ارتداد

حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
ویکی شیعہ سے
(مرتد سے رجوع مکرر)

اِرْتِدادْ دین اسلام سے خارج ہونے کو کہا جاتا ہے۔ اسلام سے روگردانی کرنے والے شخص کو مُرْتَد کہتے ہیں۔ جب کوئی مسلمان وجود خدا یا حقانیت پیامبر اسلام یا دین اسلام کا منکر ہو جائے یا دینی مقدسات جیسے کعبہ کی واضح توہین کرے یا دین کے ضروری احکام جیسے نماز و روزہ کا انکار کرے تو ارتداد متحقق ہو جاتا ہے۔

مرتد ملی اور مرتد فطری مرتد کی دو اقسام ہیں۔ ہر ایک قسم کے اپنے مخصوص احکام ہیں۔ فقہا کے مشہور قول کے مطابق مرتد فطریِ کی سزا قتل ہے جبکہ مرتد ملی اگر مرد ہو تو توبہ کرنے اور دین کی طرف لوٹ آنے کی فرصت دی جائے گی اگر وہ توبہ نہ کرے تو قتل کر دیا جائے گا۔ اگر خاتون ہو تو چاہے مرتد ملی ہو یا فطری، اس کی سزا قتل نہیں ہے البتہ توبہ کرنے تک اسے قید میں رکھا جائے گا۔

مشہور قول کے بالمقابل بعض فقہا کے نزدیک مرتد فطریِ مرد کو بھی توبہ کے بعد قتل نہیں کیا جائے گا۔

مرتد کا نجس ہونا اور اس سے ازدواج کا جائز نہ ہونا ارتداد کے احکام میں سے ہے۔ بعض معتقد ہیں کہ اسلام میں مرتد کیلئے سزاؤں کا فلسفہ اسلام قبول کرنے میں سہل انگاری سے کام نہ لینا اور اسلام مخالفین کی طرف سے اعتقادات دینی کو کمزور کرنے کی کوششوں کو روکنا ہے۔

تعریف

ارتداد ایک فقہی اصطلاح ہے اور فقہا کے مطابق اس کے معنی دین اسلام سے روگردانی کے ہیں۔[1] دین اسلام سے خارج ہونے والے مسلمانوں کو مرتد کہتے ہیں۔[2] فقہی کتابوں میں طہارت، نماز، زکات، روزہ، حج، تجارت، نکاح اور ارث کے ابواب میں اس سے متعلق بحث کی جاتی ہے۔[3] اس موضوع پر جداگانہ کتابیں بھی تالیف ہوئی ہیں جن میں کتاب المُرتَدّ کا نام لیا جا سکتا ہے۔[4]

اقسام

تفصیلی مضمون: مرتد فطری اور مرتد ملی

مرتد کی دو اقسام ہیں جن کے مخصوص احکام ہیں۔[5] مرتد فطری اس شخص کو کہا جاتا ہے جو پیدائشی طور پر مسلمان ہو؛[6] یعنی اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک مسلمان ہو[7] اور خود بھی بالغ ہونے کے بعد اسلام سے روگردانی کرے۔[8] اس کے مقابلے میں مرتد ملی اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے ماں باپ یا ان میں سے کوئی ایک بھی مسلمان نہ ہو لیکن خود بالغ ہونے کے بعد اسلام قبول کرے اور پھر اسلام سے خارج ہو جائے۔[9]

تحقق اور اس کے شرائط

زبانی اقرار یا فعل کے ذریعے ارتداد متحقق ہو جاتا ہے۔ زبان سے کوئی شخص ایسی بات کہے جو دین اسلام سے خارج ہونے پر دلالت کرے؛ مثلا خدا، حضرت محمدؐ کی نبوت یا دین اسلام کی حقانیت کا انکار کرے۔[10] ضروریات دین کا انکار بھی اسی زمرے میں آتی ہے[11] ضروریات دین اس چیز کو کہا جاتا ہے جسے تمام مسلمان قبول کرتے ہوں اور اس کا اثبات دلیل کا محتاج نہ ہو جیسے وجوب نماز و روزہ اور حج وغیرہ۔[12]

