یعلی بن منیہ

ویکی شیعہ سے
(یعلی بن امیہ سے رجوع مکرر)
یعلی بن منیہ
کوائف
مکمل نامیعلی بن منیہ بنت غزوان
کنیتابو خالد
لقبابو صفوان
محل زندگیمکہ و یمن
مہاجر/انصارمہاجرین
وفاتسنہ 37 ہجری یا سنہ 48 ہجری
دینی معلومات
اسلام لانافتح مکہ کے موقع پر
جنگوں میں شرکتغزوات حنین و تبوک، طائف و جنگ جمل میں امام علی(ع) کے خلاف


یَعْلَی بْنِ مُنْیَہ یا یعلی بن اُمَیّہ ایک صحابی پیغمبرؐ اور گروہ ناکثین کا رہبر تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوا اور پیغمبر اکرمؐ کے ہمراہ متعدد غزوات میں شرکت بھی کی۔ پیغمبر اکرمؐ سے روایات بھی نقل کی ہیں۔ یعلی کا شمار مکہ کے سرمایہ دار و سخی لوگوں میں ہوتا تھا کہ جو خلیفۂ سوم، عثمان بن عفان کے زمانے میں ان کی خاص توجہ اور فضل و بخشش کی وجہ سے سرمایہ دار ہو گیا تھا۔

اس نے تینوں خلفاء کا تعاون کیا اور ابوبکر بن ابی قحافہ کی طرف سے اصحاب ردہ کے مقابلہ میں بعض جگہوں پر مأمور ہوا۔ یعلی، ایک طرف عثمان بن عفان کا مشاور بھی تھا اور دوسری طرف اس کے نزدیک بلند مقام کا حامل بھی تھا۔

یعلی، رسول اللہؐ اور تینوں خلفاء کے زمانے میں یمن کے بعض علاقوں کا گورنر بھی تھا، لیکن حضرت علیؑ نے خلافت ملنے کے بعد اس کو یمن کی مأموریت سے معزول کر دیا تھا۔ یعلی اپنے عزل کا بدلا لینے کے لئے یمن کا سارا خراج اپنے ساتھ لیکر مکہ پہونچ گیا اور ان باغیوں میں شامل ہو گیا جو عثمان کی خونخواہی کے بہانے بغاوت کر چکے تھے۔ اس نے باغیوں کی حمایت کی اور فوج کے اوپر کافی مال خرچ کیا۔ یعلی، جنگ جمل سے فرار کر گیا اور معاویہ کی حکومت کے آخر تک زندہ رہا، جبکہ بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ وہ جنگ صفین میں حضرت علیؑ کی رکاب میں شہید ہوا۔

نام، نسب و کنیہ

یعلی بن منیہ یا یعلی بن امیہ بن ابی عبیدۃ[1] قبیلۂ بنی تمیم سے تھا[2] اس کو ابو صفوان کے لقب[3] اور ابا خالد کی کنیت سے یاد کیا جاتا ہے۔[4] یعلی کی طرف اس لقب اور کنیت کے منسوب ہونے کی دلیل یہ ہے کہ بعض موقع پر باپ کی طرف، بعض موقع پر ماں کی طرف یا بعض مقام پر اپنی دادی کی طرف منیہ کو منسوب کیا گیا تھا۔[5] البتہ اس کا یہ انتساب اپنی ماں یا دادی کی طرف زیادہ مشہور ہے۔[6] چونکہ تاریخ میں اس کے نام میں اختلاف ہے اس کی وجہ سے بعض جگہ یعلی بن منبہ بھی لکھا گیا ہے۔[7]۔

یعلی اور اس کا باپ زمانۂ جاہلیت میں قبیلۂ قریش کے ساتھ ہم پیمان تھے۔[8] البتّہ بعض مورخین نے اس ہم پیمانی کو خاندان عبد المطلب[9] کے ساتھ یا نوفل بن عبد مناف[10] کے ساتھ یا عبد شمس کے ساتھ مانتے ہیں۔[11] اس کی نسبت قریش کے ساتھ بھی سببی تھی کیونکہ وہ زبیر بن عوام کا داماد تھا۔[12]۔

