جنگ صفین میں شرکت اور امام کی حمایت میں اشعار پڑھی۔
سودہ ہَمْدانی، امام علیؑ کے اصحاب اور شیعہ شاعرہ خواتین میں سے تھیں۔ آپ جنگ صفین میں امام علیؑ کے ساتھ تھیں۔ آپ نے اپنے اشعار کے ذریعے اس جنگ میں امام علیؑ کی حمایت اور لشکر اسلام کو جنگ کی ترغیب دی۔ امام علیؑ کی شہادت کے بعد آپ نے معاویہ کے نمائندوں میں سے بُسْر بن اَرطاۃ کی شکایت کرنے کے لئے معاویہ سے ملاقات کی اور اس ملاقات میں بھی انہوں نے امام علیؑ کی مدح میں شعر پڑھا۔
معاویہ کے دربار میں امام علیؑ کے ساتھ اظہار عقیدت میں کہے جانے والے اشعار کو بعض لوگ سودہ کی نیک نیتی، فضیلت اور امام علیؑ کی امامت و ولایت پر ان کی ثابت قدمی کی نشانی قرار دیتے ہیں۔
اجمالی تعارف
سودہ ہمدانی (متوفی: پہلی صدی ہجری)[1] امام علیؑ کے شیعیان اور اصحاب میں سے تھیں۔[2] کہا جاتا ہے کہ آپ قبیلہ ہَمْدان کی مشہور اور تابعی خواتین میں سے تھیں۔[3] آپ کے والد کا نام عمارۃ بن اشتر[4] یا عمارۃ بن الاسک[5] و یا عمارۃ بن اسد[6] ذکر کیا گیا ہے۔ آپ کے القاب میں ہَمْدانی[7] کے علاوہ یَمانی[8] کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ آپ کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات کے بارے میں تاریخی منابع میں کوئی معلومات ذکر نہیں ہیں۔[9]
سودہ ہمدانی کو شاعرہ،[11]مُحَدِّثہ اور ادیبہ[12] خواتین میں شمار کی جاتی ہے۔ بعض لوگ اس بات کے معتقد ہیں کہ سودہ عرب کی فصیح شاعرہ خواتین میں سے تھیں اور بحث و مباحثہ اور گفتگو میں بہت مہارت رکھتی تھی اور مد مقابل پر ہمیشہ فائق رہتی تھی۔[13]کتاب محدثات شیعہ میں نہلہ غروی نائینی کے مطابق سودہ نے امام علیؑ سے حدیث نقل کی ہے۔ اسی طرح محمد بن عبیداللہ و عامر شعبی جیسے راویوں نے ان سے روایت نقل کی ہیں۔[14]
جنگ صفین میں امام علیؑ کی حمایت میں کی گئی شاعری
سودہ جِرْوَہ بنت مُرَّۃ بن غالب تمیمی، اُمّ سَنان بنت خَیْثَمہ، زَرقاء بنت عَدی ہَمْدانی اور ام الخیر کوفہ کے ان خواتین میں سے تھیں جو امام علیؑ کے ساتھ جنگ صفین میں حاضر تھیں۔[15] انہوں نے اس جنگ میں امام علیؑ کی حمایت میں اشعار کہے۔[16]جنہیں ان کے مشہور اشعار میں شمار کئے جاتے ہیں۔[17] ان اشعار میں وه جہاں امام علیؑ کی حمایت اور دفاع کرتی[18] وہاں امام علیؑ کے فضائل کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے امام کے سپاہیوں کو شامیوں کے خلاف جنگ کی ترغیب دیتی تھی۔[19] اسی وجہ سے انہیں ایک بہادر[20] اور زبان سے جہاد کرنے والی مجاہدہ خواتین میں شمار کی جاتی ہے۔[21]حضرت محمدؐ کے بھائی اور ہدایت کے علمبردار کے عنوان سے امام علیؑ کی مدد اور نصرت کی طرف دعوت دینا ان کے اشعار کے مضامین میں شمار ہوتے ہیں۔
معاویہ کے دربار میں امام علی سے اظہار عقیدت
صلّی الله علی جسم تضمّنه
قبر فأصبح فیه العدل مدفونا
خدا کا سلام ہو اس پاک جسد پر جسے قبر نے جگہ دی
جس کے ساتھ عدالت بھی دفن ہو گئی
قد حالف الحقّ لا یبغی به بدلا
فصار بالحقّ و الإیمان مقرونا
حقّ کے ساتھ عہد کیا اور اس کے سوا کسی کو نہیں اپنایا
تاریخی منابع کے مطابق سودہ معاویہ کے کارندوں میں سے بُسر بن اَرطاۃ کی شکایت کرنے کے لئے معاویہ کے دربار میں گئی۔[23] معاویہ نے اس ملاقات میں جنگ صفین میں معاویہ اور اس کے لشکر کے خلاف پڑھے جانے والے اشعار کی طرف اشارہ کیا[یادداشت 1] اور امام علیؑ کی حمایت کرنے اور امام کے سپاہیوں کو معاویہ کے خلاف ترغیب دینے پر ان کی ملامت کی۔ سودہ نے علی بن ابی طالب کی محبت اور حق کی پیروی کو اپنے اس عمل کی دلیل قرار دیا۔[24] سودہ نے بُسْر کے مظالم کو جو اس نے لوگوں پر روا رکھا تھا، معاویہ کے سامنے پیش کیا اور ان سے بسر کی برطرفی اور لوگوں کے غصب شدہ حقوق کی بازیابی کی درخواست کی۔ معاویہ نے شروع میں ان کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے ان کی سرزنش کی۔ جس پر سودہ نے امام علیؑ کی شان میں اشعار کہنا شروع کیا جس میں ان کی شکایت پر امام علیؑ کی طرف سے اپنے عمال کی برطرفی کی طرف اشارہ کیا۔ معاویہ نے دوبارہ سرزنش کرنے کے بعد سودہ کے اس کام کو ان کی اس شہامت کا نتیجہ قرار دیا جسے علیؑ نے اپنے ماننے والوں کے دلوں میں ایجاد کی ہے، اس کے بعد معاویہ نے سودہ اور ان کے خاندان کے اموال کو واپس کرنے کا حکم دیا۔[25]
معاویہ کے دربار میں امام علیؑ کی شأن میں کہے گئے سودہ کے اشعار کو پہلی صدی ہجری میں کوفہ کے شیعوں کے یہاں مشہور اشعار میں شمار کئے جاتے ہیں۔[26]
معاویہ کے ساتھ سودہ کی ملاقات کے واقعے کو سودہ کی نیک نیتی، بہادری[27]، فضیلت اور امام علیؑ کی ولایت پر ان کی استقامت کی دلیل قرار دی گئی ہے۔[28]
نوٹ
↑جنگ صفین میں ان اشعار کا قبیلہ ہمدان کے جنگجوں کے رجز میں تبدیل ہونا، ان اشعار کا معاویہ کی یاداشت میں باقی رہنے کا سبب قرار دئے ہیں۔(ملکلو، «سودہ ہمدانی»، ص108۔)
حوالہ جات
↑مرکز مدیریت حوزہہای علمیہ خواہران، بانوان عالمہ و آثار آنہا، 1379ہجری شمسی، ص25۔
↑حسون، أعلام النساء المؤمنات، 1421ھ، ص520؛ شبستری، التبیین فی أصحاب الإمام أمیر المؤمنینؑ و الرواۃ عنہ، 1430ھ، ج1، ص541۔