عبد اللہ بن وہب راسبی

ویکی شیعہ سے
(عبداللہ بن وہب راسبی سے رجوع مکرر)
عبداللہ بن وہب راسبی
کوائف
نام:عبداللہ بن وہب راسبی
نسب:ازدی قبیلہ
وجہ شہرت:خوارج کا سربراہ
محل زندگی:کوفہ
اصحاب:امام علیؑ کا صحابی


عبداللہ بن وہب راسبی (قتل: 38ھ) خوارج کے سرکردہ افراد میں سے ایک تھا جو بکثرت سجدوں کی وجہ سے ذوالثَّفِنات کے لقب سے مشہور تھا۔ خوارج نے 37ھ میں امام علیؑ سے الگ ہونے کے بعد اسے اپنا سربراہ انتخاب کیا اور جنگ نہروان میں مارا گیا۔


جنگ نہروان میں امام علیؑ کا عبداللہ بن وہب اور دوسرے خوارج کے نام خط

ہم دو مردوں کے فیصلے پر راضی ہوئے تھے لیکن ان دونوں نے قرآن کی مخالفت کی اور اللہ کی ہدایت کے بجائے خواہشات نفس کی پیروی کی اور اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت پر عمل نہیں کیا۔ اللہ، اس کے رسول اور مومنین ان سے بیزار ہیں۔ جب میرا خط تمہیں ملے تو میری طرف آنا تاکہ ہمارے مشترک دشمن کے کی طرف جائیں اور ہم اسی وعدے پر پابند ہیں جس پر تھے۔

طبری، تاریخ، ج5، ص78

نسب، تولد اور لقب

عبداللہ بن وہب راسبی کا نسب ازدی قبیلہ کی شاخ بنی راسب بن میدعان بن مالک بن نصر تک پہنچتا ہے۔[1] وہ پیغمبر اکرمؐ کے دور میں پیدا ہوا۔ ابن حجر نے اسے «لہ ادراک» (یعنی پیغمبر کے دور کو درک کیا) کی عبارت سے یاد کیا ہے۔[2]

زیادہ سجدوں کی وجہ سے ذوالثَّفِنات کا لقب ملا تھا۔[3] زِرِکلی نے اس کو اباضیہ کے پیشواوں میں سے شمار کرتے ہوئے اس کی شجاعت اور فصاحت کی تعریف کی ہے۔[4]

عبداللہ بن وہب کا حضرت علیؑ کے خط کا جواب

«تم اپنے اللہ کی خاطر غصہ نہیں بلکہ اپنے لیے غصہ ہورہے ہو۔ اگر تم ابھی اپنے کفر کا اعتراف کرو اور توبہ کرو گے تو تمہاری طرف لوٹ آنے کی خواہش کے بارے میں سوچ سکتے ہیں ورنہ تم سے جنگ کا اعلان کرتے ہیں۔

طبری، تاریخ طبری، ج۵، ص۷۹

خلفا کا دور

عبداللہ بن وہب عراق فتح کرنے میں سعد بن ابی وقاص کے ساتھ تھا[5]اور حضرت علیؑ کی جنگوں میں آپؑ کا ہمرکاب رہا اور حکمیت کے واقعے کے بعد حضرت علیؑ سے الگ ہوا۔[6]

خوارج کی جنگ

خوارج نے 10 شوال سنہ 37ھ[7] کو واقعہ حکمیت کے بعد عبداللہ بن وہب راسبی کو اپنا سربراہ منتخب کیا۔[8]اس نے بصرہ کے خوارج کے نام خط لکھا اور ان سے نہروان آنے کا مطالبہ کیا۔[9] امام علیؑ نے ایک خط کے ذریعے وہ اور اس کے ساتھیوں کو معاویہ کے خلاف جنگ میں آپؑ سے ملحق ہونے کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے خط کے جواب میں امامؑ سے کفر کا اعتراف کرنے اور اس سے توبہ کرنے کا مطالبہ کیا۔[10]امامؑ کی کوششوں سے بعض خوارج آپ سے ملحق ہوگئے اور لڑنے سے گریز کیا لیکن ایک گروہ عبداللہ بن وہب کی سربراہی میں جنگ پر مصر رہے۔

عبداللہ بن وہب جنگ نہروان میں زیاد بن خصفہ تمیمی اور ہانی بن خطاب ہمدانی کے ہاتھوں مارا گیا۔[11] کہا گیا ہے کہ اس کے قتل میں شبث بن ربعی کا بھی ہاتھ تھا۔[12]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ابن حجر، الاصابہ، ج5، ص78۔
  2. ابن حجر، الاصابہ، ج۵، ص۷۸.
  3. ابن حجر، الاصابہ، ج۵، ص۷۸.
  4. زرکلی، الاعلام، ج۴، ص۱۴۳.
  5. طبری، تاریخ، ج۴، ص۳۷.
  6. بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص۳۶۰؛ ابن حجر، الاصابہ، ج۵، ص۷۸.
  7. طبری، تاریخ، ج۵، ص۷۵.
  8. بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص۳۶۰؛ ابن حجر، الاصابہ، ج۵، ص۷۸.
  9. طبری، تاریخ، ج۵، ص۷۵.
  10. طبری، تاریخ، ج۵، ص۷۹.
  11. بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص۳۷۲.
  12. بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص۳۶۲.

مآخذ

  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، تحقیق: عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵ءو
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الأشراف، تحقیق: محمدباقر محمودی، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ۱۹۷۴م/۱۳۹۴ھ۔
  • زرکلی، خیرالدین، الأعلام قاموس تراجم لأشہر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین، بیروت، دار العلم للملایین، ۱۹۸۹ء۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمدأبوالفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷ء۔