ہمام

ویکی شیعہ سے

ہمام امام علیؑ کے شیعہ تھے۔ امام علی ؑ نے ان کی درخواست پر خطبہ متقین ارشاد فرمایا تھا۔ وہ امام علی ؑ کی زبان سے متقین کے اوصاف سن کر بے ہوش ہو گئے اور وفات پا گئے۔

نام و نسب

ہمام کا نام نہج البلاغہ میں بھی آیا ہے لیکن اس کتاب میں ان کے نسب کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے۔[1] پانچویں صدی کے مصنف محمد بن علی کراجکی کے مطابق ہمام، عبادہ بن خثیم کے فرزند اور ربیع بن خثیم کے بھتیجے تھے۔ امام علی ؑ کے لشکر کے ایک کمانڈر اور زہاد ثمانیہ میں سے تھے۔[2] لیکن ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں شریح بن یزید بن عمر کے فرزند کے عنوان سے ان کا تعارف کروایا ہے۔[3] نہج البلاغہ کے مولف سید رضی نے ہمام کو ایک عابد زاہد کے طور پر متعارف کروایا ہے۔[4] اسی طرح امام صادق ؑ سے نقل ہے کہ وہ عابد اور خدا پرست تھے۔[5] بعض مآخذ ہمام کو اصحاب برانس میں شمار کرتے ہیں۔[6] اصحاب برانس صدر اسلام ک وہ زاہد لوگ تھے جو اپنے سر پر برنس نامی ٹوپی رکھتے تھے۔[7]

ابن ابی الحدید نے ہمام کے شیعان امام علی ؑ میں شمار کیا ہے۔[8] ابن حدید کے مطابق ایک بارہمام نے امام علیؑ سے فرمایا : اے امیر المومنین ! جس خدا نے آپ خاندان پیغمبرﷺ کو جو عزت، احترام اور عظمت عنایت کی ہے میں آپ سےاس کا واسطہ دے کر درخواست کرتا ہوں کہ میرے لیے شیعوں کی خصوصیات بیان کیجیے۔[9] ابن ابی الحدید نے اسے ہمام کی اہل بیتؑ کے ساتھ محبت و ولایت کی نشانی کے طور پر ذکرکیا ہے۔

خطبہ متقین

ہمام نے امام علی ؑسے درخواست کی کی پرہیزگاروں کے صفات کو ان کے لیے ایسے بیان کریں جیسے وہ ان کو دیکھ رہے ہوں۔ امام علی ؑ نے کچھ دیر سوچا اور پھر فرمایا : اے ہمام خدا سے ڈرو اور نیک بن کر رہو۔ خدا ان کے ساتھ جو جو پرہیز گار ہیں اور نیک اعمال انجام دینے والے ہیں۔ ( نحل 118) ہمام اس جواب سے قانع نہیں ہوئے اور اپنی درخواست پر اصرار کیا۔ امام علیؑ نے ان کے جواب میں خطبہ متقین ارشاد فرمایا۔[10] کہا جاتا ہے امام علی ؑ نے جب متقین کی صفات میں سے تقریبا 105 صفات بیان کیں تو ہمام بے ہوش ہو گئے اور بیہوشی کی حالت میں ان کی روح پرواز کر گئی۔

امام علی ؑ نے فرمایا: خدا کی قسم! ان کے بارے میں مجھے اسی بات کا خوف تھا پھر فرمایا: دل میں اتر جانے والی نصیحتیں سننے والوں پر ایسے ہی اثر کرتی ہیں۔[11]امام علی ؑ نے ہمام کی تشییع جنازہ میں شرکت کی اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔[12]

حوالہ جات

  1. نهج البلاغة، تصحیح صبحی صالح، خطبه ۱۹۳، ص۳۰۳۔
  2. کراجکی، کنز الفوائد، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۸۹۔
  3. ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج البلاغه، ج۱۰، ص۱۳۳۔
  4. نهج البلاغة، تصحیح صبحی صالح، خطبه ۱۹۳، ص۳۰۳۔
  5. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق،‌ ج۲، ص۲۲۶۔
  6. کراجکی، کنز الفوائد، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۸۹۔
  7. دینوری، الأخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، پاورقی ص۳۰۳۔
  8. ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج البلاغه، ج۱۰، ص۱۳۳۔
  9. کراجکی، کنز الفوائد، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۸۹۔
  10. نهج البلاغة، تصحیح صبحی صالح، خطبہ ۱۹۳، ص۳۰۳۔
  11. نہج البلاغۃ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ ۱۹۳، ص۳۰۴۔
  12. محدث نوری، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق، ج۹، ص۱۸۹۔

مآخذ

  • ابن ابی‌ الحدید، عبدالحمید بن هبة الله، شرح نهج البلاغة، تحقیق: محمد أبوالفضل إبراهیم، مؤسسة إسماعیلیان للطباعة والنشر والتوزیع، بی‌تا۔
  • دینوری، احمد بن داود، الاخبار الطوال، قم، منشورات الرضی، ۱۳۶۸ش۔
  • نهج البلاغة، تحقیق: صبحی صالح، قم، هجرت، چاپ اول، ۱۴۱۴ق۔
  • کراجکی، محمد بن علی، کنز الفوائد، تصحیح و تحقیق: نعمة، عبد الله، دار الذخائر، قم، چاپ اول، ۱۴۱۰ق۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی‌ اکبر غفاری، علی‌اکبر و محمد آخوندی، تهران، دار الکتب الإسلامیة، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ق۔
  • محدث نوری، میرزا حسین، مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل‏، قم، مؤسسة آل البيت عليهم‌السلام‏، ۱۴۰۸ق۔