اسی طرح عملی طور پر کوئی کفرآمیز کام کو جان بوجھ کر اور اس کام کے کفریہ ہونے کو جانتے ہوئے انجام دے مثلا بت کو سجدہ کرے، یا خدا کے علاوہ کسی اور چیز کی پرستش کرے یا دینی مقدسات مثلا کعبہ کی کھلم کھلا توہین کرے۔[13]

شرائط

فقہا عقل، بلوغ، قصد و اختیار کو ارتداد کے تحقق کی شرائط میں سے جانتے ہیں۔[14] ان شروط کے پیش نظر دیوانے کی کفریہ سخن یا غیر بالغ کی کفریہ سخن ارتداد کا موجب نہیں بنتی ہے۔[15] اسی طرح اگر کسی نے کفر آمیزی کی نیت سے گفتگو یا فعل نہیں کیا تو وہ موجب ارتداد نہیں ہے یا اگر کوئی مجبوری کی وجہ سے کفر کہے تو بھی ارتداد متحقق نہیں ہو گا۔[16]

اسلام میں ارتداد کی مثالیں

تفسیری اور تاریخی کتب میں ارتداد کے بعض نمونے ملتے ہیں۔[17] ان میں سے ابو الحصین‌ انصاری کے دو بیٹے ہیں۔ یہ دونوں مسیحیوں کی ایک جماعت کی تبلیغ سے اسلام سے خارج ہو کر عیسائی ہو گئے۔[18] پیغمبر نے ان پر نفرین کی۔ یہ سب سے پہلے مرتد افراد میں سے ہیں۔[19] اسی طرح عُقبۃ اَبی‌ مُعیط کہ جو قریش کا بزرگ تھا، اس نے پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ کھانا کھانے کیلئے شہادتین پڑھا اور چند روز کے بعد اپنے دوست کی درخواست پر صورت پیامبرؐ پر لعاب دہن تھوک دیا اور مرتد ہوگیا۔ رسول اکرمؐ نے جنگ بدر میں اسکی اسیری کے بعد اس کے قتل کا حکم صادر کیا۔[20]

اُم‌ُّ حَکَم بنت ابو سفیان اور ام سلمہ کی بہن فاطمہ رسول خداؐ کے زمانے کی مرتد خواتین میں سے ہیں۔ اگرچہ ام‌ حکم فتح مکہ کے موقع پر دوبارہ مسلمان ہو گئی۔[21]

سید عبد الکریم موسوی اردبیلی نے اپنی فقہی کتاب فقہ الحدود و التعزیرات میں نبی اکرم اور آئمہ کے زمانے کے مرتد مرد و خواتین کی مثالیں ذکر کی ہیں۔[22]

دور حاضر میں ارتدا کی بنا پر قتل ہونے والے یا ارتداد کے ملزمین:

  • سلمان رشدی نے «آیات شیطانی» کے نام سے ایرانی تقویم کے مطابق مہر ماہ 1367 شمسی میں کتاب لکھی جس کے نتیجے میں جمہوری اسلامی ایران میں امام خمینی نے اس کے قتل کا حکم دیا۔[24] اس فتوے کے صدور کا سبب سلمان رشدی کے مرتد ہونے کو سمجھا جاتا ہے۔[25]

ثبوت ارتداد کے ذرائع

فقہا کے فتوا کے مطابق ارتداد دو طریقوں سے ثابت ہوتا ہے:

  • پہلا طریقہ: خود مرتد کے اقرار کرنے سے۔
  • دوسرا طریقہ: بینہ کے ذریعے۔ یعنی دو عادل مرد کسی شخص کے متعلق ارتداد کی گواہی دیں۔[26]

شہید اول کے مطابق جس شخص کے بارے میں دو عادل شخصوں نے گواہی دی ہو تو اگر وہ شخص کہے کہ مجھ سے اشتباہ ہوا ہے تو اس کی بات کو قبول کیا جائے گا۔ اسی طرح اس شخص کی بات کو بھی قبول کیا جائے گا جو کہے کہ میں اس کام پر مجبور تھا اور اس پر کوئی قرینہ دلالت کرنے والا موجود ہو۔[27]

