زیاد بن ابیہ

ویکی شیعہ سے

خلافت بنوامیہ

سلاطین

عنوان


معاویہ بن ابی سفیان
یزید بن معاویہ
معاویہ بن یزید
مروان بن حکم
عبدالملک بن مروان
ولید بن عبدالملک
سلیمان بن عبدالملک
عمر بن عبدالعزیز
یزید بن عبدالملک
ہشام بن عبدالملک
ولید بن یزید
ولید بن عبدالملک
ابراہیم بن الولید
مروان بن محمد

مدت سلطنت


41-61ھ
61-64ھ
64-64ھ
64-65ھ
65-86ھ
86-96ھ
96-99ھ
99-101ھ
101-105ھ
105-125ھ
125-126ھ
126-126ھ
126-127ھ
127-132ھ

مشہور وزراء اور امراء

مغیرۃ بن شعبہ ثقفی
زیاد بن ابیہ
عمرو عاص
مسلم بن عقبہ مری
عبیداللہ بن زیاد
حجاج بن یوسف ثقفی

اہم واقعات

صلح امام حسن
واقعہ عاشورا
واقعہ حرہ
قیام مختار
قیام زید بن علی

زیاد بن ابیہ (۱ھ، ۵۳ھ)، امام علیؑ اور معاویہ بن ابی سفیان کا عامل رہا۔امام علیؑ کے دور میں وہ استخر فارس کا عامل تھا۔ صلح امام حسنؑ کے بعد معاویہ کی بیعت سے رکا رہا لیکن پھر مغیرة بن شعبہ کے توسط سے شام گیا اور وہاں معاویہ نے گفتگو کے دوران زیاد بن ابی سفیان کے نام سے یاد کیا ۔معاویہ کے دور میں بصره اور کوفہ کی حکومت اسے ملی ۔

وہ عبیداللہ کا باپ ہے جو یزید بن معاویہ کے دور میں بصره اور کوفہ میں حاکم رہا اور اسی کے دور میں واقعہ کربلا اور شہادت امام حسین(ع) ہوئی اس میں اسکا اہم کردار رہا ۔

نسب

اسکے نسب میں اختلاف ہے ۔ایک نقل کے مطابق زیاد کا باپ طائف کا غلام عُبید تھا .اسکی ماں کا نام سمیہ جو حارث بن کلده کی کنیز تھی.[1] معاویہ کے باپ ابو سفیان بن حرب نے بھی اسے اپنا بیٹا کہا اور اسے سمیہ سے زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والا فرزند کہا؛[2] اسی وجہ سے معاویہ نے اپنی خلافت کے دوران اپنے باپ سے ملحق کیا اور اسے اپنا بھائی کہا ۔بعض اقوال کی بنا پر زیاد ہجرت کے پہلے سال اور بعض کے مطابق ہجرت سے پہلے پیدا ہوا ۔[3]

خلافت علی(ع) سے پہلے

زیاد ایک باہوش اور ادیب شخص تھا۔ مغیره بن شعبہ نے جب عمر بن خطاب سے بصرہ کی حاکمیت حاصل کی تو وہ اسے دبیر کے عنوان سے اسے اپنے ہمراہ لے گیا۔[4] بعض منابع میں آیا ہے کہ یمن کی بغاوت کو روکنے کیلئے عمر نے اسے وہاں بھیجا تھا۔

خلافت علی(ع)

ابن عباس کی تجویز پر امام علی(ع) کی طرف سے فارس کی شورش روکنے کیلئے اعزام ہوا [5] اسکے بعد علی بن ابی طالب کی طرف سے استخر فارس کا کار گزار مقرر ہوا۔ جنگ صفین میں حضرت علی کے ساتھ رہا اور اس نے معاویہ کی جانب سے امان نامہ اور دعوت قبول نہیں کی۔ [6]

خلافت معاویہ

زیاد امام حسن(ع) کی معاویہ سے صلح کے بعد معاویہ کی بیعت سے کنارہ کش رہا اور استخر میں پناہ لئے رہا۔لیکن معاویہ نے اسکے لیے نامہ لکھا اور اسے اپنے پاس بلایا ۔ ظاہرا مغیرة بن شعبہ کہ جو ابن زیاد کو پہلے سے جانتا تھا،اسکے لیے وسیلہ بنا ۔ زیاد دمشق آیا ،معاویہ نے اسے اپنے پاس بلایا اور اسے اپنے باپ کا بیٹا اور اپنا بھائی کہا . بنی امیہ کے بعض صالح افراد نے اسے اس بری بدعت پر طعن و تشنیع کی اور اس سے قطع تعلق کر لیا؛ زیاد نے اس الحاق کو قبول کیا ۔والدہ کی جانب سے اسکے بھائی ابوبکره کو جب اس بات کا پتہ چلا تو سخت ناراض ہوا اور اس نے اس الحاق کو رد کیا ؛ اس نے زیاد سے بات کرنے اور اس سے قطع تعلق کرنے کی قسم کھائی ۔اس الحاق کے بعد اسے معاویہ کی طرف سے سال ۴۵ق، میں بصره کی امارت نصیب ہوئی .اس نے سپاہ اکٹھی کی اور اسے مرو اور خراسان کی طرف بھیجا جس نے قابل توجہ فتوحات حاصل کی ۔ تاریخی روایات کی بنا پر عبیدالله بن زیاد کا ان فتوحات کااہم کردار رہا ۔ سال ۴۸ق میں مغیرہ بن شعبہ کی وفات کے بعد زیاد کے عہدے کو باقی رکھتے ہوئے امیر کوفہ مقرر کیا ۔یوں وہ آدھی اسلامی حکومت کا امیر قرار پایا۔

