو گیا یہاں تک کہ خلیفہ ان کی اجازت کے بغیر کوئی اقدام نہیں کرتا تھا[91] اور بعض اہم منصبوں پر احمد حنبل کے مشورے سے تعینات ہوئی[92] اگرچہ کبھی کبھار ان کے ساتھ بھی احمد حنبل کی مخالفت سامنے آجاتی تھی۔[93]

سلفیہ کی قیادت

مزید معلومات کے لئے دیکھئے: سلفیہ اور وہابیت

وہابیت سلفیت کی پیروی کرتے ہوئے خود کو احمد ابن حنبل کی فقہ کا پیروکار سمجھتی ہے۔[94] اس انتخاب میں احمد حنبل کی ظاہر گرائی کا اہم کردار ہے؛ چنانچہ بعض اعتقادی مسائل من جملہ خدا کی جسمانیت اور قبروں کی زیارت کی ممانعت جیسے مسائل وہابیت احمد جنبل سے استناد کرتی ہے۔[95] تاہم بعض کا خیال ہے کہ حنابلہ اور سلفیت کو ایک نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا؛ کیونکہ ان دو مکاتب کے درمیان ہمیشہ کچھ نہ کچھ اختلافات رہے ہیں۔[96] یہاں تک کہ حنبلی وہابیت کو قبول نہیں کرتے اور ان کو احمد حنبل کا حقیقی پیروکار نہیں سمجھتے تھے؛ یہاں تک کہ ہر زمانے میں جنبلیوں کو وہابیت کا سب سے اہم دشمن سمجھا جاتا تھا۔[97]

بعض نے سلفیت کو ایک نوظہور مذہبی رجحان قرار دیتے ہیں جو اپنی جڑیں اور تاریخی پس منظر کی تلاش اور اسلامی دنیا میں قانونی حیثیت حاصل کرنے کے لیے خود کو احمد حنبل سے منسوب کرتے ہیں۔[98]

کتاب مسند الامام احمد بن حنبل

تصنفات

احمد بن حنبل کو بہت سی کتابوں کا مصنف سمجھا جاتا ہے جن میں سب سے مشہور کتاب مسند احمد حنبل ہے۔ مسند احمد میں احادیث کی تعداد 27100 [17] یا 30 ہزار،[99] یا 40 ہزار حدیثیں بتائی گئی ہیں۔[100] احمد حنبل اپنی مسند کی تدوین مکمل ہونے سے پہلے دنیا سے رخصت ہوا اور ان کے بیٹے عبد اللہ نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا۔[101] فضائل امیر المؤمنین بھی ان کی لکھی گئی کتابوں میں سے ایک ہے جو کہ امیر المومنین حضرت علیؑ اور اہل بیتؑ کے فضائل کے بارے میں 439 احادیث کا مجموعہ ہے۔

اسی طرح انہوں نے "التاریخ"، "الناسخ و المنسوخ"، "التفسیر"، "[فضائل الصحابہ]]، "المسائل"، "العلل الرجال"، "الزھد"، "الرد علی الزنادقہ فیما ادعت بہ من متشابہ القرآن" اور "الاشرابہ" جیسی کتابوں کو بھی تحریر کی ہے۔[102] البتہ بعض کا خیال ہے کہ ان کی بعض کتابیں ان کے شاگردوں اور فرزندان نے تدوین کی ہیں۔[103] جیسے کتاب "فضائل صحابہ" کہ جس کے بارے میں بعض کا خیال ہے کہ یہ کتاب احمد حنبل کی مستقل کتاب نہیں بلکہ کچھ احادیث کا مجموعہ ہے جسے ان کے بیٹے عبد اللہ نے ان سے نقل کی ہے۔[104]