صحابی رسول خداؐ

یعلی بن منیہ نے پیغمبر اکرمؐ کے زمانے کو درک کیا تھا اور فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا تھا۔[13] ایک نقل کی بنیاد پر وہ اپنے بھائی اور باپ[14] کے ساتھ اور اپنی بہن[15] کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں گیا اور مسلمان ہو گیا۔ اسی وجہ سے اس کا خانوادہ یعنی اس کا بھائی سلمہ[16] اور عبد الرحمن[17] اور اس کی بہن نفیسہ، اصحاب پیغمبرؐ میں شمار کئے جاتے ہیں۔[18]۔

ابن عبد البر کی کتاب الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب کے مطابق، پیغمبر اکرمؐ نے یعلی بن منیہ اور اس کے باپ کے اس تقاضہ کو کہ وہ بھی مھاجرین میں شمار ہوں، رد کر دیا۔[19] تاہم، بلاذری نے انساب الاشراف میں ایک روایت نقل کی کہ ان کی یہ درخواست عباس بن عبد المطلب، رسول اللہؐ کے چچا کی شفاعت کے ذریعہ قبول کی گئی[20] اور ابن اثیر نے بھی یعلی بن منیہ کو اس کے بھائی کے ساتھ مہاجرین میں شمار کیا ہے۔[21] یعلی رسول خداؐ[22] کا مشہور صحابی[23] تھا جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اس کی صحابیت اس کے باپ کی صحابیت سے زیادہ مشہور تھی۔[24]۔

یعلی حدیثوں کا راوی تھا۔[25] اس نے پیغمبر اکرمؐ سے روایات نقل کی ہیں۔[26] بعض تاریخی کتابوں میں ان روایات کی تعداد 28 ہیں کہ جن میں سے تین روایت اہل سنت کی معتبر ترین کتاب حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں وارد ہوئی ہیں۔[27] متعدد راویوں نے بھی یعلی بن امیہ سے روایات پیغمبرؐ کو نقل کیا ہے۔[28]۔

پانچویں ہجری کے شیعہ عالم رجال شیخ طوسی نے یعلی بن امیہ کو اصحاب رسول خداؐ میں شمار کیا ہے لیکن اس کے بارے میں کوئی توضیح بیان نہیں کی ہے۔[29] لیکن بعد میں آنے والے منابع میں اسے بُرے اصحاب پیغمبرؐ کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔[30] کتاب شرف النبی میں آیا ہے کہ وہ پیغمبرؐ کے معجزہ کا گواہ بھی تھا۔[31]۔

غزوات میں شرکت

یعلی بن منیہ کو زمان پیغمبرؐ کے مجاہدوں میں جانا جاتا ہے۔[32] اور جنگ تبوک[33]، جنگ حنین و غزوۂ طائف میں سپاہ پیغمبرؐ میں موجود تھا۔[34] وہ جنگ تبوک میں پیغمبرؐ کی ہمراہی کو اپنے بہترین کاموں میں شمار کرتا تھا۔[35] لہذا اس جنگ میں اس کی حاضری کی داستان اور پیغمبر اکرمؐ سے پوچھے گئے سوال فقہی اور تاریخی کتابوں میں درج ہیں۔[36] کہا جاتا ہے کہ اس نے جنگ بدر میں بھی شرکت کی تھی۔[37]

خلفاء ثلاثہ سے تعاون اور یمن پر حکومت

یعلی بن منیہ نے باذان کے مرنے کے بعد پیغمبر اکرمؐ سے درخواست کر کے یمن کے بعض علاقوں کی حکمرانی کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔[38] اس نے خلیفہ اول ابوبکر بن قحافہ کے زمانۂ حکومت میں خولان کے علاقے کو بھی اپنے اختیار میں لے لیا تھا۔[39] اصحاب ردہ سے لڑنے اسے حلوان بھیجا گیا[40] ان کو شکست دے کر غنائم اور قیدی حاصل کیا۔ [یادداشت 1]

اس کی یہ حکمرانی خلیفہ دوم کے زمانہ تک چلتی رہی[41] اور گورنری کی اس مدت میں بعض علاقے جیسے نجران،[42] طائف،[43] صنعاء،[44] اور دوسرے علاقے بھی یمن کے ہو گئے۔[45] شام کے سفر میں ان کو خلیفہ دوم کے ہمسفر بھی کہا گیا ہے؛[46] اگرچہ عمر کی خلافت کے آخری دنوں میں خلیفہ ان سے ناراض ہوئے اور حکم دیا کہ یمن سے مدینہ پیدل سفر کرے پانچ یا چھ دن پیدل سفر کے بعد انہیں خلیفہ کے مرنے کی خبر ملی تو سواری پر سوار ہوکر عثمان بن عفان کے پاس مدینہ پہنچ گیا۔[47]