احکام

فقہی مصادر میں ارتداد سے متعلق مذکور بعض فقہی احکام:

  • مرتد ملی مرد اگر توبہ نہ کرے اور اسی طرح مرتد فطری مرد کی سزا موت ہے۔[28] لیکن مرتد عورت کو توبہ کرنے تک قید میں رکھا جائے گا یا توبہ نہ کرنے کی صورت میں تا آخر عمر قید رہے گی۔[29]
  • خاتون مرتد فطری اور مرتد ملی چاہے عورت ہو یا مرد، اگر توبہ کریں تو ان کی توبہ قبول کی جائے گی۔[30]
  • ارتداد کی وجہ سے مرتد نجاست شمار ہوتا ہے۔[31] خاتون مرتد فطری اور مرتد ملی چاہے مرد ہو یا عورت، توبہ کرنے کی صورت میں پاک ہونگے۔[32]
  • مرتد سے مسلمان کا ازدواج جائز نہیں ہے۔[33]
  • اگر کوئی نکاح کے بعد اور ہمبستری سے پہلے مرتد ہو جائے تو یہ عقد باطل ہو جائے گا۔[34]
  • اگر کوئی شخص شادی کے بعد مرتد فطری ہو جائے تو عقد باطل ہو جائے گا۔ اگر عورت مرتد فطری یا ملی ہو جائے اگر وہ عورت عدت میں توبہ نہ کرے تو ازدواج باطل ہے ورنہ عقد صحیح رہے گا۔ یہی حکم مرتد ملی کا ہوگا۔[35]

دیگر اقوال

ارتداد کے فقہی حکم کے متعلق فقہا کے مشہور قول کے مقابلے میں بعض مجتہدین نے دیگر اقوال اختیار کئے ہیں۔ مراجع تقلید میں سے سید عبدالکریم موسوی اردبیلی[36] اور محمد اسحاق فیاض مرتد فطری مرد کو مرتد کی دوسری قسم کے مطابق سمجھتے ہیں، یعنی انہوں نے فتوا دیا ہے کہ مرتد فطری مرد نیز اگر توبہ کرے تو اسے سزا نہیں دی جائے گی۔[37]

عبد اللہ جوادی آملی نے کہا ہے کہ اگر کوئی تحقیق کی بنا پر شُبہ سے دوچار ہو جائے اور دین اسلام سے لوٹ جائے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ شبہ کی موجودگی میں حد شرعی کی احادیث پر عمل نہیں ہونا چاہئے۔[38]

فلسفہ قتل

بعض محققین نے مرتد کی سزا قتل مقرر ہونے میں کچھ اسباب ذکر کئے ہیں:

  • تا کہ آگاہ کیا جائے کہ کوئی ارتداد اختیار کرنے میں سہل انگاری سے کام نہ لے بلکہ ارتداد اختیار کرنے سے پہلے خوب سوچ بچار سے کام لینا چاہئے۔[39]
  • مسلمانوں کے درمیان دینی اعتقادات کو کمزور کرنے سے روکا جائے کیونکہ اسلام اس بات کی قطعی طور پر اجازت نہیں دیتا کہ اسلام کے مخالفین اسلام کو کمزور کرنے کی غرض سے اسلام قبول کریں اور پھر اسلام سے واپس دوسرے دین پر لوٹ جائیں۔[40]

ارتداد اور قانون ایران

جمہوری اسلامی ایران کے آئین نامے میں ارتداد کا نام ذکر نہیں ہوا اور نہ اس کیلئے کوئی سزا ہی مقرر ہوئی ہے۔[41] اگرچہ کچھ قانون سے آشنا لوگ اساسی قانون کی اصل نمبر 167، سے استناد کرتے ہوئے اسے ایک جرم سمجھتے ہیں۔[42] اس اصل میں آیا ہے:

