مخنف بن سلیم ازدی

ویکی شیعہ سے
(مخنف بن سلیم سے رجوع مکرر)
مخنف بن سلیم ازدی
کوائف
مکمل ناممخنف بن سلیم بن غامدی ازدی
محل زندگیکوفہ
اقاربابو مخنف
وفات64 یا 80 ھ
دینی معلومات
وجہ شہرتصحابی رسول (ص) و امام علی (ع)
دیگر فعالیتیںجنگ جمل و جنگ صفین میں امام علیؑ کے لشکر کے سردار، اصفہان و ہمدان میں حضرت کے گورنر اور جمع آوری زکات کے ذمہ دار۔


مِخْنَف بْن سُلَیْم غامدی اَزْدی، (متوفی 64 یا 80 ھ) صحابی پیغمبر (ص)، جنگ جمل و جنگ صفین میں امام علی (ع) کے لشکر کے سپہ سالاروں اور اصفہان و ہمدان میں آپ کے گورنر تھے۔ کچھ عرصہ جمع آوری زکات کی ذمہ داری امام (ع) کی طرف ان کے سپرد رہی۔ اس دوران امام کی طرف سے آپ کو ہونے والی نصیحتیں ان کے حوالہ سے نقل ہوئی ہیں۔ مقتل الحسین کے مصنف ابو مخنف ان کی نسل سے ہیں۔

نسب و خاندان

ان کا سلسلہ نسب یہ ہے: مخنف بن سلیم بن حارث بن عوف بن ثعلبہ بن عامر بن ذہل بن مازن بن ذبیان بن ثعلبہ، بن الدّؤل بن سعد منات بن غامد۔[1]

سید ابو القاسم خوئی نے انہیں حضرت عائشہ کا خالہ زاد بھائی ذکر کیا ہے۔[2] صقعب اور عبد اللہ ان کے بھائی ہیں جو جنگ جمل میں شہید ہوئے۔[3]

حبیب، عبد الرحمن اور سعید ان کے بیٹے ہیں۔ عبد الرحمن کوفہ میں قیام مختار کے مخالفین میں تھے۔[4] سعید، مقتل الحسین کے مولف ابو مخنف کے جد ہیں۔[5]

صحابی پیغمبر (ع)

مخنف زمانہ پیغمبر (ص) میں اسلام لائے[6] اور ان کا شمار صحابہ میں کیا گیا ہے۔[7] عمر بن خطاب کی خلافت کے زمانہ میں وہ فتوحات عراق میں شامل تھے۔[8]

مخنف نے پیغمبر اکرم (ص) سے دو حدیث نقل کی ہے۔[9] ابن حجر عسقلانی کے بقول یہ دونوں حدیثیں سنن اربعہ میں ذکر ہوئی ہیں۔[10] ابو رملہ (ابو رمیلہ) اور ان کے بیٹے حبیب نے ان سے روایت نقل کی ہے۔[11]

حکومت امام علی (ع)

شیخ طوسی اور برقی نے انہیں امام علی (ع) کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔[12] حضرت نے جنگ جمل میں انہیں ازد، نجیلہ، خثعم و خزاعہ قبیلوں کا سردار مقرر کیا تھا۔[13] وہ اس جنگ میں زخمی ہو گئے تو ان کے بھائیوں صقعب اور عبد اللہ نے پرچم اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور دونوں شہید ہو گئے۔[14] جنگ جمل ان سے ایک رجز نفس کی مذمت میں نقل ہوا ہے۔[15]

جب حضرت علی (ع) بصرہ سے کوفہ گئے تو مدد میں کوتاہی کی وجہ سے بعض لوگوں کی مذمت کی۔ لیکن مخنف اور ان کے قبیلہ کی ستائش کی۔[16]