یعلی، عثمان بن عفان کے دورہ خلافت میں یمن[48] میں صنعاء کا گورنر[49] تھا۔ وہ عثمان کے مشیروں میں سے تھا[50]اور ان کے ہاں بڑا مقام تھا۔[51] لیکن حضرت علیؑ نے اسے یمن کی گورنری سے معزول کرکے عبد اللہ بن عباس کو وہاں کا گورنر منصوب کر دیا۔[52]

مورخین کا یہ عقیدہ ہے کہ یعلی بن منیہ یمن پر اپنے دورہ حکومت میں[53] سب سے پہلا شخص تھا جس نے اپنے نامہ میں تاریخ ہجری کو استعمال کیا تھا۔[54] اوراس نے یمن کی منصب قضاوت کی بھی ذمہ داری لے رکھی تھی۔[55]

سماجی حیثیت

بعض مورخین یعلی بن منیہ کو بلند مرتبہ[56] اور مکہ میں صاحب فتویٰ سمجھتے ہیں۔[57] اسی طرح وہ سرمایہ دار اہل مکہ میں شمار ہوتا تھا۔[58] کہ اس کی موت کے وقت اس کی جائداد کا ذکر پچاس ہزار دینار اور بہت زیادہ جائداد کے طور پر کیا گیا تھا اور اس کی اموال کے ایک حصے کی قیمت تین لاکھ درہم تک بتائی گئی تھی۔[59] اس نے اسی دولت کو دوسروں پر خرچ کرنے اور معاف کرنے کے لئے استعمال کیا تھا۔[60] اس حد تک کہ یعلی کو اپنے وقت کا سب سے زیادہ سخاوت کرنے والا سمجھا جاتا تھا۔[61] یہاں تک کہ بیت المال سے بھی اس کی سخاوت کی خبریں نقل ہوئی ہیں۔[62] بعض کا خیال یہ ہے کہ یہ دولت عثمان بن عفان کے ساتھ رہنے اور اس کی سخاوت اور بخشش سے فائدہ اٹھا کر حاصل کی گئی تھی۔[63] اسی وجہ سے، وہ ان صحابہ کرام کی فہرست میں شامل ہے جو عثمان کے زمانے میں بہت دولت مند ہوگئے تھے۔[64]

اصحاب جمل کی حمایت

یعلی کو جنگ جمل[65] کے اصلی کرداروں کے ساتھ جیسے طلحہ بن عبداللہ، زبیر بن عوام، عبداللہ بن عامر، سعید بن عاص، ولید بن عقبہ اور دوسرے بنی امیہ کے ساتھ جوڑ کے دیکھا جاتا ہے کہ جو بطور بہانہ عثمان بن عفان[66] کی خونخواہی کا متمنی تھا اور خود خلیفہ مقتول[67] اہل بصرہ کے لئے کافی محبوب تھا، ان کے ساتھ مشورہ کرکے گروہ جمل کے ساتھ بصرہ کی طرف روانہ ہو گیا۔[68]۔

یعلی نے عثمان کے خون کا بدلہ لینے والوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں اسلحے فراہم کرے گا۔[69] وہ عائشہ کو عثمان کے قاتلوں سے نجات دلانے اور باغیوں میں شامل ہونے کی ترغیب دینے میں بھی شامل تھا۔[70] اور عبد اللہ بن عامر کے ساتھ اس نے جمل کی مالی امداد کا بیڑہ بھی اٹھایا۔[71] یعلی بن امیہ نے اسی طرح سے یمن کے خراج سے بھی فائدہ اٹھایا۔[72] وہ اس سے پہلے کہ حضرت علیؑ کی طرف سے معزول ہوتا اس نے یمن کے خراج کو جمع کیا اور مکہ کی طرف نکل پڑا۔[73] کہ جن کی مقدار تقریباً 400 [74] سے 600 اونٹ، اور 6 لاکھ درہم بتائی گئی ہے۔[75] اسی دولت کو اس نے لشکر اور سپاہیوں کے اوپر خرچ بھی کیا۔[76] اور قریش کے 70 افراد کو سر و سامان[77] اور طلحہ و زبیر کو 4 لاکھ درہم کی مدد بھی کیا۔[78] اور جنگ جمل کے سپاہیوں کے لئے اسلحے وغیرہ کا انتظام کیا۔[79] اس طرح سے کہ اس نے ہر جنگجو کو ہتھیاروں اور گھوڑوں سے آراستہ کیا اور اس کے علاوہ ہر جنگجو کو 30 دینار بطور انعام دیا۔[80] اس جنگ میں عائشہ کا اونٹ، جو عسکر کے نام سے جانا جاتا تھا، کو بھی اس نے 80 [81] یا 200 دینار کا خریدا تھا۔[82]۔

