پیغمبر اکرمؐ کی مدنی زندگی
ہجرت نبوی 622ء بمطابق
معراج 622ء بمطابق
غزوہ بدر 624ء بمطابق 17 رمضان
امام علی اور حضرت فاطمہ کی شادی 624ء بمطابق یکم ذی الحجہ
بنی‌قینقاع کی شکست 624ء بمطابق 15 شوال
غزوہ احد 625ء بمطابق شوال
بنو نضیر کی شکست 625ء بمطابق
غزوہ احزاب 627ء بمطابق
بنو قریظہ کی شکست 627ء بمطابق
غزوہ بنی مصطلق 627ء بمطابق یا
صلح حدیبیہ 628ء بمطابق
غزوہ خیبر 628ء بمطابق
پہلا سفرِ حجّ 629ء بمطابق
جنگ مؤتہ 629ء بمطابق
فتح مکہ 630ء بمطابق
غزوہ حنین 630ء بمطابق
غزوہ طائف 630ء بمطابق
جزیرة العرب پر تسلط 631ء بمطابق
غزوہ تبوک 632ء بمطابق
حجۃ الوداع 632ء بمطابق 10ھ
واقعۂ غدیر خم 632ء بمطابق 10ھ
وفات 632ء بمطابق 11ھ


"عقبہ" لغت میں دشوار گذار پہاڑی راستے کو کہا جاتا ہے[1]۔[2] اور اردو میں دشوار گذار پہاڑی راستے کو کہا جاتا ہے۔

تبوک سے واپسی کے دوران "عقبہ" کے مقام پر بعض منافقین نے رسول خدا(ص) پر قاتلانہ حملہ کرنے کی سازش بنائی لیکن خداوند متعال نے اپنے حبیب کو سازش سے آگاہ کیا اور آپ(ص) نے حذیفہ اور عمار کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے تاکہ گھاٹی سے گذر جائیں۔ نقاب پوش منافقین نے آپ(ص) کی اونٹنی کو ہنکانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ عمار بن یاسر آپ(ص) کی اونٹنی کی باگ پکڑے ہوئے تھے اور حذیفہ پیچھے سے ہانک رہے تھے۔ چلتے چلتے منافقین کے ایک گروہ نے آپ(ص) کو گھیر لیا۔ آپ(ص) نے انہیں ڈانٹا؛ حذیفہ نے رسول اللہ(ص) کے حکم پر ان اپنے ڈنڈے سے ان کی سواریوں کا منہ موڑ دیا؛ اور فرار ہوکر لشکر میں بکھر گئے۔[3]۔[4]

رسول خدا(ص) کے قتل کا اردہ رکھنے والے منافقین

"اصحاب عقبہ" کی اصطلاح دوران رسالت کے دو اہم واقعات کی غمازی کرتی ہے بہر صورت اس واقعے کا پہلی بیعت عقبہ[5] اور دوسری دوسری بیعت عقبہ[6] کے واقعات[7] سے کوئی تعلق نہیں ہے اور غزوہ تبوک سے واپسی کے دوران عقبہ کے مقام پر پیش آنے والی صورت حال کی وضاحت کرتا ہے؛ جہاں کچھ افراد [پیشگی سازش کے تحت] آپ(ص) کے قتل کا منصوبہ بنائے ہوئے تھے؛ مگر ان کی سازش ناکام رہی۔[8]۔[9]

مؤرخین [10] اور مفسرین[11] لکھتے ہیں: اصحاب عقبہ وہ لوگ تھے جنہوں نے تبوک کی جانب عزیمت سے قبل، مدینہ میں رسول خدا(ص) کے خلاف اقدامات میں ناکام ہونے کے بعد ، تبوک سے واپسی کے وقت آپ(ص) کو رات کی تاریکی میں قتل کرنے کی سازش تیار کی اور جس وقت آپ(ص) کی اونٹنی راستے میں حائل ایک گھاٹی سے گذر رہی تھی نقاب پوش سازشیوں نے[12]۔[13] اس کو ہنکانے اور آپ کو اونچائی سے کھائی میں گرانے کا فیصلہ کیا؛ اسی دوران ـ جبکہ وہ آپ(ص) کی اونٹنی کے قریب پہنچے تھے ـ آپ(ص) سازش سے آگاہ ہوئے اور حذیفہ بن یمان سے ـ جو اونٹنی کو ہانک رہے تھے ـ فرمایا: ان افراد کو یہاں سے دور کرو اور کہو کہ اگر پیچھے نہ ہٹیں تو آپ(ص) اونچی آواز سے انہیں نام، باپ کے نام اور ان کے قبیلوں کے نام سے پکاریں گے۔[14]۔[15] ناکام و نامراد منافقین حذیفہ کی آواز سن کر فرار ہوئے اور سپاہ میں گھل مل گئے۔