جنگ جمل کے بعد وہ اصفہان[17] و ہمدان[18] میں حضرت کی طرف سے گورنر منصوب ہوئے۔ جنگ صفین کے موقع پر امام علی (ع) نے انہیں خط لکھا اور اپنی طرف آنے کا حکم دیا۔[19] مخنف نے امام کا خط موصول ہونے کے بعد حارث بن ابی حارث بن ربیع کو اصفہان اور سعید بن وہب کو ہمدان میں متعین کیا اور خود امام کی طرف کوفہ روانہ ہوئے۔[20] جنگ صفین میں ان کے قبیلہ ازد کا علم ان کے ہاتھوں میں تھا[21] اور بعض منابع کے مطابق ازد، بجلیہ، خثعم، انصار و خزاعہ قبلیوں کی سرداری ان کی ذمہ تھی۔[22]

جنگ صفین کے بعد مخنف کو حضرت نے فرات کے علاقہ میں بکر بن وائل کے قبیلہ سے زکات کی جمع آوری کی ذمہ داری عطا کی۔[23] جب نعمان بن بشیر نے مالک بن کعب پر حملہ کیا جو عین التمر میں امام علی (ع) کے کارگزار تھے، تو مالک کی درخواست پر مخنف نے ایک گروہ کو اپنے بیٹے عبد الرحمن کی ہمراہی میں ان کی نصرت کے لئے بھیجا۔[24]

حضرت علی (ع) سے کچھ نصیحتیں ان سے نقل ہوئی ہیں۔[25] نہج البلاغہ کے بعض مترجمین نے خط نمبر 26 جسے حضرت نے مالیات کے بعض ذمہ داروں کو تحریر کیا تھا، کا مخاطب انہیں قرار دیا ہے۔[26]

وفات

بعض منابع میں ذکر ہوا ہے کہ وہ جنگ جمل مین شہید ہو گئے تھے۔[27] لیکن جنگ صفین[28] اور اس کے بعد کے وقائع[29] میں ان کی موجودگی اس بات کو غلط ثابت کرتی ہے۔ طبری نے ان کا نام سن 80 ھ میں وفات پانے والوں میں ذکر کیا ہے[30] اور ابن حجر عسقلانی کی روایت کے مطابق وہ سن 64 ھ میں قیام توابین میں شہید ہوئے۔[31]

حوالہ جات

  1. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۴۶۷؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۴، ص۳۵۲؛ ابن حجر، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۴۶.
  2. خوئی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ق، ج۱۸، ص۱۰۷.
  3. بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص۲۴۱؛ ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۲۵۱؛ خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفہ، ۱۴۱۵ق، ص۱۱۴؛ ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۴، ص۲۷۴.
  4. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۶، ص۱۸، ۱۰۴؛ ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۶، ص۲۳۲.
  5. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۴۶۷؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۴، ص۳۵۲؛ ابن حجر، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۴۶؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۱۱، ص۵۴۷.
  6. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۱۱، ص۵۴۷.
  7. ابن سعد، الطبقات، ۱۴۱۰ق، ج۶، ص۱۰۹؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۱۱، ص۵۴۷؛ الاستیعاب، ج۴، ص۱۴۶۷؛ اسدالغابہ، ج۴، ص۳۵۲؛ ابن حجر، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۴۶.
  8. دینوری، الاخبارالطوال، ۱۳۶۸ش، ص۱۱۴.
  9. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۴۶۷؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۴، ص۳۵۲.
  10. ابن حجر، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۴۶.
  11. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۴۶۷.
  12. طوسی، رجال الطوسی، ۱۴۱۵ق، ص۸۱؛ برقی، رجال البرقی، ۱۳۸۳ق، ص۶.
  13. دینوری، الاخبارالطوال، ۱۳۶۸ش، ص۱۴۹؛ زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۷، ص۱۹۴؛ بلاذری، انساب الاشرف، ج۲، ص۲۳۶؛ ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۲۳۲؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۴، ص۵۰۰؛ ثقفی کوفی، الغارات، ۱۳۵۳ش، مقدمہ، ص۵۱.
  14. بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص۲۴۱؛ ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۲۵۱؛ ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۲۷۴
  15. ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۲۷۴: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۱۷۵.
  16. منقری، وقعہ صفین، ۱۳۸۲ق، ص۸.
  17. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۴۶۷؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۳۵۲؛ ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۵۴۳؛ منقری، وقعہ صفین، ۱۳۸۲ق، ص۱۱؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۳۵۷.
  18. منقری، وقعہ صفین، ۱۳۸۲ق، ص۱۱.
  19. منقری، وقعہ صفین، ۱۳۸۲ق، ص۱۰۴.
  20. منقری، وقعہ صفین، ۱۳۸۲ق، ص۱۰۵.
  21. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۴۶۷؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۳۵۲.
  22. منقری، وقعہ صفین، ۱۳۸۲ق، ص۱۱۷؛ ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۳، ص۱۹۴.
  23. ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۳۷۵؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۹۳، ص۷۰.
  24. بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص۴۴۶؛ ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۳۷۵؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۱۳۳؛ ابن کثیر، البدایہ و النهایہ، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۱۳؛ ثقفی کوفی، الغارت، ۱۳۵۳ش، ج۲، ص۴۵۰.
  25. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۴ق، ج۹۳، ص۸۶.
  26. دشتی، ترجمہ نہج البلاغہ، ۱۳۷۹ش، ص ۵۰۷.
  27. ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۲۵۱؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۴، ص۵۲۱؛ زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۷، ص۱۹۴.
  28. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۱۳۳؛ ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۵۴۳.
  29. ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۳۷۵.
  30. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۱۱، ص۵۴۷.
  31. ابن حجر، تہذیب التہذیب، ۱۴۰۴ق، ج۱۰، ص۷۱.