اسی بنیاد پر حضرت علیؑ سے منقول بعض روایات میں یعلی کو ایک خائن، فاجر[83] ایک زبردست فتنہ باز[84] اور باغیوں کو مالی امداد کرنے والا بتایا گیا ہے۔[85] جیسا کہ حضرت علی ؑ نے جنگ جمل کے سلسلے میں ایک اور حدیث میں یعلی کا ذکر کیا اور اس کا نام امیر ترین لوگوں میں شامل کیا اور اس مسئلے کے ساتھ زبیر ابن عوام کی ہمت اور طلحہ ابن عبید اللہ کی سخاوت یا عبادت اور عائشہ کی مقبولیت کو جنگ جمل میں اپنی مشکل شرائط کے طور پر یاد کیا ہے۔[86]

زمان مرگ

یعلی بن منیہ جنگ جمل میں شکست کے بعد فرار کر گیا اور بعض کے نزدیک جیسے تاریخ الاسلام کے مصنف، ذہبی کے مطابق، وہ معاویہ کی خلافت کے خاتمے تک زندہ رہا۔[87] ابن عبد البر نے اپنی کتاب الاستیعاب میں نقل کیا ہے کہ اس کے باوجود کہ یعلی بن امیہ نے جنگ جمل میں عائشہ کا ساتھ دیا اور حضرت علیؑ کے خلاف جنگ کی لیکن جنگ صفین میں حضرت علیؑ کے ساتھ تھا۔[88] اور سنہ 37 ہجری[89] میں یا سنہ 38 ہجری[90] میں حضرت علیؑ کی رکاب میں مارا گیا۔[91] اسی بنا پر بعض علماء جیسے عبداللہ مامقانی نے اسے عاقبت بہ خیر جانا ہے۔[92] ان سب کے باوجود روایت میں ذکر ہوا ہے جس کے مطابق یعلی بن منیہ سنہ 47 ہجری تک زندہ رہا۔[93]