حذیفہ کہتے ہیں کہ وہ ان کے، ان کے باپوں اور قبائل کے ناموں کو جانتے تھے۔[16] اسی بنا پر وہ "صاحب سرّ النبي(ص)" کے لقب سے مشہور ہوئے ہیں۔[17]۔[18]۔[19] کیونکہ رسول خدا(ص) نے انہیں ان کے نام افشا کرنے سے منع فرمایا تھا اور وہ ہمیشہ آپ(ص) کے فرمان کی تعمیل کرتے تھے۔[20]۔[21] جبکہ عمار کو بھی آپ(ص) نے ان کے نام بتا دیئے تھے جو اس شب آپ(ص) کے ہمراہ تھے۔[22]۔[23]

اسید بن حضیر نے دوسرے روز صبح کے وقت آپ(ص) سے ان کے قتل کی اجازت مانگی تو آپ(ص) نے فرمایا: مجھے پسند نہیں ہے کہ لوگ کہتے رہیں کہ اب جبکہ محمد کو قوت ملی ہے، وہ اپنے اصحاب کو قتل کرنے لگے ہیں۔[24] مروی ہے کہ رسول خدا(ص) نے عقبہ کے سازشیوں کو ایک خصوصی بیٹھک میں بلا لیا اور انہیں بتا دیا کہ ان کے منحوس منصوبے سے پوری طرح آگاہ ہیں؛ لیکن منافقین قسمیں اٹھانے لگے اور صاف منکر ہوئے؛ چنانچہ خداوند متعال نے ان کی سازش برملا کردی اور ارشاد فرمایا:

"يَحْلِفُونَ بِاللّهِ مَا قَالُواْ وَلَقَدْ قَالُواْ كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُواْ بَعْدَ إِسْلاَمِهِمْ وَهَمُّواْ بِمَا لَمْ يَنَالُواْ ... (ترجمہ: وہ اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے [پیغمبر(ص) کی غیر موجودگی میں کفر آمیز کلمہ] نہیں کہا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے کہا کفر کا کلمہ اور اسلام لانے کے بعد کافر ہو گئے اور ایسے [خطرناک] منصوبے بنائے جن میں کامیاب نہیں ہوئے ...)[؟–74]"[25]۔[26]۔[27]

شیعہ مآخذ میں منقول ہے کہ منافقین بیک وقت رسول اللہ(ص) کو تبوک سے مدینہ آتے ہوئے اور آپ(ص) کے جانشین امام علی(ع) کو مدینہ کے نواح میں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔[28]۔[29]۔[30]

طبرسی نے اصحاب عقبہ کی داستان سورہ توبہ کی آیت 74 کے علاوہ آیات 64 اور 65 کے ذیل میں بھی نقل کی ہے:

"يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَن تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِي قُلُوبِهِم قُلِ اسْتَهْزِؤُواْ إِنَّ اللّهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُونَ * وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِؤُونَ (ترجمہ: منافق لوگ ڈرتے ہیں کہ ان پر کوئی سورہ ایسا نہ اتر آئے کہ جو انہیں بتلا دے وہ جو ان کے دلوں میں ہے۔ کہئے کہ اڑاؤ مذاق، یقینا اللہ برآمد کرے گا اسے جس سے تم ڈرتے ہو * اور اگر ان سے پوچھئے تو وہ کہیں گے کہ ہم تو بحث کر رہے تھے اور تفریح کر رہے تھے، کہئے کہ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے پیغمبر کے ساتھ تم تمسخر کر رہے تھے۔)[؟–64-65]"[31] انھوں نے ایک روایت کے ضمن میں نقل کیا ہے کہ ان آیات کا تعلق اسی موضوع سے ہے۔[32]

