مندرجات کا رخ کریں

زید بن صوحان

ویکی شیعہ سے
زید بن صوحان
کوائف
نام:زید بن صوحان بن حجر
نسبقبیلہ عبد القیس
مشہور اقاربصعصعہ بن صوحان بڑا بھائی
مقام سکونتکوفہ
شہادتسنہ 36 ہجری، جنگ جمل
شہادت کی کیفیتعمرو بن یثری یا عمرو بن سبرۃ کے ہاتھوں
اصحابامام علیؑ
سماجی خدماتامام علیؑ سے حدیث کی روایت، جنگ جمل میں قبیلہ عبد القیس کے سربراہ، زاہد اور ابدال


زید بن صوحان، (شہادت 36ھ) امام علیؑ کے اصحاب میں سے تھے جو جنگ جمل میں شہید ہوئے۔ زید نے جنگ جمل کے دوران کوفہ والوں کو امام علیؑ کی حمایت کرنے کی دعوت دی۔ وہ اس جنگ میں اپنے قبیلہ، قبیلہ عبد القیس کا سپہ سالار تھا۔ اس سے پہلے ایک جنگ میں انہوں نے اپنا ہاتھ دے بیٹھا تھا۔ زید عمر کے آخری ایام میں حدیث غدیر کا حوالہ دیتے ہوئے امام علیؑ کی حقانیت پر زور دیتا تھا۔

بعض مآخذ میں ان کے زہد اور کثرت عبادت کی بات کی گئی ہے یہاں تک کہ سلمان فارسی نے انہیں میانہ روی کی سفارش کی۔

تعارف اور مقام

زید بن صوحان کا تعلق قبیلہ عبد القیس سے تھا۔[1] ان کی کنیت ابو سلمان اور ابو عبد اللہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں سلمان فارسی کے ساتھ بے پناہ محبت کی وجہ سے ابو سلمان کہا جاتا تھا۔[2] زید صعصعہ بن صوحان کا بڑا بھائی تھا۔[3]

بعض مآخذ میں، زید کو پیغمبر اکرمؐ کے اصحاب[4] جبکہ بعض مآخذ میں انہیں تابعین میں شمار کیا گیا ہے۔ [5]

زید کوفہ کے ان باشندوں میں سے تھا جنہیں عثمان نے ملک بدر کر کے شام میں بھیجا تھا،[6] لیکن معاویہ کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرنے کی بنا پر انہیں دوبارہ کوفہ واپس بھیجا گیا۔[7]

زید نے تیسرے خلیفہ کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ : "تم نے افراط اور زیادہ روی سے کام لیا جس کے نتیجے میں امت نے بھی تم سے زیادہ روی کی ہے۔ تم میانہ روی اختیار کرو تا کہ امت بھی میانہ روی اختیار کریں"۔ البتہ ان الفاظ کے باوجود وہ خود کو خلیفہ کا مطیع بھی قرار دیتا تھا۔[8]

جنگ جمل میں ان کا کردار

زید امام علیؑ کے اصحاب میں سے تھا[9] اور انہوں نے امام علیؑ سے روایت بھی نقل کی ہے۔[10] جنگ جمل شروع ہونے سے پہلے انہوں نے اہل کوفہ کے ساتھ اختلاف رائے رکھنے کے باوجود ان کو امام علیؑ کی حمایت کی دعوت دی۔[11] عائشہ نے زید کو ایک خط لکھا جس میں انہیں حضرت علیؑ کی حمایت سے دستبرار ہونے اور کوفہ والوں کو بھی اس امر کی دعوت دینے کی درخواست کی، لیکن زید نے اس سے انکار کیا۔[12] وہ جنگ جمل میں سپہ سالار[13] اور اپنے قبیلہ، قبیلہ عبد القیس کے پرچمدار[14] کے عنوان سے شرکت کی۔