حوالہ جات

  1. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ھ، ج۱۲، ص۱۴۵؛ ابن‌ اثیر، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۷۴۷
  2. ابن‌ عبد البر، الإستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۱۵۸۶؛ ابن ‌حزم، جمہرۃ أنساب العرب، ۱۴۰۳ھ، ص۲۲۹؛ بغدادی، المنمق، ۱۴۰۵ھ، ص۲۵۳
  3. زبیدی، تاج العروس، ۱۴۱۴ھ، ج۱۹، ص۶۹۶
  4. ابن ‌عبدالبر، الإستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۱۵۸۵؛ ابن‌ عساکر، تاریخ مدینۃ دمشھ، ۱۴۱۵ھ، ج۷۴، ص۱۸۸
  5. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۱۱، ص۵۵۴؛ ابن‌ سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ھ، ج۶، ص۱۱؛ ابن‌ حزم، جمہرۃ أنساب العرب، ۱۴۰۳ھ، ص۲۱۳، ۲۲۹؛ ابن ‌اثیر، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۷۴۷
  6. ابن‌ اثیر، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۷۴۷؛ مامقانی، تنقیح المقال، بی‌تا، ج۳، ص۳۳۲؛ شوشتری، قاموس الرجال، ۱۴۱۰ھ، ج۱۱، ص۱۴۳
  7. ابن‌ قتیبۃ دینوری، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۲۰۸؛ ابن‌جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۱۸۳
  8. ابن‌ عبدالبر، الإستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۱۵۸۶؛ ابن‌ حجر، الإصابۃ، ۱۴۱۵ھ، ج۶، ص۵۳۸
  9. زبیدی، تاج العروس، ۱۴۱۴ھ، ج۱۹، ص۶۹۶
  10. ابن‌ عبدالبر، الإستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۱۵۸۶؛ ابن‌ سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ھ، ج۶،ص۱۱، ابن‌ اثیر، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۷۴۷
  11. بسوی، المعرفۃ و التاریخ، ۱۴۰۱ھ، ج۱، ص۳۰۸
  12. ابن‌ عبدالبر، الإستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۱۵۸۷؛ بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ھ، ج۱۲، ص۱۴۶؛ ابن ‌قتیبۃ دینوری، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۲۷۶
  13. ابن ‌عبدالبر، الإستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۱۵۸۵؛ ابن‌ اثیر، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۷۴۷؛ ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۱۳ھ، ج۴، ص۳۲۶
  14. ابن ‌سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ھ، ج۶، ص۱۱
  15. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۱۱، ص۵۵۴
  16. ابن ‌اثیر، أسد الغابة، ۱۴۰۹ھ، ج۲، ص۲۷۲
  17. ابن‌ حجر، الإصابة، ۱۴۱۵ھ، ج۴، ص۲۴۴
  18. ابن‌ عبدالبر، الإستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۱۹۱۹؛ ابن‌ اثیر، أسد الغابة، ۱۴۰۹ھ، ج۶، ص۲۸۳
  19. ابن ‌عبدالبر، الإستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۱، ص۱۰۶
  20. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ھ، ج۱۲، ص۱۴۵-۱۴۶
  21. ابن‌ اثیر، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ھ، ج۲، ص۲۷۲
  22. ابن‌ حجر، الإصابة، ۱۴۱۵ھ، ج۱، ص۲۶۸۔
  23. ابن ‌عبدالبر، الإستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۱، ص۱۰۶؛ ابن‌ حزم، جمہرة أنساب العرب، ۱۴۰۳ھ، ص۲۱۳؛ ابن ‌عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ۱۴۱۵ھ، ج۷۴، ص۱۸۶؛ زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹م، ج۸، ص۲۰۴
  24. ابن ‌عبدالبر، الإستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۱، ص۱۰۶؛ ابن‌ اثیر، أسد الغابة، ۱۴۰۹ھ، ج۱، ص۱۴۲
  25. بیہقی، دلائل النبوة، ۱۴۰۵ھ، ج۲، ص۶۶۴
  26. ابن‌ عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ۱۴۱۵ھ، ج۷۴، ص۱۸۶؛ ابن‌ اثیر، أسد الغابة، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۷۴۸؛ ابن‌ حجر، الإصابة، ۱۴۱۵ھ، ج۱، ص۲۶۸؛ بیہقی، دلائل النبوة، ۱۴۰۵ھ، ج۵، ص۲۰۴؛ صالحی الشامی، سبل الہدی، ۱۴۱۴ھ، ج۸، ص۲۲۲، ۲۳۷
  27. نووی، تہذیب الأسماء و اللغات، ۱۴۳۰ھ، ص۳۶۴
  28. ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۱۳ھ، ج۴، ص۳۲۶
  29. شیخ طوسی، رجال طوسی، ۱۳۷۳ش، ص۵۱
  30. نمازی شاہرودی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ۱۴۱۴ھ، ج۸، ص۲۸۱
  31. واعظ خرگوشی، شرف النبی، ۱۳۶۱ش، ص۱۷۰
  32. ابن ‌قتیبة دینوری، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۲۷۵