امام رضا(ع) سے مروی ہے کہ "إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُواْ (ترجمہ: انہیں غلطی میں مبتلا کیا شیطان نے صرف ان کی کچھ بد اعمالیوں کے نتیجے میں)[؟–155]"[33] سے مراد اصحاب عقبہ ہیں۔[34]۔[35]

قتل پیمبر(ص) کی ایک سے زیادہ سازشیں

کچھ مفسرین کی رائے میں مذکورہ سازش کا تعلق دوسری گھاٹی سے ہے[36] گویا منافقین نے ایک سے زیادہ مرتبہ رسول اللہ(ص) کے قتل کی سازش تیار کی تھی۔ علی بن ابراہیم کی روایت کے مطابق منافقین نے حجۃ الوداع کے بعد جحفہ اور ابواء کے درمیان "عقبۃ الہرشی" میں آپ(ص) کی قتل کا منصوبہ بنایا اور خداوند متعال نے آپ(ص) کو آگاہ کیا اور آپ(ص) نے ان کو نام لے کر پکارا تو فرار ہوگئے۔ جس کے بعد سورہ توبہ کی آیت 74 نازل ہوئی۔[37]۔[38]

حملہ آور منافقین کتنے اور کون؟

سنی روایات

اہل سنت کے مآخذ نے حملہ آور منافقین کی تعداد اور اسماء میں اختلاف کیا ہے انھوں نے یہ تعداد 7 افراد اور[39] 12 افراد،[40]۔[41] 14 یا 15 افراد[42]۔[43] بیان کی ہے؛ جبکہ حذیفہ بن یمان جو خود اس واقعے کے عینی شاہد ہیں کہتے ہیں کہ ان کی تعداد 14 ہے۔[44] ان مآخذ نے حملہ آور منافقین کی فہرست میں بھی اختلاف کیا ہے۔

طبرانی:
"ودیعہ بن ثابت، اوس بن قیظی، جُلاس بن سُوید، سعد بن زرارہ، قیس بن قَہْد، قیس بن عمرو، سلامہ بن حمام، حارث بن یزید طائی، سوید، داعِسْ، جَدِّ بن عبداللہ، و مُعْتَب بن قُشیر"۔[45]

بیہقی اور سیوطی:
عثمان کا رضاعی بھائی "عبداللہ بن ‏سعد بن ابی سرح"، "ابو حاضر یا ابو حاصر أعرابی، عامر، ابو عامر، جُلاس بن سوید، مجمع بن حارثہ، مَلیح تیمی، حُصین بن نمیر، طُعْمَہ بن ابی رَق، عبداللّہ بن عُیینَہ، اور مُرَّة بن ربیع"؛ مؤخر الذکر شخص بظاہر ان کا سرغنہ تھا۔[46]۔[47]

ابن قتیبہ نے سند پیش کئے بغیر 10 افراد کے نام لئے ہیں جن میں عبداللہ بن ابی کا نام بھی شامل ہے۔[48] جبکہ دیگر مآخذ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ غزوہ تبوک سے غیر حاضر تھا۔[49]۔[50]۔[51]

کچھ مآخذ کے مطابق غزوہ احد کے معروف شہید حنظلہ غسیل الملائکہ کے باپ "ابو عامر راہب" (فاسق) کا نام بھی ان حملہ آوروں کی فہرست میں درج کیا گیا ہے حالانکہ مشہور یہ ہے کہ اس شخص نے سنہ 3 ہجری میں جنگ احد کے بعد بھاگ کر شاہ روم کی پناہ لی تھی۔[52] نیز کہا گیا ہے کہ وہ مسجد ضرار بنانے والوں کا سرغنہ تھا اور تبوک سے غیر حاضر تھا۔[53]۔[54]

اہل سنت کی بعض روایات کے مطابق ابو موسی اشعری بھی اصحاب عقبہ میں شامل تھا۔[55]

نتیجہ یہ کہ ان فہارس میں شامل افراد وہی تھے جنہوں نے غزوہ تبوک کے دوسرے مواقع میں اپنی منافقت کھول کر دکھائی تھی اور لوگ ان کے نفاق سے بےخبر نہ تھے۔