مونوگراف

احمد بن حنبل کی زندگی کے بارے میں کچھ کتابیں لکھی گئی ہیں، اس سلسلے میں اہل سنت کے برجستہ عالم دین ابو الفرج عبد الرحمان بن علی جو ابن جوزی کے نام سے مشہور ہے کی کتاب مناقب الامام احمد کا نام لیا جا سکتا ہے۔[105]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. زرکلی، الاعلام، 1989ھ، ج1، ص203‌؛ سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، قم، ج‌3، ص89۔
  2. ابن خلکان، وفیات الأعیان، بیروت، ج1، ص64؛ شہرستانی، وضوء النبی(ع)، 1416ھ، ج‌1، ص408‌۔، شہرستانی، وضوء النبی(ص)، 1416ھ، ج‌1، ص408۔
  3. سمعانی، الأنساب، 1382ھ، ج4، ص280؛ سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، قم، ج‌3، ص88‌۔
  4. ابن خلکان، وفیات الأعیان، بیروت، ج1، ص64؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج‌1، ص352، گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، 1421ھ، ص85۔
  5. کرمانشاہی، مقامع الفضل، 1421ھ، ج‌1، ص352۔
  6. زرکلی، الاعلام، 1989ھ، ج1، ص203۔
  7. ابن خلکان، وفیات الأعیان، بیروت، ج1، ص63؛ سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، قم، ج‌3، ص88‌۔
  8. ابن خلکان، وفیات الأعیان، بیروت، ج1، ص64۔
  9. ابن خلکان، وفیات الأعیان، بیروت، ج1، ص64؛ طبسی، دراسات فقہیۃ، 1429ھ، ص59۔
  10. 10.0 10.1 10.2 10.3 ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج10، ص326۔
  11. سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، قم، ج‌3، ص88‌۔
  12. 12.0 12.1 ابن خلکان، وفیات الأعیان، بیروت، ج1، ص65۔
  13. ذہبی، تاریخ الإسلام، 1413ھ، ج18، ص68-69۔
  14. نگاہ کن بہ: ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشھ، 1415ھ، ج5، ص340؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج5، ص184۔
  15. ابن عماد حنبلی، شذرات الذہب، 1406ھ، ج3، ص185۔
  16. سمعانی، الأنساب، 1382ھ، ج4، ص280؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج10، ص326۔
  17. 17.0 17.1 17.2 سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، قم، ج‌3، ص90‌۔
  18. صدوق، الخصال، ترجمہ مدرس گیلانی، ج2، ص299۔
  19. گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، 1421ھ، ص85؛ سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، قم، ج‌3، ص90‌۔
  20. ابن سعد، طبقات الکبری، 1410ھ، ج7، ص253؛ ابن جوزی، مناقب الامام احمد، 1409ھ، ص557۔
  21. سمعانی، الأنساب، 1382ھ، ج4، ص280۔
  22. ابن خلکان، وفیات الأعیان، بیروت، ج1، ص65؛ سمعانی، الأنساب، 1382ھ، ج4، ص280۔
  23. انصاری، دائرہ المعارف بزرگ اسلامی، ذیل واژہ «احمد بن حنبل»، ج1، ص722؛ روح الہی امیری، زندگی و زمانہ احمد بن حنبل، 1384ہجری شمسی۔
  24. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج10،ص340۔
  25. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج‌1، ص352۔
  26. 26.0 26.1 26.2 شہرستانی، وضوء النبی(ص)، 1416ھ، ج‌1، ص407۔
  27. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج5، ص178؛ سمعانی، الأنساب، 1382ھ، ج4، ص280؛ ذہبی، تاریخ الإسلام، 1413ھ، ج18،ص65۔
  28. زرکلی، الاعلام، 1989ھ، ج1، ص203۔
  29. انصاری، دائرہ المعارف بزرگ اسلامی، ذیل واژہ «احمد بن حنبل»، ج1، ص718۔
  30. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج10،ص326۔
  31. شہرستانی، وضوء النبی(ص)، 1416ھ، ج‌1، ص407؛ جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہل‌بیت(ع)، قم، ج‌46، ص189۔
  32. گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، 1421ھ، ص85؛ سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، قم، ج‌3، ص88‌۔