  33. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ھ، ج۳، ص۱۰۱۲؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ھ، ج۶، ص۱۱
  34. ابن‌ عبدالبر، الإستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۱۵۸۵؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۱۱، ص۵۵۴؛ ابن ‌اثیر، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص ۷۴۷
  35. ابن ‌سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ھ، ج۶، ص۱۱؛ ابن‌عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ۱۴۱۵ھ، ج۷۴، ص۱۸۷
  36. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ھ، ج۳، ص۱۰۱۲؛ صالحی الشامی، سبل الہدی، ۱۴۱۴ھ، ج۵، ص۴۴۹
  37. ابن‌ اثیر، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۷۴۷
  38. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۳، ص۳۱۸؛ مقریزی، إمتاع الأسماع، ۱۴۲۰ھ، ج۱۴، ص۲۲۵
  39. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۳، ص۴۲۷؛ ابن‌ جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۷۱
  40. ابن‌عبدالبر، الإستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۵۸۶؛ بلاذری، فتوح البلدان، ۱۹۸۸ق، ص۱۰۵؛ ابن‌حجر، الإصابة، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۵۳۹.
  41. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۴، ص۹۴؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج۲، ص۱۵۷؛ ابن‌ جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۱۸۳
  42. ابن‌ حجر، الإصابة، ۱۴۱۵ھ، ج۶، ص۵۳۹؛ زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹م، ج۸، ص۲۰۴
  43. ابن ‌کثیر، البدایة و النہایة، ۱۴۰۷ھ، ج۷، ص۶۱
  44. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۴، ص۲۴۱؛ ابن ‌جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۳۲۸
  45. ابن‌ عبدالبر، الإستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۱۵۸۶؛ ابن‌ اثیر، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۷۴۷
  46. ابن‌عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۷۴، ص۱۸۶.
  47. ابن‌عبدالبر، الإستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۵۸۶؛ ابن‌عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۷۴، ص۱۹۱.
  48. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ھ، ج۱۲، ص۱۴۷
  49. ابن‌ عبدالبر، الإستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۱۵۸۶؛ ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۱۳ھ، ج۴، ص۳۲۶
  50. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱۲، ص۱۴۶.
  51. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱۲، ص۱۴۶؛ شوشتری، قاموس الرجال، ۱۴۱۰ق، ج۱۱، ص۱۴۳؛ نمازی شاهرودی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ۱۴۱۴ق، ج۸، ص۲۸۱.
  52. بلعمی، تاریخنامہ طبری، ۱۳۷۳ش، ج۳، ص۶۱۰
  53. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۲، ص۳۹۰؛ ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۱۳ھ، ج۴، ص۳۲۶
  54. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۲، ص۳۹۰؛ ابن ‌عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ۱۴۱۵ھ، ج۱، ص۴۰؛ ابن‌ کثیر، البدایة و النہایة، ۱۴۰۷ھ، ج۳، ص۲۰۷
  55. ابن‌ خیاط، تاریخ خلیفة، ۱۴۱۵ھ، ص۱۰۷
  56. ابن ‌عبدالبر، الإستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۱۵۸۶
  57. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ھ، ج۱۲، ص۱۴۶؛ ابن‌ عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ۱۴۱۵ھ، ج۷۴، ص۱۸۷؛ ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۱۳ھ، ج۴، ص۳۲۶
  58. زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹م، ج۸، ص۲۰۴
  59. مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ھ، ج۲، ص۳۳۳
  60. ہاشمی خویی، منہاج البراعة، ۱۴۰۰ھ، ج۱۶، ص۲۰۵
  61. ابن‌ عبدالبر، الإستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۱۵۸۷؛ ابن‌ اثیر، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۷۴۷
  62. ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۱۳ھ، ج۴، ص۳۲۶