شیعہ روایات

شیعہ مآخذ کے مطابق اصحاب عقبہ کی تعداد 12 تھی۔ امام باقر(ع) سے مروی ہے کہ وہ 12 افراد تھے جن میں سے 8 افراد قریشی اور باقی دیگر صحابی تھے[56]۔[57] شیخ صدوق ایک روایت کی روشنی میں لکھتے ہیں کہ اصحاب عقبہ میں 12 افراد کا تعلق بنو امیہ سے تھا اور 5 افراد کا تعلق دوسرے قبائل سے تھا۔[58] علامہ مجلسی نے یہ تعداد 24 بیان کی ہے۔[59] مروی ہے کہ مہاجرین میں سے ایک شخص سازش میں ملوث ساتھیوں کو حملے کی ترغیب دلا رہا تھا۔[60]

بعض مآخذ میں ہے کہ اصحاب عقبہ میں شامل زیادہ تر افراد مشہور صحابہ میں سے تھے جو رسول خدا(ص) کی رحلت کے بعد حکومت کے عہدہ دار رہے۔[61]

شاید یہ اختلاف بھی ـ دیگر اختلافات کی مانند – رسول اللہ(ص) کی وفات کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال کے نتیجے میں سامنے آیا ہے چنانچہ اصحاب عقبہ کی فہرست میں بعض افراد کے ناموں کے بجائے فلاں اور فلاں لکھا گیا ہے یا بعض بےگناہ افراد کو اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔[62]

حذیفہ بن یمان

حذیفہ بن یمان رسول اللہ(ص) کے "صاحب السر" (= رازدار) تھے؛ امیرالمؤمنین(ع) ان کے بارے میں فرماتے ہیں: "علم المنافقين وسأل عن المعضلات فإن تسألوه تجدوه بها عالماً۔" ترجمہ: وہ منافقین کو پہچانتے ہیں اور مشکل مسائل کے بارے میں پوچھ [کر جان] چکے ہيں؛ ان سے پوچھوگے تو جان لوگے کہ وہ ان سے متعلق سب کچھ جانتے ہیں۔[63]

حذیفہ جن افراد کی نماز جنازہ میں شرکت نہیں کرتے تھے عمر بن خطاب بھی ان کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوتے تھے اور اس میت کو منافق سمجھتے تھے؛[64] نیز مروی ہے کہ عمر نے بعض مشہور صحابہ کی نماز جنازہ میں بھی شرکت نہیں کی۔[65]