شہادت

زید سنہ 36ھ کو جنگ جمل میں شہادت کے مقام پر فائز ہوا۔[15] ان کی زندگی کے آخری لمحات میں امام علیؑ ان کے سرہانے پہنچے۔ انہوں نے حدیث غدیر کا حوالہ دیتے ہوئے امام علیؑ کی حقانیت پر تأکید کی اور کہا انہوں نے مکمل علم اور آگاہی کے ساتھ امام علیؑ کی حمایت کی ہے۔[16] امام علیؑ نے زید کے بارے میں کہا: «خدا تم پر رحمت کرے اے زید! کہ تم کم‌ خرج اور پر فایدہ تھے»۔[17] بعض منابع کے مطابق عایشہ نے بھی زید کی شہادت کی خبر سن کر ان کے حق میں دعا اور طلب رحمت کی۔[18]

"زید نے وصیت کی تھی کہ شہادت کے بعد ان کے چہرے سے خون صاف نہ کیا جائے اور اس کے کپڑے نہ بدلے جائیں؛ تاکہ وہ اسی حالت میں قیامت کے روز محشور ہو۔"[19]

زہد

زید اپنے زمانے کے پرہیز گار اور زاہدوں میں شمار ہوتا تھا[20] یہاں تک کہ بعض نے انہیں ابدال (اولیاء الہی) میں بھی شمار کیا ہے۔[21] زید اکثر دنوں کو روزہ رکھتا اور رات کو عبادت میں گزارتا تھا۔ یہاں تک کہ سلمان فارسی انہیں میانہ روی اختیار کرنے کی سفارش کرتے تھے۔[22]

ایرانیوں کے ساتھ جنگ کے دوران زید کا ہاتھ کٹ گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ زید زخمی حالت میں جبکہ ان کے ہاتھ سے خون بہہ رہا تھا، خوشی کے ساتھ اظہار کرتا تھا کہ وہ خدا کے اجر و ثواب کے منتظر ہے، لھذا وہ کیوں درد کو فریاد کرنے کے ذریعے برطرف کرے۔[23] پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں بھی زید نامی کسی شخص کا تذکرہ ملتا ہے جس کے جسم کے بعض حصے خود ان سے پہلے بہشت میں جائے گا۔[24] بعض اس روایت کو اسی زید مذکور سے تطبیق دیتے ہیں۔[25]

مسجد زید بن صوحان

مسجد زید بن صوحان

کوفہ میں مسجد سہلہ اور مسجد صعصعہ کے نزدیک ایک مسجد ہے جسے مسجد زید بن صوحان کہا جاتا ہے۔ دعاؤوں کی کتابوں میں اس مسجد سے متعلق بعض مخصوص اعمال نقل ہوئے ہیں من جملہ ان میں دو رکعت نماز پڑھنا اور اس دعا کا پڑھنا جسے زید نماز شب میں پڑھا کرتے تھے۔[26]

متعلقہ مضامین

مونوگرافی

كتاب «زيد و صعصعہ پسران صوحان»، مصنف كامران محمد حسينی، ناشر نشر مشعر، سنہ اشاعت 1395ہجری شمسی، تعداد صفحات 136 صفحات۔ یہ کتاب زید اور ان کے بھائی صعصعہ کی حالات زندگی پر مشتمل ہے۔[27]