مرگ

زیاد سال ۵۳ ه‍.ق میں طاعون کی بیماری کے سبب سے کوفہ میں مرا اور وہ کوفہ سے باہر دفن ہوا ۔[7]

اولاد

عبیدالله بن زیاد اسکا مشہور ترین فرزند ہے کہ جو اپنے باپ کی وفات کے بعد بصرے کا والی بنا۔ معاویہ کے مرنے کے بعد بصرے کا والی بنا۔ معاویہ کے بعد اور خلافت یزید میں اسی عہدے پر باقی رہتے ہوئے کوفہ کی امارت اسے ملی۔ عبیدالله نے ماجرای عاشورا میں کوفہ کی سپاہ کو امام حسین (ع) حسین سے جنگ کیلئے روانہ کیا اور وہ امام حسین کی شہادت کے اہم ترین عوامل میں سے ایک ہے۔ زیاد کی دیگر اولاد کے نام سلم[8] اور عباد [9] تھا۔ ابن اثیر نے سلم کا نام سلیمان ذکر کیا ہے ۔[10]

روش حکومت

زیاد چالاک اور سخت مزاج شخص تھا ۔معاویہ کے دور حکومت میں بصرے کی امارت کے ابتدا میں مسجد گیا ۔خطبہ پڑھا اور لوگوں کو شدید ڈرایا دھمکایا۔اس نے بصرے پر اپنی حاکمیت میں بہت سخت اور قاطعیت سے حکومتی امور کو چلایا ۔اسی وجہ سے اسکے تحت نظر تمام علاقوں میں مکمل امنیت رہی۔ علی بن ابی طالب کا ساتھ دینے اور صفین میں علی کو برتری دینے، ظاہری طور اپنے آپ کو شیعہ ظاہر کرنے کے باوجود بصرے اور کوفے پر حاکمیت کے دوران اس نے شیعوں سے نہایت سخت رویہ رکھا۔ انہیں قید خانوں میں قید رکھا اور ان میں سے بعض کو قتل کیا۔ اس کی سخت گیری کا مشہور ترین واقعہ حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کے اسیر کرنے اور انہیں قتل کرنے کا ہے۔ زیاد نے انہیں علی کو گالیاں نہ دینے اور حضرت علی کو گالیاں دینے پر اعتراض کے جرم میں اسیر کیا اور معاویہ کے حکم پر انہیں شام روانہ کیا۔ حجر اور اسکے ساتھی معاویہ کے حکم پر مرج عذراء نامی جگہ پر قتل کر دیئے گئے۔

حوالہ جات

  1. اخبار الطوال؛ص۲۱۹
  2. الاستیعاب؛ ج ۲؛ص۵۲۵.
  3. الاستیعاب،ج‌۲،ص:۵۲۳
  4. اخبار الطوال؛ص۲۱۹.
  5. البدایہ و النہایہ؛ ج ۷؛ص۳۲۰.
  6. اخبار الطوال؛ص۲۱۹.
  7. البدایہ و النہایہ؛ ج ۸؛ص۶۲.
  8. الأعلام،ج‌۳،ص:۱۱۰
  9. الأعلام، ج‌۳،ص:۲۵۷
  10. الکامل،ج‌۵،ص:۷۳

مآخذ

  • دینوری، احمد بن داود، اخبار الطوال، منشورات الرضی؛ قم، ۱۳۶۸ش.
  • ابن عبد البر، یوسف بن عبدالله، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، دارالجیل، بیروت، ۱۴۱۲ق.
  • ابن اثیر، علی بن محمد، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابہ، دارالفکر، بیروت، ۱۴۰۹ق.
  • ابن سعد، طبقات الکبری، دارالکتب العلمیه، بیروت، ۱۴۱۰ق.
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، دارالفکر، بیروت، ۱۴۰۷ق.
  • ابن اعثم کوفی، احمد بن اعثم، الفتوح، دارالاضواء، بیروت، ۱۴۱۱ق.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، ج ۷، دارالتراث، بیروت، ۱۳۸۷ق.
  • شہیدی، سید جعفر، تاریخ تحلیلی صدر اسلام، انتشارات علمی فرہنگی، تہران، ۱۳۸۳ش.