«قاضی کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایران کے مرتبہ قوانین میں ہر دعوے کے حکم کو تلاش کرے اور اگر مرتبہ قوانین میں کسی دعوے کے حکم کو نہ پائے تو اسے چاہئے کہ معتبر اسلامی مصادر یا معتبر فتاوا کی روشنی میں حکم صادر کرے نیز اس کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ تدوین شدہ قوانین میں تعارض، نقص، اجمال یا سکوت کو بہانہ بنا کر عدالت میں داخل دفتر کئے گئے قضایا میں خاموشی اختیار کرے۔»[43]

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: شہید ثانی، حاشیۃ الارشاد، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۲۸۵؛ موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات، ۱۴۲۷ق، ج۴، ص۴۴-۴۶۔
  2. نک: خویی، تکملۃ المنہاج، ۱۴۱۰ق، ص۵۳؛ وحید خراسانی، منہاج‌ الصالحین، ۸۱۴۲ق، ج۳، ص۵۰۰؛ موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات، ۱۴۲۷ق، ج۴، ص۴۴-۴۶۔
  3. مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۰ش، ج۱، ص۳۶۶.
  4. مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۰ش، ج۱، ص۳۶۶۔
  5. دیکھیں: محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۷۰و۱۷۱.
  6. محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۷۰.
  7. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۴۱، ص۶۰۲.
  8. محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۷۰۔
  9. محقق حلی، شرایع‌ الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۷۱۔
  10. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات، ۱۴۲۷ق، ج۴، ص۴۷.
  11. مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲ش، ج۵، ص۱۴۶۔
  12. مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲ش، ج۵، ص۱۴۶.
  13. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات، ۱۴۲۷ق، ج۴، ص۴۷و۴۸.
  14. دیکھیں: نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۴۱، ص۶۰۹و۶۱۰؛ موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات، ۱۴۲۷ق، ج۴، ص۱۰۲و۱۰۵و۱۱۵.
  15. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۴۱، ص۶۰۹.
  16. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۴۱، ص۶۰۹و۶۱۰.
  17. صادقی فدکی، ارتداد، ۱۳۸۸ش، ص۲۹۳.
  18. صادقی فدکی، ارتداد، ۱۳۸۸ش، ص۲۹۳و۲۹۴.
  19. صادقی فدکی، ارتداد، ۱۳۸۸ش، ص۲۹۴.
  20. صادقی فدکی، ارتداد، ۱۳۸۸ش، ص۲۹۵و۲۹۶.
  21. صادقی فدکی، ارتداد، ۱۳۸۸ش، ص۳۱۲.
  22. ملاحظہ کریں: موسوی اردبیلی، فقہ‌الحدود و التعزیرات، ۱۴۲۷ق، ج۴، ص۵-۲۹.
  23. «سرنوشتی کہ نواب برای سوزانندہ قرآن رقم زد + تصاویر»، وبگاہ مشرق، تاریخ نشر: ۱۷ دی ۱۳۹۱ش، مشاہدے کی تاریخ: ۴ اسفند ۱۳۹۷ش.
  24. «فتوای تاریخی امام خمینی مبنی بر مہدور الدم بودن سلمان رشدی»، وبگاہ ایسنا، تاریخ نشر: ۲۵ بہمن ۱۳۹۳ش، تاریخ بازدید: ۴ اسفند ۱۳۹۷ش.
  25. «فتوای تاریخی امام خمینی مبنی بر مہدور الدم بودن سلمان رشدی»، وبگاہ ایسنا، تاریخ نشر: ۲۵ بہمن ۱۳۹۳ش، تاریخ بازدید: ۴ اسفند ۱۳۹۷ش.
  26. دیکھیں: شہید اول، الدروس الشرعیہ، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۵۲؛ علامہ حلی، تحریر الاحکام، ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۳۹۷.
  27. شہید اول، الدروس الشرعیہ، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۵۲.
  28. محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۷۰و۱۷۱.
  29. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۴۱، ص۶۱۱و۶۱۲.
  30. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۴۱، ص۶۱۲و۶۱۳.
  31. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۱۴.
  32. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۶، ص۲۹۳.
  33. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۰، ص۴۷.
  34. محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۷۰و۱۷۱.
  35. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۰، ص۴۹.
  36. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات، ۱۴۲۷ق، ج۴، ص۱۵۱.
  37. فیاض کابلی، رسالہ توضیح‌المسائل، ۱۴۲۶ق، ص۶۲۶.
  38. جوادی آملی، تسنیم، ۱۳۸۸ش، ج۱۲، ص۱۸۳و۱۸۴.
  39. شاکرین، پرسش‌ہا و پاسخ‌ہای دانشجویی، ۱۳۸۹ش، ص۳۱۷.
  40. شاکرین، پرسش‌ہا و پاسخ‌ہای دانشجویی، ۱۳۸۹ش، ص۳۱۴.
  41. درودی، «ارتداد در نظام حقوقی ایران»، ص۶۶.
  42. درودی، «ارتداد در نظام حقوقی ایران»، ص۶۶.
  43. قانون اساسی، جمہوری اسلامی ایران، ۱۳۸۶ش، ص۸۹.