حوالہ جات

  1. زرکلی، الأعلام، 1989م، ج3، ص59۔
  2. ابن حجر، الإصابۃ، 1415ھ، ج2، ص533۔
  3. مامقانى، تنقیح المقال، 1431ھ،‌ ج29، ص210۔
  4. ابن اثیر، أسدالغابۃ، 1409ھ، ج2، ص139۔
  5. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج19، ص432۔
  6. ابن حجر عسقلانی، الإصابۃ، 1415ھ، ج2، ص533۔
  7. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج19، ص431۔
  8. ابن سعد، الطبقات‏ الكبرى، 1418ھ، ج6، ص177۔
  9. مامقانى، تنقیح المقال، 1431ھ،‌ ج29، ص210۔
  10. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج19، ص434۔
  11. ابن‌اعثم کوفی، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص460۔
  12. کشی، اختیار معرفۃ الرجال، 1409ھ، ج1، ص284۔
  13. فسوی، المعرفۃ و التاریخ، 1401ھ، ج3، ص312۔
  14. ابن‌اثیر، أسد الغابۃ، 1409ھ، ج2، ص139۔
  15. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج19، ص431۔
  16. کشی، اختیار معرفۃ الرجال، 1409ھ، ج1، ص284۔
  17. کشی، اختیار معرفۃ الرجال، 1409ھ، ج1، ص284۔
  18. ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج2، ص557۔
  19. سمعانی‏، الأنساب، 1382ھ، ج9، ص197۔
  20. کشی، اختیار معرفۃ الرجال، 1409ھ، ج1،‌ ص284۔
  21. علامہ حلی،‌ رجال، 1402ھ، ص73۔
  22. ابن‌جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج5، ص111۔
  23. امین، أعیان الشیعۃ، 1406ھ، ج7، ص103۔
  24. ابونعیم إصفہانی، معرفۃ الصحابۃ، 1419ھ، ج2،‌ ص366۔
  25. ابوالفرج اصفہانی، الأغانی، 1415ھ، ج5،‌ ص98۔
  26. برای نمونہ نگاہ کنید بہ قمی، مفاتیح‌الجنان، نشر اسوہ، ص407۔
  27. انتشار كتاب "زيد و صعصعہ پسران صوحان" پایگاہ پژوہشکدہ حج و زيارت

مآخذ

  • ابن اثیر جزری، علی بن محمد، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، دار الفکر، بیروت، 1409ھ۔
  • ابن اعثم کوفی، احمد بن اعثم، الفتوح، تحقیق: شیری، علی، دار الاضواء، بیروت، 1411ھ۔
  • ابن جوزی، عبد الرحمن بن علی‏، المنتظم،‏ تحقیق: عطا، محمد عبد القادر، عطا، مصطفی عبد القادر، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، چاپ اول، 1412ھ۔
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، تحقیق: عبد الموجود، عادل احمد، معوض، علی محمد، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1415ھ۔
  • ابن سعد کاتب واقدی، محمد بن سعد‏، الطبقات الکبری‏، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ دوم، 1418ھ۔
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبد اللہ‏، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق: البجاوی، علی محمد، دار الجیل، بیروت، چاپ اول، 1412ھ۔
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق، دار الفکر، بیروت، 1415ھ۔
  • ابو الفرج اصفہانی، علی بن حسین‏، الاغانی،‌ بیروت‏، دار إحیاء التراث العربی، 1415ھ۔
  • ابو نعیم إصفہانی، أحمد بن عبداللہ، معرفۃ الصحابۃ، تحقیق: عزازی، عادل بن یوسف، دار الوطن، ریاض، چاپ اول، 1419ھ۔
  • امین عاملی‏، سید محسن، اعیان الشیعۃ، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات‏، 1406ھ۔
  • زرکلی، خیر الدین، الاعلام، بیروت، دارالعلم للملایین، چاپ ہشتم، 1989ء۔
  • سمعانی‏، عبدالکریم بن محمد، الانساب، تحقیق: معلمی یمانی، عبد الرحمن بن یحیی، حیدر آباد، مجلس دائرۃ المعارف العثمانیۃ، چاپ اول، 1382ھ۔
  • علامہ حلی،‌ حسن بن یوسف، رجال، تصحیح: بحر العلوم، محمد صادق‏، قم، الشریف الرضی، 1402ھ۔
  • فسوی، یعقوب بن سفیان، المعرفۃ و التاریخ، تحقیق: اکرم العمری، ضیاء، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، چاپ دوم، 1401ھ۔
  • کشی، محمد بن عمر، اختیار معرفۃ الرجال، تحقیق و تصحیح: شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصطفوی، حسن،‏ مؤسسہ نشر دانشگاہ مشہد، چاپ اول، 1409ھ۔
  • مامقانى، عبداللہ‏، تنقیح المقال فی علم الرجال‏، تحقیق: مامقانى محی الدین، مامقانى محمدرضا،‌ قم، موسسۃ آل البیت لإحیاء التراث‏، 1431ھ۔