مثال کے طور پر کہتے ہیں: "میں مسجد میں بیٹھا تھا تو عمر میرے پاس سے گذر ے اور کہا: "فلاں" (!) کا انتقال ہوا ہے اس کے جنازے میں حاضر ہوجاؤ"، اور چل دیئے یہاں تک کہ مسجد کے دروازے تک پہنچے اور مڑ کر دیکھا کہ میں ابھی بیٹھا ہوا ہوں! تو جان گئے [کہ میں جنازے میں شرکت نہیں کررہا ہوں] چنانچہ میری طرف پلٹ آئے اور کہا: اے حذیفہ! میں تمہیں اللہ کی قسم دلاتا ہوں بتاؤ کیا میں بھی منافقین کے گروہ سے ہوں؟ میں نے کہا: خدا کی قسم! نہیں ہو ان میں سے اور تمہارے بعد بھی کسی کو آگاہ نہیں کروں گا[66]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. الراغب، المفردات، ص576، «عقب»۔
  2. البغدادی، مراصد الاطلاع، ج2، ‌ص948۔
  3. ابن كثير، البداية والنها‌ية، ج5، ص24-25۔
  4. ابن حنبل، مسند، ج5، ص390-391۔
  5. ابن سعد، طبقات الکبری، ج1، ص170-171۔
  6. البغدادی، المنتظم، ج3، ص34۔
  7. الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، ص38۔
  8. الواقدی، المغازی، ج3، ص1042۔
  9. البیهقی، دلائل النبوة، ج5، ص256۔
  10. الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، ص68۔
  11. الطبرسی، مجمع البیان، ج5، ص81۔
  12. الزمخشری، الکشاف، ج2، ص291۔
  13. الطبرسی، مجمع البیان، ج5، ص79۔
  14. الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، ص68۔
  15. البیهقی، دلائل النبوة، ج5، ص256۔
  16. الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، ص68۔
  17. الطائی، السیرة النبویة، ج3، ص231۔
  18. ابن عبد البر، الاستیعاب، ج1، ص394۔
  19. ابن اثیر، اسد الغابة، ج1، ص468۔
  20. الواقدی، المغازی، ج3، ص1045۔
  21. الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، ص68۔
  22. الواقدی، المغازی، ج3، ص1044۔
  23. الطوسی، التبیان فی تفسیر ، ج5، ص261۔
  24. الواقدی، المغازی، ج3، ص1040۔
  25. سوره توبه، آیه 74۔
  26. روض الجنان، ج9، ص298۔
  27. السیوطی، الدر المنثور، ج4، ص242-243۔
  28. ابن شهر آشوب، المناقب، ج2، ص30۔
  29. الطبرسی، الاحتجاج، ج1، ص59۔
  30. المجلسی، بحار الانوار، ج21، ص223۔
  31. سوره توبه، آیات 64-65۔
  32. الطبرسی، مجمع البیان، ج5، ص70-71۔
  33. سوره آل عمران آیه 155۔
  34. العیاشی، تفسیر العیاشی، ج1، ص201۔
  35. الفیض الکاشانی، تفسیر الصافی، ج1، ص394۔
  36. تفسیر قمی، ج1، ص300۔
  37. تفسیر قمی، ج1، ص174-176۔
  38. المجلسی، بحار الانوار، ج37، ص115-116۔
  39. الطبرانی، المعجم الاوسط، ج3، ص49۔
  40. صحیح مسلم، ج8، ص123۔
  41. البیهقی، دلائل النبوة، ج5، ص261۔
  42. ابن حنبل، مسند، ج5، ص390-391۔
  43. البیهقی، دلائل النبوة، ج5، ص262۔
  44. ابن حزم، المحلی بالآثار، ج11، ص221۔
  45. الطبرانی، المعجم الکبیر، ج3، ص166-167۔
  46. البیهقی، دلائل النبوة، ج5، ص259۔
  47. الدر المنثور، ج4، ص243۔
  48. ابن قتیبة، المعارف، ص343۔
  49. الواقدی، المغازی، ج3، ص995۔
  50. ابن سعد، طبقات الکبری، ج1، ص462۔
  51. الصالحی الشامی، سبل الهدی، ج5، ص442۔
  52. الاستیعاب، ج1، ص380۔
  53. الواقدی، المغازی، ج3، ص1046۔
  54. ابن قتیبة، المعارف، ص343۔
  55. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج13، ص315۔
  56. الطوسی، التبیان، ج5، ص261۔
  57. الطبرسی، مجمع البیان، ج5، ص79۔
  58. الصدوق، الخصال، ج2، ص398۔
  59. المجلسی، حیاة القلوب، ج4، ص1250۔
  60. امین العاملی، اعیان الشیعه، ج4، ص601۔
  61. الصدوق، الخصال، ج2، ص499۔
  62. آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص633-634۔
  63. الذهبي، سیر اعلام النبلاء ج2 ص363۔
  64. ابن اثیر، اسد الغابة، ج1، ص391۔
  65. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج3، ص206۔
  66. ابن عساكر، تاريخ مدينة دمشق، ج12، ص276۔