  63. ابن‌ عطیہ، أبہی المداد، ۱۴۲۳ھ، ج۲، ص۲۷۸؛ سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، قم، ج۵، ص۲۱
  64. مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ھ، ج۲، ص۳۳۳
  65. ابن ‌حجر، الإصابة، ۱۴۱۵ھ، ج۶، ص۵۳۹؛ زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹م، ج۸، ص۲۰۴۔
  66. ابن‌ اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ھ، ج۳، ص۲۰۷؛ بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ھ، ج۲، ص۲۲۲؛ ابن‌ جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ھ، ج۵، ص۸۱۔
  67. مقدسی، البدء و التاریخ، بی‌تا، ج۵، ص۲۱۱
  68. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۴، ص۴۵۰؛ ابن‌ مسکویہ، تجارب الأمم، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۴۶۹۔
  69. ابن ‌عبدالبر، الإستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۱۵۸۷؛ ابن‌ عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ۱۴۱۵ھ، ج۷۴، ص۱۹۰؛ شوشتری، قاموس الرجال، ۱۴۱۰ھ، ج۱۱، ص۱۴۳
  70. ابن‌ عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ۱۴۱۵ھ، ج۷۴، ص۱۸۹؛ شیخ مفید، الجمل، ۱۴۱۳ھ، ص۱۶۳
  71. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۴، ص۴۵۱؛ ابن‌ کثیر، البدایة و النہایة، ۱۴۰۷ھ، ج۷، ص۲۳۰
  72. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج۲، ص۱۸۱؛ بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ھ، ج۲، ص۲۲۲؛ ابن‌ خلدون، تاریخ ابن ‌خلدون، ۱۴۰۸ھ، ج۲، ص۶۰۷
  73. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج۲، ص۱۸۱؛ ابن‌ مسکویہ، تجارب الأمم، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۴۶۵
  74. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۴، ص۴۵۲، بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ھ، ج۲، ص۲۲۱؛ ابن ‌اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۴۵۳
  75. ابن ‌مسکویہ، تجارب الأمم، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۴۶۹؛ ابن‌ کثیر، البدایة و النہایة، ۱۴۰۷ھ، ج۷، ص۲۳۰، ابن ‌خلدون، تاریخ ابن‌ خلدون، ۱۴۰۸ھ، ج۲، ص۶۰۷
  76. ابن ‌مسکویہ، تجارب الأمم، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۴۶۹؛ بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ھ، ج۲، ص۲۲۲؛ ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۱۳ھ، ج۴، ص۳۲۶
  77. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۴، ص۴۵۱؛ ابن‌ قتیبة دینوری، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۲۷۶
  78. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج۲، ص۱۸۱
  79. مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ھ، ج۲، ص۳۵۷
  80. زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹م، ج۸، ص۲۰۴
  81. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۴، ص۴۵۲
  82. ابن‌ عبدالبر، الإستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۱۵۸۷؛ مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ھ، ج۲، ص۳۵۷؛ ابن‌ اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۴۶۸؛ ابن ‌اثیر، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۷۴۷
  83. شیخ مفید، الجمل، ۱۴۱۳ھ، ص۱۶۷۔
  84. زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹م، ج۸، ص۲۰۴
  85. ابن‌ قتیبة دینوری، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۲۷۶؛ زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹م، ج۸، ص۲۰۴
  86. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ھ، ج۱۲، ص۱۴۶۔
  87. ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۱۳ھ، ج۴، ص۳۲۶
  88. ابن‌ عبدالبر، الإستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۱۵۸۷
  89. نووی، تہذیب الأسماء و اللغات، ۱۴۳۰، ص۳۶۴
  90. ابن‌ عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ۱۴۱۵ھ، ج۷۴، ص۱۹۲؛ ابن‌ عبدالبر، الإستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۱۵۸۷
  91. ابن ‌اثیر، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۷۴۷
  92. مامقانی، تنقیح المقال، الفہرست، رحلی، ج۱، ص۱۶۸
  93. ابن‌ حجر، الإصابة، ۱۴۱۵ھ، ج۶، ص۵۳۹