  33. ابن خلکان، وفیات الأعیان، بیروت، ج1، ص64؛ شہرستانی، وضوء النبی(ص)، 1416ھ، ج‌1، ص407۔
  34. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج10،ص326، جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہل‌بیت(ع)، قم، ج‌46، ص189۔
  35. ابن خلکان، وفیات الأعیان، بیروت، ج1، ص64؛ صواف، بین السنۃ و الشیعۃ، 1426ھ، ص259۔
  36. گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، 1421ھ، ص85؛ مکارم شیرازی، دائرۃ المعارف فقہ مقارن، 1427ھ، ص141۔
  37. سمعانی، الأنساب، 1382ھ، ج4، ص280۔
  38. ذہبی، تاریخ الإسلام، 1413ھ، ج18، ص64؛ سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، قم، ج‌3، ص88‌۔
  39. ابن خلکان، وفیات الأعیان، بیروت، ج1، ص64؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج‌1، ص352۔
  40. ابن عماد حنبلی، شذرات الذہب، 1406ھ، ج3، ص186۔
  41. مکارم شیرازی، دائرۃ المعارف فقہ مقارن، 1427ھ، ص141۔
  42. 42.0 42.1 42.2 42.3 42.4 خطا در حوالہ: ناقص <ref> ٹیگ؛ :4 کے نام والے حوالوں کے لیے کوئی متن نہیں دیا گیا
  43. گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، 1421ھ، ص85۔
  44. ابن خلکان، وفیات الأعیان، بیروت، ج1، ص64۔
  45. ابن خلکان، وفیات الأعیان، بیروت، ج1، ص64؛ ذہبی، تاریخ الإسلام، 1413ھ، ج18، ص67۔
  46. سمعانی، الأنساب، 1382ھ، ج4، ص280؛ گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، 1421ھ، ص85۔
  47. انصاری، دائرہ المعارف بزرگ اسلامی، ذیل واژہ «احمد بن حنبل»، ج1، ص722۔
  48. مکارم شیرازی، دائرۃ المعارف فقہ مقارن، 1427ھ، ص141۔
  49. احمد بن حنبل و عقاید، سایت ثقلین۔
  50. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج5، ص
  51. گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، 1421ھ، ص85؛ سبحانی، مصادر الفقہ الإسلامی و منابعہ، 1419ھ، ص416، 417‌۔
  52. شہرستانی، وضوء النبی(ع)، 1416ھ، ج‌1، ص410؛ سبحانی، مصادر الفقہ الإسلامی و منابعہ، 1419ھ، ص416‌ - 417۔
  53. کلینی، الکافی، 1429ھ، ج‌1، مقدمہ، ص22۔
  54. سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، قم، ج‌3، ص42۔
  55. بلعمی، تاریخنامہ طبری، 1378ہجری شمسی، ص21۔
  56. بلعمی، تاریخنامہ طبری، 1378ہجری شمسی، ص21، 22‌؛ سبحانی، مصادر الفقہ الإسلامی و منابعہ، 1419ھ، ص416۔
  57. گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، 1421ھ، ص85؛ مکارم شیرازی، دائرۃ المعارف فقہ مقارن، 1427ھ، ص141۔
  58. مکارم شیرازی، دائرۃ المعارف فقہ مقارن، 1427ھ، ص142‌؛ سبحانی، تاریخ الفقہ الإسلامی و أدوارہ، بیروت، ص72‌ - 73۔
  59. کلینی، الکافی، مقدمہ، 1429ھ، ج1، ص22۔
  60. مکارم شیرازی، دائرۃ المعارف فقہ مقارن، 1427ھ، ص142‌۔
  61. ابن حنبل، فضائل الصحابہ، 1403ھ، ج2، ص610-617۔
  62. صدوق، علل الشرائع، 1385ہجری شمسی، ج2، ص468، طبری آملی، بشارۃ المصطفی، 1383ہجری شمسی، ج2، ص264۔
  63. عاملی نباطی، الصراط المستقیم، 1384ھ، ج3، ص223۔
  64. محمد طباطبایی یزدی، نگاہی بر تحقیق جدید «فضائل امیرالمومنینؑ از احمد بن حنبل»، سایت کتابخانہ موزہ و مرکز اسناد مجلس شورای اسلامی۔
  65. مجلسی، بحارالأنوار، 1427ھ، ج104، ص87؛ سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، قم، ج‌3، ص90‌۔
  66. مجلسی، بحارالأنوار، 1427ھ، ج104، ص87؛ حسینی تہرانی، امام‌شناسی، 1422ھ، ص14۔
  67. رجوع کنید: جعفریان، «نقش احمد بن حنبل در تعدیل مذہب اہل سنت»، ص145 تا 176