مآخذ

  • قرآن کریم، اردو ترجمہ: سید علی نقی نقوی (لکھنوی)
  • آیتی، محمد، تاریخ پیامبر اسلام: به کوشش ابوالقاسم گرجی، تهران، دانشگاه، 1362 ه‍ ش
  • ابن ابی‌الحدید (المتوفی 606 ه‍)، شرح نهج البلاغه: قم، مرعشی نجفی، 1337 ه‍ ش؛
  • ابن اثیر، علی بن محمد الجزری (المتوفی 630 ه‍)، اسد الغابه: بیروت، دار الفکر، 1409 ه‍
  • ابن الجوزی (المتوفی 597 ه‍)، المنتظم: به کوشش محمد عبدالقادر و دیگران، بیروت، دار الکتب العلمیه، 1412 ه‍ ش
  • ابن حزم اندلسی (المتوفی 456 ه‍)، المحلی بالآثار، به کوشش احمد محمد شاکر، قاهره، مکتبة دار التراث۔
  • ابن‏سعد (المتوفی 230 ه‍)، الطبقات الکبری: به کوشش محمد عبدالقادر، بیروت، دار الکتب العلمیه، 1418 ه‍
  • ابن شهر آشوب (المتوفی 588 ه‍)، مناقب آل ابی‌‏طالب: به کوشش البقاعی، بیروت، دار الاضواء، 1412 ه‍
  • ابن عبدالبر (المتوفی 462 ه‍)، الاستیعاب، به کوشش علی محمد و دیگران، بیروت، دار الکتب العلمیه، 1415 ه‍
  • احمد بن حنبل (المتوفی 241 ه‍)، مسند احمد: بیروت، دار صادر؛
  • الامین العاملی، سید محسن، اعیان الشیعه: (المتوفی 1371 ه‍)، بیروت، دار التعارف، 1406 ه‍
  • البغدادی، صفی الدین عبدالمؤمن (المتوفی 739 ه‍)،مراصد الاطلاع: بیروت، دار الجیل، 1412 ه‍
  • البیهقی، دلائل النبوه، (المتوفی 458 ه‍)، به کوشش عبدالمعطی، بیروت، دار الکتب العلمیة،‌ 1405 ه‍
  • ابن قتیبه، المعارف: (المتوفی 276 ه‍)، به کوشش ثروت عکاشه، قم، الرضی، 1373ش؛
  • الرازی، ابوالفتوح، روض الجنان: (المتوفی 554 ه‍)، به کوشش یاحقی و ناصح، مشهد، آستان قدس رضوی، 1375 ه‍
  • الراغب (المتوفی 425 ه‍)، مفردات: به کوشش صفوان عدنان داودی، دمشق، دار القلم، 1412 ه‍
  • الزمخشری، الکشاف: (المتوفی 528 ه‍)، قم، بلاغت، 1415 ه‍
  • السیوطی، الدر المنثور، (المتوفی 911 ه‍)، بیروت، دار الفکر، 1414 ه‍
  • الصالحی الشامی، محمد بن یوسف (المتوفی 942 ه‍)، سبل الهدی والرشاد، به کوشش عبدالموجود و معوض، بیروت، دار الکتب العلمیه، 1414 ه‍
  • الصدوق، الخصال (المتوفی 381 ه‍)، به کوشش غفاری، قم، جامعة المدرسین، 1403 ه‍
  • الطائی، الدکتور الشیخ نجاح، السیرة النبویة، الناشر: مؤسسة البلاغ، الطبعة: الاولى 1422 ه‍ / 2001 ع‍
  • الطبرسی، ابومنصور (المتوفی 548 ه‍)، الاحتجاج، به کوشش سید محمد باقر، نجف، دار النعمان، 1386 ه‍
  • الطبرانی (المتوفی 360 ه‍)، المعجم الاوسط: اردن، دار الفکر، 1420 ه‍
  • الطبرانی، المعجم الکبیر: بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1422 ه‍
  • الطبرسی، الفضل بن الحسن (المتوفی 548 ه‍)، مجمع البیان فی تفسیر القران، بیروت، دار المعرفه، تهران، ناصر خسرو، 1406 ه‍
  • الطوسی، التبیان، (المتوفی 460 ه‍)، به کوشش احمد حبیب العاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی۔
  • العیاشی (المتوفی 320 ه‍)، تفسیر العیاشی، به کوشش رسولی محلاتی، تهران، المکتبة العلمیة الاسلامیه۔
  • الفیض الکاشانی (المتوفی 1091 ه‍)، تفسیر الصافی، بیروت، اعلمی، 1402 ه‍
  • القمی، علی بن ابراهیم (المتوفی 307 ه‍)، تفسیر القمی، به کوشش موسوی جزایری، لبنان، دار السرور، 1411 ه‍
  • المجلسی (المتوفی 1111 ه‍)، بحار الانوار: بیروت، مؤسسة الوفاء، 1403 ه‍
  • المجلسی، حیاة القلوب تاریخ پیامبران: به کوشش امامیان، قم، سرور، ‌1376 ه‍ ش
  • مسلم (المتوفی 261 ه‍)، صحیح مسلم با شرح سنوسی، به کوشش محمد سالم، بیروت، دار الکتب العلمیه، 1415 ه‍
  • الواقدی (المتوفی 207 ه‍)، المغازی: به کوشش مارسدن جونس، بیروت، اعلمی، 1404 ه‍
  • الیعقوبی، احمد بن یعقوب (المتوفی 292 ه‍)، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، 1415 ه‍

بیرونی ربط