مآخذ

  • ابن ابی‌ الحدید معتزلی، شرح نہج البلاغہ، قم، کتابخانه آیت الله مرعشی، ۱۴۰۴ق
  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵ع
  • ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغابہ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۹ق
  • ابن اعثم کوفی، احمد بن اعثم، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دار الأضواء، ۱۴۱۱ق/۱۹۹۱ع
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق: عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دار *الکتب العلمیة، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵ع
  • ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، بیروت، دار الفکر للطباعة والنشر والتوزیع، ۱۴۰۴ق/۱۹۸۴ع
  • ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق: محمد عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۰ق/۱۹۹۰ع
  • ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶ع
  • ابن عبد البر، یوسف بن عبدالله، الاستیعاب فی معرفة الأصحاب، تحقیق: علی محمد البجاوی، بیروت، دار الجیل، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲ع
  • برقی، احمد بن محمد، رجال البرقی، تہران، دانشگاه تہران، ۱۳۸۳ق
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الأشراف، تحقیق محمد باقر محمودی، بیروت، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات، ۱۹۷۴م/۱۳۹۴ق
  • ثقفی کوفی، ابراہیم بن محمد، الغارات، تحقیق: جلال الدین حسینی ارموی، تہران، انجمن آثار ملی، ۱۳۵۳ش
  • خویی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، قم، مرکز نشر آثار شیعہ، ۱۴۱۰ق/۱۳۶۹ش
  • خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفہ بن خیاط، تحقیق: فواز، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵ع
  • دشتی، محمد، ترجمہ نہج البلاغه، انتشارات مشرقین، ۱۳۷۹ش
  • دینوری، احمد بن داوود، الأخبار الطوال، تحقیق: عبد المنعم عامر مراجعہ جمال الدین شیال، قم، منشورات الرضی، ۱۳۶۸ش
  • زرکلی، خیر الدین، الأعلام قاموس تراجم لأشہر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین، بیروت، دار العلم للملایین، ۱۹۸۹ع
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمد أبو الفضل ابراہیم، دار التراث، بیروت، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷ع
  • طوسی، رجال الشیخ الطوسی، قم، انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین، ۱۴۱۵ق
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، بیروت، مؤسسہ الوفاء، ۱۴۰۴ق
  • منقری، نصر بن مزاحم، وقعة صفین، تحقیق: عبد السلام محمد ہارون، قاہره، المؤسسہ العربیہ الحدیثہ، ۱۳۸۲ق، افسٹ قم، *منشورات مکتبہ المرعشی النجفی، ۱۴۰۴ق