  68. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج10، ص328؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1427ھ، ج104، ص87۔
  69. ابن قدامہ، المغنی، بیروت، ج7 ص379۔
  70. جعفریان، «نقش احمد بن حنبل در تعدیل مذہب اہل سنت»، ص150
  71. مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج104، ص87۔
  72. ابن شہرآشوب، مناقب، 1379ھ، ج3، ص220-221؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج29، ص482، ج104، ص87۔
  73. شہرستانی، وضوء النبی(ع)، 1416ھ، ج‌1، ص409۔
  74. ابن خلکان، وفیات الأعیان، بیروت، ج1، ص64۔
  75. شہرستانی، وضوء النبی(ص)، 1416ھ، ج‌1، ص407 – 408۔
  76. انصاری، دائرہ المعارف بزرگ اسلامی، ذیل واژہ «احمد بن حنبل»، ج1، ص719۔
  77. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج10، ص335۔
  78. انصاری، دائرہ المعارف بزرگ اسلامی، ذیل واژہ «احمد بن حنبل»، ج1، ص718۔
  79. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج10، ص332۔
  80. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج10، ص332؛ ابن اثیر جزری، الکامل، 1385ھ، ج 6، ص427۔
  81. ابن خلکان، وفیات الأعیان، بیروت، ج1، ص64؛ گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، 1421ھ، ص85۔
  82. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410، ج7، ص365؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج10، ص327۔
  83. ابن خلکان، وفیات الأعیان، بیروت، ج1، ص64؛ گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، 1421ھ، ص85۔
  84. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج10، ص334 – 335۔
  85. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج10، ص335۔
  86. زرکلی، الاعلام، 1989ھ، ج1، ص203‌؛ سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، قم، ج‌3، ص89۔
  87. ابن خلکان، وفیات الأعیان، بیروت، ج1، ص64؛ شہرستانی، وضوء النبی(ع)، 1416ھ، ج‌1، ص408‌۔
  88. شہرستانی، وضوء النبی(ص)، 1416ھ، ج‌1، ص408۔
  89. انصاری، دائرہ المعارف بزرگ اسلامی، ذیل واژہ «احمد بن حنبل»، ج1، ص720۔
  90. ابن خلکان، وفیات الأعیان، بیروت، ج1، ص64۔
  91. زرکلی، الاعلام، 1989ھ، ج1، ص203‌؛ سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، قم، ج‌3، ص89‌۔
  92. شہرستانی، وضوء النبی(ع)، 1416ھ، ج‌1، ص408‌۔
  93. شہرستانی، وضوء النبی(ع)، 1416ھ، ج‌1، ص409۔
  94. مغربی، وہابیت در آیینہ تاریخ، 1383ہجری شمسی، ص43-43۔
  95. احمد بن حنبل، پیشوای فکری وہابیت، نقد و بررسی تفصیلی پیشینہ، عملکرد و باورہای وہابیت، سایت ثقلین۔
  96. درس‌ہایی از مکتب اسلام، فرقہ وہابی و فرقہ حنبلی، 1378ہجری شمسی، ص54-55۔
  97. تبارشناسی، مجلہ سلفی‌گری و وہابیت، پایگاہ تخصصی وہابیت‌شناسی و جریان‌ہای سلفی۔
  98. تبارشناسی، مجلہ سلفی‌گری و وہابیت، پایگاہ تخصصی وہابیت‌شناسی و جریان‌ہای سلفی۔
  99. زرکلی، الاعلام، 1989ھ، ج1، ص203۔
  100. گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، 1421ھ، ص85؛ جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہل‌بیت(ع)، قم، ص141۔
  101. شہرستانی، وضوء النبی(ع)، 1416ھ، ج‌1، ص409 – 410۔
  102. زرکلی، الاعلام، 1989ھ، ج1، ص203؛ سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، قم، ج‌3، ص90‌۔
  103. انصاری، دائرہ المعارف بزرگ اسلامی، ذیل واژہ «احمد بن حنبل»، ج1، ص724؛ سبحانی، مصادر الفقہ الإسلامی و منابعہ، 1419ھ، ص417‌۔
  104. سایت کتابخانہ موزہ و مرکز اسناد مجلس شورای اسلامی، محمد طباطبایی یزدی، نگاہی بر تحقیق جدید «فضائل امیرالمومنین(ع) از احمد بن حنبل»
  105. ابن جوزی، مناقب الامام احمد، 1409ھ

