شُرَیْح بْن ہانی حارثی مَذْحَجی کوفی (متوفی 78 ہجری)، جَمَل، صِفَّین و نہروان کی جنگوں میں حضرت علیؑ کے سپہ سالاروں میں سے تھے۔[1] امام علی علیہ السلام کا ایک خط ان کے نام آیا ہے۔[2] اس خط میں امام نے اسے تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کی ہے اور دنیا کے فریب اور نفس کی خواہشات سے خبردار کیا ہے۔[3] مکارم شیرازی نے شرح نہج البلاغہ میں ان سفارشات کی وجہ معاویہ کی چالبازی اور امام علی کی فوج کے بزرگوں کو ورغلانے یا شریح کی زیاد بن نضر نامی فوج کے دوسرے سپہ سالار کے ساتھ اختلاف کو قرار دیا ہے۔[4]

حکمیت کے واقعہ کے بعد شریح کی عَمرو بن عاص سے لڑائی ہوگئی اور اسے کوڑے مارے؛ کیونکہ اس نے ابوموسی اَشْعری کو دھوکہ دیا تھا۔[5] حجر بن عدی کے خلاف گواہی دینے والوں میں ان کا نام آتا ہے، لیکن تاریخ طبری کے مطابق شریح نے حُجر کے خلاف گواہی دینے سے انکار کردیا اور معاویہ کے نام ایک خط میں اسے زیاد بن ابیہ کا کام قرار دیا۔[6]

شریح نے اپنے والد حضرت علیؑ، عایشہ، سعد بن ابی وَقاص، عُمر بن خَطّاب[7] اور دیگر[8] سے روایت کی ہے۔[9] ان سے ان کے بچوں مقدم اور محمد سمیت راویوں نے روایت کی ہے۔ ابن حجر کے مطابق نسایی اور ابن معین نے اسے ثقہ سمجھا ہے اور ابن حِبان نے ان کو ثقات میں درج کیا ہے۔[10]

شریح کے والد، ہانی بن یزید حارثی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے تھے، جنہیں رسول اللہؐ نے اپنے بیٹے کے نام پر ابو الشریح کا لقب دیا اور شریح کے لیے دعا کی۔[11] صحابہ کے بارے میں لکھی گئی بعض کتابوں میں شریح کے سوانح ذکر ہوئے ہیں۔[12] ان سے نقل ہوتا ہے کہ انہوں نے پیغمبر کے زمانے کو پایا ہے لیکن آنحضرتؐ سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔[13] تاہم ابن سعد نے ان کا شمار کوفہ کے تابعین میں کیا ہے.[14] وہ 78 ہجری میں سیستان کی جنگ میں مارا گیا۔[15] ابن حجر کے مطابق وہ 110 سال زندہ رہے۔[16]

امام علیؑ کا شریح بن ہانی کے نام خط

صبح و شام برابر اللہ کا خوف رکھنا اور اس فریب کار دنیا سے ڈرتے رہنا اور کسی حالت میں اس سے مطمئن نہ ہونا۔ اگر تم نے کسی ناگواری کے خوف سے اپنے نفس کو بہت دل پسند باتوں سے نہ روکا تو تمہاری نفسانی خواہشیں تمہیں بہت سے نقصانات میں ڈال دیں گی۔ لہٰذا اپنے نفس کو روکتے ٹوکتے اور غصہ کے وقت اپنی جست و خیز کو دباتے کچلتے رہنا۔

مفتی جعفر حسین، ترجمہ نہج البلاغہ، مکتوب 56

حوالہ جات

  1. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج4، ص565.
  2. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامہ56، ص447.
  3. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، 1386ش، ج11، ص182.
  4. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، 1386ش، ج11، ص182.
  5. مسعودی، مروج الذہب، 1409ق، ج2، ص399.
  6. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق، ج5، ص270.
  7. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج6، ص180.
  8. ابن حجر، الاصابة، 1415ق، ج3، ص308.
  9. ابن اثیر، اسدالغابہ، 1415ق، ج2، ص628.
  10. ابن حجر، تہذیب التہذیب، 1325ق، ج4، ص330.
  11. ابن حجر، الاصابة، 1415ق، ج3، ص308.
  12. ابن اثیر، اسدالغابہ، 1415ق، ج2، ص628؛ ابن حجر، الاصابة، 1415ق، ج3، ص307-308.
  13. نگاہ کنید بہ ابن حجر، الاصابة، 1415ق، ج3، ص308.
  14. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج6، ص180.
  15. ابن اثیر، اسدالغابہ، 1415ق، ج2، ص628.
  16. ابن حجر، الاصابة، 1415ق، ج3، ص308.

مآخذ

  • نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، مؤسسة دارالہجرہ، 1414ق.
  • ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ، تحقیق علی محمد معوض، عادل احمد عبدالموجود، درالکتب العلمیہ، الطبعة الاولی، 1415ق/1994م.
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابة فی تمییز الصحابة، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیة، ط الأولی، 1415ق/1995م.
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، تہذیب التہذیب، بیروت، دار صادر، 1325ق.
  • ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1410ق.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، الطبعة الثانیة، 1387ق/1967م.
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، قم، دارالہجرہ، 1409ق.
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمومنین(ع)، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1386ش.