نوٹ

  1. دوسری صدی ہجری کے مورخ احمد بن یحیی بلاذری ان لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ جو اس بات کے قائل ہیں کہ وہاں کوئی جنگ نہیں ہوئی اور انہوں نے ایمان لایا ہے۔(بلاذری، فتوح البلدان، ۱۹۸۸ق، ص۱۰۵.)

مآخذ

  • ابن‌ اثیر جزری، علی بن محمد، أسد الغابة فی معرفة الصحابة، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۹ھ۔
  • ابن ‌اثیر جزری، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، ‌دار صادر، ۱۳۸۵ھ۔
  • ابن‌ اعثم الکوفی، أبو محمد أحمد، کتاب الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، ۱۴۱۱ھ۔
  • ابن ‌جوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیة، ۱۴۱۲ھ۔
  • ابن ‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابة فی تمییز الصحابة، تحقیق عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیة، ۱۴۱۵ھ۔
  • ابن‌ حزم، علی بن احمد بن سعید، جمہرة أنساب العرب، تحقیق لجنة من العلماء، بیروت، دارالکتب العلمیة، ۱۴۰۳ھ۔
  • ابن ‌خلدون، عبدالرحمن بن محمد، دیوان المبتدأ و الخبر فی تاریخ العرب و البربر و۔۔۔، تحقیق خلیل شحادة، بیروت، دارالفکر، چاپ دوم، ۱۴۰۸ھ۔
  • ابن ‌خیاط، خلیفة بن خیاط بن أبی‌ ہبیرة اللیثی، تاریخ خلیفة بن خیاط، تحقیق فواز، بیروت، دارالکتب العلمیة، ۱۴۱۵ھ۔
  • ابن‌ سعد، محمد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیة، ۱۴۱۰ھ۔
  • ابن‌ عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الإستیعاب فی معرفة الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دارالجیل، ۱۴۱۲ھ۔
  • ابن‌ عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینة دمشق، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۵ھ۔
  • ابن‌ عطیہ، جمیل حمود، أبہی المداد فی شرح مؤتمر علماء بغداد، بیروت، مؤسسة الأعلمی، ۱۴۲۳ھ۔
  • ابن ‌قتیبة دینوری، عبداللہ بن مسلم، الإمامة و السیاسة معروف بہ تاریخ الخلفاء، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، ۱۴۱۰ھ۔
  • ابن ‌قتیبة دینوری، عبداللہ بن مسلم، المعارف، تحقیق ثروت عکاشة، قاہرة، الہیئة المصریة العامة للکتاب، چاپ دوم، ۱۹۹۲م۔
  • ابن ‌کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایة و النہایة، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۷ھ۔
  • ابن ‌مسکویہ، ابو علی مسکویہ الرازی، تجارب الامم، تحقیق ابوالقاسم امامی، تہران، سروش، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔
  • بسوی، یعقوب بن سفیان، کتاب المعرفة و التاریخ، تحقیق اکرم ضیاء العمری، بیروت، مؤسسة الرسالة، چاپ دوم، ۱۴۰۱ھ۔
  • بغدادی، محمد بن حبیب، کتاب المنمق فی اخبار قریش، تحقیق خورشید احمد فاروق، بیروت، عالم الکتب، ۱۴۰۵ھ۔
  • بلاذری، أحمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۷ھ۔
  • بلاذری، أحمد بن یحیی، فتوح البلدان، بیروت،‌دار و مکتبة الہلال، ۱۹۸۸ء
  • بلعمی، تاریخنامہ طبری، تحقیق محمد روشن، تہران، البرز، چاپ سوم، ۱۳۷۳ہجری شمسی۔
  • بیہقی، ابوبکر، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشریعة، دارالکتب العلمیة، بیروت، ۱۴۰۵ھ۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر، تحقیق عمر عبدالسلام تدمری، بیروت،‌ دارالکتاب العربی، چاپ دوم، ۱۴۱۳ھ۔
  • زبیدی، محمد مرتضی، تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۴ھ۔
  • زرکلی، خیرالدین، زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹م، بیروت،‌ دارالعلم للملایین، چاپ ہشتم، ۱۹۸۹ء
  • سبحانی، جعفر، بحوث فی الملل و النحل، قم، مؤسسة النشر الإسلامی، گوناگون۔
  • شوشتری، محمد تقی، قاموس الرجال، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، ۱۴۱۰ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الجمل و النصرة لسید العترة فی حرب البصرة، قم، کنگرہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ھ۔
  • صالحی الشامی، محمد بن یوسف، سبل الہدی و الرشاد فی سیرة خیر العباد، تحقیق عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت، ‌دار الکتب العلمیة، ۱۴۱۴ھ۔
  • طبری آملی کبیر، محمد بن جریر بن رستم، المسترشد فی إمامة علی بن أبی طالب(ع)، قم، کوشانپور، ۱۴۱۵ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، ۱۳۸۷ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، چاپ سوم، ۱۳۷۳ہجری شمسی۔
  • مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال (رحلی)، چاپ اول، بی‌نا، بی‌جا، بی‌تا۔
  • مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم، دارالہجرة، چاپ دوم، ۱۴۰۹ھ۔
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، بور سعید، مکتبة الثقافة الدینیة، بی‌تا۔
  • مقریزی، احمد بن علی، إمتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدة و المتاع، تحقیق محمد عبدالحمید النمیسی، بیروت، دار الکتب العلمیة، ۱۴۲۰ھ۔
  • نمازی شاہرودی، علی، مستدرکات علم رجال الحدیث،، تہران، فرزند مولف، ۱۴۱۴ھ۔
  • نووی، یحیی بن شرف، تہذیب الأسماء و اللغات، دمشق،‌ دار الرسالة العالمیة، ۱۴۳۰ھ۔
  • ہاشمی خویی، میرزا حبیب اللہ، منہاج البراعة فی شرح نہج البلاغة و تکملة منہاج البراعة، تہران، مکتبة الإسلامیة، چاپ چہارم، ۱۴۰۰ھ۔
  • واعظ خرگوشی، ابو سعید، شرف النبی، تحقیق محمد روشن، تہران، بابک، ۱۳۶۱ہجری شمسی۔
  • واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، تحقیق مارسدن جونس، بیروت، مؤسسة الأعلمی، چاپ دوم، ۱۴۰۹ھ۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی ‌یعقوب، تاریخ یعقوبی، بیروت، ‌دار صادر، بی‌تا۔