نوٹ

  1. احمد بن حنبل 28 دن یا 28 مہینے(ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج10،ص332؛ زرکلی، الاعلام، 1989ھ، ج1، ص203۔) یا 30 مہینے اور چند دن(ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج10،ص332۔) قید میں رہے۔(ابن خلکان، وفیات الأعیان، بیروت، ج1، ص64؛ گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، 1421ھ، ص85۔) اس کی بعد ایک بے نتیجہ مناظرے کے ذریعے(ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج10،ص333۔) 30 سے زیادہ یا اسی (ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج10،ص334۔) یہاں تک کہ 88(شہرستانی، وضوء النبی(ص)، 1416ھ، ج‌1، ص408۔) سخت کوڑے(ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج10، ص334 – 335۔) کھانے پر محبور ہوا(ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج10، ص328، 332۔)

مآخذ

  • ابن اثیر جزری، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت،دار صادر، 1385ھ۔
  • ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی بن محمد، مناقب الإمام أحمد، تحقیق عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی، دارہجر، 1409ھ۔
  • ابن حنبل شیبانی، أحمد بن محمد، فضائل الصحابۃ، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1403ھ۔
  • ابن خلکان، وفیات الاعیان و أبناء أبناء الزمان، تحقیق احسان عباس، بیروت، دارالفکر، بی‌تا۔
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1410ھ۔
  • ابن شہرآشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، قم، نشر علامہ، 1379ہجری شمسی۔
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشھ، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالفکر، 1415ھ۔
  • ابن عماد حنبلی، عبدالحی بن احمد، شذرات الذہب فی اخبار من ذہب، تحقیق الأرناؤوط، بیروت،‌دار ابن کثیر، 1406ھ۔
  • ابن قدامہ، عبداللہ بن محمد، المغنی علی مختصر ابی القاسم۔۔۔، بیروت، دارالکتاب العربی، بی‌تا۔
  • ابن کثیر الدمشقی، أبوالفداء اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، 1407ھ۔
  • انصاری، حسن، «احمد بن حنبل»، دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج1، تہران، مرکز دائرۃ المعارف اسلامی، 1374ہجری شمسی۔
  • بلعمی، تاریخنامہ طبری، تحقیق محمد روشن، تہران، سروہجری شمسی، چاپ دوم، 1378ہجری شمسی۔
  • پایگاہ تخصصی وہابیت شناسی و جریان‌ہای سلفی، آیا وہابیت پیرو احمد بن حنبل ہستند؟، تاریخ انتشار: 1395/5/3، تاریخ بازدید: 1398/2/25۔
  • جعفریان، رسول، «نقش احمد بن حنبل در تعدیل مذہب اہل سنت»، در مجلہ ہفت آسمان، بہار 1379، ش5۔
  • جمعی از بزرگان، تاریخ الفقہ و تطوراتہ، منتخب برخی کتاب‌ہای موجود در نرم افزار جامع فقہ اہل‌بیت(ع)، گردآورندہ علی‌رضا رحیمی ثابت، نرم افزار جامع فقہ اہل‌بیت(ع)۔
  • جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہل بیت(ع)، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل‌بیت(ع)، بی‌تا۔