مآخذ

  • خویی، سید ابوالقاسم، تکملۃ المنہاج، قم، مدینۃ العلم، چاپ بیشت و ہشتم، ۱۴۱۰ق.
  • درودی، سعید، «ارتداد در نظام حقوقی ایران»، بازتاب اندیشہ، ش۲۳، ۱۳۸۰ش.
  • «سرنوشتی کہ نواب برای سوزانندہ قرآن رقم زد + تصاویر»، وبگاہ مشرق، تاریخ نشر: ۱۷ دی ۱۳۹۱ش، تاریخ بازدید: ۴ اسفند ۱۳۹۷ش.
  • شاکرین، حمید رضا و جمعی از محققان، پرسش‌ہا وپاسخ‌ہای دانشجویی(دفتر ہفتم)، قم، دفتر نشر معارف، ۱۳۸۹ش.
  • شہید اول، محمد بن مکی العاملی، الدروس الشرعیہ فی الفقہ الامامیہ، قم، نشر اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۷ق.
  • شہید ثانی، زین‌ الدین بن علی، حاشیۃ الارشاد، تحقیق رضا مختاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین قم، چاپ اول، ۱۴۱۴ق.
  • صادقی فدکی، سید جعفر، ارتداد؛ بازگشت بہ تاریکی؛ نگرشی بہ موضوع ارتداد از نگاہ قرآن کریم، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، چاپ اول، ۱۳۸۸ش.
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر احکام الشریعہ علی مذہب الامامیہ، تحقیق ابراہیم بہادری، قم، مؤسسہ امام صادق، چاپ اول، ۱۴۲۰ق.
  • طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیہ، تہران، المکتبہ المرتضویہ لاحیاء الاثار الجعفریہ، چاپ سوم، ۱۳۸۷ق.
  • «فتوای تاریخی امام خمینی مبنی بر مہدور الدم بودن سلمان رشدی»، وبگاہ ایسنا، تاریخ نشر: ۲۵ بہمن ۱۳۹۳ش، تاریخ بازدید: ۴ اسفند ۱۳۹۷ش.
  • قانون اساسی جمہوری اسلامی ایران ہمراہ قانون اساسی مشروطہ با مقدمہ و ضمائم با آخرین اصلاحات، قم، نشر جمال، چاپ سوم، ۱۳۸۶ش.
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تحقیق و تصحیح عبدالحسین محمد علی بقال، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم، ۱۴۰۸ق.
  • مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل‌ بیت علیہم‌السلام، ج۱، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، ۱۳۹۱ش.
  • مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ج۵، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، ۱۳۹۲ش.
  • موسوی اردبیلی، سید عبدالکریم، فقہ‌الحدود و التعزیرات، مؤسسۃ النشر لجامعہ المفید، چاپ دوم، ۱۴۲۷ق.
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تصحیح عباس قوچانی علی آخوندی، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ۱۴۰۴ق.
  • وحید خراسانی، حسین، منہاج‌ الصالحین، قم، مدرسہ امام باقر، چاپ پنجم، ۱۴۲۸ق.