  • حسینی تہرانی، سید محمد حسین، امام شناسی، قم، موسسہ ترجمہ و نشر دورہ علوم و معارف اسلام، 1422ھ۔
  • خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1417ھ۔
  • درس‌ہایی از مکتب اسلام، بنیان‌گذاران عقائد وہابیت، فرقہ وہابی و فرقہ حنبلی، مجلہ درس‌ہایی از مکتب اسلام، سال39، شمارہ3، خرداد1378ہجری شمسی۔
  • ذہبی، شمس الدین محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، تحقیق عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • روح الہی امیری، زہرا، زندگی و زمانہ احمد بن حنبل، مجلہ تاریخ اسلام، شمارہ23، 1384ہجری شمسی۔
  • زرکلی، خیر الدین، الأعلام قاموس تراجم لأشہر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین، بیروت، دارالعلم للملایین، چاپ ہشتم، 1989ھ۔
  • سایت ثقلین، احمد بن حنبل، پیشوای فکری وہابیت، نقد و بررسی تفصیلی پیشینہ، عملکرد و باورہای وہابیت، تاریخ انتشار: 1394/5/26، تاریخ بازدید: 1398/2/25۔
  • سبحانی، جعفر، موسوعۃ طبقات الفقہاء، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، بی‌تا۔
  • سبحانی، جعفر، تاریخ الفقہ الإسلامی و أدوارہ، بیروت، دارالاضواء، بی‌تا۔
  • سبحانی، جعفر، مصادر الفقہ الإسلامی و منابعہ، بیروت، دارالاضواء، 1419ھ۔
  • سمعانی، عبدالکریم بن محمد بن منصور، الأنساب، تحقیق عبدالرحمن بن یحیی المعلمی، حیدرآباد، مجلس دائرۃ المعارف العثمانیۃ، 1382ھ۔
  • شہرستانی، سیدعلی، وضوء النبی(ص)، مشہد، مؤسسۃ جوادالأئمۃ(ع) للطباعۃ و النشر، چاپ دوم، 1416ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، الخصال، ترجمہ مدرس گیلانی، تہران، سازمان چاپ و انتشارات جاویدان، 1362ہجری شمسی۔
  • صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، قم، کتاب فروشی داوری، 1385ہجری شمسی۔
  • صواف، محمد شریف عدنان، بین السنۃ و الشیعۃ، دمشھ، بیت الحکمہ، 1426ھ۔
  • طبری آملی، عمادالدین محمد، بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی، قم، المکتبۃ الحیدریۃ، چاپ دوم، 1383ھ۔
  • طبسی، نجم الدین، دراسات فقہیۃ فی مسائل خلافیۃ، قم، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، 1429ھ۔
  • عاملی نباطی، علی بن محمد بن علی، الصراط المستقیم إلی مستحقی التقدیم، نجف، المکتبۃ الحیدریۃ، 1384ھ۔
  • کرمانشاہی، آقا محمد علی بن وحید بہبہانی، مقامع الفضل، قم، مؤسسہ علامہ مجدد وحید بہبہانی، 1421ھ۔
  • کلینی، ابوجعفر، محمد بن یعقوب، الکافی، قم، دارالحدیث للطباعۃ و النشر، 1429ھ۔
  • گرجی، ابو القاسم، تاریخ فقہ و فقہا، تہران، مؤسسہ سمت، چاپ سوم، 1421ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحارالأنوارالجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار، بیروت،دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مغربی، محمد، وہابیت در آیینہ تاریخ، مجلہ حکمت رضوی، شمارہ10، زمستان1383ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، دائرۃ المعارف فقہ مقارن، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی‌طالب(ع)، قم، 1427ھ۔